مبصر کے قلم سے

مبصر کے قلم سے

ادارہ

تبصرہ کے لیے کتاب کے دو نسخے ارسال کرنا ضروری ہے۔ صرف ایک کتاب کی ترسیل پر ادارہ تبصرے سے قاصر ہے۔ تبصرے کے لیے کتابیں صرف مدیر الفاروق یا ناظم شعبہ الفاروق کو بھیجی جائیں (ادارہ)

سلیقہٴ انسانیت کا بحران اور بچاؤ کی تدابیر
تالیف: محمد موسی بھٹو، صفحات:144 سائز:23×36=16
ناشر: سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ،400 بی لطیف آباد، حیدر آباد۔

کتا ب کے تعارف میں مؤلف لکھتے ہیں:
”سلیقہ ٴ انسانیت سے ہماری مراد پاکیزہ زندگی، انسانیت کے شایان شان زندگی اور فطرت سے ہم آہنگ زندگی ہے، جس کی دعوت اول روز سے انبیاء کرام دیتے چلے آئے ہیں او راس کے بعد علمائے ربانی بھی یہی دعوت دیتے رہے ہیں۔

سلیقہ ٴ انسانیت کے بحران سے ہمارا مقصود مادیت پرستی، نفس پرستی اور عقل محض پر مشتمل مادی تہذیب ہے، جس کی دعوت اس وقت مادہ پرست انسان اور عالمی سرمایہ دار دے رہا ہے، سلیقہ ٴ انسانیت کا یہ بحران اس وقت ہمہ جہتی وہمہ گیر نوعیت کا ہے، جس نے عالمی سطح سے لے کر محلہ او رگھر کی سطح تک سب کا گھیراؤ کر لیا ہے ،اس وقت خواہشات اور مادیت کا ایک طوفان ہے، جس میں لوگوں کی بہت بڑی اکثریت بہتی چلی جارہی ہے، فہم وفراست ، معرفت نفس اور معرفت رب کی بات سننے کے لیے کوئی آمادگی موجود نہیں،جب فطرت سلیمہ کے اجزاء مسخ ہو جاتے ہیں تو یہی صورت حال پیدا ہوتی ہے کہ پاکیزہ تہذیب اور انسان سازی کی باتیں افراد پر کار گر ثابت نہیں ہوتیں۔

انسانیت کی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا دور آیا ہو، جس میں خوب صورت اور دل فریب اصطلاحات کے پردے میں خواہشات اور مادیت کی طرف اتنی بلند آہنگی سے دعوت دی جاتی ہو، جو اس دور میں دی جارہی ہے ، یہ اس دور کا سب سے بڑا المیہ ہے،جو انسانیت کے ساتھ ہوا ہے، پاکیزہ تہذیب کے حوالے سے بے حسی کی عمومی فضا ہے، جو اس وقت پیدا ہو گئی ہے۔

موجودہ دور میں جب کہ اسلامیت اور کفر کی کشمکش جاری ہے، یہ غیر جانب دار یا تماشائی بن کر رہنے کا دور ہر گز نہیں ہے، جس فرد میں بھی ایمان کی معمولی چنگاری موجود ہے، اسے اپنی طاقت کا پلڑہ اسلام کے حق میں ڈالنا ہو گا اور اگر وہ خود براہ راست دعوتی، علمی اورتربیتی محاذ پر کام کرنے کی صلاحیت کا حامل نہیں تو اسے کم از کم دامے درمے سخنے اس محاذ پر کام کرنے والوں کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا، تاکہ جدید نوعیت کے کفر کے مقابلہ کی صورت پیدا ہو سکے اور اسلامیت کا تسلسل قائم رہ سکے۔“

یہ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے،حصہ اول ارتداد او رباطل کی جدید شکلیں، وقت کے چیلنج کو سمجھنے کی ضرورت،حصہ دوم سلیقہٴ انسانیت کا بحران، تجاویزوتدابیر، حصہ سوم تصوف اور اسلامی تحریکیں او رحصہ چہارم سلیقہ انسانیت پیدا ہونے کے سلسلے میں ذکر وفکر کے حلقوں کا کردار کے عنوان سے ہے۔ ان میں سے پہلا حصہ ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی مختلف کتابوں خصوصاً ”قرآن اور علم جدید“ کے اقتباسات پر مشتمل ہے۔

