فلسطین، مسجد اقصی تاریخی حقائق

idara letterhead universal2c

فلسطین، مسجد اقصی تاریخی حقائق
صیہونی بربریت اور مغرب کی انسان دشمنی

مولانا زبیر احمد صدیقی

اسرائیل نامی ریاست کا تعلق ایسی قوم سے ہے جو انبیاء علیہم السلام، علماء اور اولیاء کے قاتل، لعنت خداوندی، غضب الٰہی کی سکہ بند مستحق، متکبر، سفاک، حیلہ وچال باز، حق کے دشمن، آسمانی کتابوں کے محرف، انبیاء علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے گستاخ و نافرمان، ذلت و مسکنت، عداوت اسلام کا تمغہ رکھنے والے حاسد،بدکردار، بد باطن، عالمی طاقتوں کے ایجنٹ اورممسوخ الفطرت یہودہیں، ان کی جانب سے 1948ء سے فلسطین کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کرنے، نیز ان کے گھروں سے انہیں بے دخل کرنے کے بعد سے شروع ہونے والے انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ 7اکتوبر2023ء کی طوفان الاقصیٰ کی جنگ کے بعد اپنی انتہا کو پہنچ چکا۔ غزہ پر دن رات بمباری جاری ہے،غزہ کی بجلی، گیس اور غذائی اشیاء بند کر دی گئی ہیں، ایک جانب شیرخوار بچوں سے لے کر بزرگ اوربے گناہ شہری یہودیوں کے مظالم سے جام شہادت نوش کر چکے ہیں، دوسری جانب بھوک وافلاس سے لوگ جان بلب ہیں۔

غزہ کے ہسپتال تک کو بمباری میں زمین بوس کر کے کم و بیش ایک ہزار زخمیوں کو شہید کر دیا گیا ہے،اطلاعات کے مطابق اسرائیلی خون چکاں مظالم سے ہزاروں شہداء کی نعشیں بے گور و کفن پڑی ہیں، عمارتیں زمین بوس ہوچکی ہیں، لوگوں کو غزہ چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے، جبری ہجرت کے لیے دھمکیاں دی جارہی ہیں، اسرائیلی درندوں نے غزہ میں داخل ہوکر زمینی جنگ شروع کرنے کا الٹی میٹم بھی دے دیا ہے، اس خوں خوار بھیڑیے کے منھ کو انسانی خون لگ چکا ہے، یہ خوں خوار درندہ اب تک ہزاورں کلمہ گو مرد و خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو ہڑپ کر کے سیر ہونے کا نام نہیں لے رہا، جن عالمی اسلام دشمن قوتوں نے اسرائیل کی بنیاد رکھی تھی، وہ قوتیں امریکہ یورپ آج بھی انسانی حقوق کے نام نہاد محافظ ہونے کے دعووں کے باوجود ان ہول ناک مظالم پر خوش و خرم اور شاداں و رقص کناں ہیں، ان بین الاقوامی منافقوں کو اہل فلسطین شاید انسان نہیں لگتے، انسان تو انسان، جانوروں تک کے حقوق کے نعرے الاپنے والوں کو فلسطین کا المیہ نظر نہیں آتا، الٹا امریکہ کے بحری بیڑے اور اسلحہ اسرائیلی مظالم میں حصہ دار و شریک بن چکے ہیں۔

دوسری جانب اسلامی ممالک کی حکومتیں زبانی جمع خرچ اور لیپا پوتی میں مصروف ہیں،کوئی دو ریاستی حل پیش کر کے مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے حوالہ کرنے کی تجویز دے رہا ہے، تو کوئی حماس کے حملہ کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے معاہدے اور دوستی کے منصوبے کے پس پشت چلے جانے پر کف افسوس مل رہا ہے۔کوئی زبانی مذمت تک محدود ہے، تو کوئی ملک خالی خولی دھمکیوں پر مکتفی ہے۔ کچھ کو حماس کے اسرائیل پر حملہ کا افسوس ہے تو کوئی اس طعنہ زنی میں مصروف ہے کہ جب لڑنے کی طاقت نہ تھی تو حملہ کیوں کیا؟کئی ممالک کے لبوں پر مہر سکوت ثبت ہے۔

