کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

مسجد کے امام کی تنخواہ پر لوگوں کو مجبور کرنے کا حکم
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بازار میں ایک مسجد بنام علی سے موجود ہے، پھر اسی بازار میں مسجد علی کے قریب ایک اور مسجد بنام مسجد سعد بن گئی، اب بازار کے دکان دار نماز پڑھنے کے لیے مسجد سعد  آتے ہیں او رمسجد سعد کے امام کو تنخواہ دیتے ہیں، لیکن مالک بازار کہتا ہے دکان داروں سے کہ آدھی تنخواہ مسجد علی کے امام کو دے دیں اور آدھی تنخواہ مسجد سعد کے امام کو دے دیں، اس وجہ سے کہ مسجد سعد کی تعمیر بعد میں کی گئی ہے۔

اب شرعاً مالک بازار دوکان داروں کو اس بات پر مجبور کرسکتا ہے یا نہیں؟

جواب… واضح رہے کہ مساجد الله رب العزت کے گھر ہیں، ان کو آباد کرنا تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور حدیث پاک میں مساجد کو آباد کرنے والوں کے متعلق بہت سارے فضائل وارد ہوئے ہیں، اور آباد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسجد کی ضروریات کو پورا کیا جائے اور مسجد کی ضروریات میں امام، مؤذن اور خادمین کا ہونا ضروری ہے، لہٰذا ان کے لیے اجرت مقرر کر دی جائے، تاکہ وہ اپنے او رگھر والوں کے معاش سے بے فکر ہو کر یکسوئی کے ساتھ مسجد کو (پنج وقتہ، جمعہ، عیدین کی نماز اور وعظ ونصائح سے ) آباد کر سکیں۔

لہٰذا صورت ِ مسئولہ میں مالک بازار مشورہ یا ترغیب تو دے سکتا ہے، لیکن مجبور نہیں کرسکتا، دوکان دار جہاں اور جتنا چاہیں، چندہ دے سکتے ہیں، ان کوپورا پورا اختیار ہے ، نیز وہ جس مصرف میں دے دیں اسی مصرف میں خرچ کرنا لازم ہے، ان کی اجازت کے بغیر دوسری جگہ یا دوسرے شخص کو نہیں دیا جاسکتا، البتہ اگر سب لوگ باہمی مشاورت سے دونوں مساجد کے ائمہ کے لیے معقول تنخواہ مقرر کر لیں، یا چند مخیر حضرات اپنی طرف سے تنخواہ مقرر کر لیں، تو بہتر ہے، تاکہ اختلاف سے بچاجاسکے۔

این جی آر کے ساتھ سرمایہ کاری کرنے کا شرعی حکم
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ این جی آر کے ساتھ کاروبار کرنے کا شرعی حکم کیا ہے ؟

این جی آر(NGR) کے ساتھ کاروبار کرنے کی تفصیل یہ ہے کہ سب سے پہلیموبائل میں این جی او کی ایپ ڈاؤن لوڈ کرنی ہو گی ، اس کے بعد کم از کم (4001) چار ہزار ایک روپیہ این جی آر کو کاروبار کی غرض سے دیں گے، ان چار ہزار ایک روپیہ سے این جی آرایک شمسی پلیٹ آپ کے نام پر رجسٹر کر دے گی، وہ پلیٹ آپ نے خریدلی اور اس پلیٹ سے بننے والی بجلی کے بل کی رقم آپ کو ملتی رہے گی، لیکن وہ پلیٹ بائع کو قبضہ میں نہیں دیتے، وہ پلیٹ این جی آر کے پاس ہی رہتی ہے۔

