فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمے داریاں…!!

idara letterhead universal2c

فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمے داریاں…!!

مولانا اسامہ یوسف
استاذ جامعہ فاروقیہ کراچی

عالم اسلام کے وسط میں ہونے کے باوجود فلسطین مظلومیت کی وہ الم ناک ،دردناک اور روح کو دہلا دینے والی داستان ہے،جس پر لکھنے سے قلم قاصر اور جذبات مضمحل ہیں،ارض مقدس کے خون سے لکھی جانے والی تاریخ کوئی نئی نہیں، بلکہ تقسیم ہند اور کلمہ کی بنیاد پر قائم وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے والے سال ہی میں 29 نومبر 1947ء کو فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ بنایا گیا اور پھر آئندہ سال اسرائیل کے قیام کا اعلان کر کے نہ صرف امت مسلمہ بلکہ پوری عالم انسانیت کی پیٹھ میں ایسا خنجر گھونپا گیاجس سے بہنے والا خون وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا ناسور بن گیا ہے، جس سے نجات کی دور دور تک کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

الغرض اسلامی جمہوریہ پاکستان کا یہ مکمل اور بامعنی تصور ابتدا ہی سے یہودیت کو کھٹک چکا تھا اور اس کا اظہار اسرائیل کے وزیر اعظم ایک انٹرویو میں کر چکے ہیں کہ ہمارا اس وقت سب سے بڑامقصد ایک اسلامی ایٹمی قوت کو مضبوط وناقابل تسخیر اسلامی ریاست بننے سے روکنا ہے، چناں چہ انہوں نے پاکستان کے وجود کے فوراً بعد ہی اپنے زیر اثر ادارے اقوام متحدہ کے ذریعہ اپنی اس ناجائز ریاست کو حتمی شکل دی اور ارض مقدس کے غیور مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانے شروع کردیے ،جس کے بعد انبیا کی اولادیں ترک وطن پر مجبور ہوگئیں اور ان کی زمینیں ہتھیالی گئیں اور یہ شوشہ چھوڑ دیاگیا کہ چوں کہ مسجد اقصیٰ کی جگہ پر پہلے ہیکل سلیمانی تھا اور مسلمانوں کے یروشلم شہر پر قبضہ کرنے کے بعد یہ مسجد تعمیر کی گئی ،اس لیے یہودیوں کا حق ہے،حالاں کہ اس کا مسجد ہونا تاریخاً ،روایتاً اس لیے طے ہے کہ یہاں خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم پہلے ہی تمام انبیا کی امامت کرواچکے ہیں اورہیکل کا لفظ رہائش گاہ ،محل یا دربار کے لیے استعمال ہوتا ہے،مسجد کے لیے نہیں۔لہٰذا بین الاقوامی اصولوں کے مطابق اسرائیل نام کی کوئی چیز کرہ ارض پر موجود نہیں، بلکہ یہ فلسطین ہے، جس پر قبضہ کیا گیا ہے اور بقول بانی پاکستان محمد علی جناح مرحوم کے:اسرائیل ایک ناجائز ریاست اور مسلمانوں کے قلب میں گھونپا گیا ایک خنجر ہے۔

قرآن مجیدمیں یہود ونصاریٰ کے اندرونی جذبات کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اور خلافت عثمانیہ کے سقوط سے اب تک عالم اسلام میں جو جنگیں ہوئی ہیں، وہ سب اس کا واضح ثبوت ہیں اس لیے جب تک مسلمان اپنے مذہبی تشخص اور اپنے ثقافتی امتیازات کو خیرباد نہ کہہ دیں،مسجد اقصیٰ اوراپنے مقدسات سے دست بردار نہ ہوجائیں ،اور پوری طرح مغربی فکر ومغربی ثقافت کے سامنے جبین تسلیم خم نہ کردیں ،ان کی تشفی نہیں ہوسکتی ۔انشاء اللہ مسلمان کبھی اس کے لیے تیار نہیں ہوں گے، اس لیے کہ وہ دین کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں اور اللہ کی راہ میں جان نچھاور کرنے کوشہادت تصور کرتے ہیں اور ایک مسلمان اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کواپنے لیے اعزاز سمجھتا ہے،اس لیے کہ بحیثیت مسلمان یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے #

          شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن
          نہ  مال  غنیمت  نہ  کشور   کشائی

چناں چہ اس غاصبانہ قبضے کے خلاف اور اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے مظلوم فلسطینیوں نے حالیہ دنوں میں حد درجہ مجبور ہو کر پوری حکمت عملی اور جامع وزبردست منصوبہ بندی کے بعد اسرائیل کے قائم کردہ حفاظتی حصار کو توڑ دیا او رپہلی دفعہ اسرائیل کے اندر تک داخل ہوکر کارروائی شروع کی اور فلسطین کے غیور وبہادر مسلمانوں نے ارض مقدس کے سودے پر شہادت کو گوارا کیا اور تاحال کم وبیش 24 ہزار فلسطینی شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوکر اللہ کے حضور سرخ رُو ہوچکے ہیں، لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں،لیکن نام ونہاد امن پسند دنیا اور عالم اسلام خاموش تماشائی بنی نظر آرہی ہے۔

اس تاریخی وسنگین انسانی المیہ کے پیش نظر، جب کہ فلسطینیوں کی باقاعدہ نسل کشی کی جارہی ہے،مظلوم فلسطینی بھائیوں، بہنوں، ماؤں، بچوں، بچیوں، بوڑھوں پر بم برسائے جارہے ہیں،ان پر زمین تنگ کی جارہی ہے،بنیادی سہولیات سے نہتے مسلمانوں کو محروم کیا جارہا ہے،تو ایسی کسمپرسی کے عالم میں ہم کیا کریں؟بحیثیت مسلمان ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ہم اپنے ان مظلوم فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی کس طرح مدد کرسکتے ہیں؟

اس وقت ہمارے کرنے کے کئی کام ہیں:
∗…جن میں پہلا اہم کام تو یہ ہے کہ پوری اُمت مسلمہ فلسطین کے نہتے مسلمانوں کے ساتھ ہم آہنگی اور تعاون کا اظہار کریں، تاکہ انہیں یہ محسوس ہو کہ اس مسئلے میں ہم اکیلے نہیں ہیں ،بلکہ پورا عالم اسلام ہمارے ساتھ ہے۔آج کی دنیا رائے عامہ کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی عادی ہے،اس لیے دنیا بھر کے مسلمان اور خاص طور سے برصغیر اور خصوصاًپاکستان کے مسلمان فلسطین اور اہل ِفلسطین کی حمایت میں بھر پور آواز دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر بلند کریں اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کریں،ان کے ساتھ ہر قسم کا جانی ومالی تعاون کریں۔

∗…دوسرا کام یہ ہے کہ عالم اسلام خصوصاً عرب دنیا کے قرب وجوار کے مسلمان اور انسانیت سے محبت رکھنے والے ہر ہر انسان پر جو اس جنگ میں عملاً فلسطینیوں کے ساتھ شریک ہوسکتا ہے ،وہ ضرور ان کے شانہ بشانہ شریک ہوں، کیوں کہ یہ محض فلسطینیوں کی نہیں، بلکہ عالم اسلام اورانسانیت کی بقا کی جنگ ہے۔

∗…تیسرا اہم کام یہ ہے کہ اسرائیلی ومغربی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں اور اپنی لوکل مصنوعات کیمعیار کو بہتر کرنے کی طرف توجہ دیں اور اپنی مصنوعات کو عام کریں۔افسوس!آج کی صورت حال یہ ہے کہ جب کبھی مسلمانوں پر کوئی افتاد آن پڑتی ہے تو وقتی طور پر غیرت مسلم جاگتی ہے اور اپنی تسلی کے لیے دو چار ایام کے لیے بائیکاٹ کا عمل ہوتا ہے اور جیسے ہی یہ جذبہ مانند پڑتا ہے تو پھر وہی یہودی مصنوعات کا بے دریغ استعمال شروع کیا جاتا ہے ، ان بدترین اسلام او رمسلمانوں کے دشمنوں کی پشت پناہی شروع کردی جاتی ہے اور فخر کیا جاتا ہے کہ ہم نے فلاں مغربی کمپنی کی مصنوعات کا استعمال کیا ہے، جو کہ دینی غیرت وحمیت کے صریح خلاف ہے ،اس لیے ضروری ہے کہ اب مستقل دائمی بنیادوں پر تمام مغربی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور متبادل ملکوں کی مصنوعات کو فروغ دیا جائے۔

∗…چوتھا کام یہ ہے کہ اپنے ان مظلوم مسلمان بھائیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ دعاؤں کا اہتمام کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اس جنگ میں ان کو فتح سے ہم کنار فرمائے ،ان کی شہادتوں کو قبول فرماکر ان کو آزادی کی نعمت عطافرمائے۔
سلامتی ہو غزہ کے ہونہارجوانوں پر،جنہوں نے اپنے لہو سے اسلام کے شجر کوسینچنے کا عزم کررکھا ہے، جنہوں نے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ دین حق کی سرخ رُوئی کے لیے نچھاور کردیا ہے اور اسلام کی سربلندی کے لیے اپنی معصوم جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں،جن سے مغرب ومشرق کی عداوت صرف اس لیے ہے کہ وہ اے الله! تیرے پاک نام سے نسبت رکھتے ہیں، اور پروردگارہلاک وبرباد فرمائے ان شقی قلب قوتوں کو جو بے قصور انسانوں پر ظلم ڈھارہے ہیں یا کسی بھی صورت میں ان ظالموں کے معاون ومددگار ہیں۔

اس ساری صورت حال میں ہم مسلمان قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ ملک کی رائے عامہ کو حقیقت پسند بنائیں اور انہیں حقیقی صورت حال کا ادراک کرنے میں مدد کریں اور حقیقت تو یہ ہے کہ حمیت ایمانی وغیرت اسلامی للکار کر ہم سے پوچھ رہی ہے کہ کیا ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں کہ ہم اپنے بھائیوں کے ساتھ تعاون کرسکیں…!!!

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے فلسطینی بھائیوں کی حفاظت فرمائے ،انہیں ان کا چھینا ہوا وقار واپس دلائے ،مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے نرغے سے نکلنے کے اسباب پیدا فرمائے، مسلم اُمہ اور مسلمان حکم ران جو ابھی تک غفلت کی نیند میں سوئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو بیدار فرمائے اور اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