کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

دودھ کے کاروبار میں شرکت کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ازروئے شریعت ذیل میں مذکور مسائل کے بارے میں کہ زید تلہ گنگ کا رہائشی ہے، اس کا دودھ کا کاروبار ہے، جس میں زید نے ایک چلر (Chiller) خرید کر سرگودھا رکھوایا ہوا ہے، زید نے ایک آدمی کو ڈرائیور رکھا ہوا ہے او راس ڈرائیور کی اپنی ذاتی گاڑی بھی ہے، اسی گاڑی پر کچھ دودھ تلہ گنگ کے گردونواح سے اٹھاتے ہیں اور پھر اسی گاڑی پر سرگودھا دودھ اٹھانے کے لیے چلے جاتے ہیں، اس کے بعد اسلام آباد، راولپنڈی میں کئی دکان دار ان کے پکے گاہک ہیں، ان کو دے دیا جاتا ہے، اس کے بعد جب دوبارہ دودھ لے کر اسلام آباد جاتے ہیں تو سابقہ رقم کی وصولی ہو جاتی ہے اور نیا دودھ ان کو دے دیا جاتا ہے اورکبھی تمام رقم نقد بھی مل جاتی ہے۔ زید کے ساتھ بکر چوتھے حصے میں شرکت کرنا چاہتا ہے، زید بکر کو کہتا ہے کہ میرے کام، کاروبار کی کل قیمت 25 لاکھ روپے ہے اور یہ قیمت زید، نے خود لگائی ہے کسی ماہر تاجر وغیرہ سے نہیں لگوائی، زید بکر کو کہتا ہے آپ چوتھا حصہ 625000 روپے دے کر کاروبار کے چوتھے حصے میں شریک ہو جائیں، جب آ پ نے نکلنا ہوا تو میں آپ کو آپ کی رقم 625000 واپس کردوں گا، چاہے پانچ سال بعد نکلواؤ یا دس سال بعد، سوال یہ ہے کہ زید کی ملکیت میں صر ف ایک چلر ہے جس کی مارکیٹ میں قیمت تقریباً4 لاکھ روپے ہے، اس کے علاوہ کوئی اور منجمد اثاثہ وغیرہ بظاہر نہیں ہے، 625000روپے دے کر بھی بکر کا چلر میں حصہ نہیں ہو گا، زید کا کہنا ہے کہ اگر دونوں راضی ہوں شریک ہونے والا یعنی بکر او رزید دونوں اس مالیت پر راضی ہوں تو یہ صحیح ہے، کیا شرعی طور پر واقعی ایسا ہی ہے ؟ چوں کہ زید عملی طور پر کام نہیں کرتا، کام عموماً بکر ہی کرے گا، اس لیے بکر کا نفع میں حصہ چوتھے حصے سے کچھ زائد ہو گا، کیوں کہ وہ کام کرے گا، یہ نفع کتنا رکھ سکتے ہیں؟

زید کہتا ہے کہ ہم دودھ فیٹ (fat) پر اٹھاتے ہیں، جتنی فیٹ ہو، ریٹ بناتے ہیں، کبھی کبھی فیٹ کم کرنے کے لیے پانی یا گائے کا دودھ ملاتا ہوں، مضر چیز نہیں ملاتا، او رجب دیگر دکان داروں سے معاملہ طے کرتا ہوں تو ان کو یہ ہی بتاتا ہوں کہ آپ کو جو دودھ ملے گا اس کے فیٹ کی آخری حد 4-6 ہو گی… باقی اکثر اس سے اوپر ہی ہو گا، کم نہیں … سرگودھا میں جس جگہ سے میں دودھ اٹھاتا ہوں ان سے 6 کی فیٹ کا ریٹ ہمارا طے ہے، اب روزانہ کی بنیاد پر فیٹ6 سے جتنی کم ہوگی اتنا ہی ریٹ کم ہو جائے گا … باقی اگر فیٹ 6 ہو تو ہم اس کو کم کرتے ہیں، تاکہ آگے ہمیں نفع زیادہ ملے مقدار بڑھا کر، او رہمارے گاہکوں (دکان داروں) کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ہم پانی یا گائے کا دودھ کبھی کبھار ملایا کرتے ہیں، اور جس دن ملایا ہو ہم ان کو بتا بھی دیتے ہیں، یہ طرز کیسا ہے؟ آگے وہ اپنے گاہکوں کو بتاتے ہیں یا نہیں؟ ہمیں اس کا کوئی علم نہیں ہوتا۔

