کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

قرعہ اندازی کی شکل میں سودی لین دین پر مشتمل ایک اسکیم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس اسکیم کے بارے میں کہ اس اسکیم کے تحت ہر ماہ بذریعہ قرعہ اندازی ایک نئی ہنڈا موٹر سائیکل دی جائے گی اور بذریعہ قرعہ اندازی موٹر سائیکل حاصل کرنے والے ممبر سے بقایا اقساط وصول نہیں کی جائیں گی، اس کے علاوہ دیگر انعامات بھی بذریعہ قرعہ اندازی دیے جائیں گے، جس میں پانچ ہزار کیش، ایک عدد موٹر سائیکل او رایک موبائل فون وغیرہ دیے جائیں گے۔
اسکیم کی تفصیل وشرائط مندرجہ ذیل ہیں:
1.. اس اسکیم کا دورانیہ تقریباً ایک ماہ ہوگا۔
2.. ممبران کی تعداد تقریباً دو سوہوگی۔
3.. روزانہ کے67روپے، یا ہر ممبر کو ماہانہ دو ہزار روپے مسلسل30 ماہ تک جمع کرانے ہوں گے۔
4.. اگر کوئی ممبر مسلسل 3 اقساط جمع نہیں کرائے گا، تو اس کی ممبر شپ بغیر کسی نوٹس کے ختم کر دی جائے گی۔
5.. تیس ماہ بعد بقایا170 ممبران میں سے ہر ایک کو نئی موٹر سائیکل دی جائے گی، اگر کوئی موٹر سائیکل کے بجائے جمع شدہ رقم لینا چاہے، وہ ادا کی جائے گی۔
6.. اگر کوئی ممبر ممبر شپ ختم کرنا چاہے، تو جمع کرائی گئی رقم واپس نہ ہو گی۔

جواب… اس اسکیم کا حاصل یہ ہے کہ کمپنی تجارت کے واسطے سرمایہ جمع کرنے کے لیے ہر ماہ لوگوں سے اسکیم کے نام پرقرض لیتی ہے اورپھر انعام کی شکل میں بذریعہ قرعہ اندازی قرض دینے والوں کو سود دیتی ہے، اس اسکیم میں بایں معنی جوابھی پایا جاتا ہے کہ ممبر اپنی رقم کو موہوم نفع کے لیے داؤ پر لگا لیتا ہے، کیوں کہ اگر وہ مجبوری کی وجہ سے مزید رقم جمع نہ کراسکے، یا بغیر مجبوری کے اپنی ممبر شپ ختم کرنا چاہے، تو اس کی جمع کردہ رقم ضبط ہو جائے گی، یہاں کمپنی کا مقصد موٹر سائیکل فروخت کرنا نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ تیس ماہ بعد کمپنی اسکیم ممبران کو یہ اختیار دیتی ہے کہ چاہے وہ اپنی رقم واپس لے لیں ،یا اس کے عوض موٹر سائیکل خرید لیں۔

اس میں کمپنی کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اسے اپنی رقم استعمال کیے بغیر تجارت کے لیے ایک بہت بڑا سرمایہ ہاتھ آجاتا ہے، مثلاً :صورت مسئولہ میں کمپنی کے پاس کم وبیش چار لاکھ (400000) روپے ماہانہ جمع ہوتا ہے، جس میں ہر ماہ تقریباً ساٹھ ہزار(60000) روپے کی موٹر سائیکل اور تیس چالیس ہزار کے باقی پانچ انعامات ممبر کو بذریعہ قرعہ اندازی دیے جاتے ہیں اور تین لاکھ (300000) تک روپے ان کے پاس سرمایہ کاری کے لیے بچ جاتے ہیں، اوراس طرح کمپنی تیس ماہ کی اس اسکیم میں نوے لاکھ(9000000) روپے تک کی خطیر رقم حاصل کر لیتی ہے۔

ممبران کا اس میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ جس کا نام قرعہ اندازی میں جس قدر پہلے نکلا وہ اتنی ہی رقم میں موٹر سائیکل وصول کر لیتا ہے، نیز اسے ہر ماہ دیگر انعامات ملنے کی بھی امید ہوتی ہے۔

لہٰذا ان ظاہری، فوائد کے باوجود چوں کہ یہ اسکیم سود اور جوے پر مشتمل ہے، اس لیے اس اسکیم کے تحت موٹر سائیکل یا دیگر انعامات وصول کرنا جائز نہیں۔(122/81)

