ایمان کی فتح

idara letterhead universal2c

ایمان کی فتح

محترم سید عبدالرزاق

دوحہ معاہدہ کے تین سال مکمل ہونے پر بی بی سی پشتو کے ایک پروگرام میں اکمل داوی کے نام سے ایک مہمان نے گفت گو کی۔ اکمل داوی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے امریکا او رامارت ِ اسلامیہ کے درمیان ہونے والے طویل اور اعصاب شکن مذاکرات میں ترجمانی کے فرائض سر انجام دیے۔ بی بی سی کے پروگرام میں گفت گو کرتے ہوئے اکمل داوی کا کہنا تھا کہ اس تاریخی مذاکراتی دور میں امارتِ اسلامیہ کی مذاکراتی ٹیم کی مذاکرات کی استعداد وذکاوت نے مجھ سمیت پوری امریکی ٹیم کو حیران کر دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں: طالبان کی مذاکراتی ٹیم جس طرز استدلال سے بہرہ ور تھی وہ صرف میرے لیے نہیں، بلکہ مد مقابل امریکیوں کے لیے بھی باعث حیرت تھی۔ اکمل داوی کا کہنا تھا کہ طالبان مذاکرات کار شیر محمد عباس ستانکزئی نے پوری جرات سے امریکی ٹیم کے سامنے یہ مطالبہ رکھا کہ تم نے بیس سال تک ہمارے ملک کی سرحدیں پامال کیں، تم نے ہماری فضا اور ہماری زمین کو جارحیت کا نشانہ بنایا ، تمہاری بمباری سے ہمارے ملک وملت کا بے تحاشا نقصان ہوا ہے، اس لیے امریکا کو ہمارے بیس سالہ نقصان کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔

اکمل داوی کا کہنا تھا مذاکرات کے دوران دونوں فریقوں کے درمیان ایک بڑا اختلافی موضوع، جس پر کئی دن بات ہوتی رہی، وہ دہشت گردی کی تعریف تھا۔ طالبان وفد کا کہنا تھا کہ اگر دہشت گردی کی تعریف یہ ہے کہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے شدت او رجنگ کا راستہ اختیار کیا جائے توہماری نظر میں سب سے بڑا دہشت گرد امریکا ہے، جس نے افغانستان پر جارحیت کی، ہم پر بمبار ی کی ، عوام کو نشانہ بنایا، ہمارے راہ نماؤں کو شہید کیا، گوانتانامو کی جیل میں ڈالا، ہمیں کسی عدالت تک رسائی نہیں دی اورعدالتی کارروائی کے بغیر ہمیں جیلوں میں ڈالا ،اور سزائیں دیں۔

ہم نے امریکا جاکر امریکا سے جنگ نہیں لڑی، ہم دفاعی حالت میں اپنے ہی ملک میں امریکا سے لڑے ہیں۔ اکمل داوی کے بقول اس موضوع پر کئی دن امریکا اورطالبان کے بیچ بحث وتکرار ہوتی رہی۔ آخر اتفاق رائے اس بات پر ہوا کہ مستقبل کی طالبان حکومت کی طرف سے امریکا کے امن کو کوئی خطرہ نہیں پہنچنا چاہیے۔ یعنی امریکی سفارت کار طالبان کو دہشت گرد ثابت نہ کرسکے، چناں چہ مجبوراً”گزشت آنچہ گزشت“ سے کام چلا لیا گیا۔

اکمل داوی نے ایک اور نکتہ یہ بھی اٹھایا کہ طالبان کی ٹیم میں جہاں شیر محمد عباس ستانکزئی جیسے چنگاریاں اڑانے والے جرات مند اور بے باک موجود تھے تو وہاں بردبار ، تحمل سے مالا مال اور وسیع الصدور افراد بھی شامل تھے، جس کی بہترین مثال موجودہ وزیر خارجہ امیر خان متقی ہیں، جو بڑے تحمل سے بات سنتے تھے او راتنے ہی تحمل سے جواب بھی دیتے تھے اورجب بات کرتے تھے تو بہت ہی معقول اور قناعت بخش بات ہوا کرتی تھی۔ اکمل داوی کے بقول جب امریکی ٹیم نے اصرار کیا کہ معاہدے میں ”امارات ِ اسلامیہ“ کی بجائے ”طالبان“ لکھنا چاہیے تو طالبان کی طرف سے بجائے بے جا اصرار کے یہ قناعت بخش جواب دیا گیا کہ جس طرح امریکا اپنے لیے ”ریاست ہائے متحدہ“ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے تو ہمارا بھی حق ہے کہ ہم اپنے لیے کوئی بھی نام استعمال کریں، جب ہمیں امریکا کے نام اورحق پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو امریکا کیوں ہمارا حق چھیننا چاہتاہے؟ دوسری بات یہ کہ طالبان افغانستان میں ایک خاص طبقہ ( دینی علم کے طالب علم) کا نام ہے، کل کو طلبہ کا کوئی گروپ اکٹھا ہوتا ہے تو وہ بھی اس معاہدے کے متن کی رو سے بہ آسانی امریکا کے مقابل فریق ہو گا اور امریکا اس بات کا پابند ہو گا کہ اس معاہدے کے مطابق اسے پروٹوکول دے۔ یہ امریکا کے لیے بھی نقصان کی بات ہے۔ امریکی ٹیم یہ معقول جواب سن کر امارت ِ اسلامیہ کے نام پر اتفاق کر گئی، لیکن انہوں نے معاہدے میں امارات اسلامیہ کو پوری طرح تسلیم کرنے کی بجائے معاہدہ میں ہر جگہ ساتھ یہ لکھوا دیا کہ امارت اسلامیہ جسے امریکا طالبان کے نام سے جانتا ہے۔