1..اب اس کام میں شرکت کا شرعی طریقہ کیا ہے؟

2..نفع ونقصان کی تقسیم کا کیا طریقہ ہو گا؟

3..اگر بکر نکلنا چاہے تو اس وقت کاروبار کی کیا قیمت لگائی جائے گی؟ کس بنیاد پر لگائی جائے گی؟ قیمت کون لگائے گا؟ اور نکلنے کا طریقہ کیا ہو گا؟

4..پانچ دس سال کے معاہدے پر فریقین کو پابند کرنے کے لیے اسٹامپ کرنا کہ مقررہ وقت ختم ہونے سے پہلے کوئی فریق نکل نہیں سکتا، یہ شرعاً کیسا ہے؟

5..اگر بکر خود گاڑی خرید کر اسی گاڑی کو دودھ کے کام میں چلائے اور ڈرائیونگ بھی کرے اور نقد پیسوں کے بجائے اس گاڑی کی قیمت لگا کر اس کام کے اتنے حصے میں شریک ہو جائے تو یہ کیسا ہے؟ او رجب نکلنا چاہے تو ایسی صورت میں کیسے نکلے؟

6..اگر زید گاڑی قسطوں پر لے کر بکر کے نام کر دے اور وہ گاڑی بکر اسی کام میں چلاتا رہے او رقسطیں بھی ادا کرتا رہے، تو یہ طریقہ کیسا ہے؟

برائے کرم ایسی تفصیل فرما دیں کہ کسی قسم کا ابہام نہ رہے ، کام اورشراکت کی حقیقت واضح ہو جائے۔

تنقیح: سائل سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ زید جو 25 لاکھ روپے سرمایے کا دعوی کرتا ہے اس کی ملکیت میں صرف ایک چلر ہے، باقی اس نے اپنی محنت، مارکیٹ اور گاہک بنانے کی قیمت لگائی ہے۔

جواب 2،1 شرکت کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ دو یا دو سے زیادہ آدمی آپس میں نقد پیسے ملا کر اکھٹے کوئی کاروبار شروع کریں، چاہے کام سب کریں یا صرف بعض، لیکن پیسے سب کی طرف سے ہونا ضروری ہے اور نفع باہمی رضا مندی سے فیصدی طور پر طے کرنا بھی ضروری ہے ، بایں طور کہ اگر کام دونوں کا شرط ہو، تو کسی بھی ایک کے لیے او راگر کام صرف ایک کا شرط ہو، تو کام والے کے لیے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع مقرر کرنا جائز ہے، البتہ جس کا کام شرط نہ ہو، تو اس کے لیے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع مقرر کرنا جائز نہیں، اور اگر نقصان ہوجائے، تو نقصان ہر حال میں سرمایہ کے تناسب سے آئے گا، لہٰذا صورت مذکورہ میں اگر کام صرف بکر کا شرط ہو تو اس کو سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع دینا جائز ہے، البتہ زید کے لیے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع مقرر کرنا جائز نہیں۔

زید کا25 لاکھ روپے سرمایہ کا دعوی کرنا شرعاً معتبر نہیں، شرکت میں نقد سرمایہ کا اعتبار ہوگا، چلر کی قیمت اور دکان کی چلت کو سرمایہ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

باقی دودھ کا فیٹ پر اٹھانا، جتنا فیٹ ہو اتنا ریٹ بنانا… یہ صورت درست ہے۔

3.. اگر مذکورہ بالا شرکت شرعی طریقہ پر ہو او ربکر نکلنا چاہے، تو دودھ فروخت کرنے کے بعد ہر ایک اپنا نقد سرمایہ لے گا، پھر اگر کچھ بچ جائے گا، تو نفع شرط کے مطابق تقسیم ہو گا۔