دو طلاقیں دینے اور عدت میں رجوع نہ کرنے کا حکم، بچی کی پرورش کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے خاوند نے مجھے دو طلاق دیں، عدت گزارنے تک رجوع نہیں کیا، تو اب کیا حکم ہے؟
بچی کا نفقہ کس کے ذمے ہے او رکس کے ساتھ رہے گی؟

جواب… اگر واقعتا طلاقیں صرف دو ہی دی ہیں، تو دو طلاقیں رجعی واقع ہو گئیں او رعدت میں چوں کہ شوہر نے رجوع نہیں کیا، لہٰذا نکاح ختم ہو گیا ہے، اب صرف رجوع سے شوہر کے نکاح میں نہیں آسکتی، بلکہ باہمی رضا مندی سے نیا مہر مقرر کرکے دوبارہ نکاح کر لیں۔

لیکن واضح رہے کہ اب شوہر کو صرف ایک ہی طلاق کا اختیار رہ گیا ہے، اب اگر ایک طلا ق بھی دے دی، تو بیوی مغلظہ ہو کر حرام ہو جائے گی اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوسرا نکاح بھی نہیں ہو سکے گا۔

نو سال کی عمر تک بچی کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے، البتہ نان ونفقہ کی تمام ذمہ داری باپ پر ہو گی، او راگر ماں کسی ایسے شخص سے نکاح کرے جو بچی کا محرم نہ ہو تو اس کا حق پرورش ختم ہوجائے گا۔(205/89)

بحری جہاز میں نماز جمعہ پڑھنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم ایک بحری جہاز میں ملازمت کرتے ہیں، ہمارے ساتھ کام کرنے والے اکثر غیر مسلم ہیں، مسلمانوں کی تعداد اسی، سو کے قریب ہے ہم نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں، البتہ جمعہ کی نماز کے بارے میں آپ حضرات سے راہ نمائی درکار ہے کہ کیا ہم جمعہ کی نماز جہاز میں ادا کرسکتے ہیں؟ واضح رہے کہ ہمارا جہاز مہینوں سمندر میں رہتا ہے۔

جواب… بحری جہاز میں نماز جمعہ پڑھنے کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ اگر بحر ی جہاز سمندر میں چل رہا ہو یا سمندر ہی میں کھڑا ہو، تو اس وقت جہاز سمندر کے حکم میں ہو گا، اور چوں کہ سمندر نہ مصر ہے اور نہ ہی فناء مصر میں داخل ہے، لہٰذا اس صورت میں بحری جہاز میں سوار افراد پر نماز جمعہ پڑھنا لازم نہیں ہوگا۔

البتہ اگر جہاز ساحل پر ٹھہرا ہوا ہو تو اس کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ ساحل مصر، قریہ کبیرہ( بڑا گاؤں ) یا اس کی حوائج میں داخل ہو اوراس جہاز کا عملہ اسی علاقے کا ہو، تو ان لوگوں پر نماز جمعہ پڑھنا لازم ہے، اور وہ عملہ جو کسی دوسری جگہ سے مسافت شرعی طے کرکے آئے ہیں، تو وہ مسافر ہیں، اگرچہ ان پر نماز جمعہ پڑھنا لازم نہیں ہے، البتہ مقیمین (اقامتی عملے) کے ساتھ مل کر نماز جمعہ ادا کرسکتے ہیں، او راگر وہ ساحل مصر ( شہر) قریہ کبیر،(قصبہ) یا اس کی ضروریات کے ساتھ متصل نہ ہو، تو اس صورت میں جہاز کے عملے اور سواروں میں سے کسی پر نماز جمعہ پڑھنا لازم نہیں۔

نوٹ : جس صورت میں جن افراد پر نماز جمعہ پڑھنا لازم ہے، وہ بحری جہاز میں بھی نماز جمعہ پڑھ سکتے ہیں، البتہ مستحب یہ ہے کہ جب تک جہاز سے باہر نکل کر نماز ادا کرناممکن ہو، تو باہر نکل کر نماز ادا کی جائے۔ (98/176)

