مبصر کے قلم سے

مبصر کے قلم سے

ادارہ

تبصرہ کے لیے کتاب کے دو نسخے ارسال کرنا ضروری ہے۔ صرف ایک کتاب کی ترسیل پر ادارہ تبصرے سے قاصر ہے۔ تبصرے کے لیے کتابیں صرف مدیر الفاروق یا ناظم شعبہ الفاروق کو بھیجی جائیں (ادارہ)
اسلامی اقتصاد کے چند مخفی گوشے
تالیف: مولانا محمد طاسین
صفحات:592 سائز:23×36=16
ناشر: گوشہ علم وتحقیق، کراچی،371JM، فلیٹ نمبرA-201، علامہ محمدیوسف بنوری ٹاؤن، سہوانی کالونی، گرومندر، کراچی

مولانا محمد طاسین مرحوم مزارعت، مضاربت، شرکت اور اجارہ میں اپنی ایک منفرد رائے رکھتے تھے، جس کا اظہار انہوں نے مقالات کی صورت میں کیا ہے او ران عنوانات پر انہوں نے پانچ مقالے تحریر فرمائے تھے۔ مزارعت، مضاربت کی شرعی حیثیت، شرکت، اجارہ اور بیوت مکہ کا اجارہ۔ زیر نظر کتاب میں ان مقالات کو کتابی صورت میں یک جا شائع کیا گیا ہے۔ جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے استاذ اور شعبہ تخصص فی الافتاء کے نگران مولانا مفتی رفیق احمد بالاکوٹی نے قدرے تفصیل کے ساتھ اس پر مقدمہ تحریر فرمایا ہے، جس میں اسلام کے معاشی نظام اور مولانا محمد طاسین مرحوم کی متفرد معاشی آراء کی وضاحت کی ہے اور ساتھ ساتھ مذکورہ مقالات میں سے ہر ایک پر تبصرہ بھی کیا ہے، نیز ان میں جو باتیں قابل نقد ہیں ان کو بھی بیان کیا ہے اور جو باتیں درست اور لائق التفات ہیں وہ بھی ذکر کی ہیں۔

مثلاً مضارعت کے مسئلے میں مولانا محمد طاسین مرحوم، امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ کے عدم جواز والے موقف کو ترجیح دیتے تھے اور اس سلسلے میں ایک جگہ وہ فرماتے ہیں:

”مختصر خلاصہ یہ کہ میں نے مزارعت کے موضوع پر لکھے ہوئے بہت سے عربی اردو مضامین ومقالات پڑھنے کے بعد محسوس کیا کہ ابھی اس موضوع پر مذکورہ پہلوؤں سے مزید لکھنے کی گنجائش، بلکہ ضرورت ہے۔ لہٰذا اپنے علم وفہم کے مطابق خامہ فرسائی کی، جواب کتابی شکل میں آپ کے سامنے ہے، میں اس میں کس حد تک کام یاب ہوا ہوں اور کس حد تک نہیں ہوا، اس کا فیصلہ وہی اہل علم وفکر حضرات کرسکتے ہیں جو غیر متعصب، حقیقت پسند او رمنصف مزاج ہیں اور قائل سے زیادہ قول کو دیکھتے ہیں۔ اور وہ حضرات جو کتب فقہ وفتاوی میں لکھے ہوئے علیہ الفتویٰ اور مفتی بہ قول کو منزل من الله وحی کی طرف سمجھتے او راس کے خلاف کوئی بات ماننا تو درکنار سننا بھی گوار نہیں کرتے، خواہ وہ قرآن وحدیث کے مطابق کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہو۔ اُن کے حق میں دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ الله انہیں اپنے رویہ پر نظر ثانی کرنے اور حقیقت حال کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے“۔

