کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

idara letterhead universal2c

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

مؤکل کے لیے خریدی ہوئی چیز کو اپنے مال کے ساتھ خلط ملط کرنے کا حکم

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے عمرو کو وکیل بنایا کہ میرے لیے چھ ہزار لیٹر پیٹرول خریدو، جب کہ عمرو کا اپنا ٹینکر ہے، عمرو نے چھ ہزار لیٹر پیٹرول خرید کر ٹینکر میں ڈال دیا اور ٹینکر میں کچھ پیٹرول متعین یا غیر متعین پہلے سے بھی تھا، اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں زید بغیر قبضہ کیے یہ پیٹرول عمرو پر یا اپنے وکیل عمرو کے ذریعے کسی دوسرے پر بیچ سکتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو جواز کی صورت بتا کر عندالله مأجور ہوں۔

جواب… واضح رہے کہ موکل کے لیے خریدی ہوئی چیز وکیل کے پاس امانت ہوتی ہے او رامانت کو اپنے مال کے ساتھ اس طرح ملانا کہ دونوں میں جدائی ناممکن ہو، تو یہ ہلاکت شمار ہوتی ہے، جس کے سبب مودع (جس کے پاس امانت رکھا گیا ہے ) پر ضمان لازم آتا ہے۔

صورت مسئولہ میں چوں کہ عمرووکیل ہے او راس نے زید کے لیے خریدے ہوئے پیٹرول کو اپنے پیٹرول کے ساتھ ملایا ہے، لہٰذا مذکورہ چھ ہزار لیٹر پیٹرول کا ضمان عمرو پر لازم آئے گا، اب زید کو اس پیٹرول میں کسی قسم کا تصرف کرنے کا حق حاصل نہیں، اور ضمان کی صورت یہ ہو گی کہ موکل (زید) نے وکیل ( عمرو) کو جس کوالٹی کا پیٹرول خریدنے کا کہا تھا، اسی کوالٹی کا چھ ہزار لیٹر پیٹرول خرید کر موکل (زید ) کے حوالے کر دے او ر عمروجب ضمان ادا کرے تو مذکورہ پیٹرول اس کی ملکیت ہو جائے گا او راس پیٹرول میں عمروکو ہر قسم کا تصرف کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ (92/181)

ویڈیوز لائک کرنے کے بدلے پیسے کمانا

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک آن لائن پلیٹ فارم پر کام کر رہا ہوں، جس میں روز ہمیں ویڈیوز دی جاتی ہیں او رہم ان ویڈیوز کو لائک کرکے اس کا اسکرین شاٹ نکالتے ہیں او رپھر وہ اسکرین شاٹ ان کو سینڈ کرتے ہیں اور ہمیں اس کام پرروز پیسے ملتے ہیں، اگر آپ اس کام میں کسی کو ایڈ کرتے ہیں تو آپ کو اس سے بھی منافع ہو گا۔

اس کام کے کرنے کے لیے کچھ شرائط ہیں:
1.. اس میں انویسٹمنٹ ضروری ہے، جتنی زیادہ انویسٹمنٹ کروگے تو اتنا زیادہ کام ملے گا، او رجتنا زیادہ کام کرو گے تو اتنے ہی زیادہ ملیں گے۔

2.. اس میں کام کرنا ضروری ہے، اگر کام نہیں کرو گے تو پیسے نہیں ملیں گے۔

3.. پیسے تو روز ملتے ہیں، لیکن جب ایک خاص مقدار تک پہنچ جائے تو پھر نکال سکتے ہیں۔

4.. ویڈیوز صرف کھانے پکانے وغیرہ کی ہوتی ہے، کوئی فضول ویڈیوز نہیں ہوتیں۔

جواب… صورت مسئولہ میں ذکرکردہ معاملے کی فقہی حیثیت اجارہ کی ہے، لیکن اس معاملہ میں بعض ایسے مفاسد ہیں،جن کی وجہ سے یہ کام کرنا جائز نہیں:

1.. ویڈیوز میں جان دار کی تصویریں ہوتی ہیں،جاندار کی تصویر بنانا، دیکھنا ناجائز اور حرام ہے او راس پر پیسے لینا جائز نہیں ہے۔

2.. بعض اوقات ویڈیوز میں کسی غیر شرعی اور ناجائز امر کی ترویج کی گئی ہوتی ہے اور ویڈیوز میں کسی غیر شرعی اور ناجائز امر کی ترویج کرنا اوراس کو دیکھنا او رمزید یہ کہ اس پر پیسے لینا جائز نہیں ہے۔

3.. اس کام کو حاصل کرنے کے لیے انویسٹمنٹ ضروری ہے، اگر انویسٹمنٹ ہو گی تو کام ملے گا ، ورنہ نہیں، یہ شرط فاسد ہے، جس کی وجہ سے یہ معاملہ ناجائز ہے۔

