کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

idara letterhead universal2c

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

صراف او رتاجر کا5000 روپے کے نوٹ پر کٹوتی کا حکم

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عوام میں یہ بات مشہو رہوئی ہے کہ حکومت کی طرف سے 5000 کا نوٹ بند کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے مارکیٹ میں تاجروں کے مابین تین طرح کے مسائل سامنے آرہے ہیں، ان کے جواز وعدم جواز کا حکم مطلوب ہے:

تاجر5000 روپے کے نوٹ صراف کے پاس لے جا کر تبدیل کرتے ہیں، صراف ان سے5000 روپے میں سے 200 روپے اپنے پاس رکھ لیتا ہے، جب کہ4800 روپے تاجر کو دے دیتا ہے۔

جب کوئی گاہک تاجر کے پاس5000 کا نوٹ لاتا ہے اور 2500 روپے کا مثلاً سودا کر لیتا ہے ،تو تاجر مبیع کی اصل قیمت کے علاوہ 200 روپے مزید ملا کر کل2700 روپے گاہک سے لے لیتا ہے او رباقی 2300 روپے اسے واپس کر دیتا ہے، چوں کہ آگے اس نے صراف کو بھی 200 روپے ادا کرنے ہوتے ہیں جن کا ازالہ یہاں سے ہوجاتا ہے۔

بعض تاجر جب گاہک کو کوئی چیز500 روپے کا مثلاً فروخت کرتا ہے اور وہ اسے رقم ادا کرنے کے لیے 5000 ہزار کا نوٹ دیتا ہے، تو تاجر اس مطلوبہ چیز کی قیمت اسی وقت 200 روپے مزید بڑھا دیتا ہے، یعنی مبیع کی قیمت 700 روپے قرار دیتا ہے، تاکہ بعد میں جو 200روپے اس نے صراف کر دینے ہیں ان کا ازالہ مبیع کی قیمت بڑھ کر کیا جاسکے۔

جواب…واضح رہے کہ جب تک حکومت نے 5000 روپے کے نوٹ کو بند نہ کیا ہو اس وقت تک یہ ثمن عرفی شمار ہوگا اور روپے کا روپے کے ساتھ تبادلہ کرتے وقت برابری ضروری ہے، کمی بیشی ربا اور سود شمار ہو گا، جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں نہ صراف کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ تاجر کے 5000 روپے کے نوٹ میں سے 200روپے کم کرکے 4800 روپے تاجر کو واپس کرے اور نہ تاجروں کا گاہک کے5000 روپے کے نوٹ میں سے 200 روپے مذکورہ طریقہ پر لینا جائز ہے، البتہ تیسری صورت میں اگر فروخت کرنے والا ابتداء ہی سے مبیع کی قیمت بڑھا دے اورخریدنے والا اس پر راضی ہو تو فی نفسہ یہ جائز ہے، اگرچہ بہتر نہیں۔(50/181)

شوہر کی دوسری شادی کرنے پر پہلی بیوی کے مطالبہٴ طلاق و خلع کا حکم

سوال … کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میری بہن کی شادی میرے چچا کے بیٹے کے ساتھ ہوئی، ہنسی خوشی زندگی گزر رہی تھی، تین بچے بھی ہیں، پھر گیارہ سال کے بعد اس کے شوہر نے اپنی بیوی سے چھپ کر دوسری شادی کر لی، جب میری بہن کو پتا چلا تو وہ غصہ ہو کر اپنے والدین کے گھر آگئی، والدین نے سمجھایا اور اس کے سسرال والوں کو بھی بلایا، انہوں نے کہا کہ اس کے سارے حقوق اس کو ملیں گے، اس شرط پر وہ لڑکی کو گھر لے گئے، مگر ایک سال میں اس کا شوہر نہ تو ازدواجی زندگی کے حقوق پورے کرسکا، نہ معاشی طور پر اس کا حق ادا کر سکا، لہٰذاکچھ عرصے کے بعد میری بہن اپنے والدین کے گھر آگئی، اس کے بعد سے آج تک میرے والدین ہی اس کا خرچہ وغیرہ برداشت کر رہے ہیں ، دو بچے جو کہ لڑکے ہیں اپنے دادا کے پاس ہیں، لڑکی جو تین سال کی ہے وہ اپنی ماں کے پاس ہے، میرے والدین غریب لوگ ہیں، مشکل سے گزر بسر ہو رہی ہے، لڑکی کے والدین نے لڑکے والوں کو کہا کہ لڑکی کو فارغ کر دیں، شوہر نے کہاکہ میں طلاق نہیں دوں گا آپ عدالت سے خلع لے لیں، ہم خلع نہیں دیں گے، اب آپ کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ ہمیں دینی اور شرعی نقطہ نگاہ سے مفید مشورہ دیں، کیوں کہ جوان لڑکی کو گھر میں بٹھا نہیں سکتے، دوسری جگہ نکاح کرکے اپنے فرض سے میرے والدین سب کدوش ہوں۔
جواب… شریعت مطہرہ نے مرد کو حسب استطاعت ایک ہی وقت میں چار عورتوں کو نکاح میں رکھنے کی اجازت دی ہے، اس اجازت کو کوئی ختم نہیں کرسکتا، بشرطیکہ وہ انصاف کے ساتھ سب کے حقوق ادا کرے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کی بہن کا اپنے شوہر سے محض ان کے دوسرے نکاح کرنے کی وجہ سے طلاق اور خلع کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں، خاندان کے با اثر او رمعتبر حضرات کو چاہیے کہ دونوں کے معاملات کو حل کرکے پیارو محبت کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرکے زندگی گزارنے کی تلقین کریں، تاکہ فریقین خاندانی فساد اور نسل واولاد کی تباہی وبربادی سے محفوظ ہو جائیں، اگر شوہر حقوق ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو اس کو لالچ دے کر یاڈرادھمکا کر خلع یا طلاق دینے پر راضی کریں، شوہر کی رضا مندی کے بغیر یک طرفہ خلع شرعاً معتبر نہیں۔(45/181)

