ہمارے سماج میں آپس کی، رنجشوں، نفرتوں،جھگڑوں اور تنازعات کا جو سلسلہ چل رہا ہے، ان کی تہہ میں اگر دیکھا جائے، تو ان کے اسباب میں سے ایک بنیادی سبب کاروباری معاملات کو صاف اورواضح نہ رکھنا ہے، چناں چہ روپیہ، پیسہ، زمین وجائداد اور دیگر مالی معاملات کو صاف نہ رکھنے کی وجہ سے بعض اوقات جو جھگڑے اورعداوت پیدا ہوتی ہے، وہ کئی پشتوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے اور پرانے تعلقات کو دیکھتے ہی دیکھتے بھسم کرڈالتی ہے اور اس کی وجہ سے بڑی مثالی دوستیاں آن کی آن میں دشمنیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ وجہ وہی زروزمین اوربزنس کے معاملات کا ابہام اور واضح نہ ہونا ہی ہوتا ہے۔
حالاں کہ اسلام نے معاملات کی صفائی کی طرف خاص توجہ دلائی ہے کہ جو بھی معاملہ کیا جائے، خواہ وہ قریب ترین رشتہ دار،بھائیوں کے درمیان ہو، باپ بیٹے کے درمیان ہو، شوہر اور بیوی کے درمیان ہو، غرض کسی بھی شخص اور فرد کے ساتھ جو بھی معاملہ ہو، وہ بالکل واضح اور بے غبار ہونا چاہیے۔ اس میں ایسا ابہام نہیں ہونا چاہیے جو آئندہ کسی تنازع اور جھگڑے کا باعث ہو، اسی لیے خرید وفروخت کی ایسی تمام صورتوں کو منع کیا گیا ہے، جس میں فروخت کی جانے والی چیز، ادا کی جانے والی قیمت، سامان کی سپردگی کے مقام اور ادھار کی صورت میں قیمت یا ادائیگی کا وقت مبہم ہو، تجارت کے بہت سے احکام اسی اصول پر مبنی ہیں۔ اس لیے شرعی نقطہٴ نظر سے جو معاملات کسی بھی پہلو سے ابہام کی وجہ سے آئندہ کسی نزاع کا سبب بن سکتے ہیں وہ درست نہیں ہوں گے۔
آپس میں بھائیوں کی طرح رہومگرمعاملات اجنبیوں کی طرح کرو۔
معاملات کے باب میں اہل علم حضرات لکھتے ہیں:”آپس میں بھائیوں کی طرح رہو، لیکن لین دین کے معاملات اجنبیوں کی طرح کرو“۔(التمثیل والمحاضرة للثعالبي)۔ مطلب یہ ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسا برتاؤ اور حسن سلوک کرو، جیسے ایک مخلص بھائی کو دوسرے بھائی کے ساتھ کرنا چاہیے، جس میں ایثار، محبت، شفقت، مروت، رواداری، تحمل اور انسانیت کا جذبہ ہو، لیکن جب روپے پیسے اور تجارت ونفع کے لین دین، جائداد کے معاملات اور شرکت وحصہ داری کا معاملہ آجائے ،تو اچھے تعلقات کی حالت میں بھی انہیں اس طرح انجام دو، جیسے دو اجنبی ا فراد انہیں انجام دیتے ہیں۔ کہ معاملہ کا ہر پہلواور بات صاف اور واضح ہو، نہ کوئی پہلو مبہم رہے، اور نہ معاملہ کی حقیقت میں کوئی اشتباہ باقی رہے۔
اگر محبت، اتفاق اور خوش گوار تعلقات کی حالت میں اس اصول پر عمل کر لیاجائے، تو بعد میں پیدا ہونے والے بہت سے فتنوں اور جھگڑوں کا سد باب ہو جاتا ہے۔ لیکن افسوس ناک صورت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس اصول کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے جس کی ایک واضح صورت ہمارے معاشرے میں یہ ہے:
کاروبار میں والد کے ساتھ اولاد کی شرکت
ہمارے ہاں تجارت وکاروبار میں عام طور پر یوں ہوتا ہے کہ ایک شخص نے کاروبار شروع کیا، اس وقت اس کے بچے چھوٹے تھے۔ رفتہ رفتہ کاروبار بھی بڑھا اور بچے بھی بڑے ہو کر اپنے والد کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں، ان کے کاروبار میں پورے طور پر معاونت کرتے ہیں، اس کاروبار کو اپنا کاروبار تصور کرتے ہیں اور حسب استطاعت اس کو ترقی دینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ، والد ان کی جملہ ضروریات کی مکمل کفالت کرتا ہے اور جب تک حالات خوش گوار رہتے ہیں ،ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ یہ مشترکہ نظام برقرار رہے۔ لیکن جب والد کی زندگی میں یا ان کے انتقال کے بعداس کا روبار کی تقسیم کا مسئلہ سامنے آتا ہے، تو بڑے لڑکوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کاروبار میں چھوٹے بھائیوں کی بنسبت ان کا تعاون زیادہ رہا ہے ، اس لیے اسی تناسب سے انہیں زیادہ حصہ ملناچاہیے،پھر جب تمام بھائیوں کے درمیان کاروبار کی مساوی طور پر تقسیم کی بات ہوتی ہے۔ توان کے احساس کو ٹھیس پہنچتی ہے اور وہ اس میں اپنی حق تلفی محسوس کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں بھائیوں کے درمیان فاصلے بڑھنے لگتے ہیں ۔ یوں قریبی رشتہ داروں کے درمیان نفرت کی دیوار قائم ہوتی ہے اور بات مقدمہ بازی اور خون بہانے تک پہنچ جاتی ہے ،اس لیے ہونا یہ چاہیے کہ اگر کسی کاروبار میں والد کے ساتھ ان کے بچے بھی شریک ہوں ،تو جس وقت وہ شریک ہوں اسی وقت یہ طے ہونا چاہییکہ اس کا روبار میں ان کی شرکت کس حیثیت سے ہے ؟ کیا وہ اس میں پارٹنر ہیں ؟ یا ان کی حیثیت ملازم کی ہے ؟ یاوہ محض اپنے والد کے معاون و مددگار ہیں؟ لیکن جس وقت لڑ کے والد کے خواہش پر کا روبار میں عملی طور پر شریک ہو جاتے ہیں، تو اس وقت معاملہ کو واضح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ چناں چہ ہر شخص اپنی خواہش یا ضرورت کے مطابق کاروبار کی آمدنی استعمال کرتا رہا ہے۔ اگر کسی وقت کوئی شخص یہ تجویز پیش کرے کہ کاروبار میں حصہ یا تنخواہ وغیرہ متعین کر لینی چاہیے، تو اسے محبت، اتفاق اور غیرت کے خلاف سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے کاروبار کا انجام اکثر وبیشتر یہ ہوتا ہے کہ دل ہی دل میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں اوررنجشیں پرورش پاتی رہتی ہیں ،خاص کر جب تقسیم کا مرحلہ آتا ہے، تو ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ دوسرے نے کاروبار سے زیادہ فائدہ اُٹھایا ہے ۔ اندر ہی اندر ان رنجشوں کا لاوا پکتارہتا ہے اور بالآخر جب رنجشیں بدگمانیوں کے ساتھ مل کر پہاڑ بن جاتی ہیں تو یہ آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے۔محبت واتفاق کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ زبانی تو تکار سے لے کر لڑائی ، جھگڑے اور مقدمہ بازی تک کسی کام سے دریغ نہیں ہوتا۔ بھائی بھائی کی بول چال بند ہو جاتی ہے۔ ایک بھائی دوسرے کی صورت دیکھنے کا روادار نہیں رہتا ۔ جس کے قابو میں کاروبار کاجتنا حصہ آتا ہے وہ اس پر قابض ہو کر عدل وانصاف کا جنازہ نکال لیتا ہے ۔ اپنی نجی مجلسوں میں ایک دوسرے کے خلاف ، الزامات ، بد زبانی اور بدگمانی جسے خطر ناک گناہوں کا سلسلہ چل رہا ہوتا ہے۔ چوں کہ سالہا سال مشترکہ کا روبارکا نہ کو ئی اصول طے تھا اور نہ حساب و کتاب کا خیال رکھا گیا ہو تا ہے۔ اس لیے بسا اوقات اختلاف کو ختم کرنے کے لیے افہام وتفہیم کی بھی کوشش کی جائے، تو بھی مصالحت کا کوئی ایسا فارمولاوضع کرنا بھی انتہائی دشوار ہوجاتا ہے،جو تمام متعلقہ فریقوں کے لیے قابل قبول ہو۔
معاملہ کرتے وقت کن پہلوؤں کو واضح کرنا ضروری ہے؟
یہ سارا فتنہ وفساد اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ کاروبار کے آغاز میں معاملہ صاف اور واضح نہیں رکھا تھا۔اگرشروع ہی میں یہ بات واضح کی جائے کہ کس کی کیا حیثیت ہے؟ آیا وہ ملازمت کے طور پر کام کررہا ہے؟یاشرکت اور تعاون کے طورپر؟تو بعد میں پیش آنے والی پیچیدگیوں اورجھگڑوں کا سد باب ہوجائے، لہٰذا اگر کسی کاروبار میں ایک سے زیادہ افراد کام کررہے ہیں،توپہلے ہی مرحلے میں ان میں سے ہر شخص کی حیثیت کا تعین ضروری ہے کہ وہ تنخواہ پر کام کرے گا؟یا کاروبار میں باقاعدہ حصہ دار ہوگا؟یا محض اپنے والد کی معاونت کرے گا؟
پہلی صورت میں اس کی تنخواہ متعین ہونی چاہیے،نیز یہ وضاحت بھی کرلی جائے کہ وہ کاروبارکا حصہ دارنہیں ہوگا۔ دوسری صورت میں اگراسے ملکیت میں باقاعدہ حصہ داربنانا ہے تو اس کے لیے شرعایہ بھی ضروری ہے کہ اس کی طرف سے کاروبار میں کچھ سرمایہ شامل ہونا چاہیے(جس کی صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ باپ اسے کچھ نقد رقم ہبہ کردے اوروہ اس رقم سے کاروبارکا فیصد کے اعتبار سے ایک متعین حصہ خریدلے اور فیصد کے اعتبارسے نفع کی تعیین بھی کرلے۔
یہ تمام تفصیلات تحریری طورپر ایک معاہدہ کی شکل میں محفوظ کرلینی چاہییں،تاکہ بعد میں کوئی الجھن پیدانہ ہو۔
اگر کسی ایک حصہ دارکو کاروبار میں وقت اور کام زیادہ کرنا پڑتا ہو،تویہ بات بھی طے کرلینی چاہیے کہ زیادہ کام وہ رضا کارانہ طورپر کرے گا؟یا اس کا کوئی معاوضہ اسے دیا جائے گا،اگرکوئی معاوضہ دیاجائے گاتووہ نفع کے فیصد حصے میں اضافہ کرکے دیاجائے گا یاالگ سے متعین تنخواہ کی صورت میں؟غرض ہر فریق کے تمام امور وحقوق اتنے واضح ہوں کہ ان میں کوئی ابہام واشتباہ باقی نہ رہے۔
