مسئلہ فلسطین، یہود کا دعویٰ اور اُمت ِ مسلمہ کا موقف

idara letterhead universal2c

مسئلہ فلسطین، یہود کا دعویٰ اور اُمت ِ مسلمہ کا موقف

مولانا محمد اسماعیل ریحان

غزّہ پر اسرائیل کے بہیمانہ حملوں کے تناظر میں اس وقت فلسطین دُنیا کا اہم ترین مسئلہ بن چکا ہے اور ا س بات کا خطرہ ہے کہ اگر اس مسئلے کا منصفانہ حل نہ نکالا گیا تو کہیں یہ جنگ دیگر ممالک تک نہ پھیل جائے۔ یہود کا دعوی ٰہے کہ فلسطین اُن کا آبائی وطن اور بیت المقدس اُن کا مقدس مقام ہے، لہٰذا وہی اس کے وارث ہیں۔ لگ بھگ ڈھائی ہزار سال سے یہودی یہی ارمان پالتے آئے ہیں کہ کسی طرح وہ یروشلم کو دوبارہ حاصل کریں اور وہاں ہیکل ِ سلیمانی کی از سرِ نو تعمیر کریں، تاکہ وہاں عالم گیر بادشاہ (دجال) اپنا تخت نصب کرے اور عالم گیر حکومت قائم کرے۔ 1948ء میں اسرائیل کے ناجائز قیام اور 1967ء میں اردن پر حملے اور بیت المقدس پر غاصبانہ قبضے کے بعد صہیونیوں کی خواہشات کی تکمیل کا وقت قریب آگیا تھا، تاہم اس وقت امریکا کو روس سے مقابلے کے لیے عالم اسلام کی ضرورت تھی اورمسلمانوں کے شدید ردِ عمل کے خطرے کے باعث امریکی زعماء اسرائیل کی خواہش پر عمل درآمد کو ٹالتے رہے۔ مگر سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد حالات بدل گئے او رامریکا خود کو دنیا کی واحد سپر پاور سمجھنے لگا۔ اس کے بعد سے تاحال وہ پاکستان، سعودی عرب اور ترکی کے سوا مسلم دنیا کے ان تمام طاقت ور ممالک کو نہتا کرچکا ہے، جنہیں سرد جنگ، جنگ ویت نام او رجنگ ِ افغان کے دوران ہتھیاروں سے لیس کیا گیا تھا۔ پاکستان کو معاشی طور پر تقریباً دیوالیہ کر دیا گیا، جب کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو اسرائیل کے حوالے سے نرمانے کی پالیسی بھی کام یابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اسی لیے حالیہ اسرائیل حماس جنگ میں امریکا کھلم کھلا اسرائیل کے ساتھ کندھے سے کھندھا ملا کر کھڑا ہے۔ دوسری طرف میڈیا کے محاذ پر اسرائیل کا ہم نواطبقہ اس کی حمایت میں مختلف دلائل ( چاہے خود ساختہ سہی) جمع کرکے مختلف رسائل وجرائد ، بین الاقوامی سطح کے علمی فورمز اور عالمی ذرائع ابلاغ پر پیش کر رہا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین پر فقط یہود کا حق ہے۔

یہودی ذرائعِ ابلاغ او ران کے ایجنٹ اس حوالے سے دو بڑے دلائل پیش کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ نسلی طور پر فلسطین یہودیوں کا ہے۔ دوسرے یہ کہ تاریخی لحاظ سے یہ یہود کا وطن ہے۔ درحقیقت یہ دونوں مغالطے ہیں۔ راقم دونوں کے بارے میں الگ الگ کچھ معروضات پیش کر رہا ہے۔

موجودہ اسرائیل کے یہودی کیا اولاد اسرائیل ہیں؟

یہودی خود کو انبیائے بنی اسرائیل کی اولاد قرار دیتے ہیں اور دنیا یہود کے اس دعوے پر یقین بھی کرتی ہے، یہاں تک کہ مسلمانوں کی اکثریت بھی یہودیوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اسے تسلیم کرتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ زمانہ ِ حال کے یہودیوں کی اکثریت انبیاء کی نسل سے ہر گز نہیں۔ یہود کی اکثریت اپنی انفرادیت اور نسلی پہچان زمانہٴ دراز سے کھو چکی ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل پہلوؤں پر غور کریں۔

