فلسطین اور اسرائیل جنگ کی مکمل تاریخ

idara letterhead universal2c

فلسطین اور اسرائیل جنگ کی مکمل تاریخ
اپنوں اور بیگانوں کی کرم نوازیوں کی داستان ہوشربا

محترم سفیان علی فاروقی،قطر

اس وقت پوری دنیا میں ایک ہی موضوع زیر بحث ہے اور وہ ہے مسئلہ فلسطین اور فلسطینی عوام ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا پریشان ہے کہ یہ قضیہ مزید کتنی جانیں لے گا اور یہ خطہ چند ایک لوگوں کی خواہشات کے نظر مزید کتنی دیر تک ہوتا رہے گا ؟!

آج میں آپ کے لیے کافی ریسرچ کے بعد اس جاری جنگ کے حقائق ماضی ،حال ،مستقبل اور فلسطین اسرائیل وار کی مکمل تاریخ ،اس جنگ میں اپنوں اور بیگانوں کا کردار اور بے شمار چھپے ہوئے پہلوؤں کی عقدہ کشائی کرنے جارہا ہوں، تاکہ ایک مکمل منظرنامہ اس حوالے سے آپ کی نظر میں ہو اور آپ کو علم ہو کہ فلسطین کے قضیے کولے کر پچھلی کئی دھائیوں سے کیا چلتا رہا، تاکہ موجودہ صورت حال سمجھنے اور اس کا نتیجہ نکالنے میں آسانی ہو۔

مسلم ممالک کی عوام یعنی امت مسلمہ پچھلی دو تین صدیوں سے عموماً اور ایک صدی سے خصوصا ً اپنوں اور بیگانوں کے مشق ستم کا شکار ہے، میری ناقص رائے کے مطابق اگر مسلم حکمران اپنے اقتدار یا خواہشات کی خاطر اپنی ہی رعایا کو فتح کرنے اور ایک دوسرے کو تاراج کرنے کی بجائے ایک مشترکہ بنک ،ایک متحد فوج ، مسلم ممالک میں ایک ہی کرنسی اور آپس میں ٹریڈنگ یونٹ بناتے، ایک دوسرے کے لیے ویزہ پالیسی آسان کرنے کی طرف توجہ مبذول کرتے تو شاید ہماری یونٹی ختم نہ ہوتی اور کسی بھی غیرمسلم طاقت کو کسی بھی مسلم ملک میں طاقت کا مظاہرہ کرنے کی جرات نہ ہوتی یا مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی جرات نہ ہوتی ۔

یعنی اسرائیل اور فلسطین کی حالیہ جنگ پر بات شروع کرنے اور دشمن کو کوسنے سے پہلے اگر اپنوں کی کرم نوازیوں ، امت مسلمہ پر اپنوں کی مہربانیوں پر دلی افسوس نہ کیا جائے تو ممکن ہے کہ بات ادھوری رہ جائے ۔

کمال اتاترک کی ریشہ دوانیاں،مصر میں محمد مرسی کی حکومت کا خاتمہ اور اخوان کے ہزاروں کارکنان کا قتل ،جمال عبدالناصر کے ظلم و ستم، پاکستان میں پرویز مشرف کے دور اقتدار میں اسلام پسندوں کا قتل عام اورپچھلی کئی دھائیوں سے جاری درپردہ اقتدار کی کشاکش میں خوار ہوتے پاکستانی عوام اور غیر مستحکم پاکستان کے پوری امت مسلمہ میں منفی اثرات۔ عراق ،ایران اور کویت کی بے فائدہ و بے نتیجہ جنگ۔شام میں حافظ الاسد اور بشار الاسد کا اقتدار کی لالچ میں شام کو میدان جنگ بنانا۔ایران میں خمینی انقلاب کے نام پر قتل عام اور ایک مخصوص طبقے کا تسلط ۔فلسطین کے قضیے میں ترکی کی اسرائیل کے ساتھ ٹریڈنگ اور سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ نرم رویہ ،کس کس کا رونا رویا جائے؟! بدقسمتی سے ہماری نااتفاقی نے جو بے یقینی کی صورت حال امت مسلمہ پر طاری کی اور اس کے نتیجے میں جو دشمنان اسلام کو فائدہ ہوا وہ تاریخ کا ایک تاریک ترین باب ہے ۔

