کیا فرماتے ہیں علماء دین؟

کیا فرماتے ہیں علماء دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

ڈیجیٹل رؤیت سے خیار رؤیت ساقط ہو گا یا نہیں؟

سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل جس طرح آن لائن تصاویر ڈالی جاتی ہیں، مختلف جہتوں سے پروڈکٹ کو دکھاتے ہیں اور ویڈیو بھی لگا دیتے ہیں، اب اس ڈیجیٹل رؤیت/مشاہدہ/ معائنہ کو صرف اس بنیاد پر کلیتاً رد کرنا کہ یہ کھلی آنکھ سے کیا جانے والا معائنہ/ مشاہدہ نہیں ہے، لہٰذا اس میں اور بالکل بن دیکھی چیز خریدنے میں کوئی فرق نہیں ہے، یہ بات قابل فہم نہیں ہے! ایسی بیع کو بیع الغائب کہنا عرف کے بھی خلاف ہے او رامر واقعہ کے بھی خلاف ہے، کسی چیز کو بالکل دیکھے بغیر لینا اور تصاویر ویڈیو زوغیرہ دیکھ کر خریدنا واضح طور پر الگ الگ طریقہ سمجھا جاتا ہے، تو کیا ڈیجیٹل رؤیت( اسکرین پر مبیع کو دیکھ لینے) سے خیار ِ رؤیت ساقط ہو جائے گا؟ اگر مسئلہ میں کچھ تفصیل ہے تو وہ بھی ذکر کریں۔

جواب… واضح رہے کہ خیار رؤیت اُس وقت ساقط ہوتا ہے جب خریدی جانے والی چیز کا مشاہدہ اس طرح کر لیا جائے کہ اُس چیز کے مقصود ( جس نفع کے لیے وہ چیز بنائی گئی ہے ) کا علم ہو جائے۔

صورت مسئولہ میں چوں کہ موبائل کی اسکرین پر مبیع کا مشاہدہ اُس حالت میں نہیں کیا جاتا جس حالت میں وہ ( مبیع) حقیقةً موجود ہے، بلکہ اسکرین پر اُس کے حجم ( جسامت) اور حُسن ( خوب صورتی) وغیرہ کے اندر تبدیلی ہوتی ہے، چناں چہ موبائل کی اسکرین پر مبیع کو دیکھنا اُس کے مثل کو دیکھنا ہے، نہ کہ حقیقتاً اُس چیز کو دیکھنا ،لہٰذا موبائل کی اسکرین پر مبیع کو دیکھنے سے خیار رؤیت ساقط نہیں ہوگا۔(174/40)

شوہر کا اپنی بیوی پر شریعت کے موافق شرائط عائد کرنے کا حکم

سوال … کیا فرماتے ہیں مفیتان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک انتہائی عزیز دوست کی بیٹی (جو کہ عالمہ فاضلہ بھی ہے) کی شادی فوج کے ایک میجر صاحب سے تقریباً چار سال پہلے ہوئی، ان کی ایک بیٹی (تین سال) اور ایک بیٹا چند ماہ کا ہے، شادی کے بعد سے اب تک وقتاً فوقتاً میاں بیوی کے درمیان بیوی کی مختلف امور میں لاپروائی، فضول خرچی اور بے پردگی کی وجہ سے جھگڑا رہتا ہے، شوہر کی طرف سے ان امور کے بارے میں کچھ ترغیب وتنبیہ بھی جاری رہتی تھی، لیکن اب شوہر نے اپنے اور بیوی کے خاندان کے چند سمجھ دار افراد کے ساتھ بیٹھ کر کچھ شرائط مقرر کرنے کا کہا ہے جن کی پابندی وہ لڑکی پر لازم کرنا چاہتاہے، وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

1.. لڑکی اپنا کوئی ذاتی موبائل فون استعمال نہیں کرے گی۔

2.. سرکاری نوکر صرف باہر کے کام کرے گا او رگھر کے اندر صرف میری موجودگی میں آئے گا۔

