کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

idara letterhead universal2c

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

میت کی قضا نمازوں کا کفارہ ورثا ء کس طرح ادا کریں؟

سوال …کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: 1.. میری دادی وفات پا چکی ہے ،دو تین سال سے بیمار رہی اور بستر پر پڑی رہی ،گھر کے افراد نے اندازہ لگایا ہے کہ تقریبا ان کی دو سالوں کی نمازیں قضا ہو چکی ہیں، اور اب ورثاء اس کی قضا شدہ نمازوں کا کفارہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو اب دو سالوں کی قضا شدہ نمازوں کا کفارہ کتنا بنے گا؟

2.. کفارہ ادا کرتے وقت کون سے وقت کا اعتبار کیا جائے، اُس وقت قضا شدہ نمازوں کا یا اداءِ کفارہ کے وقت کا اعتبار کیا جائے؟

3.. اگر ورثاء بیک وقت تمام قضاء شدہ نمازوں کے کفارے کی ادائیگی کی استعداد نہیں رکھتے تو کیا مہینے یا سال کے حساب سے تھوڑا تھوڑا ادا کرسکتے ہیں یا نہیں؟

وضاحت پر معلوم ہواکہ مرحومہ آخری چھ ماہ ایسی حالت میں تھیں کہ اس وقت ان کے حواس اس قدر بھی باقی نہ تھے کہ وہ اشارہ کرکے نماز پڑھ سکتیں، حتی کہ وہ اپنے بیٹوں کو بھی نہیں پہچان سکتی تھیں، بول وبراز کا بھی پتا نہ چلتا تھا،برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔

جواب…1.. اگر کسی شخص کا انتقال ہو جائے اور اس نے انتقال سے پہلے اپنی فوت شدہ نمازوں کا کفارہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثاء پر کفارہ ادا کرنا واجب ہے، او راگر اس نے وصیت نہیں کی تو اس صورت میں ورثاء پر کفارہ ادا کرنا ضروری نہیں، پھر بھی اگر ورثاء اپنی ذاتی ملکیت سے یا تمام ورثاء (بشرطیکہ کوئی وارث نابالغ یا پاگل نہ ہو) کی رضا مندی سے مشترکہ ترکے سے کفاارہ ادا کریں تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ ادا کرنا بہتر ہے۔

ایک نماز کے کفارہ کی مقدار پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت ہے، اور وتر کومستقل نماز شمار کیا جائے گا، یعنی دن رات میں کل چھ نمازوں کا فدیہ بنے گا، جن نمازوں کے پڑھنے کا وقت پایا اور اس قدر حواس باقی رہے کہ اشارہ کرکے نماز پڑھ سکتی تھیں، لیکن پڑھی نہیں، تو ان نمازوں کا حساب لگا کر ہر نماز کے بدلے ایک کفارہ ادا کیا جائے اور جن نمازوں میں اس قدر حواس باقی نہ تھے کہ اشارہ کرکے نماز پڑھ سکے تو ان نمازوں کا کفارہ نہیں ہے۔

2.. کفارہ ادا کرتے وقت پونے دو کلوگندم کی جو قیمت ہو گی اس کا اعتبار ہو گا۔

3.. اگر ورثاء بیک وقت تمام قضاء شدہ نمازوں کا کفارہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، تو تھوڑا تھوڑا کرکے ادا کرسکتے ہیں، مگر اس میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ایک وقت میں ایک کفارے سے کم ادائیگی نہ ہو۔ (179/127-129)

کھیتی میں ہل چلاتے وقت ٹریکٹر ڈرائیورکا گانے اور نعتیں اونچی آواز میں چلانے کا حکم

سوال … کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ٹریکٹر کے ڈرائیور جب کھیتی میں ہل چلاتے ہیں تو اونچی آواز میں گانے چلاتے ہیں، علاقے والوں کو اس سے بہت تکلیف ہوتی ہے، جب انہیں منع کیا جاتا ہے تو اونچی آواز میں نعتیں چلاتے ہیں ، تو ایسے شخص کے بارے میں شریعت کا حکم کیا ہے؟

جواب… گانے سننا اور پھر اتنی اونچی آواز سے چلانا کہ دوسرے مسلمانوں کو تکلیف ہو، دوہرا گناہ ہے، اسی طرح نعتیں اتنی اونچی آواز سے چلانا کہ دوسرے مسلمانوں کو تکلیف ہو، یہ بھی گناہ ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ توبہ واستغفار کرکے اپنے اس فعل شنیع سے باز آجائے، اگر وہ باز نہیں آتا تو علاقے والوں کو چاہیے کہ کام کرنے کے لیے اس کو نہ بلائیں، کسی اور کو بلائیں، یہاں تک کہ وہ باز نہ آجائے۔(179/224)

