عورت کا مقام و حقوق ۔۔قرآن و سنت کی روشنی میں

عورت کا مقام و حقوق ۔۔قرآن و سنت کی روشنی میں

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
عورت بحیثیت بیوی
جب یہ عورت بڑی ہوتی ہے، شادی کے قابل ہو جاتی ہے اوروالد اس کی شادی کراکر رخصت کردیتا ہے، تو اب یہ کسی کی بیوی بن گئی، اس بیوی بننے کی حیثیت سے بھی اسلام نے اس کا خیال رکھا ہے ۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:”خیرکم خیرکم لأھلہ، وأنا خیرکم لأھلی․“ (سنن الترمذی، کتاب المناقب، باب فضل ازواج النبی صلی الله علیہ وسلم، رقم الحدیث:3895)

تم میں بہتر او راچھا آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے حق میں اچھا ہو اور میں تم سب سے اپنے گھر والوں کے حق میں ، میں اچھا ہوں۔

اسی طرح ”بخاری او رمسلم“ کی روایت ہے:
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: استوصوا بالنساء، فإن المرأة خلقت من ضلع، وإن أعوج شيء فی الضلع أعلاہ، فإن ذھبت تقیمہ کسرتہ، وإن ترکتہ، لم یزل أعوج، فاستوصوا بالنساء․(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب أحادیث الأنبیا، باب خلق آدم وذریتہ، رقم الحدیث:3331)

الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الرضاع، باب الوصیة بالنساء، رقم:3644)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو، (ان کو تنگ نہ کرو) کیوں کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور بے شک پسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتا ہے اگر تم اس کو زور سے سیدھا کرنے لگو گے توڑ دو گے اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی، اس لیے عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو (اور حتی الامکان نباہنے کی کوشش کرو)۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے:”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم : ” لا یفرک مومن مومنة، إن کرہ منھا خلقا رضی منھا آخر․ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الرضاع، باب الوصیة بالنساء، رقم:3645)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی مومن اپنی مومنہ بیوی سے نفرت نہیں کرتا، اگر اس کی کوئی عادت ناپسندیدہ ہو گی تو دوسری کوئی عادت پسندیدہ بھی ہو گی۔

عورت بحیثیت ماں
پھر یہی عورت جب ماں بنتی ہے، تو اس عورت کا مقام اور مرتبہ نہایت بلند ہو جاتا ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”الجنة تحت اقدام الأمھات․“ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی، رقم الحدیث:3642، وکنز العمال، الباب الثامن فی برالوالدین، رقم الحدیث:45439)

بخاری ومسلم کی روایت میں ہے:
ایک آدمی نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا،من أحق بحسن صحابتی؟ میر ے حسن خدمت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاأمک، تمہاری والدہ۔ اس آدمی نے تین مرتبہ یہی سوال کیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہر مرتبہ یہی فرمایا، أمک، تمہاری والدہ، چوتھی مرتبہ جب اس نے پوچھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:ثم أبوک پھر تمہارا والد۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الأدب، باب من أحق الناس بحسن الصحبة ، رقم الحدیث:5971، و الجامع الصحیح لمسلم، کتاب البر والصلة، والأدب، باب بّر الوالدین وأیھما أحق بہ، رقم الحدیث:6500)

علامہ عینی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ ماں کا حق باپ کے حق پر مقدم ہے، کیوں کہ حمل، وضع حمل اور دودھ پلانے او ربچوں کی تربیت کی مشقت صرف ماں اٹھاتی ہے، یہ سب مشقتیں باپ نہیں اٹھاتا، اسی وجہ سے سرکاردو عالم صلی الله علیہ وسلم نے ماں کے تین درجوں کے بعد باپ کا ذکر کیا، چناں چہ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ حسن سلوک او راطاعت کرنے میں ماں کا مرتبہ او رحق باپ سے زیادہ ہے ۔ (عمدة القاری، کتاب الأدب، باب من أحق الناس بحسن الصحبة:22/129)

یہاں تک انتہائی اختصار کے ساتھ واضح ہوچکا کہ اسلام نے مرد اور عورت کو یکساں مقام دیا ہے، جو عزت اسلام نے مرد کو دی ہے وہی عزت عورت کو بھی دی ہے، مرد اور عورت کے درمیان عزت واہمیت کے لحاظ سے فرق دراصل ان قوموں نے کیا ہے جنہوں نے آسمانی احکام اور آسمانی کتابوں میں دی ہوئی ہدایات سے اپنے آپ کو آزاد کر لیا ہے، ان قوموں نے تو خود مردوں کے درمیان بھی فرق کیا ہے، انہوں نے گوروں کو جو اہمیت دی ہے وہ کالوں کو نہیں دی، کالوں کو گوروں کا غلام بنایا اور ان سے جانوروں سے بدتر برتاؤ کیا اور الٹا اسلام پر الزام لگایا کہ وہ عورت کو غلام اور کم تر بناتا ہے، حالاں کہ اسلام نے عورت کو مرد کی طرح عزت دی، بلکہ جتنی تاکید اسلام نے عورت ( بیٹی، والدہ) کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کی کی ہے، اتنی تاکید تو مردوں (بیٹے،والد) کے لیے نہیں ۔

شادی سے پہلے اس کی ساری ذمہ داری، اخراجات والد کے ذمے ہیں اور شادی کے بعد خاوند کے ذمے ہیں۔

یہ بات واضح ہو گئی کہ اسلام نے عورت کو جو عزت او رمقام دیا ہے غیر اسلام میں اس کا تصور تک نہیں، اب رہی یہ بات کہ الله تعالیٰ نے اس کائنات کو بنایا ہے، اس دنیا میں مر داور عورت کا ایک ساتھ رہنا ضرور ی ہے اور ساتھ رہنے میں ایک دوسرے پر حقوق وفرائض کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اب کس کے کیا حقوق اور فرائض ہیں اس کے لیے اس انسان کو بنانے والے کی راہ نمائی ہی کی ضرورت پڑے گی اور اس حوالے سے قرآن کریم کی آیت ”ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درجة․“ (سورة البقرہ، آیة:228)” اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا ان پر حق ہے دستور کے موافق اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے، یہ آیت عورتوں اور مردوں کے باہمی حقوق وفرائض او ران کے درجات کے بیان میں ایک شرعی ضابطہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

غور کیا جائے تو دنیا میں دو چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اس عالم کی بقا اور تعمیر وترقی میں ستون کا درجہ رکھتی ہیں، ایک عورت اور دوسری دولت، لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو یہی دونوں چیزیں دنیا میں فساد وخون ریزی اورطرح طرح کے فتنوں کا سبب بھی ہیں اور غور کرنے سے اس نتیجہ پر پہنچنا کچھ دشوار نہیں کہ یہ دونوں چیزیں اپنی اصل میں دنیا کی تعمیر وترقی اور اس کی رونق کا ذریعہ ہیں، لیکن جب کہیں ان کو اپنے اصلی مقام اور موقف سے اِدھراُدھر کر دیا جاتا ہے تو یہی چیزیں دنیا میں سب سے بڑا فساد بن جاتی ہیں۔

قرآن نے انسان کو نظام زندگی دیا ہے، اس میں دونوں چیزوں کو اپنے اپنے صحیح مقام پر ایسا رکھا گیا ہے کہ ان کے فوائد وثمرات زیادہ سے زیادہ حاصل ہوں اور فتنہ وفساد کا نام نہ رہے۔

چناں چہ مرد اور عورت کے حقوق وفرائض کے حوالے سے قرآن نے اصول بیان فرما دیا کہ جس طرح عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں جن کی ادائیگی ضروری ہے، اسی طرح مردوں پر عورت کے حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے، ہاں! اتنا فرق ضرور ہے کہ مردوں کا درجہ عورتوں سے بڑھا ہوا ہے۔

اسی طرح ایک اور آیت میں ہے :﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ﴾․(سورة النساء، آیت:34)

یعنی مرد حاکم نگران ہیں عورتوں پر ،اس واسطے کہ بڑائی الله نے دی ایک کو ایک پر اور اس واسطے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔

اسلام سے پہلے جس عورت کو جانوروں کی طرح فروخت کیا جاتا تھا، اس کو اپنی شادی میں کسی قسم کا اختیار نہیں تھا، اس کو میراث میں سے کچھ نہ ملتا تھا، بعض لوگ اس کو زندہ دفن کر دیتے تھے، غرض ہر طرح کا ظلم اور زیادتی عورت کے ساتھ روا رکھی جاتی تھی۔

قربان جائیے رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین ِ حق پر، جس نے دنیا کی آنکھیں کھولیں، انسان کو انسان کی قدر کرنا سکھلایا، عدل وانصاف کا قانون جاری کیا، عورتوں کے حقوق مردوں پر ایسے ہی لازم کیے جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں، اس کو آزاد وخود مختار بنایا، وہ اپنی جان ومال کی ایسے ہی مالک قرار دی گئی جیسے مرد، کوئی شخص خواہ باپ، دادا ہی ہو، بالغ عورت کو کسی شخص کے ساتھ نکاح پر مجبور نہیں کرسکتا، اور اگر بلا اس کی اجازت کے نکاح کر دیا جائے تو وہ اس کی اجازت پر موقوف رہتا ہے، اگرنا منظور کردے تو باطل ہو جاتاہے، اس کے اموال میں کسی مرد کو بغیر اس کی رضا واجازت کے کسی تصرف کا کوئی حق نہیں، شوہر کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد وہ خود مختار ہے کہ کوئی اس پر جبر نہیں کرسکتا، اپنے رشتہ داروں کی میراث میں اس کو بھی حصہ ملتا ہے۔

لیکن عورت کو بالکل کھلی مہار چھوڑ دینا اور مردوں کی نگرانی وسیادت سے آزاد کر دینا، اس کو اپنے معاش کا خود متکفل بنانا بھی اس کی حق تلفی اور بر بادی ہے، نہ اس کی ساخت اس کی متحمل ہے اور نہ گھریلو کاموں کی ذمہ داری اور اولاد کی تربیت کا عظیم الشان کام جو فطرةً اس کے سپرد ہے وہ اس کا متحمل ہے۔

مگر جس طرح اسلام سے پہلے جاہلیت اولیٰ میں اقوام عالم سب اس غلطی کا شکار تھیں کہ عورتوں کو جانوروں کی حیثیت میں رکھا ہوا تھا، اسی طرح اب بالکل اس کے برعکس کیاجارہا ہے کہ عورتوں پر مردوں کی جو سیادت ا لله نے مقرر کی ہے اس سے بھی چھٹکارا حاصل کرنے اور کرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔جس کے نتیجے میں بے حیائی عام ہو گئی ہے۔ الله تعالی نے جو فطری نظام مقرر کیا ہے اس سے بغاوت کرنے کا مغربی دنیا کا انجام سب کے سامنے ہے، جہاں خاندانی نظام بالکل تباہ ہے، والدین، اولاد، دیگر رشتوں کا تصور معدوم ہے، عورت اپنی اس آزادی کے فریب کی وجہ سے اپنا سب کچھ گنواچکی ہے اور ایک ٹشو پیپر سے بڑھ کر حیثیت نہیں رہی۔ آج مسلم ممالک میں مغرب زدہ او رسیکولر طبقہ انہیں فرسودہ نعروں کی وجہ سے عورت کو تباہی کے دلدل میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ مسلمانوں میں بھی اگر بعض لوگوں کی طرف سے عورت پر زیادتی ہو رہی ہے تو وہ بھی غلط ہے، وہ ان کا اپنا غلط فعل ہے، اسلام سے اس کا تعلق نہیں، اسلام نے تو عورت کے حوالے سے سارے حدود بیان کر دیے ہیں۔

عورت کے ساتھ حسن سلوک کی اسلام نے بڑی تاکید کی ہے ۔

اسی طرح والدین وغیرہ کے انتقال کے بعد بیٹی کا بھی اسلام نے حصہ مقرر کیا ہے اور وہ یہ کہ بیٹی کو بیٹے کے مقابلے میں آدھا حصہ ملے گا، اوراس کی بھی حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله نے بڑی عجیب حکمت بیان کی ہے۔

فرماتے ہیں: اس وقت ایک نکتہ عورت کو نصف میراث ملنے کا بھی سمجھ میں آیا ،وہ یہ کہ عورت کو زیادہ میراث کی ضرورت نہیں، کیوں کہ عورت دوسروں کی دست نگر ہے، جس کی دست نگر ہے اس کو زیادہ ضرورت ہے اور وہ مرد ہے اور عورت کو محروم الارث اس لیے نہیں کیا کہ بعض خرچ عورت ایسے کرتی ہے کہ ان کا تحمل کرنا مرد پر واجب نہیں، اس کی اعانت کے لیے نصف میراث دلوادی۔ (ملفوظات حکیم الامت:29/239)