مسئلہ فلسطین کا حالیہ پس منظر اور ہماری ذمہ داریاں

idara letterhead universal2c

مسئلہ فلسطین کا حالیہ پس منظر اور ہماری ذمہ داریاں

مولانا سید انور شاہ

اسرائیل کی جانب سے بے بس، مظلوم نہتے فلسطینی عوام پر ظلم وبربریت اور تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ اس وقت اسرائیل پوری دنیا کے سامنے سرِ عام معصوم فلسطینیوں کو نشانہ بنارہا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ قبلہ اول بیت المقدس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ عدل وانصاف کے ایوانوں میں مظلوم فلسطینیوں کی لاشیں تڑپ رہی ہیں ۔ ہر سینہ فگار ہے۔ ہر آنکھ اشک بار ہے۔ ظلم کے متوالے انسان خوں خوار درندوں کی طرح غرّا رہے ہیں۔ آج فلسطین اپنے ہی لہو میں ڈوبا ہوا ہے۔ کئی دن کی متواتر بمباری اور مزائلوں کی بارش میں نہ جانے کتنے گھروں کے چراغ گل ہوگئے، کتنے سہاگ اجڑ گئے، کتنے بچے یتیم ہوئے، کتنے بچے ایسے ہیں کہ اب دنیا میں ان کا کوئی نہیں رہا۔ غزہ جہاں راتوں میں تنہائی اور دنوں میں کرب اور بے بسی کا دور دورہ ہے۔ جہاں لوگ جذبات کے ایندھن میں جل رہے ہیں۔ جہاں مسلمان ایک گہری اور مکروہ سازش کے ذریعے غزہ میں گندم کے بے وقعت دانوں کی طرح پس رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے درندوں کی بستی ہے۔ ہر طرف چیرنے پھاڑنے کا عمل جاری ہے۔ خون بہہ رہا ہے۔ خونِ انسانی کی ارزانی بھی ہے اور فراوانی بھی۔ انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ موت نے ہر طرف بساط بچھا دی ہے۔ دیکھنے والی آنکھ کو شاید ہی کوئی ایسا گھر یا خیمہ ملے جو ماتم کدے یایتیم کدے میں تبدیل نہ ہوا ہو۔یہ گھرانے کا سربراہ ہے جو ایک ٹانگ یا بازو گنوائے بیٹھا ہے۔ یہ بچہ ہے جس کی آنکھیں ضائع ہوچکی ہیں۔ یہ بچی ہے جس کا خوب صورت چہرہ بارود سے جھلس چکا ہے۔ یہ بیوہ ہے جس کا شوہر شہید ہوچکا ہے۔ یہ ایک یتیم ہے جس سے اس کا باپ ہمیشہ کے لیے بچھڑ چکا ہے۔ آپ کو کم ہی ایسے لوگ ملیں گے جو اپنے عزیز اور خاندانوں کی بہت سی بیواؤں یا کئی یتیموں کا پیٹ نہ پال رہے ہوں۔ ایک الم ناک داستان غم کی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ آخر کار یہ ظلم کی بھٹی کب تک دہکتی رہے گی؟ اقوام متحدہ کب تک خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہے گی؟ اسلامی ممالک کب تک فلسطینیوں کی لاشوں کا نظارہ کرتے رہیں گے؟عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی مر چکی ہیں۔ ان امن کے رکھوالوں سے دنیا پوچھتی ہے، سوال کرتی ہے۔ کیا تمہیں بھوک سے بلبلاتے بچوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں؟ لاکھوں انسان بے بسی کے عالم میں اپنی قسمت کے فیصلے کے منتظر ہیں، ان معصوم بچوں کی گولہ بارود میں ڈوبتی کلکاریاں سنائی نہیں دیتیں؟