میاں بیوی کی علیحدگی کے بعد نان ونفقہ کا حکم

سوال … زید اور فاطمہ کی شادی کے کچھ عرصہ بعد دونوں میں ناچاقی پیدا ہوئی جو کہ بڑھتی رہی ا ور بات مارپیٹ اور تشدد تک جاپہنچی ،جب گالم گلوچ اور زید کے تشدد نے زور پکڑ لیا تو آخری جھگڑے کے بعد زید نے فاطمہ کے والد کو بلوا کر فاطمہ کو میکے بھیج دیا، فاطمہ کے والدین جب ان حالات سے باخبر ہوئے تو انہوں نے خلع کے لیے عدالت سے رجوع کیا، عدالت نے زید اور فاطمہ کو سامنے بٹھا کر کچھ سوالات کیے اور بات نہ بن پائی تو تیسری یا چوتھی تاریخ میں عدالت نے دونوں سے طلاق نامے پر دستخط کرواکر علیحدہ کر دیا، اس دوران عدالتی کارروائی وغیرہ میں تقریبا تین ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔

اب فاطمہ کا زید سے مطالبہ ہے کہ اس کو چھ ماہ کا نان، نفقہ اور مہر ادا کیا جائے، سوال یہ ہے کہ آیا فاطمہ کا زید سے اس مدت کے نان نفقہ، اورمہر کا مطالبہ کرنا ٹھیک ہے؟ او رکیا زید یہ سب دینے کا پابند ہو گا؟

برائے کرم قرآن وسنت کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرماکر عندالله ماجور ہوں۔

جواب… سوال میں مذکورہ صورت حال میں مہر کی ادائیگی شوہر پر لازم ہے، اسی طرح علیحدگی کے بعد بیوی اگر عدت شوہر کے گھر پر گزار رہی ہے، تو عدت کا نان ، نفقہ بھی شوہر پر لازم ہے، شوہر اگر مطالبہ پر ادا نہیں کر رہا، تو بیوی کو حق ہے کہ پنچایت کے ذریعے حاصل کرے، باقی جو علیحدگی سے پہلے کانان، نفقہ شوہر نے نہیں دیا، تووہ اگر آپس میں پہلے کوئی متعین نان، نفقہ طے ہوا تھا، یا عدالت وپنچایت کے ذریعے طے ہوا تھا، تب تو شوہر پر وہ بھی لازم ہے، اور اگر آپس میں یا عدالت وپنچایت کے ذریعے طے نہیں ہوا تھا، یا بیوی نافرمان تھی، تو پھر وہ شوہر پر لازم نہیں ہے۔(179/246)

مالی امداد فنڈ برائے شہداء کی تقسیم کا طریقہ کار

سوال …کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام صاحبان اس مسئلہ کے متعلق کہ میرا بیٹا فرنٹیئر کور(F.C) میں نائب صوبیدار کے عہدے پر فائز تھے، ان کی شہادت ہو گئی ہے، بیٹے کے ورثاء میں والدہ، بیوہ ، تین بھائی اور دو بہنیں شامل ہیں، اور میں اپنے شہید بیٹے کی شہادت پر بڑے کربناک اور درد ناک حالت میں ہوں، ہم سارے ایک مشترکہ نظام کے تحت ایک گھر میں رہ رہے ہیں، حکومت پاکستان کی طرف سے شہداء کو کچھ فنڈ، مالی امداد، انعامات اور پینشن دی جاتی ہیں، ا ن کے بارے میں میرے کچھ سوالات ہیں، برائے کرم شریعت کی رو سے تفصیلی را ہنمائی فرمائیں:

1.. بیٹے کی شہادت کے بعد حکومت پاکستان میرے بیٹے کی تنخواہ ان کی بیوی کے نام پر بھیجتی ہے جو کہ 2024 تک اسی طرح سے جاری رہے گی، لیکن میرے بیٹے کی کوئی اولاد نہیں ہے او رمیری بہو میرے بیٹے کی پانچ سال منکوحہ رہی ہے، کیا یہ تنخواہ بیوہ کو ملنی چاہیے یا اس میں شہید کی ماں کا حصہ بھی ہے جو کہ ایک آنکھ کی بینائی اور دونوں کانوں کی سماعت سے محروم ہے؟

2.. حکومت پاکستان امداد برائے ادائیگی شہداء کے تحت کچھ رقم ادا کرے گی، اس رقم کی تفصیلات لف ہیں، یہ امداد بھی بیوہ کے نام حکومت جاری کر رہی ہے، کیا اس مالی امداد میں بھی والدہ جو کہ ایک آنکھ کی بینائی اور دونوں کانوں کی سماعت سے محروم ہے، کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اور بقیہ ورثاء کے حصے کے بارے میں تفصیلی راہ نمائی فرمائیں۔