فلسطین اور تاریخ

دوستو!اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلمنے 17یا 18ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی ہے ،تاریخ کا مشہور واقعہ معراج میں بھی بیت المقدس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے،اس کے ساتھ ساتھ تاریخ یعنی ساڑھے چودہ سوسال میں نوے سال نکال کر 1200 سال مسجد اقصی مسلمانوں ہی کے پاس رہی،مسلمانوں نے 15ہجری (636 ء ) میں اس کو فتح کیا پھر ایک مختصر وقفہ کے لیے یہ صلیبیوں کے قبضہ میں چلی گئی اور صلیبیوں نے( 1099 ھ492 ھ) میں اس پر قبضہ کیا اور 90 سال کے لیے یہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی، لیکن پھر مسلمانوں کے عظیم سپاہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی  نے اسے (1187ء 583ھ) میں واپس لے لیا، اس کے بعد 1948ء میں یہ مسلمانوں کے ہاتھ سے ایک مرتبہ پھر نکل گئی۔

سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ دراصل اسرائیل کی بنیاد کی طرف پہلا قدم تھا

جس طرح سلطان عماد الدین زنگی  (1170ء )،سلطان نورالدین زنگی (1174ء )اور سلطان صلاح الدین ایوبی (1193ء )کو مصر کی فاطمی حکومت ،جو کہ صلیبیوں کی آلہ کار تھی، نے پریشان کیے رکھا بلکہ صلیبیوں کی سازشوں کا بہترین ذریعہ بنی رہی، اسی طرح ایران کی صفوی حکومت نے عالم اسلام کی اکائی اور اتحاد کی علامت سلطنت عثمانیہ کو پریشان کرنا شروع کردیا، بلکہ عثمانی حکومت سے باقاعدہ جنگیں شروع کردیں اور دشمن نے اس موقع سے بھر پورفائدہ اٹھایا اورنپولین نے 1798ء میں مصر پر حملہ کردیا ، فرانس نے1830ء میں الجزائر پر قبضہ کرلیا،انگلینڈ نے 1838ء میں عدن پر قبضہ کرلیا، فرانس نے 1881ء میں تیونس پر قبضہ کرلیا، انگلینڈ نے 1882ء میں مصر پر قبضہ کرلیا ، اٹلی نے 1911ء میں لیبیا پر قبضہ کرلیا ،فرانس نے 1911ء میں مراکش پر قبضہ کرلیا ، 1917ء میں انگلینڈ نے عراق پر قبضہ کرلیا، یوں سلطنت عثمانیہ کو سازش کے تحت کم زور کرکے اور پھر ختم کرکے پورے عالم اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔ اسی کے نتیجہ میں 1917ء میں ایک معاہدہ بفور ہوا، جس کی صورت میں صہیونی مغربی اتحاد وجود میں آیا پھر1918ء میں اس خطے کاتقریباً مکمل کنٹرول برطانیہ کے پاس چلا گیا اور 1922ء اقوام متحدہ نے بھی اس کنٹرول کو باقاعدہ تسلیم کرلیا اور اسی سال (ہربرٹ صموئیل) متشددیہودی کوفسلطین میں برطانیہ کی طرف سے پہلا مندوب تعینات کردیا گیا۔1948ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کرنے کا رزولوشن پاس ہوا ،اس طرح ناجائز ریاست اسرائیل کی بنیاد پڑی اور عرب آبادی کے سینہ پر اسرائیل کا خنجر پیوست کردیا گیا۔

دوستو!برطانوی تسلط( 1918ء تا1948ء ) کے دوران یہودیوں کی آباد کاری کا سلسلہ بالجبر برطانیہ کی زیر سایہ شروع ہوا، جو 1948ء تک چھ لاکھ چھیاسی ہزار تک پہنچ گیا اور اس سلسلہ میں برطانیہ نے جبراً غیر فلسطینی کاشت کاروں کی اراضی ، اپنی غصب کردہ اراضی اور ثقافت اسلامیہ کی اراضی جو صدیوں سے اسلامی مقاصد کے لیے وقف تھی، یہودیوں کو دینا شروع کی، یوں برطانیہ کے زور بازو پر292 اسرائیلی کالونیاں بن چکی تھیں اور برطانیہ ہی کی شہ پر اسرائیل کے باقاعدہ اعلان سے پہلے ستر ہزار عسکری جنگجووں کی فوج بھی تیار کی جاچکی تھی ، یعنی اسرائیل کی بنیاد 1948ء مسلمانوں کی تقریباً چار سو بستیوں کو مسمار اور تقریباً 25ہزار فلسطینیوں کا قتل عام کرکے اس کی ناجائز آباد کاری سے ہوئی ، یوں 14مئی 1948ء کی ایک الم ناک شام کو یہودیوں نے باقاعدہ اسرائیل کا اعلان کردیا اور پھر 1967ء تک مکمل طور پر بیت المقدس پر اسرائیل قابض ہوچکا تھا،یوں حالیہ تنازع سے پہلے تک تقریباً 56 لاکھ فلسطینی اپنے گھروں سے محروم کرکے پناہ گزین اور مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیے گئے ۔

