
ناجائز یہودی ریاست اسرائیل کی متعدد اسلامی ممالک پر پے در پے جارحیت کے بعد عرب دنیا کو یہ اندازہ ہونے لگا ہے کہ اہل کفر کی سیکورٹی ضمانتیں پائیدار اور قابل اعتماد نہیں اور انہیں اب اپنے دفاع کی خاطر کچھ مزید انتظامات بھی کرنا ہوں گے، اب ان کا اعتماد کفریہ طاقتوں کی دفاعی ضمانتوں سے بتدریج اٹھتا چلا جارہا ہے، جو کبھی براہ راست عالم اسلام پر حملہ آور ہوتی ہے اور کبھی اس قسم کی کار روائیوں کی سرپرستی، پشت پناہی اور سہولت کاری کا مکروہ فعل انجام دیتی ہے، اپنوں کی سادگی ایمانی فراست پر غالب آچکی ہے اور وہ مسلمان کہ احساس کم تری، مرعوبیت اور مفاد پرستی ان کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے، انہی آئمہ کفر کو امن کی فاختہ قرار دے کر عالمی اعزازی تمغوں کا مستحق ٹھہرا رہے ہیں۔
اگر چہ خلیجی ممالک نے آپس میں پہلے سے بھی باہمی تعاون اور مدافعت کے لیے معاہدے کر رکھے ہیں، لیکن مختلف اسلامی ملکوں پر اسرائیلی جارحیت کے حالیہ چند واقعات سے یہ ثابت ہوا کہ ان معاہدوں کے شرکاء بھی ایک دوسرے کے دفاع کے لیے کوئی موٴثر عملی اقدام کرنے سے قاصر ہیں، چناں چہ اس مقصد کے لیے زبانی مذمت سے تجاوز کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔
بالآخر اس مسئلہ کا حل پاک عرب دفاعی معاہدے کی صورت میں تلاش کیا گیا ، یہ طے کیا گیا ہے کہ اب مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے ایک ہوں گے، اس معاہدے کے تحت ایک ملک کے خلاف جارحیت کو دونوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا، بلاشبہ یہ دفاعی روابط ایک خوش آئند پیش رفت سمجھے جا رہے ہیں اور بظاہر یہ ایک بہت اہم، موٴثر اور قابل تقلید اقدام ہے، لیکن یہ حقیقی طور پر موثر اور نفع مند اس وقت ہوگا جب کہ دوچیزوں پر خصوصی توجہ دی جائے۔
پہلی چیز تصحیح نیت ہے، یعنی فریقین کی نیتیں خالص اور نظریں دُور رَس ہوں ۔ معاہدے سے عربوں کا مقصد محض اپنی بادشاہت کا بچاوٴ اور اقتدار کی پائیداری نہ ہو بلکہ واقعةًحرمین شریفین کی حرمت وتقدس کا دفاع پیش نظر ہو، اسی طرح فریق ثانی اپنی صلاحیتیں اور وسائل وتجربات صرف مال وزر، عہدوں اور جائیدادوں کے حصول کی خاطر پیش کرنے والا نہ ہو، بلکہ اس کا مطمح نظر مرکزِ اسلام کی حرمت وتقدس کا دفاع ہو، جس پر قرآن کریم میں ﴿إن أولیاء ہ الإ المتقون﴾(انفال، آیت: 34) کا اعلان فرمایا گیا ہے، غرض یہ کہ تصحیح نیت سے یہ معاہدہ ہو تو نہایت مبارک اور دنیوی و اخروی ثمرات کا باعث ہوگا۔
دوسری چیز یہ ہے مسلم ممالک ذاتی اور وقتی مفادات، فرقہ واریت اور علاقائی تنازعات کو بھلا کر وسیع تر طرز فکر کو اپناتے ہوئے تعمیری اقدامات کریں،کفار کی طرف سے کسی تازہ بد عہدی اور بے وفائی کا انتظار کرنے کے بجائے ﴿لا تتخذو الیہود والنصاریٰ اولیاء﴾ اور ﴿لن ترضی عنک الیہود﴾ وغیرہ فرامین الہٰی پر یقین رکھتے ہوئے آپس میں اقتصادی اور دفاعی پالیسی تشکیل دی جائے۔ اتحاد کے اس دائرے کی توسیع کو وقت کی اہم ترین ضرورت تسلیم کیا جائے، دیگر اسلامی ممالک کو بھی اس اتحاد میں شامل ہونے کی پُر زور دعوت دی جائے، یقینا یہ مبارک کوششیں اسلام اور اہل اسلام کی سر بلندی میں نہایت مفید اور اہم ثابت ہوں گی، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!