3.. شہید کو بہادری کی وجہ سے کچھ نقد انعامات او رتمغہ دیا جاتا ہے جو حکومت پاکستان بیوہ کے نام پر جاری کرتی ہے، کیا ان نقد انعامات اور تمغہ میں والدہ کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ او رباقی ورثاء کے بارے میں تفصیلی راہ نمائی فرمائیں۔

4.. اگر بیوہ کے بچے ہوتے تو ان کی کفالت اور تعلیمی اخراجات اس پیکیج سے ہونے تھے، چوں کہ بیوہ کی کوئی اولاد نہیں ہے، اگر یہ بیوہ دوسری جگہ شادی کرے تو اس پیکیج سے اس کا دوسراشوہر مستفید ہوتا رہے گا، کیوں کہ شوہر اور بیوی کا ایک ہی معاملہ ہوتا ہے، تو اس صورت میں اس کی ماں کی کیا پوزیشن ہو گی جو کہ اپنے بیٹے کی شہادت سے کربناک اور درد ناک حالت میں ہے او رباقی ورثاء کی کیا پوزیشن ہو گی؟

5.. بیوہ کی عدت مکمل ہوگئی ہے اور وہ اپنے والدین کے گھر رہ رہی ہے ،کیا اس صورت میں وہ حق مہر اور شرائط نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہیں کہ نہیں؟

6.. میری بہو اپنی مرضی سے اپنے والدین کے گھر رہ رہی ہے، کیا اس صورت میں بہو کو میرے بیٹے کی وراثت جو میرے شوہر کی طرف سے ملی ہے، میں بہو کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟

جواب۔ 1..4… حکومت کی طرف سے شہداء کے اہل خانہ کو ملنے والی امداد، انعامات، پنشن او رتمغہ وغیرہ شہید کی ملکیت نہیں، بلکہ حکومت کی طرف سے عطیہ واحسان ہے، اس لیے اس میں میراث جار ی نہیں ہوگی، حکومت جس کو دے گی ، وہی اس کا مالک ہو گا۔

5.. شوہر کی وفات پر بیوہ اپنے مہر کا مطالبہ کرسکتی ہے ،اور شرائط نکاح کیا ہیں؟ ان کی تفصیلات معلوم ہونے پر ہی جواب دیا جاسکتا ہے۔

6.. آپ کے بیٹے کو جو وراثت آپ کے شوہر کی طرف سے ملی ہے، میت کی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اس میں اس کی بیوہ کا شرعاً چوتھائی حصہ بنتا ہے۔ (179/296)

گندم گاہنے کی اجرت گندم ہی سے دینے کا حکم

سوال … کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں گندم کی گہائی تھریشر سے ہوتی ہے، اور تھریشر والے کو اجرت اسی گہائے ہوئے گندم سے دی جاتی ہے، کیا یہ قفیز الطحان کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟ ہمارے ہاں اس کا تعامل ہو چکا ہے، کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب… صورت مسئولہ میں گندم گاہنے کے لیے تھریشر والے کو اجرت اسی گندم سے طے کرکے دینا قفیز الطحان کے زمرے میں آتا ہے، جو کہ شرعاً ممنوع ہے، جواز کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اجرت پیسوں کی صورت میں دی جائے، لیکن اگر تھریشر والا گندم ہی کے ذریعے اجرت لینے پر مصر ہو، تو پھرجواز کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ جتنا حصہ گندم کا بطور اجرت کے متعین ہوا ہے، اتنا حصہ گندم پہلے سے تھریشر والے کو دیا جائے، اور جواز کی ایک اور صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ زمین کا مالک تھریشر والے سے پہلے سے گندم کی متعین مقدار بطور اجرت طے کر لے، لیکن زمین کا مالک تھریشر والے سے یہ نہ کہے کہ آپ کی صاف کی ہوئی گندم ہی سے اجرت دوں گا، بلکہ انہیں کہہ دے کہ آپ کی اجرت اتنی مقدار گندم ہے، چاہے دوسری گندم سے دوں یا اسی سے دوں، بعد میں زمین کا مالک چاہے صاف کی ہوئی گندم سے اجرت دے یا دوسری گندم سے متعینہ مقدار بطور اجرت دے، دونوں جائز ہے۔(179/324)

