پاکستان میں کفریہ طاقتوں کاLGBT ایجنڈا

پاکستان میں کفریہ طاقتوں کاLGBT ایجنڈا

محترم محمد عاصم حفیظ

پاکستان میں ہم جنس پرستی کے موضوع پر بنی فلم جوائے لینڈ پر پہلے پابندی لگی اور اب اجازت دے دی گئی ہے ۔ اقوام متحدہ کی فنڈنگ سے بنی فلم کو کون روک سکتا تھا ؟ جب آپ کی قسط آئی ایم ایف اور جان ایف اے ٹی ایف کے شکنجے میں جکڑی ہو ۔ دوسری طرف قطر کے سکیورٹی چیف کا بیان ہے کہ یہاں فٹ بال ورلڈ کپ کے موقعے پر ہم جنس پرستی کے ایجنڈے کے فروغ کی ہرگز اجازت نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک ماہ کے ورلڈ کپ کی خاطر اپنا دین نہیں بدل سکتے ۔ اپنے معاشرے کی تذلیل کی اجازت نہیں دیں گے ۔

دوسری طرف ہم ہیں ، قرض لے کر عیاشی کرنے والے اور سام راج کے غلام … ”جوائے لینڈ“فلم ایک چیز ہے ۔ یہ ایک سلسلہ ہے جو کب سے چل رہا ہے اور آئندہ بھی چلتا رہے گا ۔ سود ، ایل جی بی ٹی ، وقف املاک، ایف اے ٹی ایف سمیت کئی ایشوز ایسے ہیں جن معاملات پر آپ کا ملک مکمل طور پر عالمی سام راج کے شکنجے میں ہے ۔ آپ گالیاں دے سکتے ہیں ، برا بھلا کہہ سکتے ہیں ، احتجاج کر سکتے ہیں ، جلاؤ گھیراؤ کر سکتے ہیں ، سوشل میڈیا پر مہم چلا سکتے ہیں ، جو دل میں آئے کر سکتے ہیں لیکن یہ ایجنڈا نہیں بدل سکتے ۔ کسی کی بھی حکومت ہو ، آپ کو آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنا ہوں گی، آپ کی قسطیں ، ایف اے ٹی ایف کی لسٹ اس کی مرہون منت ہے۔ ایک پارٹی اپوزیشن میں ہو تو وہ دوسری پر تنقید کر سکتی ہے۔ جب خود اقتدار میں آئے تو وہی اس ایجنڈے کی محافظ بن جاتی ہے۔ آپ کے پاس مکمل اختیار ہے کہ جب آپ کا ناپسندیدہ حکمران ہو تو بھرپور تنقید کر لیں ، اس کو کٹہرے میں کھڑا کر لیں ۔ اگر بات آپ کے پسندیدہ لیڈر پر آ رہی ہو تو خاموش رہ لیں … لیکن دراصل یہ معاملہ ان کے بس کا ہے ہی نہیں ۔ وہ سب بھی آپ کی ہی صف میں کھڑے ہیں ۔ بیک وقت مجبور اور مجرم… آپ ذرا یاد کریں کہ مشرف دور میں حدود آرڈیننس سے سلسلہ شروع ہوا ۔ کئی حکومتیں آئیں ، چہرے بدلے، پارٹیاں بدلیں ،لیکن معاشرتی تبدیلی ، قوانین بدلنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ یہ سب ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت چلنے والا ایجنڈا ہے ۔ یہاں انکار کی گنجائش نہیں ہے ۔ کیوں کہ اس سے معیشت جڑی ہے ۔ مملکت خداداد ، ارض پاک کے تمام تر طاقت ور حلقوں کی تنخواہیں ، مراعات ، عیاشیاں ، بیرونی تعلقات ، وہاں موجود خاندانوں کا تحفظ ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات ۔ عالمی معاہدے اور بہت کچھ … جس فلم کی پروموشن نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کرے اور فنانسر اقوام متحدہ ہو ، اسے کون روک پائے گا؟؟ وقتی روک بھی لیا تو ایجنڈے کو کون روک پائے گا ؟

صرف اس صورت آپ نکل سکتے ہیں کہ معاشی خود کفیل ہوں ۔ آپ قطر ہوں، کویت ہوں ، سعودی عرب ہوں ، انڈونیشیا ہوں ، ملائیشیا ہوں …، پھر گنجائش نکلتی ہے کہ آپ کہہ سکیں کہ ہم ”نہیں مانتے“…، ورنہ حکومتیں بدل جائیں گی ، چہرے بدل جائیں گے ، بدل دیے جائیں گے ۔ حکومتیں الٹا دی جائیں گی ، سب کچھ بدل سکتا ہے، لیکن ایجنڈا وہی رہے گا جو عالمی طاقتوں کی جانب سے نافذ کیا جانا ہے ۔

”جوائے لینڈ“ایک فلم ہے ۔ اسے نمائش سے روکنا چاہیے ۔ اجازت دینے والے بے شرم اور گھٹیا ترین ہیں ۔ ایسی حرکتوں پر ردعمل دینا چاہیے ۔

