گناہوں کے بُرے اثرات

گناہوں کے بُرے اثرات

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد: فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․

﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْ النَّاسِ﴾․ (سورة آل عمران،آیة:41)

وقال الله سبحانہ وتعالیٰ:﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ، مَا أُرِیْدُ مِنْہُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِیْدُ أَن یُطْعِمُونِ ، إِنَّ اللَّہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ﴾․(سورة الذاریات، آیة:58-56) صدق اللّٰہ مولانا العظیم․

میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! الله تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْ النَّاسِ﴾میں نے پیدا نہیں کیا انسانوں او ر جنات کو، مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں، میری بندگی کریں﴿مَا أُرِیْدُ أَن یُطْعِمُونِ﴾ نہ ہی میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں، ﴿إِنَّ اللَّہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ﴾ بے شک الله تعالیٰ تو خود ہی بڑے زبردست رزق دینے والے ہیں، ﴿ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْن﴾ اور بہت زیادہ طاقت ور ہیں اور بہت زیادہ قوتوں کے مالک ہیں۔

قرآن کریم کا یہ معجزہ ہے کہ وہ ہر آدمی کی سمجھ میں آتا ہے، اگر کوئی سمجھنا چاہے تو اس میں کوئی پیچیدگی نہیں، بہت واضح، بہت سہل اور بہت آسان ہے۔

چناں چہ الله تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ آج جو فساد برپا ہے زمین پر بھی اورتری سمندروں میں بھی، خشکی اور تری میں اور خشکی او رتری سے مراد سمجھ لیجیے کہ یہ جو دنیا ہے، کرہٴ ارض ہے، جس میں ہم رہتے ہیں، اس کا تین حصہ پانی ہے او رایک حصہ خشکی ہے، چناں چہ جیسے زمین اور خشکی انسان کی ضرورت ہے، ایسے ہی پانی اور تری بھی انسان کی ضرورت ہے۔

چناں چہ اس پوری دنیا میں، خواہ وہ خشکی والی دنیا ہو یاتری والی دنیا ہو، اس میں جو آج فساد برپا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ فساد ایسا ہے کہ شاید ماضی میں کبھی ایسا فساد نہیں تھا اور یہ بھی یاد رکھیے کہ ہمارے پیارے حبیب صلی الله علی وسلم نے جتنے فتنے قیامت سے پہلے آئیں گے ان سب سے اپنی امت کو باخبر کیا ہے، چناں چہ وہ تفصیلات جو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہیں اس کے مطابق یہ فساد بڑھے گا، یہ فتنے بڑھیں گے، مگر یہ بات ضرورذہن میں رکھیں کہ اس فساد کا سبب او راس کی وجہ خود آدمی ہے ﴿بِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْ النَّاسِ﴾ یہ سارا کا سارا فساد، یہ ساری کی ساری ابتری انسانوں کے ہاتھوں کی کارکردگی ہے، کار گزاری ہے اور انسانوں کے کرتوت کا نتیجہ ہے۔

ہم نے کبھی اس پر غور نہیں کیا، بار بار یہ بات عرض کی جاتی ہے کہ یہ جو انسان ہے، یہ اشرف المخلوقات ہے اور یہ انسان بھینس کی طرح یا گائے کی طرح یا بکری کی طرح یا بھیڑ کی طرح یا گھوڑے کی طرح یا اور جانوروں کی طرح نہیں ہے، یہ تمام مخلوقات میں اشرف ہے اور تمام مخلوقات میں اشرف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے اس انسان میں ایسی صفات اور خوبیاں پیدا فرمائی ہیں کہ اگر یہ انسان ان صفات اور خوبیوں کو پہچان لے او ران کے مطابق عمل کرے تو یہ اس دنیا میں الله تعالیٰ کا خلیفہ اور اس کا نائب ہے، آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں بھی ہر کس وناکس کو نائب نہیں بنایا جاتا، آپ اگر ایک کارخانہ چلاتے ہیں اور آپ کے سوملازمین ہیں ، آپ وہاں اپنا کسی کو نائب بنانا چاہتے ہیں تو آپ بہت غور کرتے ہیں،بہت سوچتے ہیں کہ ان میں کون ایسا ہے جو میری نیابت کرسکے، جو میری منشا او رمیری مرضی کے مطابق خدمات انجام دے سکے، چناں چہ سوچ بچار کرکے ان سب میں جس ایک کے اندر وہ خوبیاں اور صفات ہوتی ہیں کہ آپ موجود ہوں یا نہ ہوں وہ آپ کے مفادات، آپ کے مصالح ،آپ کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھے، ایسے آدمی کو آپ نائب بناتے ہیں، چناں چہ الله تعالیٰ نے اس دنیا میں جتنی مخلوقات پیدا فرمائیں ان میں سب سے اعلی اور سب سے افضل سب سے اشرف انسان ہے۔