3.. لڑکی کو میرے بارے میں کوئی شکایت ہو اور میرے ساتھ اس کا ذکرکرنے کے باوجود اگر حل نہ نکلے، تو دوسرے رشتے داروں کو بتانے کے بجائے میرے والدین سے رجوع کرے گی۔

4.. گھر سے باہر جانا اگر اشد ضروری ہو، تو مکمل شرعی پردے کے ساتھ جائے گی۔

5.. اپنے او رمیرے نامحرم رشتہ داروں سے مکمل شرعی پردہ کرے گی۔

6.. فضول خرچی اور لاپروائی کے معاملے میں ، میں اگر اسے الله تعالیٰ اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے دائرے میں کوئی بات کہوں، تو نافرمانی نہیں کرے گی۔

7.. میں اس کے جملہ شرعی حقوق ادا کرتے ہوئے اگر دوسری شادی کروں، تو اسے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

میرے عزیز دوست (جو کہ لڑکی کے والد ہیں) کی خواہش ہے کہ اس معاملے میں حضرات علمائے کرام کی راہ نمائی لینی چاہیے۔

1.. حضرت مفتی صاحب آپ سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ میں ہماری راہ نمائی فرمائیں۔

2.. یہ بھی بتا دیں کہ کیا یہ شرائط جو میجر صاحب نے مقرر کی ہیں شریعت محمدی صلی الله علیہ و سلم کے مطابق ہیں؟

3.. کیا شوہر کو ایسی شرئط بیوی پر لازم کرنے کا اختیار ہے؟

جواب… واضح رہے کہ میاں بیوی کا رشتہ انتہائی اہمیت کا حامل رشتہ ہے، بلکہ دراصل پورا خاندانی نظام ازدواجی رشتہ سے متعلق ہے،اسی سے خاندان کی تشکیل ہوتی ہے او رخاندان کا دائرہ وسیع ہوتا ہے، زوجین کے سلسلے میں شریعت کا عمومی نقطہ نظر یہ ہے کہ ان کے درمیان مالک او رمملوک اور آقا وباندی کی نسبت نہیں، بلکہ وہ ایک معاملہ کے دو فریق اور زندگی کے دو شریک ورفیق ہیں، البتہ قدرتی طور پر ان کی صلاحیت کار ایک دوسرے سے مختلف ہے، بعض صلاحیتیں مردوں میں ہیں جو عورتوں میں نہیں، اوربعض عورتوں میں ہیں،جن سے مرد محروم ہیں، اسی صلاحیت کے لحاظ سے اسلام نے دونوں کے دائرہ کار کو تقسیم کیا ہے کہ بیرون خانہ کی سرگرمیوں کو مرد انجام دیں اور اندروں خانہ کی سرگرمیاں بیوی سے متعلق ہوں، نیز شوہر کی حیثیت خاندان کے سربراہ او رمحافظ ومنتظم کی ہے، اسی کو قرآن مجید نے ”قوام“ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے، اس میں مرد کے لیے بھی عافیت ہے اور عورت کے لیے بھی، اور اسی میں خاندانی نظام کی بقاء ہے۔

مذکورہ بالا تمہید کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس طرح شوہر پر بیوی کے حقوق کا خیال رکھنا شرعاً لازم اور ضروری ہے، اسی طرح بیوی پر شوہر کے حقوق کا خیال رکھنا شرعاً لازم اور ضروری ہے، اور شوہر کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ بیوی پر شوہر کی اطاعت ، فرماں برداری اوراس کا حکم ماننا واجب ہے، لہٰذا سوال میں ذکر کردہ شرائط(جیسے بیوی کا نامحرم سے پردہ کرنا، ذاتی موبائل استعمال نہ کرنا، بغیر شرعی ضرورت کے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ جانا، شوہر کے دوسری شادی کرنے پر اعتراض نہ کرنا اور فضول خرچی نہ کرنا وغیرہ) کا ماننا بیوی پر لازم اور اس پر عمل کرنا واجب ہے، البتہ اگر بیوی ہفتہ میں ایک بار یا حسب ضرورت والدین کی ملاقات اور سال میں ایک بار یا بوقت ضرورت دوسرے محرم رشتہ داروں کی ملاقات کے لیے جانا چاہے، تو شوہر اس کو منع نہیں کرسکتا ہے، بلکہ یہ اس کا شرعی حق ہے، جس کی شریعت نے اجازت دی ہے۔(174/193)