حیران کن واقعہ

1945ء سے 1948ء کے دوران ایک اور حیران کن واقعہ پیش آیا کہ سعودی عرب نے اپنی فلسطین کے ساتھ لگنے والی سرحد نہایت خاموشی سے مملکت اردن کو دے دی، یوں سعودی عرب نے براہ راست فلسطین کی ہمسائیگی کوبالقصد ترک کردیا،جس کے متعلق مختلف مثبت اور منفی رائے قائم کی جاتی رہی ہے ۔

اسی دوران 1967ء کو عرب اسرائیل جنگ ہوئی ،جس میں عرب ممالک کے تقریباً دس ہزار فوجی شہید ہوئے اور پھر اسرائیل نے مصر، شام،لبنان اور اردن کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرلیا،اس طرح 20870 مربع میل کے علاقے پر یہودیوں نے ناجائز قبضہ کرلیا،جن میں سے کچھ علاقے بعد میں واپس بھی ہوئے ،لیکن بہت کم ۔

یہودیوں کا نعرہ کہ فلسطین ان کا وطن ہے؟

یہود یوں کا جو بنیادی نعرہ ہے کہ فلسطین ان کا وطن ہے وہ بھی بے بنیاد ہے ،کیوں کہ معاصر یہودیوں میں سے 90 فیصد سے زائد یہودیوں کا تاریخی اعتبار سے فلسطین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور معاصر یہودیوں کا تعلق (الخزر اور اشکنار) قبائل سے ہے، جوکہ تاتاری یعنی قدیم ترک قبائل ہیں اور اگر ان کو اپنے وطن واپس لوٹنے کا کوئی حق حاصل ہے بھی تو وہ روس کے جنوبی علاقوں میں ہے، ناکہ فلسطین میں ۔اسی طرح سابقہ ادوار میں بھی یہودیوں نے کئی مرتبہ بالقصدارض مقدس فلسطین میں آنے اور بسنے سے انکار کردیا تھا،جیسے حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ فلسطین کی جانب جانے سے ان کی اکثریت نے انکار کردیا اور بعد کے زمانہ میں جب ایرانی بادشاہ (قورش ثانی)نے انہیں دوبارہ فلسطین میں بسانے کی پیش کش کی تو ان کی اکثریت نے بابل(عراق) سے واپس جانے سے انکار کردیا تھا۔ اور یہ جوموجودہ فلسطینی ہیں یہ ان کنعانیوں کی نسل سے ہیں جن کی وجہ سے اس علاقے کا قدیمی نام ارض کنعان پڑا تھا ۔

اس جنگ کا ایک اور المیہ

اسرائیل کو فریق کے طور پر سب سے پہلے مصر نے 1978ء میں تسلیم کیا اور اس سے معاہدہ کیا، جسے (کیمپ ڈیوڈ معاہدہ )کہا جاتا ہے(میرے خیال میں اس معاہدے نے اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر مضبوط کرنے کی بنیاد رکھ دی تھی )جس میں دو بنیادی شقیں ملاحظہ کریں :

مصر اور اسرائیل کے درمیان ڈپلومیٹک نمائندگی کا تبادلہ۔

دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی مقاطعہ اور جنگی صورت حال کا خاتمہ ۔