میں جو بات سمجھانا چاہ رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ انسان عام طور پر اپنی صفات سے واقف نہیں، آپ حیران ہوں گے کہ یہ جو خیر اور شر کا سلسلہ ہے، جب انسان سے کوئی خیر صادر ہوتی ہے وہ بہت دور رس اثرات رکھتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ آپ نے صرف الحمدلله کہا اور بات ختم ہوگئی۔ نہ ، نہ ، ایسا نہیں ہے یا آپ نے نماز پڑھی، روزہ رکھا، حج کیا، زکوٰة ادا کی یا آپ نے اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا، اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک کیا یا آپ نے عام مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کیا، یا بے سہارا لوگوں کی مدد ونصرت کی تو ایسا نہیں ہے کہ وہ عمل آپ نے کیا اور ختم، نہ ، نہ، اس کے بہت دور رس اثرات ہیں اور بالکل اسی طرح سے ایسا نہیں ہے کہ آپ نے کوئی شر اور برائی کی اور بعد میں یہ ختم ہو گئی، ایسا نہیں، اس کے بھی بہت دور رس اثرات ہیں لہٰذا یہ جو انسان ہے ، اس میں الله تعالیٰ نے ایسے احساسات پیدا فرمائے ہیں ، الله تعالیٰ نے اس میں ایسے کمالات پیدا فرمائے ہیں، الله تعالیٰ نے اس میں ایسی خوبیاں پیدا فرمائی ہیں کہ وہ احساسات اور وہ خیالات اور وہ کیفیات اگر جاگ رہے ہوں تو یہ دنیا بدل جاتی ہے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة الله علیہ بیان فرمارہے تھے، ان کے سامنے مجمع تھا اور وہ اسمائے الہٰی کی خوبیاں اور صفات بیان کر رہے تھے ، الله تعالیٰ کے اسماء، تو ایک دہریہ وہاں بیٹھا تھا، اس نے کہا یہ عجیب بات ہے کہ آپ جسے الله کہتے ہیں، اس کے ناموں کے اندر یہ طاقت اور یہ قوت ہے، یہ اثر ہے، ایسا کچھ نہیں ہے۔ تو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة الله علیہ نے اس کی طرف توجہ نہیں دی، اپنا بیان جاری رکھا اور پھر اچانک اس کو بہت سخت اور سست الفاظ کہے، جیسے ہی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ الله نے اس کو بہت سخت الفاظ کہے، بہت سخت انداز میں ڈانٹا، تو اس کا چہرہ سرخ ہو گیا، اس کی آنکھیں پھٹ گئیں ، اس کے گلے کی رگیں تن گئیں، تو حضرت نے فرمایا کہ بھائی! کیا ہوا؟ کہا آپ نے مجھے اتنے سخت الفاظ کہے تو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ الله نے فرمایا کہ یہ تو عبدالقادر نے جو الله کا ایک چھوٹا سا بندہ ہے، اس کے منھ سے یہ الفاظ نکلے، ان الفاظ میں اتنی طاقت ہے کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا، آپ کی آنکھیں باہر نکل آئیں، آپ کی گردن کی رگیں تن گئیں، آپ غصے میں آپے سے باہر ہو رہے ہیں، تو الله تعالیٰ کے اسماء اور ان کے ناموں میں کتنی طاقت ہے، یہ تو عبدالقادر کے منھ کے الفاظ ہیں۔