مولانا مفتی رفیق احمد بالاکوٹیمدظلہ مولانا محمد طاسین مرحوم کی اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”رہی یہ بات کہ نصوص اور فقہی روایات کا اختلاف، معاملہ مزارعت کے اصل حکم کی پوشیدگی اور واقعاتی پہلو سے تشویش کا باعث ہے، اس کا خاتمہ ہونا چاہیے اور اس مقصد کے لیے مولانا براہ راست قرانی کلیات وعمومات سے استدلالی اسلوب اور ترجیحی معیارات کی راہ اپنانے کو معاملہ مزارعت کی نقاب کشائی کہتے ہیں، مگر اسی تناظر میں مولانا مرحوم فقہاء کرام کے ترجیحی معیارات او رعلامات کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے نظر آتے ہیں، حالاں کہ فقہاء اسلام اور مولانا مرحوم کے بنیادی ترجیحی مقصد میں کوئی فرق نہیں ہے، فرق صرف جہت اور وجہت نظر کا ہے۔ جس طرح مولانا، اختلاف نصوص واقوال سے نکلنے کے لیے مخلص کے قائل ہیں، فقہاء نے بھی ”بہ یفتی“ اور ”علیہ الفتوی“ جیسے کلمات کے ذریعہ یہی کوشش فرمائی ہے۔ ہمارے خیال میں اختلافی علمی راہوں میں اتفاقی اور قابل عمل جہت کی تعیین کا حق جس طرح مولانا اپنے لیے او راپنے ہم خیال اہل علم کے لیے جائز یا ناگزیر سمجھ رہے ہیں۔ یہ حق جدید وقدیم فقہاء کوبھی حاصل تھا اور ہے۔

دوسرانکتہ: یہ کہ احکام کی تعیین وتخریج کے لیے ہمارے سامنے دو ذخیرے ہیں، ایک نصوص کا اور ایک فقہی فروع کا۔ اجتہادی شان کے حامل اہل علم کا مجال فکر وعمل نصوص ہیں، وہ نصوص سے احکام نکالتے ہیں۔ اور اجتہادی شان سے پیچھے رہ جانے والے اہل علم ، فقہی احکام کے بیان میں دینی امانت ودیانت کے پیش نظر، اہل اجتہاد کے اجتہاد پر اکتفاء کرتے چلے آرہے ہیں، مولانا مرحوم کا استدلالی طرز اسلوب، مجتہدین علماء کا ہے۔ اگر مولانا کی آراء کو ائمہ مجتہدین یا مجتہدین فی المذاہب اہل علم کا درجہ حاصل ہو تو ان کا طرز فکر اور استدلال بجا ہے ورنہ ترجیح کے لیے اسی روایتی اسلوب کی طرف رجوع کی ضرورت ہے جو روایتی علماء کے ہاں ”علیہ الفتوی اور بہ یفتی“ کی صورت میں کتب فقہ میں دست یاب ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ مزارعت کے بارے میں صاحبین کے قول کو مفتی بہ قرار دیا گیا ہے۔“

ایک او رجگہ مؤلف کی ایک رائے سے اتفاق کرتے ہوئے مفتی صاحب لکھتے ہیں:
”کمپنی کی اعتباری شخصیت اور اس کی محدود ذمہ داری سے متعلق مولانا محمد طاسین رحمہ الله نے جو کچھ لکھا ہے شرعی وفقہی اصولوں کے مطابق اس رائے سے کلی اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ اسی حقیقت کو 2008ء میں ملک بھر کے علماء اور ارباب فتاوی نے بیان فرمایا ہے جو کہ مروجہ اسلامی بینکاری نامی کتاب میں ”شخص قانونی کی فقہی جراحی“ کے عنوان سے مفصل محقق انداز میں موجود ہے۔

بایں معنی یہ کہنا بالکل درست ہے کہ جو اہل علم کمپنی کو فقہی شرکت کے درجے میں شامل کرنے کے لیے اس کے اعتباری وجود کی فقہی تخریج کرتے دکھائی دیتے ہیں اور شخص اعتبار ی کے لازمے کے طوپر لمیٹڈ (محدود ذمہ داری) کو بڑے تحکم کے سا تھ بعض فقہی نظائر کے سہارے، شرعی لبادہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ خالصةً” مغربی معاشی فکر“ کے مطابق ڈھلی ہوئی اجتماعی کاروباری شکل کی فقہی تخریج کی ناروا کوشش فرمارہے ہیں، اس لحاظ سے مولانا محمد طاسین کی رائے جمہور کے موافق اوران کے معاصر ومخاطب اہل علم کی رائے انفرادیت پر مبنی معلوم ہوتی ہے۔ والله اعلم“

