پاکستان بیرونی مداخلت کی آماج گاہ کیوں؟

idara letterhead universal2c

پاکستان بیرونی مداخلت کی آماج گاہ کیوں؟

مولانا محمد اعجاز مصطفی

بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله وسلام علی عباد الذین اصطفیٰ

ایک وقت تھا کہ ہمارا ملک معاشی طور پر مستحکم اورترقی کی منازل طے کر رہا تھا، پھر اچانک اس وقت کے وزیراعظم کی تبدیلی، اس کے بعد الیکشن میں ایک خاص تکنیک کے ذریعے ایک جماعت کو مصنوعی طریقے پر کرسی اقتدار پر برا جمان کرانا اور پھر اس جماعت کی آڑ میں قادیانیوں کی یلغار اور پس پردہ پاکستان کے کلیدی عہدوں پر ان کے تسلط کی کوششیں، یورپی یونین کے دباؤ پر آسیہملعونہ کی رہائی اور بیرون ِ ملک اس کو بھیجا جانا، قومی اسمبلی میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں، آئین سے تحفظ ِ ناموس ِ رسالت کے قانون میں تبدیلی کی کوششیں، ختم ِ نبوت کے حلف نامہ کو ختم کرنے کی جسارتیں، اس کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک کو ورلڈ بینک کے کنٹرول میں دینا اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں کی شکست دریخت کے ذریعہ وطن عزیز کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچانا، یہ سب کچھ گزشتہ حکومت کے دور میں ہوا۔ کوئی ایک کام اور پروجیکٹ ایسا نہیں بتایا جاسکتا جو عوامی مفاد کے لیے کیا گیا یا لگایا گیا ہو۔

اب حال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں وفاقی حکومت ہاتھ سے جانے کے بعد دو اسمبلیاں ایک شخص کی انانیت کی بھینٹ چڑھانے کے بعد یہ جماعت کبھی جلسہ کرتی ہے،کبھی ریلیاں نکالتی ہے، کبھی جیل بھرو تحریک چلاتی ہے او راب اس جماعت کا کام صرف اپنے قائد کی حفاظت اور جس دن عدالت میں جائیں تو یہ تمام جتھے اپنے قائد کی معیت میں عدالت کے اندر تک جانے کے لیے قانون اور ضابطوں کو روندتے ہوئے عدالتوں کو مرعوب کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور یہ بات بجا طور پر صحیح ہے کہ اگر کوئی مذہبی جماعت یا تنظیم اس کا ایک حصہ بھی ایسا کرتی تو وہ دہشت گرد قرار دی جاچکی ہوتی اور اس پر پابندی لگ چکی ہوتی۔ لیکن اس لاڈلی اور بے راہ روجماعت کے کارکنان پولیس اور دوسری فورسز پر پتھراؤ، پیٹرول بم اور اداروں کے افسران او رجوانوں کو ڈنڈوں، اینٹوں او رغلیلوں سے لہولہان اور زخمی کرچکے ہیں اور طرفہ تماشایہ کہ ہماری عدالتیں جس طرح اس جماعت کو ریلیف اور سہولتیں دے رہی ہیں، ماضی میں کسی او رجماعت کو اس طرح کی سہولتیں دینے کی مثال نہیں ملتی۔
اسی جماعت نے اپنے مفاد اور اقتدار کے لیے اپنے نوجوانوں کے ایک گروہ کو اپنی ریاست، اس کی سا لمیت اور ملکی ونظریاتی سرحدوں کی نگہبان فوج کے خلاف کھڑا کر دیا۔ آج اسی جماعت کے کارکنوں نے لندن میں بھارتی نژاد وزیراعظم کے گھر کے سامنے پاک فوج کے خلاف نعرہ بازی کی اور انہوں نے آرمی چیف جناب حافظ عاصم منیر صاحب کے پوسٹر اٹھارکھے تھے، جن پر توہین آمیز ریمارکس درج تھے، ان کے خلاف جو نعرے لگارہے تھے، وہ سراسر توہین مذہب پر مبنی تھے۔

مبینہ طور پر اب ہر عام وخاص کے ذہن او رزبان پر یہ بات آچکی ہے کہ لگ یوں رہا ہے کہ ادارے آپس میں ایک پیج پر نہیں، یہ تمام مناظر اداروں کی آپس کی لڑائی کے شاخسانے او رپھر ہر ادارے میں ایک واضح تقسیم اور پسند او رناپسند کی تصویر پیش کر رہے ہیں، جو کہ ایک ریاست اورملک کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔

بات صرف اندرون ملک سیاسی رسہ کشی یا پسند او رناپسند کی ہوتی تو کسی قدر قابل برداشت ہوتی، اب تو حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ بیرون ملک میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی ہمارے سیاسی معاملات میں واضح طورپر ایک سیاسی جماعت کی حمایت میں نہ صرف بول رہے ہیں، بلکہ درپردہ وہ ہمارے اداروں او رحکومت کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ ان میں سے:

ایک ”زلمے خلیل زاد“ جو سی آئی اے کا ایجنٹ ہے، افغانستان کی تخریب اور عراق کی بربادی میں امریکیوں کا نہ صرف حمایتی، بلکہ امریکا کی طرف سے سفارت کار او ران کا نمائندہ خصوصی رہا ہے۔ اب امریکا کی طرف سے کوئی عہدہ نہ رکھنے کے باوجود گزشتہ مہینوں میں اس نے عمران خان سے کئی گھنٹے خفیہ ملاقات کی ہے۔ عمران خان او رجنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان صلح صفائی کرانے کی بھی کوشش کی ہے، اب وہ کھل کر عمران خان کے حق میں بول رہا ہے۔ جنگ اخبار کے معروف کالم نگار محترم جناب سلیم صافی صاحب زملے خلیل زاد سے اپنی ایک ملاقات کے احوال میں لکھتے ہیں کہ :”زلمے خلیل زاد وہ آدمی ہے جس کی ہر بات سے پاکستان کے خلاف نفرت جھلک رہی تھی او رایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان سے متعلق امریکی اورافغانی غصہ ان کی ذات میں یکجا ہو گیا ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ انہوں نے امریکی مفادات کے حصول میں اس قدر بنیادی کردار ادا کیا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (وزارت خارجہ) سے وابستہ ہونے کے باوجود انہیں سیکرٹریز دفاع (گیٹ، ڈونلڈ رمسفیلڈ اور ڈک چینی) نے ڈیفنس میڈلز سے نوازا اور یہ بھی لکھا کہ: طالبان کے خلاف امریکی حملے سے قبل او راس کے بعد وہ ہمہ وقت امریکی انتظامیہ پر زور ڈالتے رہے کہ طالبان کے خلاف کارروائیوں سے زیادہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے“۔

ایک ”آصف محمود قادیانی“ ہے، جو امریکی کانگریس کا رکن ہے، الیکشن میں جس کی حمایت کے لیے عمران خان نے امریکا میں رہنے والے پاکستانیوں سے ووٹ مانگنے کی اپیل کی تھی او راس کے حق میں بیانات دیے تھے، وہ بھی پاکستان کے خلاف او رعمران خان کے حق میں بیان دے رہا ہے۔

اسی طرح” گریک برے“ جو سخت گیر برطانوی یہودی ہے، سابق سفیر رہا ہے، انسانی حقوق کی ایک تنظیم چلاتا ہے، لیکن یہ اسلام کے مقدسات او رمقدس شخصیات کے کارٹون بنانے کا حامی ہے، اسلام دشمن اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خاکے بنانے والوں کی حمایت میں سب سے آگے ہے، یہ بھی عمران خان کے حق میں بیانات دے رہا ہے، بظاہر تو یہ کہہ رہا ہے کہ ہم پاکستان میں سب لوگوں کو قانون میں برابر سمجھتے ہیں، لیکن در پردہ وہ قادیانیوں کو بھی سب کے برابر سمجھنے کی بات کرتا ہے۔

حالاں کہ بین الاقوامی قانون ہے کہ کوئی بھی شخص کسی ملک میں رہنا چاہتا ہے تو پہلے اس ملک اور ریاست کو تسلیم کرے، پھر اس کے آئین اور قانون کو مانے، تب وہ اس ملک کی شہریت او راس ملک کے وسائل کو استعمال کرنے کا مجاز ہو گا۔ رہے قادیانی ، یہ نہ تو پاکستان کی ریاست کو دل سے تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی اس ملک کے آئین اور قانون کو مانتے ہیں تو یہ عام پاکستانیوں کے برابر کیسے ہوگئے؟ اس کے علاوہ ہر قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی ماننے کی بنا پر کافر ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان اورحضور صلی الله علیہ وسلم کو آخری نبی ماننے والوں کو مسلمان ہونے کے باوجود کافر کہتا ہے۔ قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ پاکستان اکھنڈ بھارت بنے گا، اس لیے وہ اپنے مردے چناب نگر میں امانتاً دفناتے ہیں۔1973ء کے آئین میں انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے بعد وہ اور زیادہ پاکستان کے مخالف اور اس کو کم زور اور ناکام کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، اسی لیے قادیانی کہیں پس پردہ رہ کر او رکہیں اپنے زر خرید ایجنٹوں کے ذریعہ ہمہ وقت او رہمہ جہت پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کرتے رہتے ہیں، اس لیے در پردہ وہ ایک سیاسی جماعت کو مہرہ بنا کر اپنے کام نکلوانے او راپنے منصوبے کی تکمیل چاہتے ہیں، لیکن ان شاء الله! ان کے تمام ناپاک عزائم ناکام ہوں گے۔1970ء کے الیکشن میں بھی ایک سیاسی جماعت کی پناہ میں انہوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تھی، لیکن اسی جماعت نے ان کو مسلمانوں سے علیحدہ کر دیا، ان شاء الله! یہ مزید آگے بڑھے تو اب بھی ان کا حشر ایسا ہی ہو گا۔