4.. پانچ دس سال کے معاہدے پر اسٹامپ کرنے کی شرعاً گنجائش ہے او رہر ایک کو اپنے معاہدے کی پاس داری کرنی چاہیے، تاکہ وعدہ خلافی کی وعید سے بچے، البتہ عدالت اسے اس معاہدے پر مجبور نہیں کرسکتی، وہ جب چاہے اس معاہدے سے قضاء نکل سکتا ہے، ہاں عذر کی وجہ سے وقت مقررہ سے پہلے شرکت ختم کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔
6،5 دونوں صورتیں جائز نہیں، کیوں کہ شرکت میں دونوں طرف سے نقد سرمایہ کا ہونا ضرور ی ہے۔

خرید وفروخت کے وقت تمام عیوب بتانے کے بعد خریدار کا کسی عیب کی وجہ سے قیمتمیں کمی کرنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان اس مسئلہ کے بارے میں کہ خالد نے عمر پر ایک موٹر دس لاکھ روپے میں بیچ دی اور عمر نے دس لاکھ میں سے پانچ لاکھ روپے نقد دیا او رباقی پانچ لاکھ روپے ایک مہینے بعد دینے کا وعدہ کیا، لیکن ایک دو ہفتے بعد اس موٹر میں عیب نکل آیا، اب عمر (مشتری) بائع (خالد) سے کہتا ہے کہ باقی پانچ لاکھ روپے میں سے دو لاکھ روپے آپ کو دیتا ہوں اور تین لاکھ روپے موٹر میں عیب کی وجہ سے نہیں دیتا ہوں۔

اب سوال یہ ہے کہ مشتری (عمر) کے لیے اس عیب کی وجہ سے باقی تین لاکھ روپے کا نہ دینا جائز ہے یا نہیں؟

وضاحت… پوچھنے پر معلوم ہوا کہ بائع او رمشتری کے درمیان جب معاملہ ہو رہا تھا اس وقت بائع نے مشتری کو مبیع کی ہر شئی سے آگاہ کیا تھا، اب مشتری کا کہنا یہ ہے کہ گاڑی کا انجن پرانا ہے، جب کہ یہ بات معاملہ طے کرتے وقت بتائی گئی تھی او رخریدارنے رضا مندی کا اظہار بھی کیا تھا۔

جواب…صورت مسئولہ میں اگر واقعی طور پر بیع کے وقت خالد نے عمر کو گاڑی کے انجن کا پرانا ہونا بتایا ہو اور عمر نے قبول کر لیا ہو، تو اس سے عقد مکمل ہو چکا، لہٰذا عقد کے مکمل ہونے کے بعد عمر کو بائع کی رضا مندی کے بغیر گاڑی واپس کرنا، یا قیمت میں کمی کروانا جائز نہیں ہے، اور عمر کا یہ کہنا کہ گاڑی کا انجن پرانا ہے، اس لیے تین لاکھ روپے کم دوں گا، یہ کہنا صحیح نہیں ، بلکہ عقد میں جو قیمت طے ہوئی تھی، یعنی دس لاکھ پورے، دینے ہوں گے، یا باہمی رضا مندی سے بیع کو ختم کر دیں۔

قرض پر زکوٰة اور نصاب زکوٰة کی تفصیل
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام ان دو مسئلوں کے بارے میں کہ میں لنڈے کا کام کرتا ہوں، تو میرے اوپر دوسرے لوگوں کا بھی قرضہ ہے اورمیرا بھی دوسرے لوگوں پر قرضہ ہے، لیکن ان قرض داروں میں سے بعض ایسے ہیں کہ ان کا کچھ پتہ نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں، لیکن مجھے امید ہے کہ شاید وہ حضرات میرا قرض دے دیں، تو اب میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ میں زکوٰة ادا کروں تو کیا ان قرضوں کو بھی ساتھ شامل کرکے حساب کروں یا نہیں؟ اور دوسری بات یہ ہے کہ آج کل زکوٰة کتنے پیسوں میں کتنی واجب ہے؟ ۔