یہ بے چارے نہیں جانتے کہ حماس کے لوگ 7اکتوبر2023ء کو اسرائیل میں گھس کر ان یہودیوں کے گھروں میں نہیں بلکہ اپنے ہی غصب شدہ گھروں میں گئے اور جاکر غاصبین کو اپنے گھر چھوڑنے کا پیغام دیا،حماس نے عالمی قوتوں اور پڑوسی مسلم ممالک جو مسئلہ فلسطین کو عملاً دفن کر چکے تھے اور مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے درپے تھے کو اس حملہ سے پیغام دیا کہ مسئلہ فلسطین نہ حل ہواہے اور نہ ختم کیا جاسکتا ہے،بلکہ غاصبوں سے اہل فلسطین کی مقدس سرزمین اور مسجد اقصیٰ بہر صورت اہل اسلام نے حاصل کرنی ہے،نیز پچھتر(75) سالوں سے جاری لڑائی ختم نہیں ہوئی، ابھی جاری ہے،صیہونی قبضہ تسلیم نہیں کیا گیا، نہ ہضم کرنے دیا جائے گا، شاید اسی مقصد کے لیے حماس نے اس دفعہ اس خوں خوار سے ایک بڑی پنجہ آزمائی کی، اسرائیل پر غیر متوقع طور پر ایسا حملہ کیاجس کا دور دور تک اسرائیلی، امریکی خفیہ ایجنسیوں کو وہم و گمان تک بھی نہ تھا،ہر چند کہ اس حملہ کی حماس کو بہت بڑی قیمت چکانی پڑی، تاہم اس حملہ نے عالمی منصوبوں، سعودی عرب اور بعض ممالک کے اسرائیل سے ہونے والے معاہدوں اور مسئلہ فلسطین دفن کرنے کے منصوبوں کو بہر حال خاک میں ملادیا۔

ایک جانب مسلم ریاستوں کے حکمران ہیں جو گو مگو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، اس کی وجہ ان کی مجبوریاں اور بیں الاقوامی قوتوں کا دباو ہے۔دوسری جانب ان مسلم ممالک کے عوام ہیں جو بہر حال اہل فلسطین کی حمایت اور یہود ملعون کی مذمت میں غضبناک ہیں، وہ دنیا بھر میں مظاہرے کر رہے ہیں، نماز فجرمیں قنوت نازلہ کی صورت میں اپنے مسلمان بھائیوں کی نصرت و مدد اور یہود و نصاری کی تباہی کے لیے دعائیں کر رہے ہیں، فلسطینیوں کی مدد کے لیے دل کھول کر عطیات دے رہے ہیں، اپنی اپنی حکومتوں پر اسرائیل کے خلاف اوراہل فلسطین کے حق میں پالیسی بنانے کے لیے دباو ڈال رہے ہیں، مسلم امہ فلسطین کی حمایت میں یکجان بھی ہے اور یک سو بھی۔ اگر مختلف ممالک کی سرحدی پابندیاں نہ ہوں تو امت کے سپوت عملی جہادکے لیے فلسطین کی آزادی اور مسجد اقصی کو یہود منحوس سے چھڑانے کے لیے فلسطین جا پہنچیں، اس لیے دنیا بھر کے حکمران نوشتہ دیوار پڑھ لیں کہ مسلم امہ اور انصاف پسند غیر مسلم طبقات بھی نہ صرف فلسطینیوں کے ساتھ ہیں، بلکہ اسرائیل کو غاصب، جابر، قاتل اور دہشت گرد بھی سمجھتے ہیں۔مسلمان تو کجا انصاف پسند غیر مسلم بھی فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کناں ہیں۔