میرے دوستو! ہم اس کو نہیں سمجھتے کہ ہم جو گناہ کرتے ہیں، جھوٹ گناہ ہے، ایسا نہیں ہے کہ جھوٹ بول کر بات ختم ہوگئی، ایسا ہر گز نہیں، اس کائنات میں اس دنیا میں بڑی بربادی پیدا ہوتی ہے اس سے، پتہ نہیں کیا کیا چیزیں متاثر ہوتی ہیں، اس سے، غیبت ہم کرتے ہیں، اس سے صرف ایسا نہیں ہے کہ آپ نے غیبت کر لی اور ہنسی مذاق میں بات ختم ہو گئی، اس کے نہایت منفی اثرات ہیں، نہایت بدترین اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔

ہم نے بدنظری کی، غیر محرم کو ہم نے دیکھا ، تو ایسا نہیں ہے کہ وہ بدنظری کرکے بات ختم ہوگئی، نہیں، ایسا نہیں ہے، اسی کو الله تعالیٰ فرمارہے ہیں:﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْ النَّاسُِ﴾آپ سوچ نہیں سکتے کہ آپ کے گناہوں کا اثر اور آپ کے گناہوں کا وبال سمندر کی مچھلیوں تک پر پڑتا ہے روئے زمین کے چرند، پرند تک پر پڑتا ہے۔
آپ سوچیے کہ جس گناہ کا اثر اور جس گناہ کا وبال اور جس گناہ کی آفت سمندر کی مخلوق پر پڑ رہی ہو اور جنگل کے چرند، پرند اور درند پر پڑ رہی ہو، اس گناہ کا اس آدمی پر کتنا اثر ہو گا جو گناہ کر رہا ہے، چناں چہ بعض آثار میں ہے:
ایک بے نمازی کے بے نمازی ہونے کا جو وبال او رجو اس کی آفت ہے ، نماز نہ پڑھنا گناہ ہے، روز محشر کہ جاں گداز بود، اولیں پرسش نماز بود، محشر میں جب ہر آدمی ہراساں او رپریشاں ہو گا، تو سب سے پہلا سوال جو کیا جائے گا وہ نماز کے بارے میں کیا جائے گا، نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

ایک بے نمازی کے گناہ کا اثر ہے او رجس گھر میں دو بے نمازی ہوں جس میں تین بے نمازی ہوں، جس میں چار بے نمازی ہوں اور پھر گناہوں کی ایک لمبی فہرست ہے، جسے ہم سب جانتے ہیں، کیا ہم نہیں جانتے کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ بد نظری گنا ہ ہے؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ غیبت گناہ ہے؟ او رکیا گناہ ہے غیبت کا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” الغیبة أشد من الزنا“․

قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: الغیبة أشد من الزنا، قالوا یا رسول الله، وکیف الغیبة أشد من الزنا؟ قال: إن الرجل لیزنی فیتوب فیتوب الله علیہ، وفی روایة حمزة: فیتوب فیغفرلہ، وإن صاحب الغیبة لا یغفرلہ حتی یغفرھا لہ صاحبہ․( شعب الإیمان للبیہقی، فصل فیما ورد من الأخبار فی التشدید علی من اقترض من عرض اخیہ المسلم شیئا بسبب أو غیرہ، رقم الحدیث:6741)

