ہمارا عصری تعلیمی نظام اور لمحہ فکریہ

idara letterhead universal2c

ہمارا عصری تعلیمی نظام اور لمحہ فکریہ

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَیٰ ، فَإِنَّ الْجَنَّةَ ہِیَ الْمَأْوَیِٰ﴾․ (سورة النازعات، آیت:41-40)
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم․

میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو!

الله تعالیٰ نے اس پور ی کائنات کو پیدا فرماکر انبیاء علیہم السلام کو موقع بہ موقع انسانوں کی ہدایت کے لیے دنیا میں بھیجا ہے اور ان تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے انسانوں کو سب سے اہم دعوت توحید کی اور رسالت کی دی اور وہ کتابیں یا صحیفے جن حضرات کو الله تعالیٰ نے عطا فرمائے ان کتابوں اور صحیفوں کی روشنی میں اپنی قوموں کو انہوں نے وہ راستہ دکھایا جو الله تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔

اور اس راستے سے بچانے کی کوششکی جو الله تعالیٰ سے انحراف کا، الله تعالیٰ سے عداوت اور دشمنی کا راستہ ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام الله تعالیٰ کے بندوں کو الله تعالیٰ کی طرف رجوع اور انابت کی طرف بلاتے رہے۔

یہ جو آیت میں نے تلاوت کی ، اس میں الله تعالیٰ فرما رہے ہیں: ﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَیٰ ، فَإِنَّ الْجَنَّةَ ہِیَ الْمَأْوَیِٰ﴾․ یہ نتیجہ ہے، اس ساری بھاگ دوڑ، اس ساری محنت کا، اس ساری کوشش کا، جو انبیائے کرام علیہم السلام نے اس دنیا میں فرمائی کہ آدمی اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے، پیش ہونے سے خائف ہو اور اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو، اپنے نفس کو خواہشات سے محفوظ رکھے، روکے رکھے، اگر یہ دو کام اس نے کر لیے،﴿ فَإِنَّ الْجَنَّةَ ہِیَ الْمَأْوَیٰ﴾ تو بے شک جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔

چناں چہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے یہ محنت فرمائی۔ سب سے آخر میں امام الانبیاء ،سید الرسل محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے ،آپ نے بھی یہی محنت فرمائی:”أیہا الناس قولوا لا إلہ إلاّ اللہ“ الله کے سوا کوئی معبود نہیں، الله کے علاوہ کوئی الہ نہیں ہے، الله تعالیٰ کی الوہیت کو، اس کی وحدانیت کو ماننا کہ الله کے علاوہ کوئی معبود نہیں، الله کے علاوہ کوئی کار ساز نہیں، جو کچھ ہوتا ہے وہ الله تعالیٰ کے کرنے سے ہوتا ہے، باقی سب مخلوق ہیں، الله تعالیٰ نے سب کو پیدا کیا ہے ،وہ کچھ کر نہیں سکتیں۔

آدمی کو یہ دھوکہ ہوتا ہے کہ آگ جلاتی ہے، آگ نہیں جلاتی، الله جلاتاہے، اس لیے کہ الله تعالیٰ جب چاہیں اس آگ میں سے اس حدت کو ،حرارت کو سلب کر لیں، آپ نے سنا ہے، سچا واقعہ قرآن کریم میں مذکور ہے کہ نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا اور آگ بھی ایسی کہ مہینوں اس کے لیے ایندھن جمع کیا گیا اور آگ بھی اتنی خوف ناک کہ آدمی اس کے قریب نہیں جاسکتا تھا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وہ لوگ آگ میں نہیں ڈال سکتے تھے، اس لیے کہ اس آگ کی حدت بہت دور دور تک تھی، انسان قریب نہیں جاسکتا تھا۔

شیطان نے سکھایا کہ منجنیق بناؤ، چناں چہ منجنیق بنائی گئی اور اس منجنیق کے ذریعے سے اس آگ کے اندر پھینکا گیا، تو اب عقل کیا کہتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک لمحے کے اندر بھسم ہو جانا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہوا، کیوں کہ الله نے اس کی حدت ختم کردی، آگ مخلوق ہے، خالق الله ہیں۔