برتن، کپڑے، پلاٹ اور کرائے پر دیے ہوئے مکان پر زکوٰة نہیں ہے
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام درجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ سال بھر استعمال نہ ہونے والے برتن،کپڑے، یا پلاٹ، یا گھرجو استعمال میں نہ ہو تو اس پر زکوٰة واجب ہے؟ یا کرائے پر دیے گئے مکان پر زکوٰة واجب ہے؟ کیا حساب ہو گا؟

جواب… سال بھر استعمال نہ ہونے والے برتن، کپڑے، پلاٹ او رگھر میں زکوة واجب نہیں ہے، اسی طرح جومکان کرائے پر دیا ہو اس میں بھی زکوٰة واجب نہیں ہے، البتہ اگر مذکورہ اشیاء(پلاٹ، گھر او رمکان وغیرہ) تجارت کی نیت سے خریدے ہیں او راب تک نیت برقرار ہے،تو ان میں زکوٰة واجب ہو گی۔

نیز جو مکان کرائے پر دیا گیا ہے، اگر یہ مکان بیچنے کی نیت سے خریدا ہے، تو اس کی موجودہ قیمت پر بھی زکوٰة واجب ہو گی، اگر یہ مکان صرف کرائے پر چلانے کے لیے ہے اور بیچنے کی نیت نہیں اور مالک مکان پہلے سے صاحب نصاب ہیں، تو دوسرے مال کی زکوٰة ادا کرتے وقت اس کرایہ کی جو رقم موجود ہو، یا کرایہ دار کے ذمہ واجب الادا ہو، تو اس کی زکوٰة ادا کریں گے اور اگر پہلے سے صاحب نصاب نہیں، لیکن کرایہ کی رقم اور دوسری قابل زکوٰة رقم ملا کر نصاب بن جاتا ہے، تو سال گزرنے پر زکوٰة واجب ہوگی، وگرنہ زکوٰة واجب نہیں۔(212/175)

وین گارڈ(VENGUARD) ایپلیکیشن کا ممبر بننا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان ِ عظام اس مسئلہ کے متعلق کہ وین گارڈ(Venguard) کے نام سے ایک ایپلیکیشن ہے، اس پروگرام کو جوائن کرنے کے لیے پہلے آدمی سے سو ڈالر چاہتے ہیں، لیکن سوڈالر ضروری نہیں، بلکہ ساٹھ یا ستر بھی جمع کرسکتے ہیں،جب یہ پرگروام جوائن ہو جائے تو کمپنی کی طرف سے ہر دن چالیس چیزیں، مثلاً: قلم، کتاب، کرسی اور ٹیبل وغیرہ بھیجی جاتی ہیں اور آپ کو ان چیزوں کو شیئر کرنا پڑتا ہے، آپ ان چیزوں میں جتنا شیئر کرتے ہیں تو آپ کو ان چیزوں کا نفع ملے گا، مثلاً: دو یا تین چیزیں آپ نے شیئر کیں، تو آپ کو اسی حساب سے نفع ملے گا، اگر شیئر نہ کی جائیں تو منافع نہیں ملے گا، یہ ملنے والا منافع آپ کے اکاؤنٹ میں جمع ہو جائے گا، اور سو ڈالر جب آپ چاہیں نکال سکتے ہیں، اگر نکال دیے تو یہ پروگرام ختم ہو جاتا ہے، لیکن اس پروگرام میں ابھی تک کسی کا نقصان نہیں ہوا ہے، اس پروگرام میں جب بندہ اپنے دوست بنائے، تو آپ کو ہر ہفتہ میں سو ڈالر پر ساٹھ ڈالر نفع ملے گا، اور یہ معلوم نہیں کہ سو ڈالر قرض ، یا ضمانت یاشراکت کے طور پر لیا جاتا ہے۔

جواب… واضح رہے کہ اس ایپلیکیشن(وین گارڈ) کے ممبر بننے میں شرعی اعتبار سے چند مفاسد ہیں، مثلاً:

∗… کمپنی جوائن کرنے کے لییابتداء میں جو رقم (60،70 اور100 ڈالر)ادا کی جاتی ہے، اس کی حیثیت قرض کی ہے، چوں کہ کمپنی قرض کے بدلے میں نفع دیتی ہے، اس لیے یہ لین دین شرعاًحرام ہے۔

∗… کمپنی میں کام کرنے ( ممبر بننے) کو مشروط کیا گیا ہے ابتدا میں رقم کی ادائیگی پر،جو کہ عقد اجارہ کے خلاف ہے۔