ہر کوئی مشاہدہ کر سکتا ہے کہ یہودیوں کے رنگ وروپ، خدوخال او رزبان وثقافت میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ ان کی اکثریت یورپ کی مختلف قوموں سے ملتی جلتی ہے۔ ان کی بہت بڑی تعداد تُرکوں اور روسیوں کے مشابہ ہے۔ اگر کوئی قوم اپنی نسلی خصوصیات کو باقی رکھے تو یہ تفاوت نہیں ہو سکتا۔ مثلاً اگر کوئی قبیلہ یہ طے کر لے کہ ہم کسی اور قبیلے میں نکاح نہیں کریں گے تو اُس کے افراد کی شکلیں آپس میں بہت ملتی جلتی ہوں گی، مثلاً افریقی قبائل۔ ایسے قبائل کے افراد اپنی شکلوں ہی سے پہچان لیے جاتے ہیں۔ یہودیوں میں یہ انفرادیت باقی نہیں رہی۔

یہودیوں کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ مذہب کی رُوسے ان کے ہاں دوسری اقوام سے رشتے ناتے نہیں ہوتے۔ اس لیے ان کی نسل خالص چلی آرہی ہے۔ یہ بھی ایک مغالطہ اور سرا سر دھوکا ہے۔ بائبل کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام نے غیر اقوام کی لڑکیوں سے شادیاں کی تھی۔ ( عہد نامہ عتیق، سلاطین:1، ملوک:4-11:1)

اسی طرح بائبل کے مطاقب مشہور یہودی حسینہ اُستیرایرانی بادشاہ کے حرم میں تھی۔ اس عورت کو یہودی اپنی تاریخ کی عظیم شخصیت شمار کرتے ہیں۔ الغرض یہودی مذہب دیگر قوموں سے رشتے ناطے کرنے سے مانع نہیں اور وہ یہ رشتے ناطے کرتے آئے ہیں جسے تاریخ بھی ثابت کرتی ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ عہد موسوی کے بعد ایک مدت تک دنیا کی دیگر قوموں کی طرح یہود بھی آپس میں ہی میں رشتوں ناطوں کے عادی ہوں، مگر جیسے جیسے دنیا میں معاشرتی تعلقات وسیع ہوتے گئے او رمختلف اقوام آپس میں مخلوط ہونے لگیں ویسے ویسے یہودی بھی دوسری قوموں سے رشتے کرکے ان میں مخلوط ہونے لگے۔ دور حاضر میں ایسے غیر یہودی جنہوں نے یہودی لڑکیوں سے شادیاں کیں یا وہ یہودی جنہوں نے غیر اقوام کی لڑکیوں سے شادیاں کیں، دُنیا میں ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ یورپی یہودیوں میں ایسے افراد کم ہیں جن کے ماں باپ دونوں یہودی النسل ہوں۔ اکثر افراد ایسے ہیں جن کی ماں یہودن ہے تو باپ کرسچن ، باپ یہودی ہے تو ماں کرسچن۔ عہد ِ حاضر کی بہت سی مشہور شخصیات اس زمرے میں ہیں ،جن میں سے بعض سے قارئین بھی واقف ہی ہوں گے۔ غرض یہ ثابت ہے کہ صدیوں سییہودیوں نے دیگر اقوام سے ازدواجی تعلقات قائم کر رکھے ہیں، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اب تک انبیاء کی نسل ِ خالص چلے آرہے ہوں؟
تاریخی شہادت موجود ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی کے اواخر میں، بحیرہٴ کیسپین کے پاس آباد روس کی ایک ریاست کے باشندوں نے اجتماعی طور پر یہودیت قبول کر لی تھی، جسے سلطنت خزر کہا جاتا تھا، بڑھتے بڑھتے یہ سلطنت مغرب میں یورپ تک اور مشرق میں آرمینیا اور آذربائی جان تک وسیع ہو گئی۔ اس وقت روس، پولینڈ، رومانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں جو یہودی ہیں، وہ اسی سلطنت ِ خزر کے باشندوں کی نسل سے ہیں۔ یہ وہ یہودی نہیں جن کے آباؤ واجداد کبھی فلسطین میں تھے، جن کے بارے میں بنی اسرائیل ہونے کا امکان تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
فلسطین میں آباد یہودیوں کی اکثریت گزشتہ صدی میں یورپ سے آئی ہے۔ فلسطین کے اندر جو مقامی یہودی جو صدیوں سے یہاں آباد تھے، چند ہزار سے زیادہ نہیں تھے، مگر اس وقت تمام یہودی خود کو فلسطینی اوربنی اسرائیلی قرار دے رہے ہیں۔