الله تعالیٰ نے فرمایا:﴿یٰنَارُکُونِی بَرْدًا وَسَلَامًا﴾․(سورة الانبیاء، آیت:69) ترجمہ:” اے آگ! ابراہیم کے لیے ٹھنڈی ہوجا، اورٹھنڈی بھی”سلاما“ سلامتی والی۔

آگ الله کے حکم کے بغیر نہیں جلاسکتی۔

”تاریخی روایات میں ہے کہ چالیس دن تک سارے شہر کے لوگ اس کام کے لیے لکڑی وغیرہ جمع کرتے رہے، پھر ا س میں آگ لگا کر سات دن تک اس کو دھونکتے اور بھڑکاتے رہے، یہاں تک کہ اس کے شعلے اتنے اونچے ہو گئے کہ اگر کوئی پرندہ اس پر گزرے تو جل جائے، اس وقت ارادہ کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو اس میں ڈالا جائے تو فکر ہوئی کہ ڈالیں کیسے؟ اس کے پاس تو جانا کسی کے بس میں نہیں تھا تو شیطان نے ان کو منجنیق میں رکھ کر پھینکنے کی ترکیب بتلائی، جس وقت الله کے خلیل منجنیق کے ذریعے اس آگ کے سمندر میں پھینکے جارہے تھے تو سب فرشتے، بلکہ زمین وآسمان اور ان کی مخلوقات سب چیخ اٹھے کہ یارب! آپ کے خلیل پر کیا گزر رہی ہے؟ حق تعالیٰ نے ان سب کو ابراہیم علیہ السلام کی مدد کرنے کی اجازت دے دی، فرشتوں نے مدد کرنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دریافت کیا تو ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ مجھے الله تعالیٰ کافی ہے ،وہ میرا حال دیکھ رہا ہے۔

جبرئیل امین نے عرض کیا کہ آپ کو میری کسی مدد کی ضرورت ہے تو میں خدمت انجام دوں؟ جو اب دیا کہ حاجت تو ہے، مگر آپ کی طرف نہیں، بلک اپنے رب کی طرف۔

تاریخی روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آگ میں سات دن رہے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے عمر میں کبھی ایسی راحت نہیں ملی جتنی ان سات دنوں میں حاصل تھی۔

آگ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آس پاس سب کچھ جلا ڈالا ،یہاں تک کہ جن رسیوں میں باندھ کر آگ میں ڈالا گیا تھا ان رسیوں کو بھی آگ نے جلا کر ختم کیا، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بدن مبارک پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: التفسیر الکبیر للامام الرازی، سورة الانبیاء، آیة:69،22/187، وتفسیر الطبری، سورة الانبیاء، آیة:69،16/309-306)

دریا اور سمندر میں ڈوب جاتے ہیں، لیکن الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام او ربارہ قبیلوں کو دریا سے گزروایا، ایسے گزروایا کہ ان کا بال بھی بیکانہ ہوا۔ ان کی کوئی چیز بھی ضائع نہیں ہوئی، اس لیے کہ دریا الله تعالیٰ کے حکم کا پابند ہے۔

چناں چہ ایک دو نہیں، بلکہ پوری قوم کو الله تعالیٰ نے دریا سے گزروایا، بارہ راستے بن گئے۔”قرآن کریم میں اس واقع کا ذکر ہے، ”سورة البقرة“ کی آیت ہے :﴿وَإِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَیْنَاکُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ﴾․(سورة البقرہ، آیت:50)

اور جب ہم نے تمہاری وجہ سے سمندر کو پھاڑ دیا، پھر ہم نے تم کو نجات دے دی اور آل فرعون کو ہم نے غرق کر دیا، اس حال میں کہ تم دیکھ رہے تھے۔