لے پالک بچے کی دستاویزات میں حقیقی والدین کے بجائے گود لینے والے کا نام درج کرنے کا حکم

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج سے تقریباً آٹھ سال پہلے میں نے اپنے والد کے اصرار پر اپنے بھائی کو اپنا بیٹا دے دیا تھا، کیوں کہ اس کے یہاں اولا دنہیں تھی، اور ڈاکو منٹس میں والد کی جگہ بھائی کا نام لکھ دیا تھا، اب سوال یہ ہے کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ،او رچوں کہ یہ خلاف شرع کام میں نے اپنی والدہ کے اصرار پر کیا تھا، آیا اس کا گناہ میری والدہ کو ہو گایا نہیں؟ او راب میں اپنے نام سے ڈاکومنٹ بنوانا چاہتا ہوں، جن میں میرا نام لکھا ہو گا، تو کیا ایسا کرنا میرے لیے درست ہے کہ نہیں؟ مہربانی فرما کر اس کا جواب عنایت فرمائیں۔

جواب… واضح رہے کہ کسی او رکے بیٹے کو لے پالک بنانے کی شرعاً گنجائش ہے، لیکن اس پر حقیقی بیٹے والے احکام جاری نہیں ہوں گے، یعنی یہ بچہ اپنے اصل والد کی طرف منسوب ہو گا او راسی کا وارث ہو گا، گود لینے والے کا نہیں، نیزگود لینے والے کی بیوی اگر محرم رشتہ دار نہیں، یا اس نے اس بچے کو دودھ نہیں پلایا، تو بچے کے بالغ ہونے کے بعد بیوی پر اس سے پردہ کرنا لازم ہو گا۔

بچے کے نام کے ساتھ حقیقی والد کے علاوہ کا نام لکھنا، اندراج کروانا او رپکارنا، اس کے بارے میں احادیث مبارکہ میں بہت سخت وعیدیں آئی ہیں، ایک حدیث میں جنت سے محرومی او رایک حدیث میں لعنت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، اس لیے اس سے احتراز کرنا ضروری ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس بچے کے ڈاکو منٹس میں اپنا نام لکھوائیں۔(221/180)

قرض پر نفع لینا سود ہے

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے عمرو کو کہا کہ میں آپ کو بطورِ مضاربت رقم دیتا ہوں، آپ اس رقم سے اپنے لیے ویزہ بنوا کر دوبئی چلے جائیں، وہاں آپ کی تنخواہ مثلاً دو ہزار ریال ہو گی، اس میں سے مجھے ہر مہینے دو سو ریال دیا کریں، یا زید نے دوبئی کا ویزہ خود بنوا کر عمرو کو دیا اور مذکور بالا طریقے پر مضاربت کا معاملہ کیا، یا مثلاً زید اور بکر مل کر برابر برابر رقم لگا کر عمرو کے نام ویزہ بنوالیں، کہ عمرو اپنی کمائی میں سے مخصوص رقم اپنے دونوں شریکوں زید او ربکر کو ہر ماہ دے گا۔

کیا مذکورہ بالا معاملہ شرعاً شرکت ومضاربت کے طور پر درست ہے؟ مدلل راہ نمائی فرمائیں، اگر یہ معاملہ ہو چکا ہو او رعمرو نے اپنی کمائی میں سے ادائیگی بھی کر لی ہو تو اس کا کیا کیا جائے؟ عدم ِ جواز کی صورت میں جائز متبادل بھی بتا دیں، کیوں کہ عمرو دوبئی جانا چاہتا ہے، لیکن اس کے پاس ویزا بنوانے کے لیے رقم نہیں ہے۔