دوسری بات یہ کہ یہ بات یقینی بھی نہیں ہے کہ آپ کی رقم سے پلیٹ خریدی گئی ہے یا پھر کسی اور کام میں رقم خرچ کی گئی ہے، اس لیے کہ این جیآر کمپنی الیکٹرانک اشیاء بنانے کا کام کرتی ہے اور جو رقم آپ سے وصول کی جاتی ہے وہ یہ تفصیل بیان کرتے ہیں کہ ہم ان پیسوں سے شمس پلیٹ لگا کر بجلی بناتے ہیں او ران علاقوں میں اپنی بجلی فروخت کرتے ہیں جہاں بجلی نہیں ہوتی، مثلاً چھوٹے چھوٹے علاقے جو پہاڑوں کے درمیان ہوتے ہیں، جہاں بجلی نہیں ہوتی، اس کے علاوہ وہ یہ شرط لگاتے ہیں کہ ہر دو یا تین گھنٹے بعد ( دن میں چار یا پانچ مرتبہ ) این جی آر(NGR) ایپ کھول کر اپنی رقم وصول کرنی ہو گی، اگر ایک یا دو دن این جی آر کی ایپ کھول کر اپنی رقم وصول نہ کی تو آپ کی اس ایک یا دو دن کی رقم ضائع ہو جائے گی، اسی طرح وہ یقین دلاتے ہیں کہ آپ کو اس میں کسی بھی قسم کا نقصان نہیں ہو گا، چاہے بجلی فروخت ہو یا نہ ہو، بندہ کو اس کی رقم ملتی رہتی ہے، اسی طرح اس کاروبار میں پلیٹ جل جانے یا کسی آفت کی وجہ سے ضائع ہو جانے کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا، کیوں کہ ایک بار رقم ادا کرنے سے مسلسل اس رقم سے منافع آتا رہے گا۔

اس کاروبار میں ایک بات یہ ہے کہ این جی آر اس بات کی تصریح نہیں کرتی کہ وہ اپنے اس عمل کی اجرت کتنی لیتی ہیں، یا پھر وہ اُجرت لیتی بھی ہے کہ نہیں، اس کا یقینی علم کسی کو نہیں، اسی طرح ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ این جی آر جو شرط لگاتی ہے کہ این جی آر کی ایپ ہر دو سے چار گھنٹے بعد کھولنی ہو گی، اس سے این جی آر والوں کی طرف سے رقم وصول ہوتی ہے جو کہ ڈالر کی صورت میں ہوتی ہے، تو اس میں اپنی رقم وصول کرنے کے لیے بھی این جی آر کو منافع ہوتا ہے اور یہ لازمی بھی ہے۔

ہر تین سے چار گھنٹے بعد ایپ کھول کر 10-8 روپے منافع ملتا ہے، یومیہ 50-40 روپے منافع ملتا ہے اور ماہانہ کم وبیش2000 روپے ملتے ہیں، رقم فکس نہیں ہوتی، کم زیادہ ہوتی رہتی ہے، آپ جب رقم نکالنا چاہیں، نکال سکتے ہیں، تین دن بعد آپ کو رقم واپس مل جائے گی، کسی کو بھی معلوم نہیں کہ اس کا پلانٹ کہاں لگا ہے، گوگل پر سرچ کرنے پر یہی آتا ہے کہ این جی آر الیکٹرانک اشیاء بنانے والی کمپنی ہے۔

جواب… صورت مسئولہ میں جس این جی آر(NGR) کمپنی کا ذکر کیا گیا ہے جو لوگوں سے پیسہ اکھٹا کرتی ہے اور یہ پیسہ دوسرے لوگوں کو کاروبار کرنے کے لیے دیتی ہے، تو اس کمپنی کا طریقہ کار شرعی مالیاتی اصولوں کے تحت داخل نہیں ہے، بلکہ یہ قرض کا معاملہ ہے اور قرض پر نفع حاصل کرنا جائز نہیں ہے اور یہ این جی آرکمپنی ملٹی لیول مارکیٹنگ کے نظام کے تحت کام کرتی ہے اور ملٹی لیول مارکیٹنگ کے نظام میں شرعی اعتبار سے مختلف مفاسد اورخرابیاں پائی جاتی ہیں، مثلاً :غرر، دھوکہ دہی وغیرہ، اس طریقہ کار میں کمپنی کی مصنوعات کھلی مارکیٹمیں فروخت نہیں ہوتیں، بلکہ پہلے صرف ممبران کو مصنوعات دی جاتی ہیں، ساتھ ہی کمپنی کی طرف سے اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ آپ مزید ممبر بنائیں او رکمپنی کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کریں، اس پر کمپنی آپ کوکمیشن منافع دے گی، نتیجتاً ایسی کمپنیوں کا مقصد مصنوعات بیچنا نہیں ہوتا، بلکہ کمیشن او رمنافع کا لالچ دے کر لوگوں کو کمپنی کا ممبر بنانا ہوتا ہے اورایک تصوراتی اور غیرحقیقی منافع کا وعدہ کرکے لوگوں کو کمپنی میں شامل کر لیا جاتا ہے۔

