مبصر کے قلم سے

مبصر کے قلم سے

ادارہ

تبصرہ کے لیے کتاب کے دو نسخے ارسال کرنا ضروری ہے۔ صرف ایک کتاب کی ترسیل پر ادارہ تبصرے سے قاصر ہے۔ تبصرے کے لیے کتابیں صرف مدیر الفاروق یا ناظم شعبہ الفاروق کو بھیجی جائیں (ادارہ)

فن بلاغت کے بنیادی تصورات
تالیف: مولانا ڈاکٹر استراج خان
صفحات:322 سائز:23×36=16
ناشر: ادارہ تالیفات دارالعلوم فاروقیہ، بالاگڑھی، مردان

زیر نظر کتاب میں علم بلاغت کے تینوں فنون علم معانی، علم بیان اور علم بدیع کو آسان اور عام فہم انداز میں اردو زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ علم معانی آٹھ ابواب او رایک خاتمہ پر مشتمل ہے اور ہر باب کے تحت کئی فصول قائم کی گئی ہیں، علم بیان تین ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب کو کئی فصول میں تقسیم کیا گیا ہے، جب کہ علم بدیع چند فصول پر مشتمل ہے۔ کتاب کی ابتدا میں علم بلاغت کے تاریخی ارتقاء اور بلاغت کی کتابوں پر جامع اور مختصر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

کتاب میں دروس البلاغة کے تقریباً تمام اور مختصر المعانی کے اکثر مضامین ومباحث بعض اضافی اصطلاحات کے ساتھ سمو دیے گئے ہیں۔ اشعار کے پس منظر یا کم از کم شاعر کی تعیین کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک عمدہ اور قابل قدر تالیف ہے۔ علماء وطلبہ اور اس موضوع سے اشتغال اور دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے سود مند او رمفید ہے۔

کتاب کی طباعت واشاعت درمیانے درجے کی ہے۔

تعلیم العقائد(حصہ دوم)
تالیف: مولانا طاہر محمود سحبان
صفحات:179 سائز:23×36=16
ناشر: عارفی پبلشر، جامعہ اشرف العلوم، بیت المکرم، کراچی

جامعہ اشرف العلوم بیت المکرم کے استاذ الحدیث مولانا طاہر محمود سحبان نے ابتدائی درجات کے طلبہ کے لیے تعلیم العقائد کے نام سے کتاب مرتب کی تھی، جس میں بنیادی عقائد کو آسان اور عام فہم انداز واسلوب میں پیش کیا گیا تھا، کتاب کی اہمیت کے پیش نظر وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے اسے دراسات دینیہ کے نصاب میں شامل کیا۔ زیر نظر تالیف اس کا دوسرا حصہ ہے، جس میں اسلام میں فرقہ بندی کے اسباب ووجوہات، اسلامی فرقوں کا مختصر تعارف اور ان پر نقد وتبصرہ کیا گیا ہے۔ اس میں دور قدیم او رجدید کے تقریباً تمام فرقوں کا مختصر انداز میں تعارف او ران پر تنقید آگئی ہے۔

عام طور پر مبتدی طلبہ عقائد او رمختلف فرقوں کے تعارف سے نابلد ہوتے ہیں، اردو زبان میں ایسی کوئی تالیف موجود نہیں تھی جو اس ضرورت کو پورا کرتی۔

زیر نظر تالیف میں اس ضرورت کو پورا کیا گیا ہے ۔ مبتدی طلبہ کی عقائد کے سلسلہ میں راہ نمائی او رمختلف اسلامی فرقوں کے جامع ومختصر تعارف کے حوالے سے یہ ایک عمدہ اور قابل قدر کاوش ہے۔

کتاب کا ورق درمیانہ اور طباعت خوب صورت ومعیاری ہے۔

تذکرة الصالحین
مرتب: مولانا عبدالحفیظ /ڈاکٹر محمد سعید
صفحات:368 سائز:23×36=16
مکتبة الحسن، 33، حق اسٹریٹ، اردو بازار، لاہور

حضرت مولانا عبدالعزیز رائے پوری رحمة الله علیہ، حضرت اقدس شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمة الله علیہ کے اجل خلفائے میں سے تھے ،دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمة الله علیہ کے شاگرد رشید تھے، ان کے والد ماجد الحاج حافظ محمد صالح رحمة الله علیہ کا شمار حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله علیہ کے اجل اور ممتاز خلفاء میں ہوتا تھا۔ جامعہ رشیدیہ رائے پور کے وہ بانی تھے، جہاں سے کئی جید علمائے کرام نے تعلیم حاصل کی، جن میں حضرت مولانا خیر محمد جالندھری بھی شامل ہیں، جامعہ رشیدیہ ساہیوال، جامعہ رشیدیہ رائے پور کی نشاة ثانیہ اور اسی کا تسلسل تھا۔ زیرنظر کتاب میں رائے پور کے اس عظیم خاندان کے حالات زندگی او ران کی دینی خدمات کو قلم بند کیا گیا ہے۔ مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید رحمة الله علیہ ان کے تعارف میں لکھتے ہیں:

”حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب رحمة الله علیہ کی ولادت مدرسہ رشیدیہ رائے پور گجراں کے باخدا ملکوتی ماحول میں ہوئی۔ قرآن کریم سے لے کر موقوف علیہ تک کی تعلیم مدرسہ رشیدیہ میں اپنے والد ماجد کے علاوہ حضرت مولانا مفتی فقیر الله صاحب او رمولانا فضل احمد سے حاصل کی۔ حدیث کی تکمیل دارالعلوم دیوبند میں امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری اور دیگر اکابر سے کی۔ حضرت شیخ الہند نورالله مرقدہ سے وہاں باطنی استفادہ کیا، حضرت شیخ الہند کے بعد حضرت اقدس شاہ عبدالرحیم رائے پوری قدس سرہ سے اصلاح کا تعلق رہا۔ لیکن سلوک کی تکمیل ان کے خلیفہٴ ارشد قطب العالم حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری نور الله مرقدہ سے ہوئی او رانہی کی طرف سے اجازت وخلافت سے مشرف ہوئے۔

تعلیم سے فراغ کے بعد مدرسہ رشیدیہ رائے پور گجراں ہی میں خدمات تدریس کا سلسلہ شروع ہوا، جو تقسیم تک جاری رہا۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے چیچہ وطنی ضلع ساہیوال کے ایک گاؤں چیک11/11 ایل میں آرہے، یہاں آپ کا معمولی زمین دارہ تھا۔ یہاں قرآن کریم کا ایک مکتب جاری فرمایا او راپنے متوسلین اور واردین وصادرین کے لیے ایک چھپر ڈال دیا، یہ گویا آپ کی خانقاہ تھی اور یہی مہمان خانہ بھی۔ ساری عمر اسی تجرید وتفرید، انقطاع وتبتل اور گوشہ گم نامی میں گزار دی۔“

یہ کاوش اس حوالے سے بہت مفید اور اہم ہے کہ اس میں ایک عالم ربانی بلکہ دینی و علمی حوالے سے نمایاں اور ممتاز ایک پورے خاندان کی سرگزشت حیات اور ان کی دینی خدمات اس کتاب میں آگئی ہیں۔

کتاب کی طباعت واشاعت درمیانے درجے کی ہے۔