اس آیت میں بنی اسرائیل کی فرعون کے ظلم سے نجات کا ذکر ہے، جب الله تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کو حکم دیا کہ تم راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر مصر کی آبادیوں سے نکل جاؤ، اس وقت مصر میں فرعون کی حکومت تھی، حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو رات کو لے کر مصر کی آبادی سے نکل گئے اور دریا کے کنارے پہنچ گئے، ان کے نکلنے کی جب فرعون کو خبر ہوئی تو فرعون نے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کیا ،بنی اسرائیل دریا کے کنارے پہنچ چکے تھے، سورج نکل چکا تھا، فرعون اپنے لشکر کے ساتھ پیچھے سے پہنچا، تو بنی اسرائیل گھبراگئے اور انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا:﴿إِنَّا لَمُدْرَکُونَ﴾ ہم تو دھر لیے گئے، حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا:﴿کَلَّا إِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَہْدِینِ﴾․(سورہ الشعراء، آیت:62) ہر گز نہیں، بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ ضرور مجھے راہ بتائے گا۔

الله تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کو وحی بھیجی کہ تم اپنی لاٹھی دریا میں مارو۔ انہوں نے دریا میں لاٹھی ماری تو دریا بیٹھ گیا اور پانی کے پہاڑ کی طرح ٹکڑے ہو گئے۔ ان پانی کے ٹکڑوں کے درمیان زمین خشک ہو گئی اور بنی اسرائیل کے قبیلے ان پہاڑوں کے درمیان سے گزر گئے۔

فرعون نے بھی اپنے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کیا اور یہ لوگ بھی دریا میں داخل ہو گئے، لیکن بنی اسرائیل کا دریا سے پار ہونا تھا کہ الله تعالیٰ نے دریا کو ملا دیا اور فرعون اپنے لشکر سمیت پانی میں ڈوب گیا۔ (التفسیر الکبیر للإمام الرازی، سورة البقرة، آیت:50،3/74، الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورة البقرة، آیت:50،1/386)

میرے دوستو! خوب یاد رکھیں کہ اصل چیز الله کی طرف رجوع اورانابت ہے، انبیائے کرام علیہم السلام اسی کی دعوت دیتے تھے، آپ صلی الله علیہ و سلم نے بھی جو مکہ مکرمہ میں زمانہ گزارا، وہ تیرہ برس کا زمانہ ہے، اس زمانے میں اسی کی محنت فرمائی اور پھر مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں بھی اسی کی محنت فرمائی، دعوت دی، لوگوں کو الله تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف بلایا، الله سے سب کچھ ہونے کا یقین، مخلوق سے کچھ نہ ہونے کا یقین دلوں میں پیوست ہو گیا۔

آپ صلی الله علیہ و سلم نے ایک ایک صحابی کی تعلیم وتربیت کا انتظام فرمایا اور مدرسہ قائم فرمایا، حضرت ارقم رضی الله عنہ کے گھر میں مدرسہ قائم فرمایا اور مدینہ طیبہ آپ صلی الله علیہ وسلم پہنچے او رمسجد نبوی تعمیر فرمائی، تو اس میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے مدرسہ قائم فرمایا، بد قسمتی سے ہمارے اس خطے میں انگریز حکمران بن گیا او راس کے بعد خوش قسمتی سے ہمارے بزرگوں نے1857ء سے اس انگریز کے خلاف جدوجہد کی، سولیوں پر چڑھنا، جیلوں میں قید ہونا، کیا کیا مسائل جھیلے اور اس کے بعد اسی کے تسلسل میں 1947ء میں پاکستان آزاد ہو گیا۔

لیکن میرا اپنے آپ سے بھی اور آپ سب سے بھی یہ سوال ہے کہ کیا کسی سرکاری سکول میں کسی بچے اور بچی کو قرآن پڑھایا جاتا ہے؟ تو میں اور آپ یہ امید رکھیں کہ قوم محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم والے راستے پر چلے گی، کیسے چلے گی؟ اس کے لیے تو سب سے بنیادی چیز وحدانیت کی دعوت ہو اور ہر ہر بچہ اور بچی الله کی توحید سے واقف ہو، اس کا عقیدہ صحیح ہو۔ اور پھر اعمال صالحہ کی اس کے پاس آگاہی ہو اور وہ اس کے مطابق زندگی گزارے، اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ آپ سائنس نہ پڑھائیں، ریاضی نہ پڑھائیں یا اور جو دنیاوی چیزیں ہیں وہ نہ پڑھائیں، وہ بھی پڑھائیں۔