قبر کھودنے کا افضل طریقہ، لحد میں کچی اینٹ کا استعمال، قبر میں پانی نکلنے اور گر جانے کا حکم، تدفین کے بعد قبر کے سرہانے اور پائینتی کی طرف تلاوت، شیرینی تقسیم کرنےاور اہل ِ میت کو اجرک دینے کا حکم

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں کہ:

1.. قبر کس طرح کی ہونی چاہیے ،شق یا لحد؟

2.. لحد میں کون سی اینٹیں لگائی جائیں، کچی یا پکی ؟

3.. اگر قبر سے پانی نکل آئے تو اس میں پکی اینٹیں رکھ کر میت کو دفن کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

4.. چند قبریں کھودی گئیں تمام سے پانی نکل آیا،دوسرا قبرستان دور ہے، تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے ؟ نیز یہ بھی بتا دیں کہ دوسرا قبرستان کتنا دور ہونے کی صورت میں اسی قبرستان میں دفن کرنے کی کیا صورت ہے؟

5.. میت دفن کرنے کے بعد قبر کے گر جانے کی صورت میں کیا حکم ہے؟ اسی کے اوپر مٹی ڈالی جائے، یامیت نکال کر پھر دوسری مرتبہ یا دوسری قبر کھود کر اس میں دفن کیا جائے؟

6.. دفن کرنے کے بعد میت کے سرہانے اور پاؤں کی طرف سے کھڑے ہو کر تلاوت کرنے کا کیا حکم ہے؟ نیز یہ بھی بتا دیں کہ اگر کوئی تلاوت کرے تو کن کن آیات یا سورتوں کی تلاوت کرسکتا ہے؟

7.. دفن کرنے کے بعد بعض حضرات قبر پر گول دائرے کی شکل میں کھڑے ہو کر دعا مانگتے ہیں، بعض حضرات قبرستان سے باہر نکل کر دعا مانگتے ہیں، شرعاً دونوں کا کیا حکم ہے؟

8.. دفن کرنے اور دعا کے بعد کچھ چیزیں، مثلاً: شیرینی، ٹافیاں وغیرہ جنازہ کے ساتھ آنے والے لوگوں میں بانٹی جاتی ہیں، ان کا شرعاً کیا حکم ہے؟

9.. ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ میت کے اوپر کچھ اجرک دوپٹہ وغیرہ ڈالے جاتے ہیں او رجنازہ میں آنے والے حضرات اپنے ساتھ اجرک دوپٹہ وغیرہ کو کسی اخبار یا شاپر وغیرہ میں لپیٹ کر آتے ہیں، پھر میت کی چارپائی وغیرہ پر رکھتے ہیں او رمیت کو قبر میں رکھنے کے بعد مٹی ڈالنے سے پہلے کفن کے علاوہ اجرک دوپٹہ وغیرہ نکال دیے جاتے ہیں ، اسی طرح تعزیت پر آنے والے حضرات ان چیزوں کو اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں، میت کے ورثاء کو دیتے ہیں، شرعاً ان کا کیا حکم ہے؟ تفصیل کے ساتھ بتائیں، نیز یہ اشیاء ورثاء کو دینے کے بعد او رمیت کو دفن کرنے کے بعد ورثاء اپنے قبضہ میں رکھ لیتے ہیں، ان تمام کا شرعاً کیا حکم ہے؟ تفصیل کے ساتھ جوابات عنایت فرمائیں۔