∗… ابتدا میں رقم کی ادائیگی کا معاملہ قرض کا ہے، پھر کمپنی میں کام کرنا ( ممبر بننا) یہ معاملہ اجارہ کا ہے، یہاں ایک معاملے کو دوسرے معاملے میں داخل کیا جاتا ہے، یہ شرعاً جائز نہیں ہے۔

∗… ممبر ساز جب کسی دوسرے شخص کو ممبر بنائے، پھر یہ ممبر ( دوسرا شخص) کسی تیسرے شخص کو ممبر بنائے، تو اس ممبر (تیسرے شخص) کی محنت کی وجہ سے ممبر ساز( پہلے شخص) کو بغیر اس کی کسی محنت ومشقت کے بدلے نفع ملتا ہے، جو کہ درست نہیں۔

لہٰذا مذکورہ بالا مفاسد کی وجہ سے اس کمپنی کا ممبر بننا اور اس سے مالی فوائدحاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔(216/175)

قسطوں پر خریدے ہوئے پلاٹ پر زکوٰة لازم ہے یا نہیں؟
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں کہ: 1.. میں نے ایک پلاٹ قسطوں پر لیا کہ اسے اچھی قیمت پر بیچ دوں گا ،ابھی تک قسط ادا کر رہا ہوں، میری ملکیت میں نہیں ہوا، پانچ سال ہو گئے، کیا اس پر زکوٰة بنتی ہے؟

2.. میں نے ایک سال پہلے سانجھی دوکان دودھ کی لی، چھ مہینے بعد چھوڑ دی کہ اس سے کچھ نفع نہیں ہوا تھا اور وہ دوسرے پارٹنر کو دے دی، ابھی تک اس کے پیسے وصول نہیں ہوئے اور پتہ نہیں کہ کب او رکتنے دے گا؟ پوچھنا یہ ہے کہ کیا جو رقم میں نے لگائی تھی اس پر زکوٰة لازم ہے؟ ابھی نقصان کا پتہ نہیں۔

3.. میں نے اپنے دوست کو کچھ رقم کاروبار میں لگانے کے لیے دی ہے اور وہ اس پر مجھے دو چار ہزار روپے نفع دیتا ہے، کیا اس رقم کی زکوٰة ادا کرنا مجھ پر لازم ہے یا نہیں؟

جواب…1.. صورت مسئولہ میں مذکورہ پلاٹ چوں کہ تجارت کی نیت سے خریدا گیا ہے، اس لیے اس کی زکوٰة ادا کرنا لازم ہے، البتہ قسطوں سے خریداری کے متعلق اس کی زکوٰة کی تفصیل یہ ہے کہ جتنی قسطیں زکوٰة کی ادائیگی کے وقت ادا کرنا باقی ہوں ، وہ خریدار کے ذمہ دین ہے، لہٰذا اس دین( نہ ادا کردہ قسطوں) کی رقم کل مال زکوٰة سے منہا کرکے زکوٰة کا حساب لگایا جائے۔

2.. واضح رہے کہ آپ کے پارٹنر (شریک )کے ذمہ آپ کا جو دین ہے، وہ دین قوی ہے، لہٰذا دین قوی کی یہ رقم خواہ یکمشت وصول ہو جائے یا تھوڑی تھوڑی ہو کر وصول ہو جائے، تو پچھلے تمام سالوں کی زکوٰة ادا کرنا آپ کے ذمہ واجب ہے، بشرطیکہ اس رقم پر سال گزر چکا ہو، خواہ قبضہ سے پہلے ہو یا بعد میں، ورنہ اس پر سال گزرنے سے پہلے زکوة لازم نہیں۔

3.. جس طرح آپ پر اپنے سرمایہ کی زکوٰة ادا کرنا واجب ہے، اسی طرح آپ کے سرمایہ کی بدولت آپ کو جو نفع ( دو یا چار ہزارروپے) ملے گا، اس کی زکوٰة ادا کرنا بھی آپ کے ذمہ واجب ہے، بشرطیکہ نفع میں ملنے والی رقم جمع ہو، خرچ نہ ہوئی ہو، ورنہ اگر نفع کی رقم خرچ ہو گئی تو اس پر زکوٰة لازم نہیں۔(165-167/175)