اسی طرح ”جارج گلبے“ اپنے بیان میں کہہ رہا ہے کہ ایک قانونی وزیراعظم کے گھر پر حملہ کیا گیا ہے او رپھر کہتا ہے کہ : اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو وہ شاید سلاخوں سے واپس زندہ نہ آسکے او رکہتا ہے کہ عمران خان سے اس لیے ڈر رہے ہیں کہ اگر وہ حکومت میں آتا ہے تو وہ آئین کو تبدیل کر دے گا۔ وہ کہتا ہے کہ پاکستانی آئین کو تبدیل ہونا چاہیے اور یہ بات ایک عرصہ سے کہی جارہی ہے اور اس کی کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان کے آئین کو تبدیل کیا جائے، اس کی اسلامی حیثیت کو ختم کیا جائے اور اس کی اسلامی دفعات خصوصاً ناموسِ رسالت کے قانون کو تبدیل کیا جائے۔

پاکستان میں یہ سب کھیل او رتماشا اس لیے کھیلا اورر چایا جارہا ہے کہ ملک دشمن، آئین دشمن اور اسلام دشمن لابیوں کی خواہشوں اورتمناؤں کو پاکستان میں پورا کیا جاسکے۔ الله کرے ایسا نہ ہو۔

ہم عمران خان او راس کی جماعت سے یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ کا ان بیرونی عناصر سے کوئی تعلق نہیں ہے تو برملا ان کے بیانات کی تردید کریں او ربرملا ان سے کہیں کہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے او رہمارے ملکی معاملات میں کسی کو دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ موجودہ حکومت کے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم آئی ایم ایف سے کئی مہینوں سے مذاکرات کر رہے ہیں اور وہ ابھی تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہے، ان سے بھی یہ مترشح ہوتا ہے کہ کہیں کوئی بات آئی ایم ایف کے کار پرداز ان کے حلق میں اٹکی ہوئی ہے، جسے وہ کھلے الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں، لیکن نہیں کہہ پارہے۔ افواہ کہیں یا حقیقت، اس طرح کی بات اُڑائی گئی ہے کہ بیرونی طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ جب تک اس معاہدہ پر عمران خان صاحب دستخط نہیں کریں گے، یہ معاہدہ مکمل نہیں سمجھا جائے گا۔ اور اسی طرح ہمارے وزیر خزانہ سے منسوب یہ بیان بھی دبے لفظوں میں آیا ہے کہ : ”کوئی ہمیں یہ نہ سمجھائے کہ کتنی رینج کے میزائل رکھنے چاہییں اورکتنی رینج کے نہیں۔“ جس سے یہ تاثر اُبھر ا کہ شاید آئی ایم ایف ایٹمی پروگرام پر کچھ شرائط عائد کرنا چاہتی ہے، لیکن بعد میں وزیر خزانہ صاحب کا بیان آیا کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، حقیقی بیان کیا تھا، اس کی وضاحت انہوں نے بھی نہیں کی۔

بہرحال ملک ایک نازک صورت حال سے گزر رہا ہے، ایک طرف جہاں پاکستان میں معاشی عدم استحکام اور سیاسی افراتفری ہے، اس کے ساتھ ساتھ ملک دشمن، یہودی ہوں یا قادیانی، وہ اپنے اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے آئین او رقانون کو پہلے بازیچہٴ اطفال بنانے کی سعی نامشکور کی جارہی ہے، پھر دھیرے دھیرے اس کو لا حاصل اور لا یعنی باور کراکر خاکم بدہن تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

اس لیے مقتدر قوتوں او رارباب اختیار سے ہمارا مطالبہ ہے کہ آگے بڑھ کر اس تمام کھیل کو ختم کریں، دین دشمن، ملک دشمن اور اسلام دشمنوں کے ناپاک منصوبے اور غلیظ عزائم جن ایجنٹوں کے ذریعے وہ انہیں پورا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، ایسے عناصر کو چُن چُن کر قانون کے شکنجے میں کسا جائے او ران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، یہی سب سے بڑی ملک او رقوم کی خدمت ہو گی۔

الله تبارک وتعالیٰ ہمارے ملک کی ہر طرح کی حفاظت فرمائے اورجو ادارے اس کی حفاظت اور ملک دشمنوں کے عزائم خاک میں ملا رہے ہیں، الله تبارک وتعالیٰ ان کو دنیا اور آخرت میں بہترین نعمتوں سے مالا مال کرے۔ آمین۔

وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین․