کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

idara letterhead universal2c

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

مسافر مقتدی کو امام کا حال معلوم نہ ہو تو نماز کس طرح ادا کرے؟

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مسافر آدمی جماعت میں امام کے ساتھ شریک ہوا، لیکن اب اس کو امام کا مقیم اور مسافر ہونا معلوم نہیں ہے تو اب یہ مسافر آدمی کس طرح اپنی نماز ادا کرے نیز اگر مقتدی اپنی نماز کے اختتام تک امام کی حالت سے بے خبر تھا، سلام پھیرنے کے بعد اگر کسی سے امام کی حالت معلوم کرے تو اس حالت میں مقتدی کی نماز صحیح ہوئی فاسد؟

مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مسافر مقتدی کی نماز امام کے نماز کے موافق نکلی، یعنی مسافر مقتدی نے دو رکعت کی نیت کی او رامام بھی مسافر تھا۔

جواب… اگر مقتدی کو امام کا حال معلوم نہیں ہے کہ امام مسافر ہے یا مقیم؟ تو دو یا چار رکعات کی تعیین کی ضرورت نہیں، محض ظہر یا عصر کی نیت کافی ہے، عددرکعات کی تعیین نیت میں مسافر یا مقیم کسی کے لیے بھی ضرورت نہیں ہے، البتہ امام کو چاہیے اگر وہ مسافر ہے تو سلام پھیرنے کے بعد کہہ دیں کہ میں مسافر ہوں، مقیم اپنی نماز پوری کریں، صورت مسئولہ میں مسافر مقتدی کی نماز درست ہو گئی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(49/182)

عمل کثیرکسے کہتے ہیں؟

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام ان مسائل کے بارے میں کہ: 1.. نماز میں عمل کثیر کسے کہتے ہیں؟

2.. نماز میں کسی شخص نے اگر ایک رکن ( قعدہ ، سجدہ یا تشہد) میں تین بار کھجا لیا یا کھانس لیا یا چھینک ماردی تو کیا اس کی نماز فاسد ہو گئی یا نہیں؟

3.. اگر ایک رکن میں ایک بار کوئی عمل ہوا تو کیا اس سے نماز فاسد ہو جائے گی یا نہیں؟

از راہِ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں مذکورہ بالا مسائل کا تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

جواب…حضرات فقہائے کرام عمل کثیر کی تعریف میں مختلف اقوال ذکر فرماتے ہیں، جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

1.. نمازی کا ایسا عمل جس کو دور سے دیکھنے والے کو ظن غالب ہو جائے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے تو وہ عمل کثیر ہے، جس عمل سے نماز میں نہ ہونے کا ظن غالب نہ ہو بلکہشبہ ہو تو وہ قلیل ہے۔

2.. وہ عمل جو عادةً دونوں ہاتھوں سے کیا جائے وہ کثیر ہے، اگرچہ وہ عمل ایک ہاتھ سے کیا جارہا ہو، جیسے عمامہ باندھنا، اور جو عمل ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہو، وہ دونوں ہاتھوں سے بھی کرے تو وہ قلیل ہے، جیسے ٹوپی سر سے اتارنا۔

3.. پے درپے تین حرکات عمل کثیر ہے، بصورت دیگر وہ قلیل ہے۔

4.. نمازی کی رائے پر موقوف ہو گا، وہ جس عمل کو کثیرگمان کرے وہ عمل کثیر ہے او رجس کو قلیل گمان کرے وہ قلیل ہے۔

ان اقوال میں سے سب سے پہلے قول کو فقہائے کرام نے اصح اور راجح قرار دیا ہے۔

2.. نماز کے ایک رکن میں تین دفعہ کھجلانے سے مطلقاً نماز فاسد نہیں ہوتی، بلکہ یہ اس وقت مفسد ہے جب ہر دفعہ ہاتھ اٹھائے، اگر ہر دفعہ علیحدہ ہاتھ نہ اٹھائے، بلکہ ایک ہی دفعہ ہاتھ اٹھا کر تین دفعہ کھجلائے، تو نماز فاسد نہ ہو گی، رہی بات کھانسنے کی، تو جہاں تک ممکن ہو نماز کے دوران کھانسی کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے، البتہ اگر طبعی طور پر کھانسی آجائے یا بیماری کی وجہ سے کھانسی آجائے تو نمازفاسد نہیں ہوتی، ہاں اگر بلا ضرورت کھانسے اور حروف کی آواز نکلے تو نماز فاسد ہو جائے گی، اور چھینکنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔

نماز کے کسی بھی رکن میں ایک بار کوئی عمل (جس کی مقدار پے درپے تین تسبیحات کے بقدر نہ ہو) کرنے سے فاسد نہیں ہو گی۔ (67-69/182)

ایک وقت میں ایک سو بیس یا ساٹھ الگ الگ مسکینوں کو کھانا کھلانے سے کفارہ ادا ہونے کا حکم

سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ 1.. روزہ کے کفارے میں اگر ایک وقت کا کھانا ایک سو بیس مسکینوں کو کھلا دیا جائے تو روزہ کا کفارہ ادا ہو گا یا نہیں؟ اسی طرح اگر دو وقت کا کھلایا لیکن ایک وقت الگ ساٹھ مسکین ہوں اور دوسرے وقت الگ ساٹھ مسکین ،تو کیا حکم ہے؟

2.. ایک شخص نے بینک سے سودی قرضہ لیا ہوا ہے اس کو زکوٰة دینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر دینا جائز ہے، تو اس کو زکوٰة کا بتانا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب…1.. واضح رہے کہ روزے کے کفارہ کے لیے ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا ضروری ہے، ایک وقت کا کھانا کھلانے سے کفارہ ادا نہ ہو گا۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں ساٹھ مسکینوں کو ایک وقت کا کھانا کھلانا اور دوسرے ساٹھ مسکینوں کو دوسرے وقت کا کھانا کھلانے سے کفارہ ادا نہ ہو گا، اسی طرح ایک سو بیس مسکینوں کو ایک وقت کا کھانا کھلانے سے کفارہ ادا نہیں ہوگا، البتہ اگر ان میں سے ساٹھ مسکینوں کو دوسرے وقت کا کھانا بھی کھلا دیا جائے تو کفارہ اداہو جائے گا۔

2.. ایسے شخص کو زکوٰة کی رقم دینے سے سودی قرض لینے والوں کی ایک گونہ حوصلہ افزائی ہے، اس لیے ایسے شخص کو زکوٰة دینے سے اجتناب کیا جائے، البتہ زکوٰة ادا ہو جائے گی، زکوٰة ادا کرتے وقت زکوٰة کا بتانا ضروری نہیں، بلکہ نیت کرنا کافی ہے، لیکن جس کو دے رہے ہیں اس کا مستحق ہونا ضروری ہے۔(72-73/182)

رکوع اور سجدے میں جاتے وقت کب تکبیرات کہی جائیں

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام ان مسائل کے بارے میں کہ 1.. نماز میں تکبیرات انتقالیہ امام کو کب کہنی چاہییں؟ امام ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے کے بعد تکبیر کہتے ہیں، آیا یہ درست ہے؟ راہ نمائی فرمائیں اور اس طریقہ پر نماز پڑھانے میں کوئی حرج تو نہیں؟

2.. رکوع سے اٹھنے کے بعد امام سمع الله لمن حمدہ کہتا ہے جس میں مقتدی مسبوق کی رکعت ہو گی؟ جب کہ امام کھڑا ہو اور ابھی تک سمع الله لمن حمدہ نہ کہا ہو اورمقتدی اس رکعت میں شامل ہوتا ہے، آیا اس مسبوق کو یہ رکعت مل گئی؟

جواب…1.. واضح رہے کہ رکوع اور سجود کی تکبیرات کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ رکوع میں جاتے وقت تکبیر شروع کرے اور رکوع میں پہنچتے وقت تکبیر منقطع کرے، اسی طرح سجدہ میں جاتے وقت تکبیر شروع کرے اور سجدے میں پہنچتے وقت تکبیر ختم کرے، رکوع اور سجود میں پہنچ کر تکبیر کہنا سنت کے خلاف او رمکروہ ہے۔

2.. صورت مسئولہ میں اگر مقتدی کے رکوع میں پہنچنے سے پہلے امام رکوع سے اٹھ گیا تو اقتداء درست ہو جائے گی، لیکن یہ رکعت نہیں ملی، جب امام سلام پھیرلے تو یہ شخص اپنی رکعت کو مکمل کرے (79-80/182)

گیس کمپریسر لگانے کا حکم

سوال … کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں تقریباً95 فی صد لوگ گیس کمپریسر لگاتے ہیں، جس کی وجہ سے 5 فی صد لوگوں کو انتہائی تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کے گھروں میں گیس بالکل نہیں آتا، ایسے میں اگر سارے گاؤں والے گیس کمپریسر لگائیں توکسی کو تکلیف اور اذیت نہ ہو، تو کیا شرعاً ان 5 فی صد لوگوں کو گیس کمپریسر لگانا چاہیے یا نہیں؟ شرعی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب… صورت مسئولہ میں اگر کیس کمپریسر لگانے کی صورت میں مساویانہ تقسیم متأثر ہوتی ہو اور ضرر عام لاحق ہوتا ہو، تو یہ شرعاناجائز بھی ہے اور قانوناً جرم بھی ہے، لہٰذا اس سے خود اجتناب کی ضرورت ہے، چہ جائے کہ دوسروں کو اس گناہ کے کرنے پر برانگیختہ کیا جائے، او راگر صورت حال ایسی ہو کہ گیس کمپریسر کے بغیر، یا تو بالکل ہی گیس نہ آرہی ہو، یا اتنی آرہی ہو کہ وہ قابل انتفاع نہ ہو، تو اس صورت میں گیس کمپریسر لگانے کی شرعاً گنجائش ہے۔(108/182)