نئے اسلامی سال کے موقع پر مبارک باد دینے کا حکم

سوال … کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے ذیل میں کہ کیا آج کے اس دور میں جب کہ نوجوان دین سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں اور غیر مسلموں کے طریقوں پر چل رہے ہیں اور عیسائیوں کے نئے سال پر لوگوں کو مبارک باد دے رہے ہیں، اگر اس نیت سے کوئی اسلامی نئے سال یعنی محرم میں اسلامی نئے سال کی مبارک باد دے تاکہ لوگ اسلامی سال کو پہچانیں، تو آپ حضرات کی اس کے متعلق کیا رائے ہے، کیا یہ بدعت ہو گی یا جائز؟قرآن وحدیث کی روشنی میں مفصل ومدلل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب… لوگوں کو دین کی پہچان اور دین کے احکام وشعائر، طوروطریق سے قریب کرنے کے لیے وہی طریقہ مفید وکار گر ثابت ہو گا، جو طریقہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اختیار کیا تھا، لہٰذا نئے طریقے سوچنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ اس بات کی فکر کی جائے کہ لوگ مسجد، مدرسہ، خانقاہ، تبلیغ، علماء اور اہل الله سے جڑیں، اس سے علم وعمل دونوں وجود میں آئیں گے۔

باقی قمری سال کے پہلے مہینے میں مبارک باد دینا اس کا ثبوت صحابہ رضی الله عنہم کی زندگی میں نہیں ملتا، پھر اس کو دین سمجھ کر کرنے سے یہ بدعت میں شمار ہو گا، اور اگر دین سمجھ کر نہ کیا جائے، تو رفتہ رفتہ بدعت کی صورت بننے کا اندیشہ ہے، لہٰذا اس سے احتراز کیا جائے۔

البتہ سال یا مہینے کے شروع میں حضرات صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم سے یہ دعا پڑھنا ثابت ہے:”اللھم أدخلہ علینا بالأمن والإیمان والسلامة والإسلام ورضوان من الرحمن وجوار من الشیطان“ (رواہ الطبراني في الأوسط وإسنادہ حسن․ (مجمع الزوائد:10/303) لہٰذا دوسری چیزوں میں پڑنے کے بجائے اس مبارک دعا کااہتمام کیا جائے۔(179/309)

لے پالک بچوں کے شناختی دستاویزات میں اصل ماں باپ کی جگہ پرورش کرنے والے کا نام لکھنا

سوال … کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کے دو لے پالک بچے ہیں، جو رائج فلاحی اداروں سے گود لیے گئے ہیں، ایک لڑکا ہے، ایک لڑکی ہے، اب یہ دونوں بچے جوانی کی حدود میں داخل ہو گئے ہیں، بلوغت کے بعد ان اصحاب میں شرعی پردے کا حکم بھی لگ چکا ، جو عملاً نہیں ہو رہا ہے، ولدیت وغیرہ میں زید نے اپنا او راپنی اہلیہ محترمہ کا نام لکھ رکھا ہے او رتمام سرکاری اور شناختی دستاویزات پر یہی نام لکھے چل رہے ہیں، ان سارے حالات میں معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ان ناموں کو خصوصاً ولدیت کو اسی طریقے سے چلانا ممکن ہے یا اس صورت حال کی تبدیلی شرعاً لازم ہے؟ بچوں کو اگر اب یہ بتایا جائے کہ تم اولاد نہیں ہو، غیرہو تو سارا نظام بگڑ سکتا ہے، بچے اوائل جوانی کے اس دو رمیں کوئی انتہائی جذباتی قدم، کوئی بڑانامناسب قدم بھی اٹھا سکتے ہیں، مطلب کوئی ناقابل تلافی نقصان کا خطرہ بھی موجود ہے، خصوصاً جب کہ بچوں کی مذہبی تربیت بھی بہت اچھی نہیں ہے۔

کیا اس خاندانی سلسلے اور ولدیت وغیرہ کو اسی طرح چلائے رکھنے کی ان حالات میں کوئی شرعی گنجائش، کوئی صورت موجود ہے؟ شریعت اسلامیہ کی روشنی میں اس سب صورت حال میں آپ کیا کرنے کا حکم فرماتے ہیں؟

جواب…واضح رہے کہ بچوں کی نسبت اصل ماں، باپ کی طرف کرنا لازم ہے، اور لے پالک بچوں پر حقیقی بچوں کے احکام جاری نہیں ہو سکتے، دوسری بات یہ ہے کہ جان بوجھ کرا پنے آپ کو والد کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرنے سے متعلق حدیث شریف میں سخت وعید بھی آئی ہے، لہٰذا شرعاً زید پر لازم ہے کہ تمام شناختی دستاویزات سے اپنے لے پالک بچوں کی ولدیت وغیرہ میں اپنا او راپنی اہلیہ محترمہ کا نام منسوخ کروا دے۔

البتہ پہلے ان کو نصیحت کی جائے اور کسی الله والے کی مجالس میں لے جایا جائے، تاکہ کچھ نہ کچھ مذہبی تربیت ہو جائے، پھر حکمت اور بصیرت کے ساتھ ان بچوں کو حقائق سے باخبر کر دیا جائے، امیدہے کہ اس کے بعد بچوں کی طرف سے مناسب رویہ ہی دیکھنے کو ملے گا۔(179/302)