یہ کتاب مغرب کی طرف سے مغربی علم وتہذیب کے ذریعے درآنے والے کفر والحاد کے رد ، اس کی روک تھام اور اصلاح کے سلسلے میں تالیف کی گئی ہے جو کہ دور حاضر کا اہم موضوع ہے اور امت مسلمہ کو مغربی تہذیب وتمدن سے بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ الله تعالیٰ امت مسلمہ کی حالت پر رحم فرمائے اور مؤلف کی اس کاوش کو مقبول ونافع بنائے۔ آمین

کتاب کا ٹائٹل کارڈ کا ہے اور طباعت معیاری ہے۔

نفس اور مادیت کے خلاف معرکہ آرائی میں ذکر کا کردار
تالیف: محمد موسی بھٹو
صفحات:136 سائز:23×36=16
ناشر: سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ،400، بی لطیف آباد، نمبر4، حیدرآباد۔

جب سے مغرب اور مغربی تہذیب وتمدن کا غلبہ ہوا ہے دنیا مادیت اور نفس پرستی کا بہت زیادہ شکار ہوئی ہے اور روز بروز اس میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، ایسے آلات ایجاد کیے گئے ہیں جو فحاشی وعریانی اورمادیت پرستی کو فروغ دے رہے ہیں اور دنیا کی طاقت ور ترین قوتیں اس کی سرپرستی کرکے دن بدن اس کے پھیلاؤ میں اضافہ کر رہی ہیں اور پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آرہی ہے۔ خصوصاً مسلم ممالک اور دین اسلام اس کا بڑا ہدف ہیں۔ کفر یہ اور شیطانی طاقتیں اپنے ان خطرناک عزائم اور مقاصد میں کسی حد تک کام یاب بھی ہوئی ہیں، لیکن اب تک یہ جنگ جاری ہے۔ زیر نظر کتاب میں الله تعالیٰ کے ذکر کے فوائد وثمرات او ربرکات بیان کیے گئے ہیں کہ اس کے ذریعے نفس امارہ کی سرکشی اور مادیت پرستی کے اس سیل بے لگام سے بچاؤ کی صورت پیدا کی جاسکتی ہے اور یہ اس کے سامنے بند باندھنے میں مؤثر ہے۔

یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک اچھی کاوش ہے او راس میں امت مسلمہ کوذکر الله کے اختیار اور اہتمام کی تاکید کی گئی ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعے اس پُرفتن دور میں مادیت پرستی اور نفس امارہ کی شراتوں سے محفوظ رہ سکے۔ ایک علمی واصلاحی موضوع ہے، اور کتاب میں اس کے مختلف پہلوؤں پر گفت گو کی گئی ہے۔ کتاب میں بعض امور کا ذکر مناسب معلوم نہیں ہوتا، مثلاً صفحہ نمبر55 میں”اہل مغرب “ کی ایک خصوصیت سے استفادہ کی ضرورت“ کا عنوان قائم کیا گیا ہے، جس میں ان کے ہاں رائج ذہنی ارتکاز کے حصول کی کاوشوں کا ذکر ہے، جو بظاہر شرعی نقطہ نظر سے درست معلوم نہیں ہوتیں جب کہ کتاب میں ان کی ترغیب دی گئی ہے، نیز صفحہ نمبر106 پر تبلیغی جماعت کے کام اور اس سے وابستہ افراد کے بعض نقائص شمارکرکے ذکر کی کمی کو اس کا سبب قرار دیا گیا ، کتاب میں جونقائص مذکور ہیں وہ بھی مؤلف کے اپنے زعم کے مطابق ہیں یا ممکن ہے تبلیغ سے وابستہ بعض افراد میں انہوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہو، لیکن ان نقائص کو ایک کلی کے طور پر بیان کرکے ذکر کی قلت اور کمی کو اس کا سبب قرار دینا بہرحال مناسب نہیں ہے۔آئندہ ایڈیشن میں اس طرح کی چیزوں کی اصلاح کر لینی چاہیے اور کسی ثقہ عالم دین، جس کا علم و تصوف سے بھی قوی ربط وتعلق ہو، سے نظرثانی کرالی جائے تو بہتر ہو گا۔

کتاب میں فہرست مضامین بھی شامل نہیں ہے، جس سے کتاب سے استفادہ کرنے میں دقت محسوس ہوتی ہے، لہٰذا آئندہ ایڈیشن میں مضامین کی فہرست شامل کر لینی چاہیے تاکہ قاری کے لیے کتاب سے استفادہ آسان ہو۔

کتاب کا ٹائٹل کارڈ کا ہے اور طباعت متوسط درجے کی ہے