مریض کے لیے خون کے بدلے میں خون لینا دینا

سوال… کیا فرماتے علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید ایک لیبارٹری میں کام کرتا ہے جس میں زید نے اپنا بلڈ بینک بھی رکھا ہوا ہے، تاکہ مریضوں کے طلب کرنے پر اُن کو خون عطیہ کیا جاسکے۔

مگر اس کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ زید کے پاس کوئی مریض آتا ہے او راس کو کسی بھی گروپ کا مثلاًA+ کا500 (پانچ سو سی سی) خون ضرورت ہے تو زید اس کو مذکورہ خون عطیہ کرتا ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ یہ مریض بدلے میں کسی بھی گروپ کا خون جو500 سی سی کا ہو، دے( زید بدلے میں جو خون لیتا ہے اس کو اپنے پاس بلڈ بینک میں محفوظ کر لیتا ہے، تاکہ دوسرے مریضوں کو خون کی ضرورت پڑنے پر زید ان کو اپنے پاس بلڈ بینک میں محفوظ خون عطیہ کرسکے، تو آیا اس طرح خون کے بدلے میں خون کا لین دین کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ اور بعض دفعہ یہ صورت بھی پیش آتی ہے کہ آنے والے مریض کے پاس موقع پر خون موجود نہیں ہوتا،تو زید اس کو خون تو دے دیتا ہے، لیکن اس شرط پر کہ وہ زید کے پاس کچھ روپے جمع کرالے اور ایک دو دن تک اس کے بدلے میں خون کا بندوبست کرکے وہ روپے زید سے واپس لے لے، راہ نمائی فرمائیں۔

جواب… صورت مسئولہ میں اس طرح خون کی لین دین درست نہیں، بلکہ لیبارٹری والے یا بلڈ بینک ہو لڈر مفت میں خون دے دیں اورپھر سامنے والے کو اختیار دیں کہ اگر وہ رضاکارانہ طور پر خون جمع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، تاکہ وہ خون بروقت دیگر مریضوں کے کام آسکے، او راگر وہ جمع نہیں کرتا تو بھی اس کو اختیار ہو۔(141-142/18)

غلط مسئلہ بتانے کا گناہ

سوال… کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں اگر کسی نے کوئی مسئلہ پوچھا اُس کے بارے میں جائز یا حلال کا بتایا، اُس شخص نے اس پر عمل شروع کر دیا، بعد میں پتہ چلا کہ یہ کام ناجائز یا حرام ہے، اس کا گناہ صرف بتانے والے پر ہو گا یا جس نے عمل کیا وہ بھی گنہگار ہو گا؟

جواب… واضح رہے کہ شرعی مسئلہ معلوم کرنے کے لیے مستند اہل علم کا انتخاب کرنا چاہیے، جوخوب سوچ سمجھ کر اور تحقیق کے بعد جواب دیں، اگر اہل علم کے علاوہ کسی اور سے سوال کیا، تو سوال کرنے والا خود ذمہ دار ہو گا، البتہ اہل علم کی صورت میں کسی نے بغیر علم کے غلط مسئلہ بتایا، تو گناہ بتانے والے پر ہو گا، لیکن مفتی نے پوری دیانت اور تلاش بسیار کے بعد مسئلہ بتایا اور غلط ہو گیا، تو گناہ کسی پر نہیں ہو گا، بلکہ درست معلوم ہونے پر غلطی سے رجوع کر لیا جائے اور دونوں استغفار بھی کر لیں۔ (195/182)

مسجد میں پاؤں دھونے کا حکم

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے کہ مسجد میں ٹھنڈک کے واسطے پاؤں دھونا شرعاً کیسا ہے؟ باحوالہ جواب مطلوب ہے۔ شکریہ

جواب… مسجد کا جو فرش نماز کے لیے مقرر ہو، وہاں ٹھنڈک کی خاطر پاؤں دھونا درست نہیں، اس سے گریز کرنا چاہیے، اگر وضو خانہ موجودہے، تو وہاں پاؤں دھونے میں کوئی حرج نہیں۔(255/182)

غلطی سے کسی دوسرے کے نمبر پر پیکج لگانے کا حکم

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بندے نے غلطی سے میرے موبائل نمبر پر ایک مہینے کا پیکچ لگا دیا ہے، حالاں کہ میں اس نمبر پر بذات خود پیکج نہیں لگانا چاہتا تھا، کیوں کہ میں نے اپنے دوسرے موبائل نمبر پر کچھ دن پہلے مہینے کا پیکج لگایا تھا، اب وہ بندہ جس نے غلطی سے میرے موبائل نمبر پر ایک مہینے کا پیکج لگوایا ہے وہ مجھ سے پیسے مانگتا ہے، اب کیا میں اس کو پیسے دوں یا نہ دوں؟ حالاں کہ اس کا پیکج میرے کسی کام کا نہیں ہے۔

جواب… صورتِ مسئولہ میں آپ کی طرف سے کوئی زیادتی نہیں پائی گئی، لہٰذا اس بندے کا آپ سے تاوان یا پیسوں کا مطالبہ کرنا درست نہیں، البتہ دیانت کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ اسے اس پیکج کے پیسے دے دیں اور اسے استعمال میں لائیں۔(257/182)