ملٹی لیول مارکیٹنگ پر چلنے والی کمپنیوں میں سے کسی جائز کام کرنے والی کمپنی میں بلا واسطہ کسی کو ممبر بنانے میں ممبر کی محنت کا دخل ہوتا ہے جس کی اجرت لینا جائز ہے، لیکن بغیرمحنت ومشقت کے بالواسطہ بننے والے ممبروں او ران کی خرید وفروخت کی وجہ سے ملنے والی اجرت لینا جائز نہیں، اس لیے ملٹی لیول مارکیٹنگ کے نظام پر چلنے والی کمپنی کا ممبر بن کر ممبر سازی کرنا اورمختلف راستوں سے مالی فوائد حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں۔

لہٰذا مذکورہ این جی آرکمپنی سے کسی قسم کا معاملہ کرنا یا اس کا ممبر بننا جائز نہیں او راس کے ساتھ کام کرنے سے اجتناب ضروری ہے۔

مقتول کے ورثاء کا صلح سے انکار کرنے، صلح کرنے کے بعد قاتل کو قتل کرنے کا حکم
سوال … کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں ایک شخص نے دوسرے کو قتل کیا، اب مقتول کے ورثاء قصاص کا مطالبہ کرتے ہیں، جب کہ قاتل کے ورثاء قرآن پاک لے کر اپنے علاقے کے بڑوں کے ساتھ مقتول کے گھر آتے ہیں صلح کے لیے او رمقتول کے ورثاء صلح سے انکار کرکے قصاص کا مطالبہ کرتے ہیں ۔

1.. کیا مقتول کے ورثاء صلح سے انکار کرکے قرآن کریم کی بے ادبی کے مرتکب ہوں گے؟ اور انہیں اس کا گناہ ہو گا یا نہیں؟

2.. اگر قاتل قرآن کریم لے کر اپنے بڑوں کے ساتھ مقتول کے گھر پہ آتا ہے کہمجھے قصاصاً قتل کیا جائے، کیا مقتول کے ورثاء اس قاتل کو قصاصاً قتل کرسکتے ہیں؟

3.. او راسی طرح اگر مقتول کے ورثاء قرآن کریم کی بے ادبی کی وجہ سے صلح کر لیں او رصلح کے بعد قاتل کو قتل کردیں ، کیا اس عمل کی وجہ سے مقتول کے ورثاء پر گناہ ہو گا؟

جواب…1.. واضح رہے کہ جب کوئی شخص کسی کو بے قصور قصداً قتل کر دے، تو شریعت نے مقتول کے ورثاء کو تین اختیارات دیے ہیں:

1.. مقتول کے ورثاء قاتل کو معاف کرسکتے ہیں 2.. صلح کرکے خون بہا ( دیت) لے سکتے ہیں 3.. قصاص لے سکتے ہیں، البتہ معاف کرنا یا صلح کرنا قصاص لینے سے افضل ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر کسی طرح ممکن ہو، تو صلح کر لینا چاہیے، اگر مقتول کے ورثاء صلح کرنے کے لیے راضی نہیں ہیں، تو عدالت سے رجوع کرکے قاتل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں۔

2.. قصاص لینے کا حق اگرچہ اولیاء مقتول کا ہے، لیکن یہ حق عدالت کے ذریعے وصول کیا جاسکتا ہے۔