دوسرا مسئلہ: یہ ہے کہ میرے بعض خریدار مجھ سے مال مانگتے ہیں، مثلاً: کمبل، لیکن کبھی میرے پاس اس وقت کمبل موجود نہیں ہوتے ،تو میں دوسرے دکان والے سے خریدتا ہوں پھر اس کے پاس بھیجتاہوں، اور میں خریدتا ہوں، مثلاً:300 کا ایک عدد او راس کو305 روپے میں دے دیتا ہوں، تو کیا یہ پانچ روپے نفع میرے لیے حلال ہو گا یا نہیں؟ اور کیا خریدار کو یہ بتانا ضروری ہے کہ میں نے اتنے کا خریدا ہے او رتم پر اتنے کا فروخت کرتا ہوں؟

جواب…صورت مسئولہ میں جتنا قرض آپ کے ذمے لازم ہے، اس تمام قرض کو موجودہ مال سے منہا ( الگ) کیا جائے گا ا ور جتنا قرض لوگوں سے آپ نے وصول کرنا ہے، اس تمام قرض کو باقی مال سے ملایا جائے گا، پھر اگر مال نصاب زکوٰة کو پہنچ جاتا ہے، تو اس میں زکوٰة واجب ہوگی، لہٰذا جو مال آپ کے پاس موجو دہے، زکوٰة کی ادائیگی فی الحال آپ پر لازم ہوگی، جو مال قرض کی صورت میں آپ نے لینا ہے اس کے بارے میں بہتر یہی ہے کہ فی الحال ادائیگی کر دیں ، وگرنہ جیسے جیسے قرض وصول ہوتا جائے ، ادائیگی کرتے رہیں۔

سونے، چاندی کی قیمت میں روز مرہ اتار چڑھاؤ کی وجہ سے نصاب زکوٰة کی کوئی متعین رقم نہیں بتائی جاسکتی، البتہ کسی آدمی کے پاس ”ساڑھے باون تولے“ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد مالیت موجود ہو تو کل مال کا چالیسواں حصہ زکوٰة میں ادا کیا جائے گا۔

صورت مسئولہ میں اگر آ پ کو خریدار نے کمبل خریدنے کا وکیل بنایا ہے تو آپ کے لیے نفع لینا جائز نہیں ہوگا، لیکن اگر خریدار آپ سے وہ کمبل خریدتا ہے، تو اس صورت میں آپ کے لیے خریدار کو بتائے بغیر نفع لینا حلال ہوگا۔

موبائل بیلنس او رکارڈ کی شرعی حیثیت
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم موبائل کمپنیوں کو رقم ادا کرتے ہیں ،وہ ٹیکس کاٹ کر اکاؤنٹ میں رقم جمع کرتے ہیں۔ پھر ہم اس رقم سے موبائل فون ملاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ہم نے جو رقم ادا کی ہے اس سے موبائل کمپنیاں اپنے ٹیکس وصول کرکے ایک محدود مدت کے ساتھ رقم اکاؤنٹ میں جمع کرتے ہیں، اگر معیاد کے دوران ہے،رقم استعمال نہیں کی گئی تو وہ رقم ختم کر دی جاتی ہے۔ اس رقم کو اکاؤنٹ سے ختم کرنا قرآن وسنت کی روشنی میں کیسا ہے؟

