کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

اگر میاں بیوی میں نباہ نہ ہوسکتا ہو تو کیا کریں؟
سوال… کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان ِ کرام مندرجہ ذیل صورت مسئلہ کے بارے میں کہ اگر میاں بیوی میں باہم ایسی رنجشیں چل رہی ہوں کہ جن کی وجہ سے نباہ نہ ہو سکتا ہے، ایسی صورت میں شریعت مطہرہ کی جانب سے ان کے لیے کیا حکم ہے؟ برائے کرم راہ نمائی فرمائیں۔

جواب… واضح رہے کہ شریعت نے نکاح کے عقد کو عمر بھر کے لیے مقرر کیا ہے، لہٰذا میاں، بیوی کے درمیان اگر کوئی ایسی بات ہو جائے جو دونوں میں سے کسی ایک یادونوں کو ناگوار ہو، تو درگزر کر دینا چاہیے، لیکن پھر بھی اگر کسی کی طرف سے حقوق کی ادائیگی نہ ہو رہی ہو، تو جس کی طرف سے کمی ہو اُسے نصیحت کی جائے، میاں، بیوی کے حقوق سمجھائے جائیں اورپھر فریقین کی طرف سے خاندان کے بڑے بیٹھ کر معاملہ کو حل کریں، اس کے بعد بھی اگر میاں، بیوی میں ایسی رنجشیں ہوں جن کی وجہ سے نباہ نہ ہوسکتا ہو، تو شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کو اُس کی پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے دے، شوہر کا طلاق نہ دینے کی صورت میں خاندان کے بڑے افراد بیٹھ کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کریں، یا پھر عورت مال وغیرہ دے کر خلع حاصل کر لے (242/176)

یوٹیوب، فیس بک اور ٹک ٹاک پر چینلز اور پیج بنا کر پیسے کمانے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل بہت سے لوگ یوٹیوب(Youtube)، فیس بک (Facebook) اور ٹک ٹاک(Tiktok) سے فنی ویڈیوز یا بیانات وغیرہ مختلف قسم کی ویڈیوز کے ذریعے چینلز اور پیجز وغیرہ چلاتے ہیں او راس کے ذریعہ وہ پیسے کماتے ہیں، کیا یہ پیسے ان لوگوں کے لیے جائز ہیں یا نہیں؟

جواب… یوٹیوب (Youtube)، فیس بک (Facebook) اور ٹک ٹاک(Tiktok) سے فنی ویڈیوز اپ لوڈ کرکے چینل یا پیج بنا کر اس کے ذریعے پیسے کمانا درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:

1.. جاندار کی تصویر یا وہ ویڈیو جس میں جاندار کی تصویر ہوتی ہے، اس کو اپ لوڈ کرنا۔

2.. اپنے چینل سے مختلف غیر شرعی او رمیوزک ، موسیقی والے اشتہارات چلانے کی اجازت دینا، گویا گناہ کے کاموں پر تعاون ہے، جو کہ معصیت ہے۔

3.. حرام او رناجائز چیزوں کی تشہیر کا ذریعہ بننا لازم آتا ہے۔

4.. شرعاً اس معاملے کی صورت اجارہ کی ہے، اس میں اجرت مجہول ہے، اس لیے کہ ویڈیوز اپ لوڈ کرنے یا اشتہارات لگانے پر جو پیسے ملیں گے، وہ متعین نہیں ہیں، بلکہ دیکھنے والوں کی تعداد پر معلّق ہے، لہٰذا یہ معاہدہ شرعاً درست نہیں ہے۔(162/176)

اسٹیکر کی طرح اترنے والی مہندی پر وضو کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرح متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ پہلے جو کون مہندی آتی تھی اور مستورات ہاتھوں پر لگاتی تھیں، ہاتھوں پر لگی مہندی اس طرح ختم ہوتی تھی کہ اس کا رنگ روز بروز ہلکا ہوتا رہتا تھا او رکچھ عرصہ کے بعد وہ بالکل ختم ہو جاتی تھی۔اور اب جو مہندی آرہی ہے اسے جب لگایا جاتا ہے تو وہ اسٹیکر کی طرح اترتی ہے ایک ہی مرتبہ میں بھی ہلکازردرنگ رہ جاتا ہے جو آہستہ آہستہ ختم ہوتا ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ اب جو مہندی آرہی ہے، اس کے استعمال کے بعد اس پر وضو کرنا درست ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو پہلے جتنی نمازیں پڑھیں اس کا کیا حکم ہے؟ او رجتنی مرتبہ قرآن کی تلاوت کی اس کا کیا حکم ہے؟