ان دلائل سے واضح ہو جاتا ہے کہ موجودہ یہودیوں کا خود کو بنی اسرائیل قرار دینا ایک فریب کے سوا کچھ نہیں۔ ان کا نسب خالص رہا ہے نہ ان میں خصوصیات ِ نسلی باقی ہیں۔ وہ خالص نسلِ یعقوبی ہر گز نہیں، ان میں کئی قوموں کا خون شامل ہے، ہاں! کچھ خصوصیات مثلاً حرص، حسد، تکبر، سود خوری وغیرہ ان میں ضرور مشترک ہیں، مگر انہیں نسلی نہیں، قومی خصوصیات کہا جائے تو بہترہے۔ آج کے یہودی ایک نسلنہیں ہیں، ہاں! مشترکہ معتقدات او راہداف کی حامل ایک قوم ضرور ہیں، جس طرح مسلمانوں میں ہر نسل ہر رنگ کے لوگ ہیں، اسی طرح یہود میں بھی مختلف قومیں او رانداز واطوار کے لوگ شامل ہیں۔ لیکن مسلمان تو یہ دعویٰ کرتے ہی نہیں کہ وہ کسی خصوصی اعلی وبرترنسل کے افراد ہیں، اسلام عالم گیر ہے، جو ہر نسل، ہر قوم اورہر علاقے کے لیے ہے۔ مگر یہودی جھوٹے منھ اس دعوے کا پر چار کرتے آرہے ہیں کہ ہم انبیاء کی نسل سے ہیں اور دنیا کی قیادت بھی صرف ہمارا حق ہے۔

ارِض مقدس کی وراثت کا تعلق نسل سے نہیں، نظریے سے ہے

ارضِ مقدسہ کی وراثت کا تعلق نسل سے نہیں، عقیدے اورنظریے سے ہے۔ اگر بالفرض چند یا سارے یہودی انبیاء کی نسل سے ثابت ہو بھی جائیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ قرآن مجید کے علاوہ خودبائبل میں ایسے واقعات موجود ہیں کہ جب کسی نے اپنے نبی کے دین سے سرتابی کی تو اس پر خدا کا غضب نازل ہوا اور نسلی تعلق اس کے کچھ کام نہ آیا۔ اس لیے یہودیوں کا نسلی تفاخر بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔

یہ بات خود یہود بھی عملاً تسلیم کرتے ہیں۔ چناں چہ اگر آپ کسی یہودی سے پوچھیں تمہاری نسل کا کوئی بندہ یا کوئی گروہ مسلمان ہو جائے تو تمہارے نزدیک وہ خدائی وعدے اور القدس کی تولیت کا حق دار رہے گا۔ یقینا اس کا جواب ہو گا: ہر گز نہیں؟

اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ خود بھی مانتے ہیں کہ القدس کی وراثت نسلی بنیاد پر نہیں، نظریے کی بنیاد پر ہے۔ پس یہود کو چاہیے کہ نسل ِ انبیاء ہونے کے فضول دعوے کو لے کر اپنا مقدمہ لڑنا چھوڑ دیں اور اس پر بحث کریں کہ سچا دین کس کا ہے؟ علمائے اسلام ثابت کر دیں گے کہ اسلام ہی سچا دین ہے اور یہود حضرت محمد صلی الله علیہ و سلم پر ایمان لائے بغیر ملت ِ ابراہیمی اور دین ِ موسوی کے پیروکار بھی ہر گز نہیں ہو سکتے۔ پس فلسطین اورالقدس کے حوالے سے ان کا دعویٰ بھی جھوٹا ہے۔

تاریخی لحاظ سے بھی فلسطین یہود کا نہیں

حال ہی میں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا کہ ”یہود فلسطین کی سب سے قدیم آبادی ہیں۔ وہ ساڑھے تین ہزار سال قبل اس سر زمین پر آباد تھے او رمدت ِ دراز تک ان کی نسلیں یہاں پھیلتی پھولتی رہیں۔ پھر انہیں یہاں سے ظالمانہ طور پر بے دخل کیا گیا۔ صدیوں کی جد وجہد کے بعد وہ دوبارہ یہاں اپنا وطن بنانے میں کام یاب ہوئی تو اس پر مسلمانوں کو اعتراض کا کوئی حق نہیں۔ فلسطینی اُن کے ساتھ رہنا چاہیں تو یہودی انہیں برداشت کرسکتے ہیں، مگر فلسطین پر ان کے حق کا دعویٰ تسلیم نہیں کرسکتے۔“ یہ بیان یوٹیوب پر موجود ہے۔