کیا مسجد اقصیٰ یہود کی ہے؟

مسجد اقصیٰ کا تنازعہ کیاہے اور اسرائیل کی ریاست کیسے معرض وجود میں آئی؟ نیز یہ جائز ریاست ہے یا قابض؟ اسے قرآن و سنت اورتاریخ کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔قرآن و سنت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسجد اقصی روئے ارض کی قائم شدہ دوسری مسجد ہے، جو مسجد حرام کی تعمیر کے چالیس سال بعد تعمیر کی گئی۔صحیح بخاری میں ہے:

عَنْ اَبِی ذَرٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللہِ اَیُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِی الْاَرْضِ اَوَّلَ؟ قَالَ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ؟ قَالَ الْمَسْجِدُ الْاَقْصَی قُلْتُ کَمْ کَانَ بَیْنَہُمَا؟ قَالَ اَرْبَعُونَ سَنَةً․ (صحیح بخاری:3366)

حضرت ابوذررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!دنیا میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا (مکہ کی)مسجد حرام، میں نے عرض کیا پھر کون سی ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا (بیت المقدس کی)مسجد اقصی۔ میں نے عرض کیا ان کے درمیان میں کتنا فاصلہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چالیس سال۔

حدیث مذکور میں بیت اللہ (مسجد حرام)اور بیت المقدس کی تعمیر میں چالیس سال کا فاصلہ بتایا گیا ہے، شارح بخاری علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی  نے اس حدیث کی شرح میں اس امر کو ترجیح دی ہے کہ مسجد حرام کی تعمیر اول حضرت سیدنا آدم علیہ السلام نے فرمائی، انہیں اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کی سیر کرنے اور مسجد اقصی کی تعمیر کا حکم دیا، حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیل ارشاد میں مسجد اقصی کی تعمیر بھی فرمائی اور اس کے بعد عبادت بھی فرمائی۔اسی طرح دونوں مساجد کی تعمیر کا فاصلہ چالیس سال ہے۔

مذکورہ بالا حدیث کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ مسجد حرام اور مسجد اقصی کے بانی و متولی اول حضرت آدم علیہ السلام تھے، تب نہ یہود کا وجود تھا اور نہ ہی باقی انبیاء علیہم السلام کی بعثت ہوئی تھی، طوفان نوح میں بیت اللہ اٹھا لیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تعمیر نوکے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کو حکم فرمایا، انہوں نے تعمیل حکم خداوندی میں بیت اللہ کی تعمیر فرمائی، اس تعمیر کا ذکر قرآن کریم میں ہے، ایسے ہی مسجد اقصی کی توسیع و تعمیر حضرت داود علیہ السلام اور ان کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمائی، اس تعمیر کی جانب بھی قرآن کریم میں اشارہ موجود ہے۔قرآن کریم میں عیسائی بادشاہ کے ہاتھوں مسجد اقصیٰ کے تباہی اور یہودیوں کے کشت وخون، نیز اس قتل و غارت گری کی وجہ یہود کی بد عملیوں کا ذکر بھی موجود ہے۔

بعض اہل علم نے مسجد اقصی کی تعمیر کی نسبت حضرت سلیمان علیہ السلام سے قبل حضرت یعقوب علیہ السلام کی جانب سے بھی کی ہے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق تعالیٰ نے معراج کے موقع پر مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کا سفر کروایا ،اس سفر کا ذکر قرآن کریم کی سورةالاسراء میں مذکور ہے:

﴿سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾․(الاسراء:1)

پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی، جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ ہر بات سننے والی، ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے۔

تب مسجد اقصیٰ ، بیت المقدس اور ملحقہ شہرجسے اس زمانہ میں ایلیاکہا جاتا تھا، قیصر روم کے زیر اثر تھا، قیصر روم ہرقل عیسائی مذہب کا حامل تھا، ہرقل کا دارالحکومت تو رومتہ الکبری تھا، لیکن وہ عبادت کے لیے مسجد اقصی آتاجاتا تھا۔