غیت کرنا زنا سے زیادہ سنگین گناہ ہے، آپ سوچیے کہ زنا کتنا بڑا گناہ ہے، اس سے زیادہ سنگین غیبت کرنا ہے اور غیبت کرنا کیا ہے؟ بعض دفعہ لوگ اس میں بھی دھوکے میں پڑے ہوتے ہیں، لا علمی میں ہوتے ہیں، کہ ایک بے چارہ پیر سے معذور ہے، آپ اس کو اس کی غیر موجودگی میں کہ بھائی! وہ فلاں لنگڑا آپ کے پاس آیا تھا یا وہ فلاں لنگڑا صبح میرے پاس آیاتھا، آپ بتائیے کہ اس کے سامنے اگر اسے لنگڑا کہا جائے گا تو اسے پسند آئے گا؟ اچھا لگے گا؟ یہ ہی غیبت ہے۔ اب اگر آدمی کہے کہ میں نے تو سچ کہا ،میں نے توجھوٹ نہیں کہا، واقعی وہ لنگڑا ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہی تو غیبت ہے کہ ایسی بات کسی کے بارے میں پیٹھ پیچھے کہنا کہ اگر اس کے سامنے کہی جاتی تواس کو بُری لگتی۔ ( عن أبی ھریرة أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: أتدرون ما الغیبة؟ قالوا الله ورسولہ أعلم ، قال:ذکرک أخاک بما یکرہ، قیل أفرأیت إن کان في أخی ما أقول، قال: إن کان فیہ ما تقول فقد اغتبتہ وإن لم یکن فیہ فقد بھتہ․(الجامع الصحیح لمسلم، کتاب البر، باب تحریم الغیبتہ، رقم:6593، وسنن الترمذی، کتاب البر والصلة، باب ماجاء الغیبة، رقم:1934، وسنن أبی داود، کتاب الأدب، باب في الغیبة، رقم:4876)

اگر تم نے کسی ایسے آدمی کو جو لنگڑا نہیں ہے لنگڑاکہا تو یہ تو بہتان ہے، یہ غیبت نہیں ہے۔ غیبت تو یہ ہے کہ وہ چیز اس کے اندر ہے اور آپ اس کے پیٹھ پیچھے اس کا تذکرہ کرتے ہیں، اگر وہ تذکرہ اس کے سامنے ہوتا تو اسے پسند نہ آتا، اسے اچھا نہ لگتا۔

میرے دوستو! گناہوں کی تفصیلات سے ہم خوب واقف ہیں، ہمیں سب پتہ ہے، چناں چہ ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ مسلسل توبہ اور استغفار کرے، نامعلوم ہم سے کتنے گناہ ہوئے، مسلسل گناہ ہو رہے ہیں، یہ تو الله تعالیٰ کا ہم پر بڑا کرم ہے، احسان ہے، ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ الله تعالیٰ غفار ہیں، الله تعالیٰ غفور ہیں، الله تعالیٰ معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں، تو میرے دوستو ایسے مہربان رب کے سامنے توبہ کرنا، استغفار کرنا او رمعافی مانگ لینا او راس کا عہد کر لینا کہ ہم گناہ نہیں کریں گے اس لیے کہ اس گناہ کا اثر پوری دنیا پر پڑتا ہے۔

