مبصر کے قلم سے

مبصر کے قلم سے

ادارہ

تبصرہ کے لیے کتاب کے دو نسخے ارسال کرنا ضروری ہے۔ صرف ایک کتاب کی ترسیل پر ادارہ تبصرے سے قاصر ہے۔ تبصرے کے لیے کتابیں صرف مدیر الفاروق یا ناظم شعبہ الفاروق کو بھیجی جائیں (ادارہ)

تفسیر لاہوری
افادات: مولانا احمد علی لاہوری
ضبط وترتیب: مولانا سمیع الحق شہید
ناشر: مؤتمر المصنفین، جامعہ دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک۔

مولاناا حمد علی لاہوری رحمة الله علیہ کو مولانا عبیدالله سندھی رحمة الله علیہ سے خصوصی شرف تلمذ حاصل تھا اور ان سے خاص طور پر علوم قرآنی کو شاہ ولی الله محدث دہلوی اور شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمة الله علیہ کے علوم وافکار کی روشنی میں سیکھا تھا۔ الله تعالیٰ نے حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمة الله علیہ سے دین کی خدمت کا عظیم کام لیا اور ان کے دورہ تفسیر اور درس قرآن میں علماء وطلبہ اور عوام الناس کی بڑی تعداد شریک ہوتی تھی، علماء وفضلا کے لیے ان کا دورہ تفسیر تین ماہ پر مشتمل ہوتا تھا ،شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة الله علیہ دارالعلوم کے فضلاء کو اس دورہ میں شرکت کی ترغیب دیا کرتے تھے، مولانا سمیع الحق شہید رحمة الله علیہ نے اپنے والدگرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق رحمة الله علیہ کے حکم ومشورہ سے 1958ء میں حضرت لاہوری رحمة الله علیہ کے دورہ تفسیر میں شرکت کی اور درسی افادات کو قلم بند کیا، درسی امالی والا یہ رجسٹر جب حضرت لاہوری رحمة الله علیہ کو دکھایا جاتا تو آپ اس کی تحسین فرماتے اورفرماتے کہ ”مالھذا الکتاب لا یغادر صغیرة ولاکبیرة․“ مولانا سمیع الحق شہید کے پاس یہ درسی امالی محفوظ تھے اور نصف صدی بعد انہوں نے ان کی ترتیب وتدوین کا کام شروع کیا، حضرت لاہوری کے درسی افادات جو بعض حضرات نے لکھے تھے وہ بھی اس میں سمو دیے گئے، اس طرح اس میں حضرت لاہوری کے تفسیری علوم کو محفوظ کر لیا گیا، مولانا سمیع الحق شہید کی یہ کوشش وتمنا تھی کہ یہ کام ان کی زندگی میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائے، لیکن یہ کام تکمیل کے قریب تھا اور ستائیسویں پارے کی سورہٴ نجم میں چل رہا تھا کہ حضرت مولانا نہایت بے دردی سے شہید کر دیے گئے۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے فرزند ارجمند مولانا راشد الحق سمیع مدیر ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک کی زیر نگرانی مزید کام پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا او رپھر دس جلدوں میں خوب صورت ومعیاری انداز واسلوب میں شائع کیا گیا ہے۔

مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن ندوی رحمةالله علیہ کوبھی حضرت لاہوری سے شرف تلمذ حاصل تھا اور انہوں حضرت لاہوری کے دورہ تفسیر میں شرکت کی تھی، حضرت کے درس قرآن کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

”مولانا کے درس کے تین اہم بڑے مرکزی مضمون تھے، پہلا عقیدہ توحید کی وضاحت جو ہر قسم کے مشرکانہ اثرات ورسوم سے پاک تھی اور جس میں ان کا طرز مولانا اسماعیل شہید  سے بہت ملتا جلتا تھا، نیز انہیں کے ایک دوسرے نامور معاصر اور بزرگ مولانا حسین علی الوانی  کے طرز تفسیر اور انداز تبلیغ سے بہت ملتا جلتا تھا، یہ چوں کہ خود اپنے خاندانی مسلک کی ترجمانی اور تائید تھی، اس لیے دل نے اس کا خوب ذائقہ لیا اور دماغ نے اس کو پورے طور پر قبول کیا۔