3.. صلح کرنے کے بعد مقتول کے ورثاء کا قاتل سے قصاص لینے کا حق ساقط ہو جاتا ہے ،لہٰذا صلح کرنے کے بعد قاتل کو قتل کرنے سے مقتول کے ورثاء گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوں گے۔

دوران نماز نمازی کے آگے سے گزرنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نمازی کے سامنے سے گزرنے کا کیا حکم ہے؟ جہاں تک نمازی کی نگاہ جاتی ہے ایک صف یا دو صف، یعنی تیسری صف کے بعد نمازی کے سامنے سے گزرنا کیسا ہے؟ جیسا کہ صاحب ہدایہ کا بھی یہی مسلک ہے کہ تیسری صف کے بعد نمازی کے سامنے کوئی بھی چیز نہ ہو، تو گزر سکتا ہے، لیکن میں نے ایک مفتی صاحب سے سنا ہے کہ یہ حکم صحراء کے لیے ہے، اگر شدید مجبوری ہو تو بھی جاسکتے ہیں۔

میں نے جامعہ فاروقیہ میں د یکھا کہ فجر کی سنتیں طلبہ کرام پچھلی صفوں میں مستقل ادا کرتے ہیں اور جو طلبہ جماعت میں شامل ہوتے ہیں وہ انہی کے سامنے سے گزرجاتے ہیں، بعض طلبہ کے درمیان اور جماعت کے لیے جہاں صف بندی ہو رہی ہوتی ہے جس میں تین صف، بعض میں چار صف کا فاصلہ ہوتا ہے۔

لہٰذا آپ حضرات سے گزارش ہے کہ درج ذیل مسئلہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان فرما کرشکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

جواب… نمازی کے سامنے سے گزرنے کے متعلق تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ : اگر نمازی کسی چھوٹی مسجد یا کمرہ میں نماز پڑھ رہا ہو، تو نمازی کے آگے سے بغیر سترہ کے گزرنا جائز نہیں، بلکہ نماز ختم ہونے کا انتظار کیا جائے۔
البتہ اگر بڑی مسجد ( جس کا رقبہ 3341.451 مربع میٹر، تقریباً900 فٹ ہو) یا میدان ہو، تو اتنی دور سے نمازی کے سامنے سے گزرنا جائز ہے کہ اگر نمازی اپنی نظر سجدہ کی جگہ پر رکھے تو گزرنے والا اسے (نمازی کو) نظر نہ آئے او راس کا اندازہ نمازی کی جائے قیام سے تین صف آگے تک کیا گیا ہے۔

لہٰذا چھوٹی مسجد میں بغیر سترہ کے نمازی کے آگے سے گزرنا بالکل جائر نہیں اور بڑی مسجد یا میدان میں اتنا آگے سے گزرسکتے ہیں کہ گزرنے والا نمازی کو نظر نہ آئے، نیز صف کو پُر کرنے کے لیے نمازی کے سامنے سے گزرنا جائز ہے۔

بیوی کے انتقال کے بعد سسرال کے ہاں جانے اور ان کے ساتھ رشتہ داری کا حکم
سوال … کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی آدمی کی بیوی کا انتقال ہوگیا، تو کیا اس آدمی کا سسرال کے ہاں جانا جائز ہے یا نہیں؟ نیز اس آدمی کی سسرال کے ساتھ رشتہ داری ختم ہو گئی یا نہیں؟

جواب… مذکورہ آدمی کے لیے سسرال کے ہاں ساس وغیرہ کے ساتھ ملاقات کرنے کے لیے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ ساس کے علاوہ جن عورتوں سے پردہ کرنے کا حکم ہے ان سے پردہ کرنا ضروری ہے اور اس آدمی کا سسرال کے ساتھ رشتہ اس اعتبار سے ختم ہو گیا ہے کہ بیوی کی وجہ سے جن رشتہ داروں سے نکاح کرنا ناجائز تھا ، اب اس آدمی کا ان کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے، البتہ ساس کے ساتھ رشتہ اب بھی باقی ہے اور اس کے ساتھ نکاح کرنا ہمیشہ کے لیے ناجائز ہے۔