4.. اجرت مخصوص مقدار سے کم ہونے کی صورت میں نکالنے پر قادر نہ ہونا ، یہ بھی شرط فاسد ہے ۔

5.. کسی اور کو اس کام میں شامل کرنے سے جو منافع ہوتا ہے، اگر وہ پہلے سے متعین ہو، تو درست ہے، لیکن جس شخص کو آپ نے شامل کیا ہے، اس کے واسطے سے جو لوگ شامل ہوں گے، ان کا جو منافع آپ کو ملے گا، وہ ناجائز ہے۔

لہٰذا صورت ِ مسئولہ میں ویڈیوز لائک کرنا، یا دوسرے لوگوں کو ویڈیوز لائک کرنے کے کام پر لگانا ناجائز اور حرام ہے اور اس کام سے جو آمدنی ہوتی ہے، وہ بھی ناجائز اور حرام ہے۔(173/181)

میراث میں بہنوں کو حصہ نہ دینے کی وعید

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے، ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں، میرے تینوں بھائیوں کا بھی انتقال ہو چکا ہے اور دو بہنیں حیات ہیں ، میرا تینوں بھائیوں کے ساتھ حصہ ہے، جو بھائیوں نے بھی نہیں دیا اور ابھی اس کے بچے بھی نہیں دے رہے ہیں، میں ابھی گاؤں سے آئی ہوں، میں نے تینوں کو بولا ہے کہ میرا جو حصہ بنتا ہے وہ مجھے دیا جائے، میں نے ان کو بولا ہے کہ میں نے آپ لوگوں کو بخشا نہیں ہے، مگر وہ نہیں دے رہے، خدا کے لیے میری مدد کی جائے، میں آپ کا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی اور آپ لوگوں کے لیے دعا گو رہوں گی۔

جواب… واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے میراث کے اندر بہنوں کا بھی حصہ مقرر کیا ہے اور نہ دینے پر سخت وعیدیں آئی ہیں، جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ ”اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو، یا اور کسی طریقے سے ظلم کیا ہو، تو آج ہی اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرالے، جس دن نہ دینار ہوں گے نہ درہم ، بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا، تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لیا جائے گا، او راگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا ، تو اس کے مظلوم ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی “ اور صحیح بخاری کی دوسری حدیث ہے کہ ”جس شخص نے ایک بالشت کے بقدر بھی کسی کی زمین ظلماً لے لی، تو قیامت کے دن سات زمینوں تک اس کا طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا“، چوں کہ میرا ث میں بہنوں کا بھی حق ہے اور نہ دینے میں ان کے ساتھ ظلم ہے، اس لیے اس معاملے میں احتیاط کرنا چاہیے، تاکہ الله تعالیٰ کی ناراضگی اور غصے سے بچا جاسکے۔(180/181)

بیوہ کی عدت اور اس کے گزارنے کا طریقہ

سوال… کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے، میں شادی کے سات ماہ بعدواپس اپنے میکے آگئی تھی، میری عمر45 سال اور شوہر کی عمر55 سال تھی،اب چار سال چھ ماہ سے میرا شوہر سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں تھا اور میں جاب کرتی ہوں، جاب میری ضرورت ہے، بتائیں کہ میری عدت ہے یا نہیں؟ اور کیا طریقہ کار ہو گا؟ طلاق نہیں ہوئی تھی۔

نیز شادی سے پہلے بھی جاب کرتی تھی، شادی کے بعد جاب چھوڑنے کے ارادہ سے چھ ماہ کی چھٹیاں لی تھیں، جب اچھی طرح دیکھ لیا کہ ہر معاملہ میں یہ شادی جھوٹ کی بنیاد پر ہوئی ہے اور شوہر کسی قسم کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل نہیں ہے تو میکے آکر دوبارہ جاب کر لی، جاب پر عبایا پہن کر رہتی ہوں، بتائیں کہ کس طرح عدت کرسکتی ہوں؟

دو سال سے ماہواریبھی رکیہوئیہے، ایک حکیم نے میرے علم میں لائے بغیر دوا دی تھی، بعد میں یہ بتایا کہ جب اپنے شوہر کے پاس جاؤگی تو حیض آنے کی دوا دے دوں گا، ان کی دوا کھانے کے بعد ماہواری رک گئی ہے۔