سن 7ہجری میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہان عالم کو دعوت اسلام دینے کے لیے خطوط ارسال فرمائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا خط روم کے بادشاہ ہرقل کو ارسال فرمایا، تب ہرقل اپنی منت اور نذرکی تکمیل کے لیے حمص سے بیت المقدس پیدل سفر کر کے آیا تھا، یہیں پر اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خط موصول ہوا۔ الغرض تب مسجد اقصی یہود کے پاس نہیں، بلکہ نصاری کے پاس تھی۔

معراج کے موقع پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد اقصی لا کر جملہ انبیاء علیہم السلام کی امامت کروائی گئی، حدیث نبوی کے مطابق آپ صلی الله علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ مسجد اقصی میں داخل ہوئے، یہاں جملہ انبیاء علیہم السلام پہلے سے موجود تھے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی الله علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر مصلیٰ پر کھڑا کر دیا۔ (مسندا حمد)

دراصل جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد اقصیٰ کا مصلیٰ اور انبیاء علیہم السلام کی امامت سونپ کر مسجد اقصیٰ کی تولیت سونپی گئی، منشائے خداوندی یہی تھی کہ ملک شام میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ہو اور مسجد اقصیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت کے سپرد ہو، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت آپ کی والدہ ماجدہ کے سامنے روشنی نمودار ہوئی جس میں انہوں نے شام کے محلات دیکھے، انہیں روشنیوں میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی والدہ محترمہ نے یمن ، فارس اور روم کے محلات بھی دیکھے۔(نقوش مصطفیٰ جلد اول:113)

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشین گوئیوں میں ملکہ با لشام یعنی آپ کا ملک شام میں ہوگا، آیا ہے۔ تب مسجد اقصی شام کا حصہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی غزوہ احزاب کے موقع پر چٹان توڑتے ہوئے روشنیوں میں دیگر ممالک کی طرح شام کے محلات دکھا دیے گئے، اس سے اشارہ تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سلطنت شام تک وسیع ہوگی۔(نقوش مصطفیٰ جلددوم:489)

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق ملک شام حاصل فرمایا، نیز مسجد اقصی اور ایلیاء کے حصول کے لیے خود بیت المقدس کا سفر فرمایا، تب بھی یہاں کی آبادی اور مسجد اقصیٰ کی تولیت عیسائیوں کے پاس تھی، عیسائیوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بلاواسطہ معاہدہ کر کے مسجد اقصی بغیر جنگ کے حضرت عمر کے حوالہ کی، یہ معاہدہ کتب تاریخ میں درج ذیل الفاظ سے مذکور ہے:

بِسمِ اللہِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ
ہذا ما اعْطی عبْدُ اللہِ عُمَرُ امیرُ المُومِنینَ اہْلَ إیْلیاء َ مِن الامانِ؛ اعْطاہم امانًا لانْفُسِہم وامْوالِہم، ولکَنائِسِہم وصُلْبانِہم، وسَقیمِہا وبَریئِہا وسائِرِ مِلَّتِہا، انَّہ لا تُسکَنُ کَنائِسُہم ولا تُہدَمُ، ولا یُنْتقَصُ مِنہا ولا مِن حَیِّزِہا، ولا مِن صَلیبِہم، ولا مِن شیء ٍ مِن امْوالِہم، ولا یُکرَہونَ علی دینِہم، ولا یُضارُّ احَدٌ مِنہم، ولا یَسکُنُ بإیْلیاء َ معَہم احَدٌ مِن الیَہودِ․ وعلی اہْلِ إیْلیاء َ ان یُعْطوا الجِزْیةَ کما یُعْطی اہْلُ المَدائِنِ، وعلیہم ان یُخرِجوا مِنہا الرُّومَ واللُّصوصَ، فمَن خَرَجَ مِنہم فإنَّہ آمِنٌ علی نفْسِہ ومالِہ حتَّی یَبلُغوا مَامَنَہم، ومَن اقامَ مِنہم فہو آمِنٌ، وعلیہ مِثلُ ما علی اہْلِ إیْلیاء َ مِن الجِزْیةِ، ومَن احَبَّ مِن اہْلِ إیْلیاء َ ان یَسیرَ بنفْسِہ ومالِہ معَ الرُّومِ ویُخلِّیَ بِیَعَہم وصُلُبَہم فإنَّہم آمِنونَ علی انْفُسِہم وعلی بِیَعِہم وصُلُبِہم، حتَّی یَبْلُغوا مَامَنَہم، ومَن کانَ بہا مِن اہْلِ الارْضِ قبْلَ مَقتَلِ فُلانٍ، فمَن شاء َ مِنہم قَعَد وعلیہ مِثلُ ما علی اہْلِ إیْلیاء َ مِن الجِزْیةِ، ومَن شاء َ سارَ معَ الرُّومِ، ومَن شاء َ رَجَعَ إلی اہْلِہ فإنَّہ لا یُوخَذُ مِنہم شیء ٌ حتَّی یُحصَدَ حَصادُہم․ وعلی ما فی ہذا الکِتابِ عَہْدُ اللہِ وذِمَّةُ رَسولِہ وذِمَّةُ الخُلَفاء ِ وذِمَّةُ المُومِنینَ إذا اعْطَوا الَّذی علیہم مِن الجِزْیةِ.شَہِدَ علی ذلک خالِدُ بنُ الوَلیدِ، وعَمْرُو بنُ العاصِ، وعبْدُ الرَّحْمنِ بنُ عَوْفٍ، ومُعاوِیةُ بنُ ابی سُفْیانَ․ (تاریخ طبری:2/449)

یہ وہ امان ہے جو خدا کے بندے امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے ایلیا کے لوگوں کو دی ،یہ امان ان کی جان ،مال ،گرجا ،صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے ،اس طرح پر کہ ان کے گرجاوں میں نہ سکونت کی جائے گی،نہ وہ ڈھائے جائیں گے نہ ان کو اورنہ ان کے احاطہ کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا،نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی،مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا،نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا،ایلیا میں ان کے ساتھ یہودی نہ رہنے پائیں گے(یہود کو بیت المقدس میں آباد نہیں کیا جائے گا)ایلیا والوں پر یہ فرض ہے کہ اور شہروں کی طرح جزیہ دیں اور یونانیوں اور چوروں کو نکال دیں ،ان رومیوں میں سے جو شہر سے نکلے گا،اس کی جان اور مال کو امن ہے تاکہ وہ جائے پناہ میں پہنچ جائے اور جو ایلیا ہی میں رہنا اختیار کرلے تو اس کو بھی امن ہے اور اس کو جزیہ دینا ہوگااور ایلیا والوں میں سے جو شخص اپنی جان اور مال لے کر رومیوں کے ساتھ چلا جانا چاہے تو ان کو اور ان کے گرجاوں کو اور صلیبوں کوامن ہے ،یہاں تک کہ وہ اپنی جائے پناہ تک پہنچ جائیں اور جو کچھ اس تحریر میں ہے ،اس پر خداکا، اس کے رسول کا،خدا کے خلیفہ کا اور مسلمانوں کا ذمہ ہے ،بشرط یہ کہ یہ لوگ جزیہ مقررہ ادا کرتے رہیں، اس تحریر پر خالد بن ولید،عمرو بن العاص ،عبد الرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی ٰ عنہم گواہ ہیں۔

اس معاہدہ کے تحت عیسائیوں نے یہ شرط لگائی تھی کہ مسجد اقصیٰ کے گردو پیش میں یہودیوں کی آبادکاری نہیں کی جائے گی، مذکورہ بالا تفصیل اور معاہدہ سے معلوم ہوا کہ مسجد اقصیٰ سے یہود کا کوئی تعلق نہیں رہا، اہل اسلام نے عیسائیوں سے مسجد اقصیٰ حاصل کی اور پھر صلیبی جنگوں میں عیسائیوں نے مسجد اقصیٰ پر قبضہ کی کوشش کی جسے صلاح الدین ایوبی مرحوم نے دوبارہ حاصل فرمایا، تب بھی یہود اس معاملہ میں فریق نہ تھے، اس لیے یہودیوں کا اس مسجد سے کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہے۔