نیتن یاہو اور اس کا ہم نوا دجالی میڈیا ہمیں فقط ساڑھے تین ہزار برس پہلے کی تاریخ دکھاتا ہے، جب یہود بیت المقدس میں آباد تھے۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ اس سے پہلے ارضِ مقدس بہت سے سامی او رغیر سامی قبائل کا وطن رہی ہے۔ آموری، فلستی، موآبی، ادومی وغیرہ یہاں پہلے سے آباد تھے۔ عبرانی بولنے والے یہودی بہت بعد میں ( آج سے ڈھائی ہزار سال قبل ) یہاں حملہ آوروں کے طور پر آئے تھے۔ یہاں انہوں نے اسی طرح قبضہ کیا تھا جس طرح وسط ِ ایشیا کے آریاؤں نے پنجاب اور گنگا جمنا کی وادیوں پر قبضہ کیا۔

کسی تاریخی شہادت سے یہ ثابت کرنا ممکن نہیں کہ یہود ارض ِ مقدس میں آکر وہاں کی اکثریت بن گئے تھے۔ اس کے برخلاف یہ شہادتیں موجود ہیں کہ یہود کے ساتھ آموری، ادومی، فلستی اور موآبی قبائل جو پہلے سے یہاں بس رہے تھے وہ اس دوران بد ستور ارِض مقدس میں آباد رہے۔ پھر یہودیوں کی یہ آبادی ارضِ مقدس میں فقط پانچ صدیوں تک رہی۔ اس کے بعد انقلابات زمانہ نے انہیں ارضِ مقدس سے نکال دیا، یہاں تک کہ اس بے دخلی کو دو ہزار برس گزر گئے۔

یاد رہے کہ یہ بے دخلی مسلمانوں کے ہاتھوں نہیں ہوئی۔ یہ کام بابل ِ کے بخت نصر اور رومی بادشاہوں کے ہاتھوں ہوا۔ ان کی جلا وطنی کے دوران غیر یہودی قبائل، جو ان سے پہلے سے وہاں بستے تھے، اسی طرح وہاں آباد رہے۔ ہاں! کچھ یہودی بھی ان علاقوں میں پائے جاتے تھے، جو رومی دور میں بدترین مصائب کا شکار تھے۔ اسی بد حالی سے بچنے کے لیے یہود کے بہت سے قبائل جزیرة العرب میں خیبر، واوی القریٰ اور یثرب میں آباد ہو گئے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ا بتداءً یہود سے اچھے تعلقات کی کوشش کی ،جس کا ثبوت میثاق مدینہ ہے، مگر خود یہود کی عہد شکنیوں کے باعث انہیں مدینہ سے نکالا گیا۔ مسلمانوں نے ساتویں صدی عیسوی( پہلی صدی ہجری) میں بیت القدس سمیت سارا اردن، فلسطین اور شام فتح کر لیا۔ فتح کرنے والے مسلمان، یعنی صحابہ کرام اور تابعین تعداد میں بہت کم تھے۔ ان کے گھرانے جو اردن اور شام میں آباد ہوئے، مقامی لوگوں کی تعداد کا چوتھائی بھی نہیں تھے۔ انہوں نے کسی کو زبردستی مسلمان نہیں کیا۔ کسی کو جبراًعربی بولنے پر مجبور نہیں کیا۔ یہودیوں کو بھی مسلمانوں نے رومیوں کے برابر حیثیت دی اور انہیں ذمیوں والے تمام حقوق دیے او رانسان کے طور پر ان کی عزت ِ نفس بحال کی۔

اسی زمانے میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی وصیت ”اخرجوا الیھود والنصاریٰ من جزیرة العرب“ کے مطابق خلفائے راشدین نے غیر مسلموں کو جزیرة العرب سے نقل مکانی کا حکم دیا۔ اس نقل مکانی کے نتیجے میں جو یہودی جزیرہ عرب ے دوبارہ شام میں آباد ہوئے انہیں قدیم دور کی بہ نسبت بہت ساز گار ماحول ملا۔ اب بازنطینیوں کے مظالم اورپادریوں کا انسانیت سوز تعصب نہ تھا، بلکہ ہر طرف اسلام کی سلامتی اورمہربانی سے معطر فضا تھی۔