جواب… صورت مسئولہ میں ذکر کردہ معاملہ شرعاً مضاربت ہے، نہ شرکت، بلکہ یہ قرض کا معاملہ ہے، اور قرض میں قرض دینے والے کا ایسی شرط لگانا جس میں اس کا فائدہ ہو، سود میں داخل ہے، جو کہ حرام ہے، لہٰذا زید او ربکر پر لازم ہے کہ لی ہوئی رقم عمرو کو واپس کریں، مذکورہ معاملہ کے جواز کی یہ صورت ممکن ہے کہ زید او ربکر، عمر وپر احسان کرکے اس کو یہ رقم بطور قرض دیں۔(310/180)

دیگر ورثاء کے ہوتے ہوئے اپنی حیات ہی میں تمام جائیداد بیوی کے نام کرنے کا حکم

سوال … کیا فرماتے ہیں مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں اوروالدہ ہمار ی حیات ہے، والد صاحب کا انتقا ل ہوا ہے، پرانے زمانے میں والد صاحب کی کچھ جائیداد تھی زمین وغیرہ، جس سے مجھے حصہ نہیں ملا، والد صاحب کے انتقال کے بعد ہم سب الگ الگ ہو گئے، بہن بھائیوں میں میں سب سے چھوٹا ہوں، ابھی میں نے غیروں میں شادی کی ہے، میری شادی کو آٹھ سال ہو گئے ہیں، میری کوئی اولاد نہیں ہے، ابھی الله تعالیٰ نے مجھے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے، مطلب یہ کہ میرے پاس مکانات اور پیسہ وغیرہ ہے، اگر میرا انتقال میری بیوی سے پہلے ہو جاتا ہے، تو میری جائیداد کس طرح سے تقسیم ہو گی؟ میرے والد کی طرف سے تو مجھے حصہ نہیں ملا، تو کیا میرے بہن، بھائی میری جائیداد میں شریک ہوں گے؟ اگر میرے بہن بھائی اور والدہ اس میں شریک ہے، تو میری بیوی کے ساتھ ان کو کتنا فیصد ملے گا؟ اور اگر میں اپنا سب کچھ اپنی بیوی کے نام کر دوں تو کیا ہوگا؟

جواب… واضح رہے کہ شرعاً وراثت کی تقسیم صاحب ِ جائیداد کی فوت کے بعدعمل میں لائی جاتی ہے، اور چوں کہ دیگر ورثاء کے انتقال سے وراثت کے مسئلہ میں فرق آتا ہے او رورثاء کے انتقال کا حتمی اور یقینی علم سوائے الله تعالیٰ کے کسی کو نہیں، اس لیے بھی صاحب جائیداد کے انتقال سے پہلے میراث تقسیم نہیں ہوسکتی، البتہ اگر صاحب جائیداد اپنی حیات ہی میں کسی کو اپنی جائیداد کامالک بنائے اور اس کو مکمل قبضہ اور تصرف بھی دے دے، تو یہ ہدیہ (ہبہ) ہے اور شرعاً جائز ہے۔

لیکن دوسرے ورثاء کو وراثت سے محروم کرنے کی غرض سے یا بلا کسی وجہ شرعی کے تمام جائیداد کسی ایک وارث کو ہدیہ کرنے سے ہدیہ کرنے والا دیگر ورثاء کی حق تلفی کی وجہ سے گناہ گار ہو گا۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں تمام جائیداد اپنی بیوی کے نام کرنے سے اگر مقصود بہن، بھائی اور والدہ کو وراثت سے محروم کرنا ہے، تو یہ درست نہیں، تاہم اگر آپ اپنی اہلیہ کو اپنی جائیداد کا مالک بنا دیں اور اس جائیدادپر مکمل قبضہ اور تصرف بھی دے دیں، اس صورت میں آپ کے انتقال کے بعد وہ تمام جائیداد آپ کی اہلیہ ہی کی ملکیت شمار ہو گی، اس میں آپ کے بہن بھائی اور والدہ حصہ دار نہیں ہوں گے، لیکن آپ کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ (256/180)