آج میرے دوستو! ہر طرف تباہی ہے، ہر طرف بربادی ہے، ہر طرف مشکلات ہیں، ہر طرف مسائل ہیں اور ا لله تعالیٰ فرما رہے کہ یہ سب تمہارے ہاتھوں کے کرتوت ہیں، آج مہنگائی ہے، ہر شخص پریشان ہے، آٹا مہنگا، چینی مہنگی، چاول مہنگا، گوشت مہنگا، دودھ مہنگا، ساری چیزیں مہنگی، آپ یاد رکھیں کہ الله تعالیٰ رزق دینے والے ہیں اور الله تعالیٰ جب رزق عطا فرماتے ہیں تو وہ رزق الله تعالیٰ خوش ہو کر عطا فرماتے ہیں، بندے نے معافی مانگی ہوئی ہو، توبہ کی ہوئی ہو، الله تعالیٰ کی طرف رجوع ہو، الله تعالیٰ دوسری آیت میں فرمارہے ہیں:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ﴾ میں نے انسانوں او رجنات کو پیدا نہیں کیا ،مگر اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں، میر ی عبادت کریں او ربندگی او رعبادت کا مفہوم صرف نماز پڑھنا نہیں ہے، صرف روزہ رکھنا نہیں ہے، صرف حج کرنا اور زکوٰة دینا نہیں ہے بلکہ الله تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کرنا، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنا، جس کا نام اسلام ہے، الله تعالیٰ فرمارہے ہیں:﴿مَا أُرِیْدُ مِنْہُم مِّن رِّزْقٍ﴾ میں اپنے بندوں سے رزق کا طلب گار نہیں ہوں﴿وَمَا أُرِیْدُ أَن یُطْعِمُونِ﴾ نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھیکھلائیں﴿إِنَّ اللَّہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ﴾ بے شک الله تعالیٰ تو خود زبردست رزق دینے والا ہے﴿ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْن﴾ بڑی طاقت اور قوت والا ہے۔ میرے دوستو! اگر ہم الله تعالیٰ کی طرف رجوع ہوں، یہ یاد رکھیں کہ ایک آدمی کی تنخواہ ایک لاکھ روپے ہے، لیکن اس میں برکت نہیں ہے تو وہ بے کار ہے او رایک آدمی کی تنخواہ ایک ہزار روپے ہے اور الله تعالیٰ اس میں برکت ڈال دیتے ہیں، الله تعالیٰ اس میں اطمینان ڈال دیتے ہیں، الله تعالیٰ اس میں پورا کر دیتے ہیں ۔

عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: إن الله تعالیٰ یقول یا ابن آدم، تفرغ لعبادتي أملا صدرک غنی وأسد فقرک وإلا تفعل ملأت یدیک شغلا ولم أسد فقرک․(سنن الترمذی، أبواب صفة القیامة، باب أحادیث ابتلینا بالضراء ومن کانت الآخرة ھمہ، رقم:2466،و سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب الھم بالدنیا، رقم:4107)

آپ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ان امور میں عقل نہ چلائیں، عقل ناقص ہے، عقل کامل نہیں ہے، وحی جو الله تعالیٰ فرمارہے ہیں﴿إِنَّ اللَّہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ﴾ یہ ہے اصل بات۔

ایک صحابی رضی الله عنہ کا قصہ ہے، ظاہر ہے وہ صحابی ہیں، ہم تو ان جیسے نہیں ہیں، لیکن ہمارے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات میں، ہمارے لیے صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کے واقعات میں، ہمارے لیے تابعین، تبع تابعین کے واقعات میں، بزرگان دین کے واقعات میں عبرت ہے ،سبق ہے وہ صحابی گھر تشریف لائے، کھانے کا پوچھا، گھر والوں نے بتایا گھر میں کھانا کچھ نہیں، انہوں نے فرمایا: ٹھیک ہے، میں جنگل میں جاکر دعا کرتا ہوں، الله سے مانگتا ہوں، تم بھی دعا کرو، چلے گئے، وہ گئے جاکے انہوں نے نماز پڑھی، الله سے مانگنا شروعکیا، تو ادھر گھر میں چکی ہے، گندم کا دانہ بھی نہیں ہے، وہ چکی خود بخود چلنا شروع ہو گئی، اس میں سے خود بخود آٹا نکلنا شروع ہو گیا، واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ میری بیوی چکی میں سے آٹا نکال کر گوندھ رہی ہے اور وہ روٹیاں ڈالنے کی فکر کر رہی ہے، پوچھا آٹا کہاں سے آیا بتایا تمہارے جانے کے بعد اس میں سے آٹا نکلنا شروع ہو گیا، اب انسان کے اندر ایک جستجو کا مادہ الله نے رکھا ہے۔