مسلمانوں کے اخلاق او ران کے عدل وانصاف کو دیکھ کر قدیم مقامی لوگ ( جن کی اکثریت عرب نصرانی تھی) تیزی سے مسلمان ہوتے چلے گئے۔ انہوں نے مسلم کلچر کو اپنا لیا او رایک صدی کے اند راندر اس معاشرے میں ضم ہو گئے۔ ان کی مسلمانوں سے شادیاں ہوئیں او رانہی کی نسل آج تک شام، اردن اور فلسطین کی اکثریت ہے۔ بہت سے لوگ اپنے سابقہ مذاہب پر رہے، ان پر بھی کوئی جبر نہیں کیا گیا۔ یہ لوگ ان نسلوں سے ہیں جو یہودیوں سے پہلے سے یہاں آباد تھیں اور ان کے بعدبھی آباد رہیں۔ انہیں کی باقیات کو فلسطینی عرب، شامی عرب، عرب مسیحی وغیرہ کہا جاتا ہے۔ نیز بہت سے یہودی بھی مسلمان ہو کر ان کے رنگ میں رنگے گئے اور سابقہ امتیازات ختم کرکے مسلم معاشرے میں گھل مل گئے۔

درحقیقت اسلامی خلافت کی تیرہ صدیاں یہود کی تاریخی کا سب سے سنہرا دور تھا، جس میں وہ جزیرة العرب کے سوا مشرق سے مغرب تک پھیلے ہوئے عالم اسلام کے کسی بھی حصے میں اسلام کے دیے ہوئے تمام شہری حقوق کے ساتھ رہ سکتے تھے۔ ان تیرہ صدیوں میں یہود کی کسی آبادی کو غلام نہیں بنایا گیا۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ تھیں۔ انہیں نقل مکانی پر مجبور نہیں کیا گیا۔ وہ آزادی سے تجارت کر رہے تھے او رمختلف علوم وفنون میں مہارت حاصل کرکے خوش حال شہریوں کی طرح رہ رہے تھے۔ ہاں! اس زمانے میں جو یہودی یورپ میں تھے، وہ نصاری کے ہاتھوں طرح طرح کے مصائب کا شکار ہوتے رہے۔ اس ابتلاء کی وجہ یورپین یہودیوں کی اپنی سازشیں اور شرارتیں تھیں، جن کے باعث انہیں بار بار ایک ملک سے دوسرے ملک میں دھکیلا گیا۔ مسلمانوں کا اس میں کوئی دخل نہ تھا۔

جب یورپ ان سے تنگ آگیا تو وہاں کے بادشاہوں نے انہیں فلسطین او ربیت المقدس کا ”حق ِ ملکیت“ یاد دلا کر ان کی مکاری اور بد طینتی کا رُخ عالم ِ اسلام کی طرف کر دیا۔ چناں چہ سلطنت ِ عثمانیہ کو سب سے پہلے نشانہ پر رکھا گیا۔ نپولین نے مشرق وسطی پر قبضے کے لیے یہودی سرمایہ داروں کو ”ارض ِ مقدس میں آزاد وطن“ کے خواب دکھائے او ران کی بھرپور مدد وحمایت حاصل کی۔ انہی عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں یہودی صحافی تھیوڈور ہرزل نے جدید صہیونیت کی داغ بیل ڈالی اور 1896ء کی پہلی عالمی صہیونی کانفرنس میں فلسطین پر قبضے کا خاکہ طے کر دیا گیا۔ سلطان عبدالحمید خان ثانی کے خلاف سازشوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اور ان کی معزولی کے بعد خلافت کے اختیارات تقریباً سلب کر لیے گئے۔ جلد ہی پہلی جنگ ِ عظیم برپا کرائی گئی، جس کے خاتمے پر سلطنت ِ عثمانیہ بھی ختم ہو گئی اور 1918ء میں اعلان بالفور کے ساتھ ہی اسرائیل کے قیام کا فیصلہ کر لیا گیا۔ فلسطین میں یہودی بستیوں کے ناجائز قیام کا سلسلہ تیز کر دیا گیا اور آخر 1948ء میں فلسطین کو جہاں اس وقت بھی واضح مسلم اکثریت تھی، یہود کے حوالے کرکے اسے ”اسرائیل“ کا نام دے دیا گیا۔ اس کے بعدا سرائیل نے دنیائے عرب پر مسلسل جنگیں مسلط رکھیں اور 1967ء میں اُردن پر حملہ کرکے بیت المقدس پر بھی قابض ہو گیا۔ یہودی جلد از جلد گریٹر اسرائیل بنانا چاہتے تھے، جس کی سرحدیں اسرائیل کے پرچم پر بنی دو نیلی پٹیوں کے مطابق نیل سے فرات تک طے کی جاچکی ہیں اور اسرائیل دن بدن اپنے اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے قدم بقدم آگے بڑھ رہا ہے۔