الحمدلله ثم الحمدلله آپ اسلام کی تاریخ کا مطالعہ فرمائیں، آج ہم بیٹھے ہوئے ہیں 1445ھ یعنی ایک ہزار چار سو پینتالیس سال گزر گئے، اس ایک ہزار چار سو پینتالیس سال میں کم ازکم بارہ سو سال یا تیرہ سو سال ایسے ہیں جس میں اسلام کا جھنڈا پورے عالم میں بلند تھا، کیوں تھا؟ اس لیے تھا کہ وہ اسلام کے وفادار تھے، اس لیے تھا کہ وہ الله کے وفادار تھے، اس لیے تھا کہ وہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے وفادار تھے، ان کے بیٹوں کو بھی او ران کی بیٹیوں کو بھی اسلام کے بارے میں پوری طرح سے علم تھا، وہ الله تعالیٰ کے غدار نہیں تھے، وہ الله کے رسول صلی الله علیہ و سلم کے غدار نہیں تھے، وہ اس قسم کے نہیں تھے کہ منھ سے تو کلمہ گو تھے، لیکن نہ الله کے احکامات مانتے ہیں اور نہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے احکام مانتے ہیں۔ بات آئے عشق کی تو ہم اپنے آپ کو سب سے بڑاعاشق قرار دیتے ہیں، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات اور آپ کے فرامین پر عمل کی بات آجائے تو ہم اس کے لیے تیار نہیں۔

کیوں؟ اس لیے کہ جو بیج ہے اور جو بنیادی تربیت ہے وہ تو بچپن کے اندر ہے، اگر بچوں کو او ربچیوں کو دینی تعلیم دی جائے او ران کو الله اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے تعارف کروایا جائے کہ الله اور اس کے رسول یہ ہیں، ہماری تاریخ یہ ہے ، کیا وجہ ہے کہ آپ کا بچہ کرکٹ ٹیم کے نام تو جانتا ہے، اپنی ٹیم کے نام بھی جانتا ہے، پڑوسی ممالک کی ٹیموں کے نام بھی جانتا ہے، لیکن وہ عشرہ مبشرہ کے نام نہیں جانتا، ان سے پوچھو کہ عشرہ مبشرہ کون ہیں؟ تو وہ کہتا ہے یہعشرہ مبشرہ کیا چیز ہے۔

انہیں نہیں معلوم کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کون ہیں، حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ کون ہیں، حضرت عثمان ذوالنورین کون ہیں، حضرت علی رضی الله عنہ کون ہیں، دیگر بڑے حضرات صحابہ کون ہیں… کیوں ؟ اس لیے کہ ان کو یہ پڑھایا ہی نہیں جاتا اور عجیب وغریب اور اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم جہاں رہتے ہیں ہمارے اردگرد بہت سے سرکاری سکول ہیں۔ آپ بتائیے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ہمارے ہاں نویں دسویں کا امتحان ہوتا ہے، گیارہویں بارہویں کا امتحان ہوتا ہے، تو کیا سو فی صد نقل پر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟

اب اس امتحان کے نتیجے میں جو ڈگری ملتی ہے، جو سر ٹیفکیٹ ملتا ہے اور اس کے بعد گیارہویں، بارہویں میں بھی، تیرہویں چودہویں میں بھی، پندرہویں سولہویں میں بھیMA سب کے سب او راس کا نتیجہ کیا ہے؟ کہ یہی ڈگریاں لے کر لوگ ملازمت حاصل کرتے ہیں او رخدمت انجام دینے کے لیے آتے ہیں، اب ظاہر ہے کہ جس قسم کی تعلیم دی گئی، جس قسم کا ماحول پیدا کیا گیا، تو اس سے پھر وہی چیز تیار ہوتی ہے ، اب اس بات پر افسوس کرنا کہ ہم تو تباہ ہو رہے ہیں، ہم تو خود اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر رہے ہیں۔