جواب…1.. قبر کھودنے میں افضل طریقہ لحد ہے، اگر زمین نرم ہو، تو شق بنا دی جائے۔

2.. کچی اینٹیں لگا دی جائیں۔

4،3.. قبر میں پکی اینٹوں کا استعمال درست نہیں، تمام قبروں سے پانی نکلنے کی صورت میں میت کو قریب ترین کسی دوسرے قبرستان میں دفنانے کی صورت اختیار کی جائے۔

5.. قبر کے گر جانے کی صورت میں مٹی ڈال کر اس کو ہموار کر دیا جائے، لہٰذا صورت مسئولہ میں میت کو نکال کر دوسری جگہ منتقل کرنا جائز نہیں۔

6.. تدفین کے بعد قبر کے سرہانے اور پاؤں کی طرف کھڑے ہو کر تلاوت کرنا مستحب ہے، لہٰذا قبر کے سرہانے سورة البقرة کا ابتدائی حصہ(الم سے مفلحون تک) پاؤ ں کی طرف سورة البقرة کا آخری حصہ (اٰمن الرسول سے آخرتک ) پڑھا جائے، البتہ اسے لازم نہ سمجھا جائے اور نہ کرنے والے پر نکیر بھی نہ کی جائے۔

7.. میت کی تدفین کے بعد قبرستان کے احاطہ سے باہر نکل کر وہاں اجتماعی دعا کرنا ثابت نہیں، البتہ انفرادی طور پر دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں، قبرستان کے اندر ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، گول دائرے کی شکل میں دعا کرنے کی بھی گنجائش ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ قبلہ رو ہو کر دعا کی جائے۔

9،8.. مذکورہ افعال کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں، یہ افعال محض جہالت ہیں، ان کو چھوڑنا لازم ہے۔(174/79-72)

بڑے ٹینک میں گندا او رگٹھر کا پانی آنا اور پھر اسی پانی سے وضو، غسل اور دیگر ضروریات زندگی پوری کرنا

سوال … کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے پورے کراچی میں، بالخصوص ہمارے کمپلیکس میں زیر زمین پانی کے ٹینک میں پڑوس کے کمپلیکس سے مسلسل گندا پانی شامل ہو رہا ہے، 120 فلیٹس کو پینے اور ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے اسی ٹینک سے پانی فراہم کیا جاتا ہے، ٹینک کی مرمت میں 25 روز مزید لگ جائیں گے، اب ہم شدید پریشانی کا شکار ہیں، پینے کے لیے 20 لیٹر کا کین 70 روپے میں دست یاب ہے، کھانا پکانے اور پینے کے لیے ہم مجبوراً اتنا مہنگا پانی خرید رہے ہیں، مگر باتھ روم، کپڑے دھونا اورنہانا اسی پانی سے کیا جارہا ہے، جو کہ ہمار ی مجبوری ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر اسی پانی سے نہانے کے بعد مسجد جاکر تازہ وضو کر لیا، تو نماز کی ادائیگی شریعت کے مطابق ہو جائے گی؟ نہانے اورکپڑے دھونے کے لیے کوئی او رجگہ نہیں ہے، ، ناہی اتنا زیادہ پانی خریدا جاسکتا ہے ، مہربانی فرما کر راہ نمائی فرما دیجیے۔ جزاکم الله خیراً واحسن الجزاء فی الدارین․

جواب… اگر پانی کے تین اوصاف (رنگ، بو اور ذائقہ) میں سے کوئی ایک وصف نجاست گرنے کی وجہ سے تبدیل ہوجائے، تو وہ پانی ناپاک شمار ہو گا اور اس سے کسی قسم کی بھی طہارت حاصل نہیں ہوگی، اگرچہ اس کی مقدار کتنی زیادہ کیوں نہ ہو، لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر پانی کے تین اوصاف ( رنگ ، بو اور ذائقہ) میں سے کوئی وصف تبدیل ہو گیا ہو، تو وہ پانی ناپاک شمار ہو گا اور اس پانی سے وضو کرنا، نہانا او رکپڑے وغیرہ دھونے کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا، بصورت دیگر جائز ہو گا۔(174/214)