اس تمام تر تاریخی تناظر کو دیکھتے ہوئے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ بیت المقدس یا اسرائیل کبھی کسی دور میں یہود کا اصل وطن رہا ؟ اگر پانچ سو سال رہنے کے باعث یہ ان کا وطن ہے تو ان سے کہیں زیادہ یہ ان آموری، فلسطی، فنیقی، موآبی اور دیگر نسلوں کا وطن ہے، جو یہود سے پہلے بھی یہاں آباد ہیں اور ان کے بعد بھی یہیں رہے۔ اگر ان کی اکثریت نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کر لیا تو کیا اس وجہ سے وہ اس سرزمین کے حق سے ہی محروم ہو گئے جہاں وہ ہزارہا سال سے آباد ہیں۔ اگر ان کے آباؤ واجداد نے عربوں سے رشتے ناتے کر لیے تو کیا یہ اتنا بڑا جرم تھا کہ انہیں اپنے ہی ملک میں مہاجربن کر خیمہ بستیوں میں رکھا جارہا ہے؟ کون سی ایسی قوم ہے جس نے دوسری نسلوں سے رشتے استوار نہیں کیے؟ اور دوسرے مذاہب کو اختیار نہیں کیا؟ اگر یہ جرم ہے تو پھر ایسی تمام اقوام دنیا کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ کیا انہیں یہ سزا دی جاسکتی ہے؟

اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی قوم کسی علاقے کو فتح کرکے وہاں مقامی قبائل کے ساتھ چند صدیاں گزارنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہاں کی وارث ہو جاتی ہے ؟ او راگر زمانے کی گردش اسے وہاں سے نکلا ل دے تو کیا اس کے ہزاروں برس بعد بھی اس زمین کی ”الاٹمنٹ“ اسی کے نام باقی رہتی ہے؟

اگر واقعی ایسا ہے تو اس اصول کے مطابق فلسطین بھی مسلمانوں کا حق ہے او راندلس بھی۔ یہودی تو ارض ِ مقدس میں پانچ صدیوں تک ہی رہے ہیں، جب کہ مسلمانوں نے دور ِ خلافت راشدہ سے قیام اسرائیل تک فلسطین میں تیرہ صدیاں گزاری ہیں۔ اندلس میں بھی وہ کم از کم آٹھ صدیاں رہے تھے۔ انہوں نے وہاں بھی اسی طرح عدل وانصاف سے حکومت کرکے لوگوں کے دل ودماغ جیتے۔ انہیں علم او رایمان کی روشنی دی۔ وہاں رشتے ناتے کیے۔ اس سر زمین کو علوم وفنون سے آباد کیا۔ کیا اندلس ان کا حق نہیں؟ یہودی پانچ سو سال بیت المقدس میں اور دو ہزار سال سے زائد طویل مدت تک اس سے باہر رہے۔ اس کے بعد بھی وہ اسے اپنا موروثی حق کہتے ہیں۔ جب کہ عرب اسپین میں آٹھ صدیوں تک رہے او رانہیں وہاں سے نکلے ہوئے فقط سو پانچ صدیاں ہی ہوئی ہیں۔ بیت المقدس میں یہود کے دور ِ قدیم کی ا کادُکا نشانیاں ہی باقی ہیں اور وہ ابھی اصل حالت میں نہیں، اسپین میں آج بھی عربوں کی تہذیب وثقافت اور ان کی محیر العقول تعمیرات کے تابندہ نقوش اصل حالت میں جابجا دکھا ئی دیتے ہیں۔

اقبال کے اس وعدے کا جواب آج بھی سر پرستان ِ یہود پر قرض ہے #
          ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
          ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا؟