اکمل داوی کی اس معنی خیز گفت گو میں میرے لیے سب سے زیادہ دلچسپ نکتہ یہ تھا کہ امارتِ اسلامیہ کی مذاکراتی ٹیم میں اکثرباتیں جناب شیرمحمد عباس ستانکزئی اور امیر خان متقی کیا کرتے تھے او رباقی ساتھی اکثر خاموش رہتے تھے ،بلکہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ جب طالبان ٹیم کا کوئی بندہ بات شروع کر تا تھا تو ٹیم کے بقیہ ارکان کے صرف لب ہلتے تھے، جیسے وہ خود کلامی کر رہے ہوں۔ اکمل داوی کے بقول مذاکراتی مجلس کے اختتام پر جب اس حوالہ سے استفسار کیا گیا تو جواب ملا کہ ہم اپنے درمیان شوری کا نظام رکھتے ہیں، ہم اپنی ساری باتیں اس شوری میں ایک دوسرے سے ڈسکس کرتے ہیں او رجب مذاکرات کی میز پر آتے ہیں تو ایک کو اپنا نمائندہ منتخب کر لیتے ہیں، بس وہی ایک سب کی نمائندگی کر لیتا ہے، ہر ایک کو بولنے کی حاجت نہیں ہوتی اور یہ جو ہم دس یا بارہ افراد آتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ محض کورم برابر رکھنا مقصد ہوتا ہے کہ امریکی جانب سے دس ہیں تو ہم بھی دس ہوں اور یہ جولب ہلانے کی بات ہے دراصل جب ہمارا ساتھی بات شروع کرتا ہے تو ہم دعائیں کرنے لگتے ہیں اور الله تعالیٰ سے مانگتے ہیں کہ ہمارے ساتھی کو باتوں میں غلبہ حاصل ہو۔

یہ نکتہ جہاں میرے لیے سب سے زیادہ دلچسپ ہے وہاں میرے ایمان اورعقیدہ کی فتح ہے۔ یہاں دو باتیں آشکار ہوتی ہیں، ایک یہ کہ امارت ِ اسلامیہ کی قیادت آپس میں کس قدر ایک دوسرے پر اعتماد رکھتی ہے او ران کے درمیان کس حد تک ادب وطاعت اور ہم آہنگی واتفاق ہے۔ ایک تیسرا شخص نہ چاہتے ہوئے بھی یہ گواہی دیتا ہے کہ ان کا طرز گفت گو مثالی تھا، ان میں باہمی ادب واحترام کی انتہا تھی، وہ شور وغل اور بے جاباتوں سے پرہیز کرتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ امارت اسلامیہ کی قیادت کو الله تعالیٰ کی ذات سے اس قدر گہرا ربط تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کی صلاحیت واستعداد اورکسی طرح بھی مادی قوت کی طرف للچائی نگاہ رکھنے کی بجائے یہ یقین کامل رکھتی تھی کہ سب کچھ کرنے والی ذات الله کی ہے او روہی مشکل کشا ہے، اس لیے عین مذاکرات او ر اپنے ساتھی کے تکلم کے وقت وہ الله تعالیٰ سے دعائیں مانگتے تھے اور لب ہلتے تھے تو صرف الله سے مانگنے کے لیے اور نظر ہوتی تھی توتنہا اس ذات کی طرف جو کائنات کی خالق ہے۔ امارت اسلامیہ کی قیادت کا یہی جذبہ ، یہی قوت ایمان اور یہی روحانیت بالآخر اس امر کا باعث ہوئی کہ امریکا جیسا سپر پاور ملک اپنے بہترین سفارت کاروں کے ذریعے مذاکرات کے میدان میں بھی کام یابی حاصل نہ کر سکا۔

10حوت1398 بمطابق29 فروری2020ء وہ تاریخی دن ہے جب الله تعالیٰ نے دنیا پر یہ آشکار کر دیا کہ کوئی طاقت، خواہ فرعونیت کی کتنی ہی بلندی پر پہنچ جائے، جب میں چاہوں تو یہ ساری مادیات بیک جنبش قلم کچھ سے کچھ بنا سکتا ہوں۔آج جب کہ اس معاہدہ کے تین سال مکمل ہو گئے اورا س معاہدے کی بدولت افغانستان سے جارحیت کا خاتمہ ہوچکا ہے اورملک کے طول وعرض میں اسلام کا سفید جھنڈا لہرا رہا ہے، دنیا کو یہ واضح پیغام جاتا ہے کہ اس غیور قوم کے اندر جو الله کی ذات سے لگاؤ ہے، وہ ہمیشہ اس کے لیے طاقت وغلبے کا نشان بنا رہے گا۔ ان شاء الله