لہٰذا جن حضرات کو مذکورہ کتاب سے استفادہ کرنا ہو تو وہ مولانا مفتی رفیق احمد بالاکوٹی مدظلہ کے تحریر کردہ مقدمہ سے ضرور استفادہ کریں ، تاکہ وہ اس کے پیش نظر مولانا محمد طاسین مرحوم کے موقف کو ٹھیک اور درست طریقہ سے سمجھ سکیں۔

یہ کتاب معیاری کمپوزنگ اور خوب صورت جلد بندی کے ساتھ درمیانے کاغذ میں شائع کی گئی ہے۔

آئینہ حقیقت نما
تالیف: عبدالمنان معاویہ
صفحات جلد اول:496، جلد دوم:520 سائز:23×36=16
ناشر: معارف اسلام اکیڈمی، الہ آباد، لیاقت پور، ضلع رحیم یار خان۔

اہل تشیع کے نام نہاد محقق حسین الامینی نے اپنی کتاب”شیعیت کا مقدمہ“ میں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اہل سنت کی علماء جن عقائد کی نسبت شیعہ حضرات کی طرف کرتے ہیں وہ ان کے عقائد نہیں ہیں او راس طرح کے عقائد کی نسبت شیعہ حضرات کی طرف درست نہیں ہے۔ مولانا عبدالمنان معاویہ نے زیرنظر کتاب ان کے رد میں لکھی ہے اور اصول وفروع کے جن مسائل میں اہل سنت اور روافض کا اختلاف ہے ان کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور روافض کی کتابوں سے ان کے عقائد ونظریات کو بحوالہ ثابت کیا ہے، تاکہ کوئی شیعہ اور رافضی اپنے عقائد کا انکار نہ کرسکے او راہل سنت والجماعت کے عوام او رنوجوانوں کو دھوکے میں نہ ڈال سکے۔ یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے او راس میں ذکر کردہ مسائل کو گیارہ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جلد اول میں چھ اور جلد دوم میں پانچ ابواب ہیں، جن کے عنوانات درج ذیل ہیں: باب اوّل : کتاب کے مقدمہ پر مقدمہ، باب دوم: لفظ شیعہ کا معنی ومصداق او رناجی گروہ اہل سنت والجماعت، باب سوم: کیا عبدالله بن سبا فرضی شخصیت اور افسانوی کردار ہے…؟ اور شیعہ مذہب کہاں کی پیدا وار ہے؟ عرب یا عجم، باب چہارم : اہلیان اسلام او راہل تشیع کا عقیدہ توحید، باب پنجم: اسلام کا عقیدہ نبوت او راہل تشیع کا عقیدہ نبوت، باب ششم: اہل تشیع کا عقیدہ امامت اور اہل سنت کا نظریہ خلافت، باب ہفتم: فروع دین، باب ہشتم: اہل تشیع کا عقیدہ تحریف قرآن اور شیعہ کے اہل سنت پر الزامات اور ان کی حقیقت، باب نہم: صحابہ کرام رضی الله عنہم کے بارے میں اہلیان اسلام واہل تشیع کا عقیدہ، باب دہم: ازواج مطہرات او راہل تشیع، باب یازدہم: مولانا یوسف لدھیانوی نے بے بنیاد باتیں کہاں سے نقل کیں؟ امینی صاحب کے مآخذ او ران کی حقیقت۔

کتاب کی ابتداء میں حافظ محمد اقبال رنگونی صاحب کا مقدمہ ہے جس میں دلائل کی روشنی میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اہل سنت اور روافض کا اختلاف اصولی ہے، فروعی نہیں۔ کتاب پر کئی اہل علم کی تقاریظ بھی ہیں، جو کتاب کے لیے استنادو اعتماد اور توثیق کا درجہ رکھتی ہیں۔

کتاب کا ٹائٹل خوب صورت اور طباعت واشاعت درمیانے درجے کی ہے۔