وضاحت… اکاؤنٹ سے مراد کسی بھی موبائل کمپنی کی سم اپنے نام پر کھلوانا او رنکالنا ہے، اس میں رقم جمع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو سم میں ریچارج کے لے ایزی لوڈ کیا جاتا ہے یا اس کمپنی کا جاری کیا گیا کارڈ جمع کیا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ کمپنی ایزی لوڈ کرنے یا کارڈ جمع کرنے کے بعد بیلنس کے استعمال کے لیے محدو دمدت دیتی ہے، اگر اس مدت کے اندر اندر بیلنس استعمال کر لیا تو ٹھیک، ورنہ وہ بیلنس ضائع ہو جاتا ہے، اس مدت کے گزرنے کے بعد اس سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا، معلوم یہ کرنا ہے کہ محدود مدت گزرنے کے بعد کمپنی کا اس بیلنس کو ضائع کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب… سوال میں ذکر کردہ صورت فقہی اعتبار سے اجارہ کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں کمپنی صارف کو ایک متعینہ مدت تک اپنا نیٹ ورک استعمال کرنے کی سہولیات فراہم کرتی ہے او راس کی اجرت بیلنس کی شکل میں وصول کرتی ہے، اور عقد اجارہ میں جب مالک اپنی چیز کسی کو متعینہ مدت تک اجرت پر دے کر اس کے حوالے کر دے، تو اس چیز کی اجرت کرایہ دار پر لازم ہو جاتی ہے، خواہ کرایہ دار اس چیز سے کوئی فائدہ اٹھائے یا نہیں ،اسی طرح متعینہ مدت گزرنے کے بعد مالک اپنی چیز کرایہ دار سے واپس لے سکتا ہے، اگرچہ کرایہ دارنے اس کو ابھی تک استعمال نہ بھی کیا ہو۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں جب کمپنی نے بیلنس وصول کرکے ایک متعینہ مدت تک صارف کو اپنا نیٹ ورک استعمال کرنے کی سہولیات فراہم کردیں، تو اب متعینہ مدت کے دوران اگرچہ صارف نے اس سے پورا استفادہ نہ کیا ہو، تب بھی متعینہ مدت گزرنے پر کمپنی کی طرف سے صارف کو فراہم کردہ سہولت ختم کرنے اور واپس لینے کا حق کمپنی کو شرعاً حاصل ہے۔

مشترکہ فیملی میں شرعی پردے کا حکم اور طریقہ
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شرعی پردہ کی حد کیا ہے؟ آیا چہرہ اور ہتھیلی خارج ہے یا نہیں؟ بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ بعض خواتین اس قدر شدت کرتی ہیں کہ گھر میں شوہر کے بھائی، کزن وغیرہ کے سامنے دستانے، حجاب کے بغیر نہیں آتیں، تو کیا صرف بڑی چادر اوڑھ کر اپنے کام کاج کرسکتی ہیں، جب کہ اس کے دیور جیٹھ وغیرہ اس اجتماعی خاندان میں رہتے ہو؟

جواب… شریعت میں عورت کو غیر محرم سے پردہ کرنے کی پر زورتاکید کی گئی ہے، سر سے لے کر پاؤں تک تمام جسم کا پردہ عورت کے لیے ضروری ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں عورت کا دیور، جیٹھ کے ساتھ اجتماعی خاندان میں رہتے ہوئے حجاب اور دستانے پہنے رکھنا اچھی بات ہے، ہتھیلی اورہاتھ کھلے رہیں تو بھی کوئی حرج نہیں، بڑی چادر اوڑھ کر بھی کام کاج کر سکتی ہے، چہرے کو غیر محرم کے سامنے کھولنے سے اجتناب کرے۔

رسم ورواج کی تعریف اور اس کے اقسام بمع احکام
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام کہ رسم ورواج کی تعریف شریعت مطہرہ میں او راس کی اقسام کیا ہیں جس سے اس کا حکم معلوم ہو جائے؟

جواب… رسم ورواج کی تعریف یہ ہے کہ روزہ مرہ کے وہ معاملات جو ذوق ِ سلیم کے نزدیک پسندیدہ او رمقبول ہوں، رسم ورواج کئی قسم کے ہوسکتے ہیں:

1.. وہ رسم ورواج جس کو ائمہ مجتہدین اور تابعین نے اجماع، استحسان اور عرف کے ذریعہ اسلامی قانون میں داخل کیا ہے۔
2.. وہ رسم ورواج جو قوموں کی تہذیب وتمدن ہو، اور شرعی تقاضوں اور انسانی فطرت سے متصادم نہ ہو، یہ دونوں قسمیں جائز ہیں۔
3.. وہ رسم ورواج جس کو لوگ جائز سمجھتے ہوں، مگر وہ خلاف سنت اور خلاف شرع ہوں، جیسے، شادی بیاہ کی بعض رسومات۔
4.. وہ رسم ورواج جس میں غیر مسلم مذہب کی پیروی یا مشابہت ہو، جیسے: سال گرہ منانا۔
5.. وہ رسم ورواج جس کو لوگ دین سمجھ کر کرتے ہوں،حالاں کہ قرون ِ اولیٰ میں اس کی کوئی اصل موجود نہ ہو، جیسے تیجہ،چالیسواں، یہ تینوں قسمیں ناجائز ہیں۔