دوسرا مرکزی مضمون اہل الله کے مؤثر اور دلآویز واقعات بالخصوص اپنے سلسلہ کے مشائخ کا دل پذیر بکثرت تذکرہ، مولانا اپنے سلسلہ کے مشائخ کی محبت میں بالکل سر شار تھے او رجیسا کہ محبت کا قاعدہ ہے ، وہ ان کے تذکرہ کے لیے کوئی نہ کوئی تقریب پیدا کر لیتے تھے، وہ جس وقت ان کا تذکرہ کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ ان کے منھ میں پانی بھر آیا ہے اور وہ کسی نہایت شیریں او رمحبوب چیز کا مزہ لے لے کر ذکر کر رہے ہیں، ان کے دوروحانی مربی وشیخ تھے، مولانا سیدتاج محمود امروٹی  او رخلیفہ غلام محمد دین پوری اور جس وقت ان دونوں بزرگوں کا تذکرہ کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ ان کے ہر بن موسے تشکر وامتنان او رمحبت وعقیدت کا چشمہ ابل رہا ہے اور کسی نے ان کے دل کا ساز چھیڑ دیا ہے، سامعین کے دل ان تذکروں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے، چناں چہ قدرتاً یہ عقیدت ومحبت ان کے دل سے سننے والوں کو منتقل ہوتی تھی او ربجلی کے کرنٹ کی طرح دوسروں کے جسم وجان میں بھی دوڑ جاتی تھی۔

تیسرا مرکزی مضمون جذبہٴ جہاد، بغض فی الله ا ورانگریزوں سے شدید دشمنی اور نفرت کا مضمون تھا، جو بار بار درس میں آتا تھا اور خود قرآن مجید کی آیات ان کی رہبری کرتی تھیں، میرا نشو ونما اس وقت تک علمی وادبی فضا اور ندوہ کے ماحول میں ہوا تھا، خاندان میں بھی انقلاب زمانہ اورانگریزی تعلیم کے اثر سے یہ تذکرے بہت کم رہ گئے تھے، حقیقتاً مولانا ہی کے درس سے اس نئی دنیا سے آشنائی پیدا ہوئی اورمعلوم ہوا کہ علم ومطالعہ، فکر ونظر اورادب وشعر کے علاوہ کچھ مقاصد وحقائق اور کچھ لذتیں اور ذائقے ہیں اور انسانوں کی کوئی قسم ایسی بھی ہے جس کے لیے دین صرف خبر نہیں بلکہ نظر، یادریافت نہیں یافت کا معاملہ ہے۔
          سر دیں مارا خبر او را نظر
          او درون خانہ مابیرون در
” دین کے راز ہمارے لیے اور مرد حُر کے لیے نظر کی حیثیت رکھتے ہیں، گویا وہ گھر کے اندر ہیں اور ہم دروازے سے باہر ہیں“۔

حضرت لاہوری رحمة الله علیہ علم وعمل، عقیدہٴ توحید، تصوف وسلوک اورجہاد وسیاست میں جس بلند مقام ومرتبہ پر فائز تھے وہ کسی سے مخفی نہیں، چناں چہ ان کے درسی افادات میں بھی یہ امور نمایاں نظر آتے ہیں، اس میں علمی نکات بھی ہیں اور تہذیب اخلاق کا درس بھی ، عقیدہٴ توحید کی گونج بھی ہے اوررسوم ورواجات کی اصلاح بھی ،جہاد کا نعرہٴ تکبیر بھی ہے اوراسلامی سیاست پر بصیرت افروز گفت گو بھی۔ یہ تفسیر نمایاں مقام کی حامل ہے اورمولانا سمیع الحق شہید رحمة الله علیہ نے حضرت لاہوری کے درسی افادات کو جمع کرکے امت پر احسان کیا ہے۔ الله تعالیٰ امت مسلمہ کو اس قیمتی سرمائے سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ کتاب معیاری کاغذ وطباعت اور عمدہ وخوب صورت جلد بندی کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