غزہ پر ابھی حالیہ اسرائیلی حملوں میں سینکڑوں بچے شہید ہوچکے ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے شہید ہونے والے کئی فلسطینی بچوں کی تصاویر،ان کے نام، عمر اور دیگر حاصل کوائف شائع کی ہیں۔ خلیجی جریدے ”القد س العربی“نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں شہید ہونے والیبیشتربچوں کی اموات گھروں اور عمارات پر وحشیانہ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے ہوئیں۔جریدے کا کہنا ہے کہ غزہ میں شہید بچوں کی عمریں چند ماہ سے14 برس تک تھیں۔ اسرائیلی جرائم اور بچوں پر مظالم کی ہول ناکی کا اندازہ امریکہ کے صف اول کے جریدے ”نیویارک ٹائمز“کی تصویری رپورٹ سے کیاجا سکتا ہے۔ ہر فلسطینی بچے کی تصویراسرائیلی سفاکی اور عالمی برادری کی بے حسی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ ان آہوں، سسکیوں اور چیخوں نے ان کے ذہنوں اور کانوں پر ذرا سا بھی اثر نہیں کیا۔ وہ زخمی انگلیوں سے زنجیر عدل ہلا رہے ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ایوانوں میں کوئی گونج سنائی نہیں دے رہی۔ کیا فلسطین کا غم دائمی ہے؟ کیا اس خزاں کے لیے کبھی کوئی بہار نہیں؟ کیا اس زخم کے لیے کوئی مرہم نہیں؟ کیا اس بسمل کے لیے کوئی مسیحا نہیں؟ کیا اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں یوں ہی تماشائی بنی رہیں گی؟ ایسی صورت حال میں ہمارے اوپر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟ اور ہم کس حد تک فلسطینی بھائیوں کی مدد کرسکتے ہیں؟
اس تفصیلات میں جانے سے قبل مسجد اقصی کے کچھ فضائل ہدیہ قارئین کیے جاتے ہیں۔

مسجد اقصی کے فضائل

اس روئے زمین پر دو جگہوں کو یہ اعزاز اور شرف حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے ان دونوں جگہوں کو عبادت کرنے والوں کے لیے قبلہ قرار دیا ہے۔ ایک بیت المقدس اور دوسرا بیت اللہ۔

مسجد اقصی کو مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے، چناں چہ جب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام پہلے مسجد اقصی کی طرف رخ کرکے تقریباً سترہ مہینے تک نمازیں ادا کرتے رہے۔ صحابی رسول حضرت براء بن عازب  فرماتے ہیں :”أن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم صلی إلی بیت المقدس ستة عشر شھرا وکان یعجبہ أن تکون قبلتہ قبل البیت․“(صحیح البخاری،کتاب الإیمان،باب الصلاة من الإیمان،رقم الحدیث :40)

رسول اللہصلی الله علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی خواہش یہ تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ کی جانب ہو۔

مسجد اقصی وہ مقدس سر زمین ہے جس کی بنیاد اس زمین پر مسجد حرام کے چالیس برس بعد رکھی گئی۔ اس حوالے سے ابو ذرغِفاری  فرماتے ہیں کہ: ”سألت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عن أول بیت وضع فی الأرض․قال:المسجد الحرام، قلت:ثم أیٌّ قال: المسجد الأقصی،قلت: کم بینھما؟ قال: أربعون عاما، ثم الأرض لک مسجد، فحیثما أدرکتک الصلاة فصلِ․“ (صحیح مسلم،کتاب المساجد ومواضع الصلاة، وصحیح البخاری: کتاب أحادیث الأنبیاء صلوات اللہ علیہم)

میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”مسجد حرام“پھر میں نے سوال کیا اس کے بعد کونسی مسجد تعمیر کی گئی ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیتے ہوئے فرمایا ”مسجد اقصی“میں نے پوچھا ان دونوں کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا چالیس سال۔ اب پوری زمین تمہارے لیے مسجد ہے، جہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے پس نماز پڑھو۔

حضرات محدثین نے فرمایا ہے کہ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے مسجد حرام کی بنیاد رکھی۔ اس کے چالیس سال بعدمسجد اقصی کی بنیاد رکھی گئی۔ یعنی جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ شریف کی تعمیر کی تجدید فرمائی۔ اسی طرح مسجد اقصی کی تعمیر کی تجدید حضرت یعقوب یا داودعلیہما السلام نے فرمائی۔ اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس تعمیر کی تکمیل فرمائی۔(فتح الباری)