یہ سوچ کے کہ یہ دیکھیں یہ آٹا آکہاں سے رہا ہے؟ گندم تو ہمارے پاس ہے نہیں، گندم تو ہم نے ڈالی نہیں، کہاں سے آرہا ہے؟

چناں چہ جب وہ چکی کاپاٹ ہٹا یا تو آٹا آنا بند ہو گیا، اگلے دن الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حاضر ہو کر واقعہ سنایا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم یہ چکی کا پاٹ، نہ ہٹاتے تو قیامت تک یہاں سے آٹا نکلتا رہتا۔

(عن أبي ھریرة رضي الله عنہ قال: أصاب رجلا حاجة، فخرج إلی البریة، فقالت امرأتہ: اللھم ارزقنا ما نعتجن ومانختبز، فجاء الرجل والجفنة ملأت تجین وفی التنور جنوب الشواء والرحا تطحن، فقال: من أین ھذا؟ قالت: من رزق الله فکنس ماحول الرحا، فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لوترکھا لدارت أو قال: طحنت إلی یوم القیامة․ (المعجم الأوسط، من اسمہ محمد، رقم الحدیث:5588، وشعب الإیمان للبیہقی، التوکل بالله عزوجل والتسلیم، رقم:1278)

میرے دوستو! یہ اسی آسمان کے نیچے، اسی زمین کے اوپر کے واقعات ہیں، ہم اگر بجائے بے صبری کرنے کے ،بجائے ناشکری کرنے کے ہم الله تعالیٰ کی طرف رجوع ہوں، الله تعالیٰ سے ہم مدد مانگیں، الله تعالیٰ سے ہم رزق مانگیں، الله تعالیٰ سے ہم اپنی اولاد کی تربیت کی درخواست کریں، الله تعالیٰ سے ہم اپنے امور، جو بھی معاملہ ہو، ہمیں تویہ سکھایا گیا ہے، بتایا گیا ہے کہ اگر تم سوار ہو، گھوڑے پر یا کسی سواری پر اور کوڑا گر جائے تو اسے بھی اٹھانے سے پہلے الله سے مانگو۔

عن ثابت البناني أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: لیسأل أحدکم ربہ حاجتہ حتی یسألہ الملح وحتی یسألہ شسع نعلہ إذا انقطع․ (سنن الترمذی، کتاب الدعوات، باب لیسأل أحدکم ربہ حاجتہ کلھا، رقم:3604، المعجم الأوسط، من اسمہ محمد، رقم:5595)

فساد برپا ہے، کاروبار میں فساد برپا ہے، نوکریوں میں فساد برپا ہے، رزق کے حوالے سے فساد برپا ہے، ہر طرف شور، ہنگامہ ہے۔

لیکن میرے دوستو! توبہ کرنے کا اہتمام، استغفار کرنے کا اہتمام کہیں نہیں، قرآن کریم میں الله تعالیٰ کا فرمان ہے۔حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ سورہ نوح میں موجو دہے، چناں چہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کیا کہا؟﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا ﴾․

تفسیر خازن میں ہے : حضرت حسن بصری رحمہ الله کے پاس ایک دفعہ مختلف لوگ مختلف شکایتیں لے کر آئے، کسی نے قحط کی شکایت کی، کسی نے غربت کی ، کسی نے اولا دنہ ہونے کی وغیرہ، حضرت حسن بصری رحمہ الله نے سب کو استغفار کرنے کا حکم دیا، جب ایک شاگرد نے سب کو استغفار کرنے کا حکم دینے کی وجہ پوچھی، تو حضرت حسن بصری رحمہ الله نے یہی آیت پڑھی:﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا… وَیَجْعَل لَّکُمْ أَنْہَارًا﴾․(سورہ، نوح، آیة:12-10)

عن الحسن رجلاً شکا إلیہ الجدب فقال لہ استغفرالله، وشکا آخر إلیہ الفقر وقلة النسل وآخر قلة ریع أرضہ فأمرھم کلھم بالاستغفار، فقال لہ الربیع بن صبیح: أتاک رجال یشکون أنواعا فأمرتھم کلھم بالاستغفار؟ فتلا ھذہ الآیة․(تفسیر الخازن، سورہ نوح:4/345)