1980ء تک ستر کی دہائی ہم نے دیکھی او راس ے پہلے کا کچھ عرصہ بھی ہم نے دیکھا، تو اس وقت پورے ملک میں، خاص کر کراچی بطور خاص دنیوی، عصری تعلیم کے اعتبار سے ملک کے اندر بہت اونچا مقام رکھتا تھا، یہاں پر دنیوی، عصری تعلیمی اداروں کا معیار بہت بلند تھا، ملک میں بھی بلند تھا، بیرون ملک بھی بلند تھا، دنیا جہاں سے لوگ تعلیم حاصل کرنے کراچی آتے تھے، پورے ملک سے آتے تھے۔

ہم شام میں ان اداروں میں جایا کرتے تھے ، تو ایسا لگتا تھا جیسے آپ پاکستان میں نہیں، کسی باہر کے ملک میں ہیں، تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا، فلپائن اور عرب ممالک ، سعودیہ، مصر، سوڈان، بحرین، کویت، امارات، عمان سب ممالک کے طلباء ہوتے تھے۔ اورآپ جانتے ہیں کہ اگر آپ اپنے بچے کو تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجتے ہیں تو یونہی نہیں بھیجتے، بلکہ بہت سوچ سمجھ کر بھیجتے ہیں، بہت معلومات حاصل کرتے ہیں، جب آپ کو اطمینان ہوتا ہے کہ وہاں کی تعلیم بہت اچھی ہے، وہاں کی تربیت بہت اچھی ہے، وہاں کے سرٹیفکیٹ کی ایک حیثیت ہے، تب جاکر آپ بچے کو اس ملک میں بھیجتے ہیں۔

تو یہاں کراچی میں ساری دنیا سے لوگ بچوں کوبھیجتے، اس کے بعد پھر 80 کی دہائی شروع ہوئی، تو مجھے آج بھی یاد ہے کہ اس شہر کا سب سے پہلا تعلیمی قتل ملیر میں ہوا کہ ایک استاذ، ایک ٹیچر، ایک معلم نے بچوں کو امتحانی مرکز میں نقل کرنے سے روکا، تو جیسے ہی وہ استاذ امتحانی مرکز سے باہر آیا تو اس کو گولی مارکر قتل کر دیا، یہ پہلا قتل تھا، کے بعد سے اب تک ہم سب بھگت رہے ہیں، ہمارے ہاں تعلیم کا کوئی معیار نہیں، ہمارے حکم رانوں نے بھی آنکھوں پر پٹیاں باندھی ہوئی ہیں اور جو مقتدرہ ادارے ہیں ان کو بھی اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور یہ یاد رکھیں کہ خواہ آپ دینی ترقی کریں یا دنیوی ترقی کریں، دینی ترقی کے لیے بھی آداب ہیں ، ان آداب کے بغیر آپ دینی ترقی نہیں کرسکتے، دنیوی ترقی کرنا چاہیں تو اس کے بھی آداب ہیں، جب تک آپ وہ آداب اختیار نہیں کریں گے تو آپ دنیوی ترقی نہیں کرسکتے، آگے نہیں بڑھ سکتے۔

چناں چہ آج معاملہ کیا ہے، خسر الدنیا والآخرة، دینی اعتبار سے بھی تباہ وبرباد ہیں اور دنیوی اعتبار سے بھی اور ہم دنیا جہاں کے تجزیے، تبصرے کر رہے ہیں، یوں کریں گے تو یوں ہو جائے گا، فلاں کے پاس جائیں گے وہ پیسے دے دے گا ، ہماری دنیا بدل جائے گی، ایسا کچھ نہیں ہوتا، جب تک ہم خود کچھ نہیں کریں گے، جب تک ہم خود اپنے تعلیم کے نظام کو درست نہیں کریں گے، اس وقت تک کچھ نہیں بدلے گا، ابھی قریب میں ہمارے ایک بزرگ کی ملک کی بہت بڑی مقتدرہ شخصیت سے ملاقات ہوئی، عجیب بات ہے کہ ہمارے حکومتیں ہم سے یہ کہتی ہیں کہ آپ اپنے مدارس میں عصری تعلیم پڑھائیں، لیکن وہ پیچھے مڑ کر یہ نہیں دیکھتے کہ ہمار ے عصری تعلیمی اداروں کا کیا حال ہے؟ او رکیا ہم نے اپنے تعلیمی اداروں میں قرآن کریم اور حدیث رسول، بنیادی دینی تعلیم رکھی ہے یا نہیں رکھی ہے؟کراچی سے آپ طور خم چلے جائیں، کراچی سے کشمیر چلے جائیں، آپ کو کوئی اسکول نہیں ملے گا جس میں، بچوں، بچیوں کو قرآن کی تعلیم دی جاتی ہو، ہم سے مطالبہ ہوتا ہے عصری علوم پڑھانے کا، حالاں کہ ہمارے ہاں عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں او ربہت اعلی معیار کے پڑھائے جاتے ہیں۔

