غزہ پر وحشیانہ بمباری اور امت ِمسلمہ کی ذمے داری

idara letterhead universal2c

غزہ پر وحشیانہ بمباری اور امت ِمسلمہ کی ذمے داری

مولانا امدادالحق بختیار

یہودیوں کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی فطرت سے بد اخلاق، شریر، غیر انسانی اوصاف کے حامل، بلکہ درندہ صفت واقع ہوئے ہیں، وہ انسانیت کے لیے ناسور ہیں، وہ دنیا کے جس خطہ میں رہے، اپنی شرارتوں سے انہوں نے دوسروں کا جینا حرام کردیا، اس وقت بھی بیت المقدس اور فلسطین کے ایک بڑے حصہ پر ناجائز قبضہ کر کے، انہوں نے وہاں کے اصل باشندوں کی زندگی تباہ وبرباد کردی، تقریباً ایک چار ماہ سے وہ ”پاگل ہاتھی“ کی طرح اندھا اندھ کیمیکل بموں، توپ کے دہانوں اور بندوق کی گولیوں سے غزہ کے معصوم بچوں، خواتین، بوڑھوں اور دیگر شہریوں کے خون کی ندیاں بہا رہا ہے، جس سے محلات کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے، عمارتیں زمین دوز ہوگئیں، دس ہزار سے زائد معصوموں کو درد ناک موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، لاکھوں سروں سے گھر وں کا سایہ چھین لیا گیا، وہاں درندگی کا ننگا ناچ اور انسانی بحران اپنی خوف ناک شکل اختیار کر چکا ہے۔

اس تباہ کن بربریت، ظلم، دہشت گردی اور سفاکی نے پوری دنیا کے انسانوں اور مسلمانوں کی نیند حرام کردی ہے، ہر مسلمان ”ماہی بے آب“ کی طرح تڑپ رہا ہے اور ایسا ہو بھی کیوں نہ؛ جب کہ قرآن کریم کا بیان ہے:

﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ﴾یقیناً ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ (الحجرات: 10)

رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم نے ایک مثال کے ذریعہ اس کی بہترین وضاحت فرمائی ہے:

قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم:”تَرَی الْمُؤْمِنِینَ فِی تَرَاحُمِہِمْ وَتَوَادِّہِمْ وَتَعَاطُفِہِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ؛ إِذَا اشْتَکَی عُضْوًا تَدَاعَی لَہُ سَائِرُ جَسَدِہِ بِالسَّہَرِ وَالْحُمَّی“. رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آپ ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی، محبت اور شفقت کے معاملہ میں ایمان والوں کو ایک جسم کی طرح پائیں گے، کہ جب جسم کا کوئی عضو تکلیف محسوس کرتا ہے، تو مکمل جسم بے خوابی، بخار اور درد کو محسوس کرتا ہے۔ (صحیح بخاری، 6011)

لہٰذا غزہ میں ہور ہے مظالم پر ہمارے اندر تکلیف کا احساس ہونا، یہ انسانی اور دینی فریضہ ہے، یہ پوری امت مسلمہ کے لیے سخت آزمائش کی گھڑی ہے اور ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے اس حوالے سے قرآن کریم کے مطابق ہمیں سب سے پہلے تین کام کرنے کی وصیت کی گئی ہے: صبرنمازوں کا اہتمام تقوی۔ چناں چہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ﴾․ ترجمہ: اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد حاصل کرو؛ یقیناً اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورہ بقرہ: 153)

﴿لَتُبْلَوُنَّ فِیْ أَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَذًی کَثِیْراً وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُورِ﴾․ ترجمہ: ضرور بالضرور تم آزمائش میں مبتلا کیے جاؤگے، اپنے مال میں اور اپنی جان میں اور ضرور بالضرور تم یہود ونصاری اور مشرکین سے بہت تکلیف کی باتیں سنوگے اور اگر تم نے صبر کیا اور تقوی اختیار کیا، تو یہ ہمت کا کام ہوگا۔(سورہ آل عمران: 186)

لہٰذا ہمیں آزمائش کے اس وقت میں صبر اختیار کرنا چاہیے اور اللہ تعالی کے کسی فیصلہ پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے، نیز تقوی اختیار کرتے ہوئے، گناہوں سے دوری اور توبہ کرنی چاہیے اور عبادتوں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔

مذکورہ بالا تین کاموں کے ساتھ غزہ کے مظلومین کی مدد کرنا ہمارے اوپر فرض ہے، ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں اس کی وصیت فرمائی ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی امت ہونے کی حیثیت سے اس وصیت کی پاس داری کرنا ہمارے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے، چناں چہ بخاری شریف کی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے صحابہ کو سات باتوں کی تاکید فرمائی، ان میں سے ایک مظلوم کی مدد کرنا بھی ہے: ”ونصر المظلوم“ ۔(بخاری، 2445) اسی طرح رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے کہ نہ ہم کسی مسلمان پر ظلم کریں، نہ ظلم کی حالت میں اسے بے یار ومدد گار چھوڑیں اور نہ ہی اسے ظالم کے حوالے کریں:” المسلم أخو المسلم، لا یظلمہ، ولا یخذلہ“․ (مسلم شریف، 2564) ترجمہ: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے۔

لہٰذا موجودہ صورت حال میں تمام دنیا کے مسلمانوں پر چاہے، وہ اسلامی ملکوں کے حکمراں ہوں یا عوام؛ اپنی استطاعت کے بقدر غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے کھڑا ہونا فرض ہے، دشمن کو ظلم سے روکنا اور اس کے ظلم کا جواب دینا لازم ہے، اگر ہم نے آج اپنا یہ فریضہ انجام نہیں دیا، تو ،کل اللہ تعالی کی پکڑ سے ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا، اللہ تعالی کی طرف سے کھلی وارننگ ہے:

”قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم: قَالَ رَبُّکَ تبارک وتعالی: وَعِزَّتِی وَجَلَالِی لَأَنْتَقِمَنَّ مِنَ الظَّالِمِ فِی عَاجِلِہِ وَآجِلِہِ، ولَأَنْتَقِمَنَّ مِمَّنْ رَأَی مَظْلُومًا فَقَدَرَ أَنْ یَنْصُرَہُ، فَلَمْ یَفْعَلْ“․

ترجمہ: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے: میری عزت اور جلال کی قسم! میں ظالم سے دیر سویر ضرور انتقام لوں گا اور ان سے بھی انتقام لوں گا جنہوں نے مظلوم کو دیکھا، وہ اس کی مدد کی قدرت رکھتے تھے، لیکن انہوں نے پھر بھی مظلوم کی مدد نہیں کی۔ (المعجم الأوسط للطبرانی، 36)

اس حدیث کے ذریعہ اللہ تعالی نے تمام لوگوں، حکمرانوں اور بالخصوص مسلم حکمرانوں کو وارننگ دی ہے کہ اگر وہ مظلوم کی مدد کے لیے کھڑے نہیں ہوئے، تو کل ان کی بھی باری ہے، اسی طرح ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

ما من امرءٍ یخذل امرءً ا مسلمًا عند موطن تُنتہَک فیہ حُرمتُہ، ویُنتَقَص فیہ من عِرضہ، إلا خذلہ اللہ عز وجل فی موطن یحب فیہ نُصرتہ.

ترجمہ: جو مسلمان بھی، کسی دوسرے مسلمان کو ایسے وقت میں بے یار و مددگار چھوڑ دے، جب کہ اس کی حرمت پامال کی جا رہی ہو، اس کی عزت وآبرو تار تار کی جا رہی ہو، تو اللہ تعالی اس مسلمان کو بھی ایسے وقت میں بے یار ومدد گار چھوڑ دے گا، جب اس کو اللہ تعالی کی مدد کی ضرورت ہوگی۔ (سنن ابی داؤد: 4884)

فلسطین کے بچوں اور ماؤں کی گہار کو سامنے رکھتے ہوئے درج ذیل آیت کو پڑھیں اور مسلم حکمران اپنے موقف کا جائزہ لیں:

﴿ وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً﴾․

ترجمہ: تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں جہاد نہیں کرتے؟ جب کہ کمزور مرد، خواتین اور بچے گہار لگا کر کہہ رہے ہیں: یا رب! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کسی کو حامی بنا دیجیے اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مدد گار کھڑا کر دیجیے۔(سورہ نساء: 75)

البتہ ہندوستان جیسے دور دراز ممالک میں رہنے والے مسلمان، مظلوم کی مدد کے ممکنہ دست یاب راستوں کو اختیار کر سکتے ہیں، جیسے اگر کسی قابل اعتبار ذریعہ سے اہل غزہ کے لیے مالی تعاون جمع کیا جائے، تو اس میں ضرور حصہ لیں، اپنے آپ کو جسمانی طور پر بھی ان کے تعاون کے لیے تیار رکھیں اور ان کے حق میں زیادہ سے زیادہ دعاؤں کا اور نماز میں قنوت نازلہ کا اہتمام کیا جائے؛ کیوں کہ ہمارا ایمان ہے کہ فتح اور غلبہ اللہ تعالی کی طرف سے ہی ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:

﴿إِن یَنصُرْکُمُ اللّہُ فَلاَ غَالِبَ لَکُمْ وَإِن یَخْذُلْکُمْ فَمَن ذَا الَّذِیْ یَنصُرُکُم مِّن بَعْدِہِ وَعَلَی اللّہِ فَلْیَتَوَکِّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾․

ترجمہ: اگر اللہ تمہاری مدد کرنا چاہے تو کوئی تمہیں مغلوب نہیں کر سکتا اور اگر اللہ تمہیں بے سہارا چھوڑ دے تو اس کے بعد کون تمہاری مدد کر سکتا ہے؟! اور اللہ پر ہی ایمان والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے۔ (آل عمران: 160)

اسی طرح رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

قال رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم -: ”أَلا أَدُلُّکُمْ عَلَی مَا یُنْجِیکُمْ مِنْ عَدُوِّکمْ وَیَدِرُّ لَکُمْ أَرْزَاقَکُمْ؟ تَدْعُونَ اللَّہَ فِی لَیْلِکُمْ وَنَہَارِکمْ، فَإنَّ الدُّعَاءَ سِلاحُ المؤْمِنِ“․

ترجمہ: کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو تمہیں دشمن سے نجات دے اور تمہارے لیے رزق کے دہانے کھول دے؟ تم رات اور دن اللہ سے دعا مانگو؛ اس لیے کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔(مسند أبی یعلی، حدیث 1812)

لہٰذا ہم یہاں ہندوستان میں رہتے ہوئے، غزہ کے حق میں اور اسرائیل کی درندگی اور مظالم کے خلاف آواز بلند کریں، صبر، تقوی اختیار کریں، غلط کام اور گناہوں سے پرہیز اور توبہ کریں۔ ہر ممکنہ تعاون کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھیں، نمازوں میں دعاؤں اور قنوت نازلہ کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کریں۔