جواب… واضح رہے کہ وضو میں جن اعضاء کا دھونا ضروری ہے، اگر ان پر ایسی چیز لگی ہو جو پانی کوجسم تک پہنچنے سے روکتی ہے، تو اس عضو پر پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے وضو نہیں ہوتا او راگر وہ چیز کھال تک پانی پہنچنے سے رکاوٹ نہیں بنتی، تو وضو درست ہو جاتا ہے، لہٰذا مہندی استعمال کرنے کے بعد اگر پانی جسم کی کھال تک پہنچتا ہو، تو مہندی لگانے کے بعد وضو کرنے سے وضو ہو جائے گا ،او راگر مہند ی لگانے کی وجہ سے پانی جسم تک نہ پہنچتا ہو، تو مہندی لگانے کے بعد وضو درست نہیں ہو گا اور اب جو مہندی آرہی ہے، اس کے بارے میں بھی اصول یہی ہے، لیکن عام طور پر مشہور یہ ہے کہ اب کی مہندیوں میں کیمیکل ہوتا ہے، کیمیکل کی وجہ سے ممکن ہے کہ مہندی کی تہہ جمے او رپانی بدن تک نہ پہنچے ،اور یہ بھی ممکن ہے کہ کیمیکل کی شدت کی وجہ سے انسانی کھال باریک چھلکے کی شکل میں بدن سے الگ ہو جائے اور کوئی تہہ نہ جمے، پہلی صورت میں و ضو نہیں ہوتا جب کہ دوسری صورت میں وضو ہو جاتا ہے۔

اس لیے مہندی بیچنے یا بنانے والوں سے اس بارے میں معلوم کر لیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے، تاہم بنانے والوں کوچاہیے کہ ایسی مہندی بنانے سے اجتناب کریں، تاکہ لوگوں کی نمازیں ضائع نہ ہو ں، اور اس کے استعمال سے بھی بچا جائے، تاکہ طہارت او رعدم ِ طہارت کے مسائل میں کوئی تشویش نہ رہے۔(85/176)

نکاح اور خلوت صحیحہ کے بعد مہر کا حکم اور بیوہ کو دیور کے بیٹے سے نکاح پرمجبور کرنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے اپنے بھائی عمرو کا نکاح بکرکی بیٹی ہندہ سے کیا، ایجاب وقبول کے بعد مہر مسمی آدھا ادا کر دیا گیا اور رخصتی کی مدت ایک سال متعین ہوئی، لیکن چار سال کا عرصہ گزر،ارخصتی نہ ہوئی ،ان چار سالوں کے درمیان خلوت صحیحہ بھی ہوئی ہے او رعمرو یعنی شوہر کا انتقال بھی ہو گیا ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ شوہر کا بھائی بکر سے کہتا ہے کہ ادا شدہ مہر واپس کرو،یا اپنی بیٹی کا نکاح میرے بیٹے سے کرو، تو اس کے لیے نہ بکر راضی ہے اور نہ ہندہ نکاح ثانی کے لیے راضی ہے، تو مہر با نی فرماکر راہ نمائی فرمائیں کہ مہر کا واپس کرنا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب… واضح رہے کہ عقد نکاح کے بعد شوہر کے انتقال کی صورت میں، اسی طرح خلوت صحیح کے بعد بھی مرد پر عورت کا مکمل مہر ادا کرنا لازم اور ضروری ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں (مرحوم) شوہر پر ہندہ کامہر پورا ادا کرنا لازم تھا، اب چوں کہ ان کا انتقا ل ہوگیا، اس لیے اس کے ترکے میں سے بقیہ نصف مہر کا ادا کرنا مرحوم کے ورثاء پر لازم ہے، اور مرحوم کی بیوہ سے ادا شدہ نصف مہر کی واپسی کا مطالبہ جائز نہیں، نیر ہندہ عمر وکی جائیداد میں ( اگر اس کی کوئی جائیداد ہو ) آدھی جائیداد کی مستحق ہے، اور شوہر مرحوم کے بھائی کا ہندہ کو اپنے بیٹے کے ساتھ نکاح پر مجبور کرنا بہرحال ناجائز ہے۔ (64/176)