نرینہ بالغ اولاد کا خرچ والد پر لازم نہیں

سوال … کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا بیٹا زید جس کی عمر آج کے دن 19 سال گیارہ ماہ اور پندرہ دن ہے اور جس کا نمبر میری اولادوں میں تیسرا ہے، اس سے بڑے میرے دو بیٹے اور ہیں جن کی عمریں بالترتیب22 اور24 سال ہیں۔

میر ے اس بیٹے زید کو شادی کی جلدی تھی، ہم نے اس کو سمجھایا کہ تم سے بڑے دو بھائی اور ہیں، لیکن وہ نہیں مانا، لہٰذا ہم نے اس کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے رشتے کا بندوبست کیا اور پھر منگنی اور 14فروری2022ء کو نکاح بھی کروا دیا۔ لیکن رخصتی کا وقت ہم بڑوں میں دو سال بعد کا طے پایا۔

اب جب کہ اس کے نکاح کو صرف چھ ماہ ہی گزرے ہیں وہ مجھ پر او راپنی سسرال والوں پر رخصتی کے لیے بہت دباؤ ڈالتا ہے اور پریشان کرتا ہے ،میں خود کرائے کے گھر میں رہتا ہوں، میرے اس بیٹے کے علاوہ چار بچے اور ہیں ، جو کہ فرماں برادر ہیں، لیکن اس بیٹے نے نافرمانی کی حد کر رکھی ہے۔

میں نے اسے کہا کہ فروری 2023ء تک رخصتی کا ارادہ ملتوی کر دو، اس دوران تمہارے پاس کچھ رقم بھی جمع ہو جائے گی تو سہولت سے رخصتی کر لینا، لیکن وہ نہیں مانتا ،کہتا ہے کہ میں گھر سے نکل جاؤں گا اور کرائے کا گھر لے لوں گا ،لیکن رخصتی کا وقت ستمبر2022ء سے آگے نہیں کرسکتا، اس کے بعد میرے جو بھی حالات ہوں اس کا میں خود ذمہ دار ہوں او راپنی مرضی سے آپ کا گھر چھوڑ کر جارہا ہوں۔

میرے بیٹے نے آج تک اپنی کمائی کا ایک پیسہ بھی نہ گھر پر اور نہ ہی ماں باپ پر خرچ کیا اور آج تک اس کے معاملات میں جو خرچہ بھی ہوا وہ میری جیب سے ہوا، جس میں اس کی منگنی، نکاح کے اخراجات بھی شامل ہیں، اس صورت حال میں مزید اس کے معاملات کا بوجھ میں نہیں اٹھا سکتا، کیوں کہ میرے اور بچے بھی ہیں جن کی ذمہ داری میرے اوپر ہے اور جو میری فرماں بر داری بھی کرتے ہیں۔

لہٰذا مفتی حضرات میری راہ نمائی فرمائیں کہ موجودہ حالات میں میں اپنے اس بیٹے کے معاملات کا کس حد تک ذمہ دار ہوں؟ وہ اپنے وقت پر رخصتی کے لیے اپنے ماں باپ او رگھر والوں کو چھوڑنے پر بھی آمادہ ہے، اس صورت حال میں میرا کیا کردار اور عمل ہونا چاہیے؟ شریعت کے مطابق میری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب…بالغ نرینہ اولاد جب کمانے پر خود قادر ہو جائے ، تو والد پر ان کی کوئی ذمہ داری لازم نہیں ہوتی، لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ پر آپ کے بیٹے کی ذمہ داری عائد نہیں ہے، او راب چوں کہ وہ خو دکمانے پر قادر ہے اوراپنی بیوی کو نان ونفقہ اور رہائش کے انتظام پر بھی راضی ہے، تو آپ اس کے لیے رخصتی کا بندوبست کریں، تاکہ وہ گناہوں سے بچ جائے، نیز اولاد پر ہر حال میں لازم ہے کہ ہر جائز کام میں والدین کی اطاعت کرے او ران کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرے او رنافرمانی سے بچے۔(174/216)