ایمازون پر ڈراپ شپنگ سے کمائی کرنے کا حکم

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں ایمازون پر ڈراپ شپنگ سے کمائی کرنا شرعاً کیسا ہے؟ اس کی تفصیل، جس طرح سے میں نے سنا ہے کہ آپ ایک لنک بناتے ہیں او راسے ایمازون پروڈکٹس کے ساتھ منسلک کرتے ہیں، جو بھی میرے لنک سے ان پروڈکٹس کو خریدے گا مجھے اس کا منافع ملے گا، پروڈکٹ میرے پاس نہیں ہو گا، اس لنک سے خریداری پر اسے یہ خود بخود بھیج دیا جائے گا اور خریدار کو پہنچا دیا جائے گا، اگر میں اس طرح کماتا ہوں تو کیا میری کمائی حرام ہو جائے گی؟

جواب… خرید وفروخت کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کو فروخت کیا جارہا ہے، بائع(فروخت کرنے والا) خود اس چیز کا مالک ہو اور اس چیز کو مشتری کے سپرد کرنے پر قادربھی ہو۔

لہٰذا اگر آپ خود مشتری (خریدنے والے) کے ساتھ خرید وفروخت کا معاملہ کر رہے ہیں، تو صورت مسئولہ میں مذکورہ طریقے پر خریدوفروخت کا معاملہ کرنا درست نہیں اور اس سے کمایا ہوا پیسہ بھی آپ کے لیے حلال نہیں ہوگا۔
البتہ اگر آپ خود مشتری(خریدنے والے) کے ساتھ خرید وفروخت کا معاملہ نہیں کر رہے، بلکہ صرف دلالی کرتے ہیں کہ آرڈر آنے کے بعد اصل مالک کو مشتری کا پتہ اور دیگر تفصیلات بھیج کر خود مالک مشتری کے ساتھ عقد کر لے اور آپ کو فی سامان یاگاہک کمیشن دے، تو اس صورت میں مذکورہ عقد کرنا درست ہو گا اور اس سے کمایا ہوا پیسہ بھی آپ کے لیے حلال ہو گا۔(233/180)

میراث میں بیٹوں کی طرح بیٹیوں کا بھی حصہ ہے

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ تقریباً آٹھ سو ایکڑ زرعی زمینیں اور کچھ مکان وغیرہ میرے والد مرحوم کی ذاتی ملکیت میں تھے، انتقال کے وقت ورثاء میں سات بیٹیاں اور چار بیٹے ( ایک بیٹا ان کی زندگی میں فوت ہو گیا تھا) اور دو بیوائیں تھیں، وفات کے بعد ہم کچھ بہنوں نے والد مرحوم کے ترکہ میں سے بھائیوں سے اپنے حصوں کا مطالبہ کیا تو انہوں نے کہا کہ فی الحال کھاتوں یعنی رجسٹری وغیرہ کے مسائل ہیں، بعد میں دیکھیں گے، پھر تاخیر کرتے اورہم انتظار کرتی رہیں، اور بعد میں انہوں نے کہا کہ تمہارے یعنی بہنوں کے نام کوئی کھاتے: رجسٹری، وصیت یا لکھت وغیرہ نہیں ہے او راکثر رجسٹری بیٹوں والد اور والدہ وغیرہ کے نام پر ہے او رکچھ رجسٹری دوسرے لوگوں یعنی غیر لوگوں وغیرہ کے نام پر ہے ( بعد میں والدہ بھی فوت ہو گئی ہے، ان کا بھی ترکہ موجود ہے) اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارے خاندان وغیرہ میں اکثر بہنوں اور بیٹیوں کو والدین کی ملکیت سے حصہ نہیں دیا جاتا ہے وغیرہ۔

صرف ان عجیب اسباب کی وجہ سے ہم کو اپنے مرحوم والدین کی ملکیت میں سے مکمل طرح محروم کیا گیا ہے جو کہ ہمارے ساتھ بڑی نا انصافی اور ظلم ہے، اور وہ کافی عرصے سے ہمارے حصوں پر قابض ہیں اور ہمیں اپنا حق نہیں دے رہے ہیں، اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ تفصیلاً جواب فرمائیں، شکریہ

جواب…میراث میں جس طرح بیٹوں کا حصہ ہے، اسی طرح بیٹیوں کا بھی حصہ ہے، بھائیوں کا یہ کہنا کہ ”بہنوں کے نام کوئی کھاتہ، رجسٹری، وصیت یا لکھت نہیں، یا ہمارے خاندان میں بہنوں ، بیٹیوں کو والدین کی ملکیت سے حصے نہیں دیے جاتے“ غلط ہے، اس کی وجہ سے بہنیں میراث سے محروم نہیں ہوتیں۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں بھائیوں کا اپنی بہنوں کے حصوں پر قبضہ ناجائز، ظلم اور غصب ہے جس کے بارے میں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے سخت وعید ارشاد فرمائی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:”جس نے کسی کی ایک بالشت زمین ظلماًلی اس کے گلے میں ساتوں زمینوں کا طوق بنا کر ڈالا جائے گا۔(221/180)