بغیر کسی وجہ علماء کو بُرا بھلا کہنے اور ایسی حرکت کرنے والے کے ساتھ معاشرتی تعلق رکھنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے دوستوں میں سے ایک دوست علماء کرام کو فحش او رنازیباں گالیا دیتا ہے او ران پر طنز او رمذاق کیا کرتا ہے، بطور خاص افغانستان کے ان علماء کرام کو جو حال ہی میں اقتدار میں آئے ہیں، ان کے ساتھ ذاتی دشمنی نہ ہونے کے باوجود انہیں فحش گالیاں دیتاہے اور وہاں کے اسلامی نظام کو برا بھلا کہتا ہے۔

دوستوں میں سے ایک دوست نے اس وجہ سے اس شخص سے تعلق ختم کر دیا ہے، جب کہ دیگر دوست کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے تعلق ختم نہیں کرنا چاہیے، سوال یہ ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ معاشرتی تعلق ختم کرنا، ان کی مجالس میں جانا بند کر دینا شرعاً جائز ہے؟ اور ایسے شخص کا شرعاً حکم کیا ہے جو علماء حق او راسلامی نظام کو اعلانیہ گالیاں او ربُرا بھلا کہتا ہو؟

جواب… الله تعالیٰ کے ہاں علمائے حق کا بہت مقام ہے، نبی کریم صلی الله علی وسلم نے علماء کو انبیاء علیہم السلام کا وراث قرار دیا ہے، قرآن وحدیث میں عالم کا مقام نمایاں ہے، صورت مسئولہ میں علماء… حق سے بلاوجہ بغض او رحسد رکھنا یقینا بہت بڑا جرم ہے، اگر کوئی شخص بلاکسی دنیوی واخروی سبب کے کسی عالم کی توہین کرتا ہے او راسے گالیاں دیتا ہے، تو اس کا ایمان سلامت نہیں رہ سکتا۔

اگر دنیوی وجوہات کی وجہ سے توہین کرتا ہے، تو گناہ گار اورفاسق ہے اور بلاوجہ ٴ شرعی کوئی ایسی حرکت کرتا ہے اور قطع تعلق سے اس کی اصلاح کی توقع ہو ، تو قطع تعلق کر دیا جائے۔

بعداز تقسیم جوائنٹ فیملی میں کیے گئے خرچ کے مطالبے کا حکم
سوال…میرے والد صاحب نے دو شادیاں کی تھیں، پہلی بیوی سے تین بچے ( دو بیٹے اور ایک بیٹی) ہیں، دوسری بیوی سے بھی تین بچے (دو بیٹے اور ایک بیٹی) ہیں، میرے والد نے وراثت میں 50 کنال زمین اور ایک مکان چھوڑا ہے، ہماری زمین کرایہ ( اجارہ ) پر دی ہوئی تھی ،میں والد صاحب کی پہلی بیوی کا بیٹا ہوں، مجھ سے بڑا ایک بھائی ہے، میرا دوسرا نمبر ہے اور باقی بہن بھائی مجھ سے چھوٹے ہیں، میں والد کی موجودگی میں مزدوری کرتا تھا، بڑے بھائی نے والد کی زندگی سے لے کر آج تک کبھی مزدوری نہیں کی، میری مزدوری اورگھر کے کرایے کے تمام پیسے گھریلو اخراجات پرہی خرچ ہو جاتے تھے، پھر والد کی وفات کے بعد ہم دونوں ماؤں کی اولاد اکٹھے رہنے لگے، والد کی وفات کے وقت ایک چھوٹی بہن تھی جس کی عمر 10 سال تھی، باقی پانچوں (4 بھائی اور ایک بہن ) بالغ تھے، والد صاحب کی وفات کے بعد 2004ء سے بہن بھائیوں کی شادیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ہر شادی پر تقریباً چار لاکھ روپے خرچ ہوئے ، سوائے ایک چھوٹے بھائی کے جس کی شادی کے صرف ولیمہ کا خرچہ ہوا، ہم باقی پانچوں بھائیوں، بہنوں کے لیے علیحدہ علیحدہ چھ چھ تولہ زیورات بنائے گے تھے، اور اس دوران گھر کی ریپرنگ کا کام دو مرتبہ ہوا، جس پر تقریباً آٹھ لاکھ پچاس ہزار روپے خرچ ہوئے، والد صاحب کی وفات کے بعد جس کمپنی میں والد صاحب مزدوری کرتے تھے اُس کمپنی نے انشورنس کے تین لاکھ روپے بھیجے تھے، دونوں چھوٹے بھائیوں نے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اپنی نوکری کے پیسوں سے ایک روپیہ بھی گھر میں نہیں دیا، والد کی وفات کے بعد سے لے کر سن 2020ء تک پہلے بھائیوں کی، او رپھر اُن کی شادی کے بعد اُن کی بیویوں کی بھی قربانی کرتا رہا ، پھر 2020ء میں ہم نے والد کی میراث (زمین، مکان) آپس میں تقسیم کر دی، والد کی وفات 1997ء سے لے کر 2020ء تک 23 سالہ اخراجات آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں، میں خدا کو حاضر ناظر جان کر سچ کہتا ہوں، اس کے باوجود بھی میرے چھوٹے دو بھائیوں کا مطالبہ رہتا ہے کہ ہماری زمین کا کرایہ آپ کے پاس ہے، اب آپ فرما دیں کہ میں نے ان کو کچھ ادا کرنا ہے یا نہیں ؟شکریہ۔