البتہ 1917ء میں پہلی جنگ عظیم کے وقت غداران وطن مسلمانوں کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد پورا عالم عرب بشمول مسجد اقصیٰ سلطنت عثمانیہ کے ہاتھ سے نکل گیا، شریف حسین آف مکہ اور اس کے دیگرحواریوں کی وجہ سے عالم عرب مختلف ریاستوں میں تقسیم ہوگیا، اردن، سعودی عرب، شام،عراق، فلسطین، عمان، کویت، قطر وغیرہ ممالک معرض وجود میں آگئے۔ یروشلم (بیت المقدس) پر ترکیوں نے دشمنوں کے خلاف سخت جنگ لڑی، نتیجہ میں 25ہزار مسلمان فوجی شہید ہوگئے، لیکن عربوں کی بغاوت کی وجہ سے یروشلم ہاتھ سے نکل گیا۔

1917ء میں بَالفور اعلامیہ کے تحت فاتح قوم برطانیہ نے فلسطین کو یہودیوں کا قومی گھر قرار دینے کا فیصلہ کیا، 1920ء سے 1940ء کے درمیان دنیا بھر کے یہودیوں کو برطانیہ کی سرپرستی میں یہاں آباد کیا گیا۔1947ء میں ایک جانب مسلم ریاست پاکستان معرض وجود میں آئی تو دوسری جانب اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو الگ الگ یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کر دیا، نیز بیت المقدس کو بین الاقوامی شہر قرار دیا ، مسلمانوں نے اقوام متحدہ کے اس غاصبانہ فیصلہ کو مسترد کیا لیکن طے شدہ منصوبے کے تحت 1948ء میں برطانیہ نے علاقہ کا کنٹرول یہودیوں کے حوالہ کر کے علاقہ چھوڑدیا، یوں اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم ہوگئی،تب یہودیوں اور مسلمانوں میں جنگ شروع ہوئی۔ یہ جنگ 1949ء میں ختم ہوئی، اسرائیل بیشتر فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر چکا تھا، عالمی طاقتوں نے پھرپور انداز میں اسرائیل کا ساتھ دیا، یوں عالمی قوتوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنا پالتوبچہ اس علاقہ میں پالنا شروع کردیا، 1967ء میں ایک بار بھر عرب اسرائیل جنگ ہوئی، جس کے نتیجے میں اسرائیل مشرقی بیت المقدس، غرب اردن اور شام کی طرف گولان کی پہاڑیوں پر بھی قابض ہوگیا۔ گذشتہ 50سالوں سے اسرائیل، عرب خطہ میں نئی نئی بستیاں بنا کر یہودیوں کی آباد کاری کر رہا ہے اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر رہا ہے۔نتیجتاً اب مسلمان غزہ کی 41کلومیٹر لمبی اور 10کلو میٹر چوڑی پٹی تک محدود ہو گئے ہیں۔

اسی بستی پر جنگ مسلط ہے، اسرائیل اس بستی میں رہائش پذیر 20لاکھ سے زائد کی آبادی کو نسل کشی کے ذریعے ختم کرنا چاہتا ہے اور عالمی طاقتیں اس منصوبہ میں اس کی ہم نوا اور مدد گار ہیں، ایسے میں انسانی حقوق کے دعوی داروں کی منافقت کھل کر سامنے آچکی ہے۔

اہل اسلام کو اس صورت حال میں جرات مندانہ اور بصیرت پر مبنی اقدام کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ مستقل بنیادوں پر مسئلہ فلسطین کے پائیدار حل کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔

وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ مُحَمَّد وَّاٰلہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