جواب… صورت ِ مسئولہ میں آپ پر چار ماہ دس دن کی عدت لازم ہو گئی، جس کی ابتداء شوہر کے انتقال کے فوراً بعد ہی ہو جاتی ہے، اگر آپ کے پاس اتنا نان ونفقہ ہو جو کفایت کر جائے، یا کوئی او راس کا انتظام کر دے، تو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے او راگر بقدر کفایت نان ونفقہ نہ ہواور کوئی اور انتظام کرنے والا بھی نہ ہو ، تو کسب ِ معاش کے لیے مخصوص اوقات( دن بھر او رشام کا کچھ حصہ ) میں بقدر ضرورت نکلنے کی اجازت ہے او رکام کی جگہ پر مردوں کے میل جول سے اجتناب کریں، حاجت پوری ہوتے ہی اپنی رہائش گاہ کی طرف لوٹ آئیں۔ (280/181)

عورت خلع کب لے سکتی ہے؟

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری زوجہ معمولی گھریلو تنازعات کی وجہ سے اپنے میکہ یعنی بہن ، بھائیوں او رماں کی باتوں میں آکر مجھ سے خلع مانگ رہی ہے، میرے دو چھوٹے بچے( جن میں سے ایک کی عمر 5 سال 3 ماہ اور دوسرے کی18 ماہ ہے) ان کو بھی اپنے ساتھ لے گئی ہے، میں اپنی زوجہ کا نان نفقہ اٹھا رہا ہوں او راپنے بچوں کی بھی کفالت کر رہا ہوں۔

مجھے خلع کی شرعی حیثیت بتائی جائے کہ آیا کن صورتوں میں عورت اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے؟ برائے مہربانی شرعی اعتبار سے میری راہ نمائی کی جائے۔

جواب… اسلامی تعلیمات کا اصل رخ یہ ہے کہ نکاح کا معاملہ ومعاہدہ عمر بھر کے لیے ہو، اس کے ٹوٹنے او رختم ہونے کی کبھی نوبت ہی نہ آئے، کیوں کہ جدائی کا اثر فریقین پر ہی نہیں پڑتا، بلکہ اس کی وجہ سے نسل واولاد کی تباہی وبربادی ہو جاتی ہے اور بعض اوقات خاندانوں اور قبیلوں میں فساد تک کی نوبت آجاتی ہے، کبھی کبھار فریقین ( میاں بیوی) میں سے کسی کو طبعی طور پر ایک دوسرے کی جانب سے کچھ ناگورای ہو جائے، تو خود کو سمجھا بجھا کر درگزر کر دینا چاہیے، نباہنا ضروری امر ہے، مردوں کو حضور صلی الله علیہ وسلم نے کئی طرح سے سمجھایا ہے اور نباہنے کا حکم دیا ہے۔اور عورتوں کو تعلیم دی ہے کہ طلاق کا سوال نہ اٹھائیں، نباہنے کی کوشش کریں، جب دو آدمی ایک ساتھ رہتے ہیں، تو کبھی کبھار کچھ ناگواری کی صورت سامنے آہی جاتی ہے، اس پر صبر کرنا چاہیے۔

لیکن بعض اوقات اس تعلق کو ختم کر دینا ہی طرفین کے لیے راحت و سلامتی کا باعث بن جاتا ہے، اسی لیے شریعت نے مرد ( شوہر) کو طلاق کا اختیار دیا ہے، تو عورت ( بیوی) کو بھی اس حق سے محروم نہیں رکھا کہ وہ شوہر کا ظلم وستم سہنے پر مجبورہی رہے، بلکہ اس کوبھی حق دیا ہے کہ اگر شوہر سے نباہ ممکن نہ ہو، تو عورت چند وجوہ کی وجہ سے خلع لے سکتی ہے، مثلاً: شوہر حقوق واجبہ ( نان ونفقہ، حق زوجیت ادا کرنے پر قادر نہ ہو، بیوی بچوں کے حقوق ادا نہ کر رہا ہو وغیرہ) ادا کرنے میں کوتاہی کرے، بے جاظلم وستم کرے، نباہ نہ ہو رہا ہو وغیرہ۔

خلع بھی نکاح اور دیگر شرعی معاملات کی طرح ایک عقد (معاملہ) ہے، جس میں فریقین (میاں بیوی) کی باہمی رضا مندی ضروری ہے، یک طرفہ خلع کا اعتبار نہیں، عورت کو خلع لینے کا حق حاصل ہے، لیکن بغیر کسی شرعی عذر کے عورت کا خلع لینا جائز نہیں، حدیث شریف میں ایسی عورتوں پر لعنت آئی ہے، جو بغیر کسی شرعی عذر کے خلع یا طلاق کا مطالبہ کرتی ہیں۔

چناں چہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”عن ثوبان رضي الله تعالیٰ عنہ: أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: أیما امرأة سألت زوجھا طلاقا من غیر بأس، فحرام علیھا رائحة الجنة․ (رواہ الترمذي)

ترجمہ:” حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو عورت بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے گی، تو اس عورت پر جنت کی خوش بو حرام ہے۔(314/181)