جواب… واضح رہے کہ مشترکہ گھر میں رہتے ہوئے گھر کی آمدن سب کا مشترکہ مال ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں جب تک پورا گھرانہ مشترک رہا ہو، اس وقت تک گھر کا خرچہ بھی مشترک مال سے شمار ہو گا، اگر جائیداد کی تقسیم کے بعد مشترک مال میں سے کچھ باقی ہو، تو اس کو حصص شرعیہ کے مطابق برابرسر ابرتقسیم کرنا ضروری ہے ،او راگر مشترکہ مال میں سے کچھ باقی نہ ہو اور اس کے باوجودبھائی دعوی کر رہے ہوں کہ مال مشترک کی رقم آپ کے پاس ہے، تو ان پر لازم ہے کہ اس کو گواہوں سے ثابت کریں ،اوراگر گواہ موجود نہ ہوں ، تو آپ پر قسم لازم آئے گی، تاہم جو صورت حال آپ نے سوال میں لکھی ہے، اس کے اعتبار سے زمین کا جو کرایہ آتا رہا وہ گھر کے اخراجات، بہن بھائیوں کی شادیوں او رگھر کی مرمت میں خرچ ہوا، اس لیے ان کو کسی چیز کا مطالبہ اخلاقی طور پر نہیں کرنا چاہیے۔ (219/176)

سیونگ اکاؤنٹ او رکرنٹ اکاؤنٹ کا حکم اور مضاربت کی تعریف بمع شرائط
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سیونگ اکاؤنٹ او رکرنٹ اکاؤنٹ بینک میں کھلوانا جائز ہے یا نہیں؟ اورمضاربت کیا ہوتی ہے؟

جواب… بینک اکاؤنٹ میں رقم رکھوانا قرض کی حیثیت رکھتا ہے اور قرض پر نفع لینا سود اور حرام ہے، کرنٹ اکاؤنٹ میں چوں کہ نفع نہیں دیا جاتا، لہٰذا ضرورت کے وقت کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کی گنجائش ہے، جب کہ سیونگ اکاؤنٹ میں نفع دیا جاتا ہے، جو کہ سود ہے، لہٰذا سیونگ اکاؤنٹ کسی بھی بینک میں کھلوانا جائز نہیں ہے۔

ایک آدمی کی طرف سے مال ہو اور دوسرے کی طرف سے عمل ہو، شرعاً ایسے کاروبار کو مضاربت کہتے ہیں، فقہائے کرام نے مضاربت کے صحیح ہونے کے لیے چند شرائط بیان کی ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:

1.. سرمایہ نقدی یعنی کرنسی کی صورت میں ہو۔ 2.. سرمایہ عین ہو، دین (ادھار/قرض) نہ ہو۔ 3.. مال مکمل طور پر مضارب( کام کرنے والے) کے حوالے کیا جائے۔ 4.. مضارب کا حصہ نفع میں سے ہو۔ 5.. نفع دونوں کے درمیان مشترک ہو۔ 6.. دونوں کا حصہ فیصدی اعتبار سے متعین ہو۔ 7.. کوئی ایسی شرط نہ لگائی جائے، جس سے نفع میں جہالت لازم آئے، یا وہ شرط مقتضائے عقد(مضاربت) کے خلاف ہو۔ 8.. وہ کاروبار شرعاً درست ہو۔ 9.. نقصان مال مضاربت سے پورا کیا جائے گا۔ 10.. مضارب پر رب المال ( پیسے والے) کی شرائط کی مکمل پاس داری کرنا لازم ہے۔ (142/176)