تو اس مقتدرہ شخصیت نے ہمارے بزرگ سے بات کہی کہ آپ اپنے ہاں عصری علوم بڑھائیں، تو ہمارے بزرگ نے اس مقتدرہ شخصیت سے کہا کہ جناب یہ جوپاکستان ہے یہ 1947ء میں بنا تھا اور آج2023ء ہے، اس پورے عرصے میں ہماری وزارت تعلیم نے تعلیم پر جو اخراجات کیے اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو اس پورے عرصے میں کھربوں ٹریلینز خرچ کیے، ایسا ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا، ایسا ہے۔

پھر ہمارے بزرگ کہنے لگے کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ ہمارے گھر میں سونا نکل آیا ہے ، ہمارے گھر میں تانبا نکل آیا ہے، لیکن یہ جو پچھہتر سال میں ہماری وزارت تعلیم نے کالجوں، یونی ورسٹیوں پر ٹریلینز خرچ کیے، اس کے نتیجے میں کیا آپ نے کوئی ایک ایسا سائنٹیسٹ تیار کیا ہے، جو اپنے گھر میں جو سونا نکلا ہے اس کو نکال سکے، کوئی ایک ہے ایسا؟

اپنے گھر کے اندر جو سونا، تانبا نکلا ہے، اس کو نکالنے کے لیے باہر کی کمپنیوں، باہر کے ملکوں کے سامنے ہاتھ جوڑے ہیں اور اب یہ معاہدہ کیا ہے کہ پچاس فی صد تمہیں دے دیں گے اور پچاس فی صد ہم لے لیں گے، تم ہمیں نکال کے دے دو، تو وہ تعلیمی ادارے جن پر اربوں، ٹریلینز خرچ ہوتے ہیں، وہ اپنے گھر کے اندر سے جو چیز نکلی ہے کوئی ایک آدمی ایسا تیار نہیں کرسکی جو گھر کے اندر جو چیز نکلی ہے اس کو نکال سکے۔

میرے دوستو! بہت افسوس کی بات ہے۔

اور میری گزارش اور درخواست آپ سب حضرات سے یہ ہے یہ بات یاد رکھیں کہ عصری علوم پڑھانا ناپسندیدہ چیز نہیں ہے ،مذہب اسلام اس سے منع نہیں کرتا، لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ موت ہم سب کے سامنے کھڑی ہے ،موت جوانوں کو بھی آتی ہے، بچوں کو بھی آتی ہے، بوڑھوں کو بھی آتی ہے، ہم سب کو قبروں میں جانا ہے، یہ جو زندگی ہے اس زندگی کے مقابلے میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔

اس لیے درخواست ہے کہ جو آخری نتیجہ ہے:﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَیٰ ، فَإِنَّ الْجَنَّةَ ہِیَ الْمَأْوَیٰ﴾․ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا کہ مجھے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے، مجھ سے پوچھا جائے گا، اس کے لیے اس نے تیاری کر لی، اس کے لیے اس نے کوشش کر لی۔

﴿وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَیٰ﴾ اور خواہشات نفسانیہ سے اپنے آپ کو روکے رکھا:﴿فَإِنَّ الْجَنَّةَ ہِیَ الْمَأْوَیٰ﴾ پس بے شک جنت اس کا ٹھکانہ ہو گا۔ دعا فرمائیں الله تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ، وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ﴾․

خطبات جمعہ سے متعلق