لیکن سوال پھر وہی ہے کہ جب آئی ایم ایف کی قسط پر بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں ، ایف اے ٹی ایف کی لسٹ میں بہتری کو ملکی سلامتی کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے ، اس کی خاطر پورے معاشرے کو داؤ پر لگا دیا جاتا ہے، تو پھر ایک جوائے لینڈ فلم پر احتجاج محض دل کو تسلی دینے کی ہی بات ہے۔ حدود آرڈیننس ، شادی کی عمر ، خواتین و ٹرانس جینڈر کوٹے ، ڈومیسٹک وائیلنس ایکٹ ، سمیت ان گنت قوانین اور اقدامات ہو چکے ہیں ۔ ایجنڈا جاری ہے ، نافذ ہو رہا ہے ، تو اسی کا تسلسل جوائے لینڈ فلم کو بھی سمجھ لیں …

ہر صاحب شعور کو اس پر سراپا احتجاج ہونا چاہیے ۔ جو بھی صاحب اختیار ہے وہ مجرم بھی ہے ۔ جس کے ہاتھوں کوئی بھی شرم ناک حرکت سرزد ہو اسے شرم سے ڈوب مرنا چاہیے ۔ جو اس معاشرے میں بے راہ روی کا باعث بنے ، سماجی روایات کو پامال کرکے رکھ دے ۔ جو صاحب اقتدار ہیں وہ مجرم ہیں ۔

لیکن انتہائی ادب کے ساتھ دینی طبقے اور اس معاشرے کے باشعور احباب سے گزارش ہے کہ یہ دو تین روز کے احتجاج ، کسی وقتی آہ و بکا اور جذباتی نعروں کا معاملہ نہیں ہے ۔ اگر واقعی اپنا معاشرہ اور اپنی دینی روایات بچانی ہیں ، معاشرے کو ، ملک کو ایل جی بی ٹی ایجنڈے سے بچانا ہے تو پھر سب مل بیٹھیں ، اصل وجوہات پر بات کریں ، متحد ہوں اور قوم کو اس بارے شعور دیں ۔ ایسا نہیں کہ چند دن کا احتجاج ہوا ، شور ہوا، ایک معاملے کو وقتی دبایا گیا اور پھر کسی نئی شکل میں خفیہ طور پر اس سے بھی بدتر انداز میں نافذ بھی کر دیا گیا ۔ ابھی تک تو یہی ہو رہا ہے ۔ ذرا یاد کریں کب کب احتجاج ہوئے تھے ، سود، بنکنگ سسٹم ، حدود آرڈیننس ، آسیہ بی بی کیس ، رمشہ ، ریمنڈ ڈیوس ، وومن پروٹیکشن بل ، عورت مارچ، ٹرانس جینڈر ایکٹ ، فرانس کی گستاخی، سمیت ان گنت مواقع ہوں گے، جب بھرپور احتجاج ہوئے ۔ بڑی بڑی ریلیاں ہوئیں ، کمال تو یہ کہ اس وقت کی اپوزیشن نے خود احتجاج میں شرکت کی اور پھر جیسے ہی انہیں حکومت ملی تو ان کے ہاتھوں وہی کام لیا گیا ۔

یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔ جب تک ایجنڈے کے نفاذ کو روکنے کا بندوبست نہیں ہو جاتا ۔ ایک بار پھر یاد دہانی کرا دیں کہ ایل جی بی ٹی اقوام متحدہ کا ایجنڈا ہے ۔ عورت مارچ، ٹرانس جینڈر اس کے تحت ہوتے ہیں ۔ فنڈنگ انٹرنیشنل این جی اوز کرتی ہیں ۔ یہ سب کچھ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف سے جڑے معاملات ہیں ۔ جب تک وہ شکنجہ نہیں توڑا جاتا ۔ اس پر احتجاج ، ریلیاں اور جذباتی نعرے محض نعرے ہیں ۔ وقتی جوش وخروش ہے اور انتہائی معذرت کے ساتھ، انتہائی معذرت کے ساتھ ایک ”لاحاصل“مشق ہے ۔

اگر واقعی سب بدلنا ہے تو معاشی استحکام کے لیے جدوجہد کریں ، عالمی شکنجے سے نکلیں ، قوم کو متحد کریں ، عوامی طاقت کا اظہار کریں ، جذبات کے ساتھ ساتھ مستقل اور سنجیدہ کوشش کے لیے ادارے بنائیں ، ایسے امور پر نظر رکھنے کے لیے تھنک ٹینک ہوں ۔ عوامی راہ نمائی اور آگاہی کے لیے پلیٹ فارم ہوں ۔ یہ چند دن کا احتجاج ، چند ریلیاں، چند جذباتی تقاریر اور محض سوشل میڈیا کمپین نہ ہو، بلکہ مستقل بنیادوں پر مضبوط پلاننگ کے ساتھ ایک مربوط لائحہ عمل ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم اس ایجنڈے کے نفاذ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں اور ان شاء اللہ روک بھی سکتے ہیں ۔