کیش کاؤنٹر پر موجود ملازم کے پاس رقم کم یا زیادہ ہونے کا حکم

سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام درجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہسپتال کے کیش کاؤنٹر پر کام کرنے والے ملازمین کے بارے میں انتظامیہ کا ایک ضابطہ ہے جس کے بارے میں شرعی راہ نمائی در کار ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ کیش کاؤنٹر پر کبھی رش کی وجہ سے نقدی کے لین دین اور حساب میں غلطی ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے یومیہ ہونے والے ٹرانزیکشن کے مقابلہ میں کاؤنٹر میں موجود نقدی کم یا زیادہ ملتی ہے، واضح رہے کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے، نیز رقم بھی بہت زیادہ نہیں ہوتی۔

اب یہاں ضابطہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں اس مخصوص کیش کاؤنٹر پر کام کرنے والا ملازم اس کمی زیادتی کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، نقدی کم ہو تو ملازم اپنی جیب سے اسے پوری کرے گا، زیادہ ہو تو وہ ہسپتال میں جمع ہو جائے گی۔
انتظامیہ کے لیے مذکورہ ضابطہ بنانا شرعاً درست ہے یا نہیں؟ اگر نہیں، تو اس مسئلہ کا از روئے شریعت کیا حل نکالا جاسکتا ہے؟

جواب…واضح رہے کہ کیش کاؤنٹر پر کام کرنے والے ملازم کی حیثیت اجیر خاص کی ہے، اور اجیر خاص بغیر تعدی (غفلت، زیادتی اور کوتاہی) کے ضامن نہیں بنتا، لہٰذا صورت مسئولہ میں چوں کہ ملازمین کی طرف سے تعدی نہیں ہے، اس لیے ان کو کمی کا ضامن بنانا درست نہیں۔

رہا مسئلہ رقم کی زیادتی کا جو غلطی سے وصول کی گئی، تو وہ لقطہ کے حکم میں ہے، اس کو بطور امانت ہسپتال میں جمع کروانا درست ہے، چوں کہ زائد رقم کے مالک کا پتہ لگانا مشکل ہے، اس لیے اس زائد رقم کو ان کی طرف سے ثواب کی نیت کرتے ہوئے کسی غریب پر صدقہ کیا جائے۔(175/34)

رمضان کے مہینے، یا جمعہ کے دن انتقال کرنے والے کے متعلق قبر میں سوال وجواب اور عذاب کا حکم

سوال … کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر ایک آدمی رمضان میں فوت ہو جائے، یا رمضان کے مہینہ کے علاوہ کسی اور مہینہ میں جمعہ کے دن فوت ہو جائے، تو آیا اس آدمی سے قیامت تک سوال وجواب ہوں گے یا نہیں ؟ اور اس کو قیامت تک عذاب وغیرہ ہو گا یا نہیں؟ جیسا کہ عرف عام میں یہ مشہور ہے کہ اس کو قیامت تک عذاب نہیں ہوگا۔

جواب…کسی مسلمان شخص کا رمضان کے مہینے میں یا جمعہ کے دن انتقال ہوجائے، تو اس کے متعلق احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے قبر میں نہ تو سوال ہو گا اور نہ ہی اس کو عذاب ہو گا، اور امید یہ ہے کہ ان شاء الله! ا لله تعالیٰ کی جانب سے جب ایک مرتبہ اس سے عذاب اٹھ گیا، تو دوبارہ قیامت تک اس کو عذاب نہیں دیا جائے گا، البتہ کافر کے متعلق دو قول منقول ہیں، ایک یہ کہ رمضان او رجمعہ میں اس سے بھی عذاب اٹھا لیا جاتا ہے، اس کے علاوہ اس کو عذاب دیا جاتا ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ اس کو ہمیشہ عذاب دیا جائے گا، نصوص کی روشنی میں یہی قول راجح معلوم ہوتا ہے۔(175/90)