میں نے اپنی امت سے کہا، اپنے لوگوں سے کہا ،الله سے مغفرت مانگو، استغفار کرو، بے شک وہ الله سب سے زیادہ معاف کرنے والا ہے﴿یُرْسِلِ السَّمَاء َ عَلَیْکُم مِّدْرَارًا﴾ تم الله سے بخشش مانگو گے، استغفار کرو گے، تم توبہ کروگے، الله تعالیٰ آسمان سے موسلادھار بارش برسائیں گے۔

﴿وَیُمْدِدْکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِینَ﴾ الله تعالیٰ اموال کے ذریعے تمہاری مدد فرمائیں گے﴿ وَیَجْعَل لَّکُمْ جَنَّات﴾ باغات پیدا کریں گے تمہارے لیے﴿ٍ وَیَجْعَل لَّکُمْ أَنْہَارًا﴾ الله تعالیٰ تمہارے لیے نہریں بہا دیں گے، یہ کس پر ہے؟ استغفار پر۔

یاد رکھیے استغفار زبانی بھی ہوتا ہے، لیکن استغفار کی ایک حیثیت ہونی چاہیے، یہ نہیں کہ صرف زبان سے استغفر الله، استغفر الله کہہ دیا، یقینا جو زبانی ہم استغفر الله کہتے ہیں، اس پر بھی اجر ہے، لیکن ایک استغفار ہے ندامت کے ساتھ، شرمندگی کے ساتھ، عاجزی کے ساتھ، الله تعالیٰ سے سرگوشیاں کرنا کہ اے الله! مجھے معاف فرما، اے الله! میں توبہ کرتا ہوں، اے الله! مجھ سے گناہ ہوئے ہیں، انفرادی بھی ہوئے ہیں ، اجتماعی بھی ہوئے ہیں، اے الله! میں توبہ کرتا ہوں۔

میرے دوستو! اس کیفیت کے ساتھ جب آدمی توبہ اور استغفار کرتا ہے تو الله تعالیٰ کی مدد ونصرت کے دروازے کھل جاتے ہیں، ہر طرح سے الله تعالیٰ مدد فرماتے ہیں، ہر طرح سے الله تعالیٰ سکون، اطمینان عطا فرماتے ہیں، تھوڑے میں الله تعالیٰ برکت عطا فرماتے ہیں، زیادہ میں الله تعالیٰ خوش حالی پیدا فرماتے ہیں۔ لیکن میرے دوستو! آدمی کے پاس زیادہ توہے، لیکن وہ بے چین ہے، وہ پریشان ہے ،وہ ڈپریشن کے اندر مبتلا ہے، وہ رزق ہوتے ہوئے بھی کھانے پر قادر نہیں ہے، تو یہ بھی الله تعالیٰ کی ناراضگیوں کی علامت ہے۔

الله تعالیٰ ہمیں توبہ او راستغفار کی توفیق عطا فرمائے۔کثرت کے ساتھ توبہ کریں، کثرت کے ساتھ استغفار کریں، خود بھی اہتمام کریں، گھروں میں بھی اہتمام کرائیں، گناہوں سے اپنے آپ کو بچائیں، اگر ہم گناہوں سے اپنے آپ کو نہیں بچائیں گے، میرے دوستو! یہ آگ ہے یہ سب کو خاکستر کر دیتی ہے، سب کو تباہ کر دیتی ہے، دنیا میں بھی آفتیں اور آخرت میں جو ہمیشہ ہمیشہ کی تباہی او ربربادی ہے وہ بھی اور اس سے بچنے کانہایت سہل اور آسان ترین نسخہ ہمیں الله تعالیٰ نے اور الله تعالیٰ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بیان کر دیا ہے، وہ یہ کہ الله تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے توبہ کی جائے۔

الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ، وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ﴾․