مسجد اقصی روئے زمین پر قائم ان تین مساجد میں سے ایک ہے ،جن کی طرف عبادت اور ثواب کی نیت سے باقاعدہ دور دراز سے سفر کرنے کی جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ترغیب دی ہے۔ حضرت امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو مختلف ابواب کے تحت ذکر فرمایا ہے۔ حضرت ابو ھریرہ  سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لا تشد الرحال إلا إلی ثلاثة مساجد، المسجد الحرام، ومسجد الرسول والمسجد الأقصی“․ (بخاری و مسلم)

عبادت کی نیت سے صرف تین مساجد کی طرف سفر کیا جائے مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصی۔

مسجد اقصی وہ مسجد ہے جس کی طرف آپ صلی الله علیہ وسلم کا سفرمعراج ہوا۔ اور اسی موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے مسجد اقصی میں تمام انبیائے کرام علیہ السلا م کی امامت فرمائی۔ مسجد حرام سے مسجد اقصی تک آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس سفر مبارک کو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا:﴿سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَیٰ بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ﴾․(سورة الإسراء، آیت:1)

ترجمہ:پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا،جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں ، بے شک وہ ہر بات سننے والی اور ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے۔

بہر حال قرآن و حدیث میں مختلف مقامات میں اسی مبارک مسجد کا ذکر آیا ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں اس مسجد کے ارد گرد جگہوں کو برکت والی جگہیں کہا گیا ہے۔ ان وجوہ کے پیشِ نظر دنیا بھر کے مسلمان مسجد اقصی اور قدس سے بڑی عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔

مسجد اقصیٰ کا تاریخی پس منظر

حضرت فاروق اعظم کے دورِ خلافت میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے 16ھ میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور ان کے سامنے اپنا موقف رکھا۔ نہ ماننے کی صورت میں قتل اور صلح کی صورت میں جزیہ اور خراج کا حکم سنایا۔ انہوں نے صلح کی شرائط میں ایک خاص شرط کا اضافہ لازمی قرار دیا۔ وہ یہ کہ عہد نامہ خود خلیفہ وقت آکر لکھے۔ حضرت ابو عبیدہ نے حضرت عمر کو ایک خط لکھ کر ساری صورت حال سے آگاہ کرکے فرمایا کہ:آپ کے یہاں تشریف لانے سے بیت المقدس بلا جنگ قبضہ میں آسکتا ہے۔ حضرت فاروقِ اعظم حضرت علی کے مشورہ سے بیت المقدس جانے پر راضی ہوگئے۔ یوں حضرت عمر کے دورِ خلافت میں مسجد اقصی مسلمانوں کے ہاتھوں میں آگئی۔ (البدایة والنہایة12/334) (تاریخ اسلام1 /329)

فتح کے کافی عرصے بعد اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے65ھ میں اس کی تعمیر اور مرمت کا کامشروع کیا۔

ولید بن عبد الملک نے مصر کے سات سال کا خراج اس کی تعمیر کے لیے وقف کردیا۔ جب407 ھ میں قبر کی دیواریں منہدم ہوگئی تو413ھ میں ظاہر فاطمی نے از سر نو اس کو تعمیر کیا۔ اس دوران کفار نے مسلمانوں کی کم زوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 492 ھ بمطابق1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے دوران یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے کئی ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا۔ تقریبا 91سال تک مسجد اقصی ان کے قبضہ میں رہی۔ پھر سلطان نورالدین زنگی کے فتوحات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کے جانشین سلطان الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب نے 553ھ میں دوبارہ قبضہ کرکے مسجد کی صفائی کروا کر اس کی مرمت فرمائی۔کہا جاتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول کی آزادی کے لیے سولہ16جنگیں لڑیں۔( خطط الشام:5/253)

پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917 کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یوں1920 کی دہائی سے لے کر 1940 کی دہائی کے دوران یہاں آنے والے یہودیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔1947ء میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے ،جن میں ایک یہودی ریاست اور ایک عرب ریاست جب کہ یروشلم (بیت المقدس)ایک بین الاقوامی شہر ہوگا۔ اس تجویز کو یہودی راہ نماؤں نے تسلیم کر لیا، مگر عربوں نے بکثرت مسترد کردیا۔15مئی 1948کو اقوام متحدہ ، امریکہ اور برطانیہ وغیرہ کی حمایت سے یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔ 1967میں اسرائیل نے فلسطین اور بیت المقدس پر قبضہ کرلیا اور ابھی تک ان کے قبضہ میں ہے۔

ہماری ذمہ داریاں

واضح رہے کہ مسجد اقصی کی بازیابی صرف عربوں یا فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہودی ہمیشہ اسے عربوں کا مسئلہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسجد اقصی کی آزادی کے لیے اُمت مسلمہ کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی۔ صرف امیدوں اور آرزؤوں سے قبلہ اول کی آزادی ممکن نہیں۔

اس سلسلے میں ہمیں درج ذیل امور کا اہتمام کرنا چاہیے:
1.. مسجد اقصی اور فلسطینی مسلمانوں کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جائے۔

2.. جان و مال کے ذریعے سے اہل فلسطین کی مدد و نصرت کرنے کی سچی نیت اور ہر وقت اس کا استحضار رکھا جائے۔

3.. اسرائیل کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ بائیکاٹ نہ کرنے کی صورت میں ہم اسرائیل کو مضبوط کرنے میں معاونت کرنے والے ثابت ہوں گے۔

4.. مستقل طور پر اہل فلسطین کی مالی معاونت کی جائے ،بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ مالی تعاون کے سلسلے میں مسئلہ فلسطین کے لیے ایک بجٹ متعین کریں۔ اگر چہ کم ہی کیوں نہ ہو، مہینے کی بنیاد پر ہو یا سالانہ۔ نیز گھر والوں اور متعلقین کو اس بات پر آمادہ کریں کہ فلسطینی شہید کے گھر والوں کی کفالت میں یا کسی یتیم کی کفالت میں حصہ لیں۔ اس صورت میں جتنا ثواب کام کرنے والے کو ملتا ہے اتنا ہی ثواب ہمیں بھی ملے گا۔ بہر حال فلسطین کے بے یار و مددگار زخمیوں،یتیموں، بیواؤں ، بے گھروں اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ظلم اور درندگی کا نشانہ بننے والوں کے لیے مالی، قانونی اور سیاسی ذرائع کا استعمال کریں۔ اور اس سلسلے میں ایسے اداروں سے تعاون کر لیا جائے جن کی فلسطین تک پہنچ ہے۔ وطن عزیز ملک پاکستان میں عالم اسلام کا با اعتماد ادارہ بیت السلام ویلفیئر ٹرسٹ کی فلسطین تک پہنچ ہے۔ ہم ان کے ذریعے فلسطین تک اپنی امانت پہنچا سکتے ہیں۔

5.. بیت المقدس اور فلسطین کی تاریخ کے سلسلے میں خود بھی مطالعہ کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔ کبھی کسی کو اس کے متعلق کوئی مستند کتاب ہدیہ کر دیا کریں۔قرآن مجید میں یہود کے متعلق تفصیلات پڑھیں اور یہود سے اچھی طرح واقفیت حاصل کریں۔ نیز اہل فلسطین کے کارناموں اور ان کی بہادری کے واقعات اپنے گھر والوں اور احباب کو سنائیں۔

6.. بچوں کو فلسطین کی سرزمین کی اہمیت و تقدس سے واقف کرایا جائے۔ خواتین اپنے بچوں میں مسجد اقصی کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس سلسلے میں تاریخ، ترانوں اور دیگر چیزوں سے مدد حاصل کریں۔

7.. حسب موقع کبھی کبھی مسئلہ فلسطین کی اہمیت کے متعلق مختلف پروگراموں کا انعقاد کریں۔ جن کے ذریعے امت میں نیک جذبہ اور بے داری پیدا ہو اور باطل قوتوں پر یہ واضح ہوجائے کہ امت مسلمہ اس مسئلہ سے غافل نہیں ہے۔

8.. ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