اس کے بعد ایک طرف تو اکتوبر 1991ء میں تحریک آزادی فلسطین اور عرب ممالک نے میڈرڈ شہر میں اسرائیل کے ساتھ بلاواسطہ امن مذاکرات کے سلسلے کا آغاز کیا، جو دو برس تک بغیرکسی نتیجے کے چلتا رہا لیکن درپردہ مذاکرات بھی اسرائیل نے شروع کردیے جو(اوسلو) معاہدے کی بنیاد بنے، جس پر عرب نمائندوں اور اسرائیل نے 13 ستمبر 1993ء میں دستخط کردیے۔جس میں بدقسمتی سے عرب کی ایک مخصوص قیادت نے(سارے عرب اس میں شامل نہیں تھے) اسرائیل کو ایک جائز ملک تسلیم کرلیا ،فلسطینی اراضی کے 77 فیصد حصے پر بھی اسرائیلی تسلط جائز اورتسلیم کرلیا اور یہ بھی طے پایا کہ تحریک انتفاضہ اب کالعدم ہوچکی ہے اوراسرائیل کے خلاف مسلح کارروائی اب غیر قانونی سمجھی جائے گی ،یوں عرب قیادت فلسطینی عوام کے مطالبے سے دست بردار ہوگئی،لیکن اس معاہدے کو پورے عالم اسلام، خصوصاً عرب ممالک میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور عالم اسلام کے علماء نے باقاعدہ فتوے جاری کیے کہ فلسطین کی سرزمین کا فیصلہ کرنا کسی کا بھی حق نہیں ہے ،خصوصاً غیر فلسطین، اگر موجودہ وقت میں امت کی حالت کم زور ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کے طاقت کے آگے سر جھکا دیا جائے اور یہ کہ مزاحمتی تحریکیں اپنے حجم کے لحاظ سے جاری رہیں گی ،یہاں تک کہ اللہ تعالی حق کو غالب کردیں(اوسلو معاہدے میں فلسطین کے بنیادی ایشوز کو ڈسکس ہی نہیں کیا گیا تھا، مثلاًالقدس شہر کا مستقبل کیا ہوگا؟، فلسطینی مہاجرین کا مستقبل کیا ہوگا ؟، مغربی پٹی اور غزہ کے علاقے میں غاصب صہیونی بستیوں کا کیا ہوگا ؟ وغیرہ وغیرہ )ساتھ ساتھ یہ بھی اس بھیانک معاہدے میں طے پایا کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیلی حکومت کی نگرانی میں کام کرے گی ،فلسطینی اتھارٹی فوج نہیں رکھ سکتی ،اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کے کسی بھی فیصلے کو ویٹو کرسکتا ہے ،فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کی اجازت کے بغیر اسلحے کی خریدو فروخت نہیں کرسکتی ، اسرائیل کے خلاف مزاحمت کاروں کو گرفتار کرکے اسرائیلی حکومت کے سپرد کرنا بھی اوسلو معاہدے میں شامل تھا، اسی کے ساتھ اوسلو معاہدے میں یہ بھی ظلم کیا گیا کہ فلسطینی اتھارٹی کا سرحدات پر اختیار بالکل ختم کردیا گیا اور فلسطینی اپنی سرزمین میں آنے اور جانے کے لیے اسرائیل کی اجازت کے پابند ہوگئے،ایک اور خطرناک چیز اس معاہدے میں یہ ہوئی کہ اب آزادانہ طور پر کوئی بھی عرب ملک اسرائیل کی حیثیت کو تسلیم کرسکتا تھا ۔

یہودیوں کے ابتداً دو گروہ تھے

سارے یہودی فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے حق میں نہیں ہیں، بلکہ اس عنوان پر ان کے بھی دو گروہ ہیں، ایک بالکل لبرل بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور دوسرے دنیا سے الگ تھلگ متشدد بن کر اور یہی متشدد طبقہ فلسطین پر ناجائز قبضہ کرنے کے مکروہ چکروں میں ہے اور امریکہ کی سپورٹ ان کے لیے کیوں ہے؟ اس میں ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ یورپ ان متشدد یہودیوں سے جان چھڑانا چاہتا ہے، تاکہ یورپ کو ان کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھا جاسکے، اسی لیے وہ ان کی ہر ممکنہ سپورٹ کررہا ہے ۔

دوستو!یہ تھی اس اسرائیل اور فلسطین قضیے کی مکمل تاریخ، امید ہے کہ اب موجودہ حالات سمجھنا آپ سب کے لیے کوئی مشکل نہیں ہوں گے اور اس وقت جو سب سے اہم چیز ہے وہ فلسطینی بہن بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرنا ،ان کی ہر ممکنہ مدد کرنا ،غذا اور ادویات کی فراہمی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ، یہ وہ اہم اور ضروری چیزیں ہیں جو ہم مسلم ممالک کے مجبور عوام کرسکتے ہیں اور اس میں کوئی روک ٹوک نہیں، ویسے تو حق یہ ہے کہ اپنی اپنی حکومتوں سے پر زور مطالبہ کیا جائے کہ وہ اس جنگ کو رکوانے اور فلسطینی عوام کو ان کا جائز حق دلوانے کے لیے اپنے وسائل کو بھر پور طریقے سے بروئے کا ر لائیں۔