معاملات کی صفائی کو محبت،اتفاق اورغیرت کے خلاف سمجھنا دھوکاہے
اگر بالفرض کسی کاروبار میں اب تک ان باتوں پر عمل نہ کیا گیاہو، تو جتنی جلدی ہوسکے ان امورکو واضح طور پر طے کرلیا جائے۔ اس میں کسی شرم،مروت اور طعن وتشنیع کو آڑے نہ آنے دیناچاہیے۔معاملات کے متعلق اس صفائی اوروضاحت کومحبت، اخوت،احترام اور اتحاد واتفاق کے خلاف سمجھنا بہت بڑا دھوکہ ہے،ورنہ آگے چل کریہ محبت واتحاد عداوت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
والدکی تجارت میں شرکت کے متعلق اہم مسائل
آج کل دارالافتاؤں میں اس طرح کے مسائل کثرت سے آتے ہیں،خاص کر جب میراث کی تقسیم کا مرحلہ سامنے آتا ہے،تو اس وقت اس طرح کے تنازعات کثرت سے پیش آتے ہیں، چوں کہ میرا تعلق بھی دارالافتاء سے ہے اورفتوی کے کام سے منسلک ہوں، اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ شرعی نقطہ نظر سے ان مسائل کو تفصیل سے لکھ دوں،تاکہ ان مسائل سے آگاہ ہوکرہم سب ان پر عمل پیرا ہوسکیں۔چناں چہ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ شریعت کا اصل حکم تو وہی ہے کہ کاروبار کے شروع ہی میں ہر ایک کی حیثیت کاتعین کرلینا چاہیے اور معاملہ ہر پہلو سے واضح کردیناچاہیے۔
کاروبار میں شریک اولادباپ کی زیرکفالت ہو
تاہم اگر معاملہ کوابتدا میں ویسی ہی چھوڑ دیا تھا، کسی چیز کی وضاحت نہیں ہوتی تھی ،تو اس پس منظر میں پہلے مسئلہ یہ ہے کہ اگر والد نے اپنے سرمائے سے کاروبار شروع کیا،بعد میں اس کے لڑکوں میں سے بعض والد کی خواہش پرکاروبارمیں شریک ہوگئے،مگر انہوں نے الگ سے اپنا کوئی سرمایہ نہیں لگایا اور والدنے بھی ایسے لڑکوں کی کوئی حیثیت متعین نہ کی ہو،تو اگر یہ لڑکے والد کے زیرِ کفالت ہوں ،تواس صورت میں لڑکے والد کے معاون شمارکیے جائیں گے اور ان کی طرف سے یہ عمل تبرع شمار کیاجائے گا۔ان کی حیثیت پارٹنریا ملازم کی نہیں ہوگی،ہمارے ہاں عرف بھی یہی ہے کہ اس طرح کاروبارکی کل آمدنی باپ کی ملکیت شمار ہوتی ہے اور اولاد محض معاون ومددگارہوتی ہے۔لہٰذا مذکورہ صورت میں کاروبارکی کل آمدنی باپ کی ملکیت ہوگی اور اس کے انتقال کے بعد معاونت کرنے والے لڑکوں کوالگ سے کچھ نہیں ملے گا،بلکہ دوسرے بیٹوں کے ساتھ ان کومیراث میں مساوی طورپرحصہ ملے گا۔(یعنی سب لڑکوں کو برابر حصہ ملے گا)
تجارت میں شریک بعض بیٹے زیرکفالت نہ ہوں
اگر بیٹے باپ کی کفالت میں نہ ہوں یعنی باپ ان کی جملہ ضروریات کے اخراجات برداشت نہ کرتاہو،توایسی صورت میں اگرمتعین اجرت سے کام کرنا طے ہواہوتو لڑکے اسی اجرت کے حق دارہوں گے،تاہم اگر اس صورت میں اجرت طے نہ ہوئی ہوتو جہالت کی وجہ سے یہ اجارہ فاسدہ ہوگا،جس کاحکم یہ ہے کہ کل سرمایہ بمع نفع باپ کاہوگا اوربیٹے اجرت مثل کے مستحق ہوں گے،خیال رہے کہ ان دوصورتوں میں اولادکی حیثیت ملازم کی ہوگی اور اگر اجرت کے متعلق بالکل بھی وضاحت نہ ہوئی ہو توایسے میں بیٹوں کا یہ عمل تبرع اوراحسان کے زمر ے میں آئے گااور وہ اُجرت کے حق دار نہیں ہوں گے،کیوں کہ اجرت کا استحقاق عقد ِاجارہ سے ثابت ہوتا ہے،جب کہ یہاں کوئی عقد نہیں ہوا ہے،لہٰذا اس صورت میں بیٹوں کی حیثیت محض معاون اور متبرع کی ہوگی ۔کل مال باپ کی ملکیت شمار ہوگا۔
علامہ شامی لکھتے ہیں:الأب وابنہ یکتسبان فی صنعة واحدة ولم یکن لہما شیء فالکسب کلہ للأب إن کان الابن فی عیالہ لکونہ معینا لہ، ألا تری لو غرس شجرة تکون للأب؟(رد المحتار،فصل فی الشرکة، مطلب:اجتمعا فی دار واحد واکتسبا ولا یعلم التفاوت:6/497)
ہندیہ میں ہے:أب وابن یکتسبان فی صنعة واحدة ولم یکن لھما شیء فالکسب کلہ للأب إن کان الابن فی عیالہ لکونہ معینا لہ، ألا تری أنہ لو غرس شجرة تکون للأب؟ (الباب الرابع: فی شرکة الوجوہ وشرکة الأعمال:2/332،مکتبة دارالفکر)
اولادنے مشترکہ کاروبارمیں کچھ سرمایہ بھی لگایاہو
اگریہی صورت ہو لیکن بیٹوں نے کاروبارمیں شریک ہوتے وقت اپنا کچھ سرمایہ بھی والدکی اجازت سے کاروبار میں لگایاہو، تو اس صورت میں اگر شرکت کی غرض سے سرمایہ لگایا گیا ہو ،توبیٹوں کی حیثیت شریک اور پارٹنر کی ہوگی اور بیٹے اپنے سرمایہ کے تناسب سے کاروباراوراس کے منافع میں شریک ہوں گے۔ اگر سرمایہ قرض کہہ کر دیا ہے تو قرض شمار ہوگا۔البتہ اگر زبانی طور پرشرکت یا قرض وغیرہ کی کوئی صراحت نہیں ،مگر لڑکے کا مقصود سرمایہ لگانے سے والد کی اعانت اور اس کے ساتھ حسن سلوک ہے توپھریہ اس کی طرف سے تبرع ہے،کل کاروبار والد کاشمارہوگا۔
تاہم اگر مذکورہ صورتوں میں سے کوئی بھی صورت نہیں ہے۔ یعنی نہ کوئی صراحت ہے اور نہ ہی مقصد اعانت ہے تو پھر حسب عرف فیصلہ کیا جائے ۔
فإذا خلطا المالین علی وجہ لا یمکن تمییز أحدہما عن الآخر؛ فقد ثبتت الشرکة فی الملک؛ فیبنی علیہ شرکة العقد․( المبسوط/کتاب الشرکة:11/152)
وفی رد المحتار:یقع کثیرا فی الفلاحین ونحوہم أن أحدہم یموت فتقوم أولادہ علی ترکتہ بلا قسمة ویعملون فیہا من حرث وزراعة وبیع وشراء واستدانة ونحو ذلک، وتارة یکون کبیرہم ہو الذی یتولی مہماتہم ویعملون عندہ بأمرہ وکل ذلک علی وجہ الإطلاق والتفویض، لکن بلا تصریح بلفظ المفاوضة ولا بیان جمیع مقتضیاتہا مع کون الترکة أغلبہا أو کلہا عروض لا تصح فیہا شرکة العقد، ولا شک أن ہذہ لیست شرکة مفاوضة، خلافا لما أفتی بہ فی زماننا من لا خبرة لہ بل ہی شرکة ملک کما حررتہ فی تنقیح الحامدیة.
ثم رأیت التصریح بہ بعینہ فی فتاوی الحانوتی، فإذا کان سعیہم واحدا ولم یتمیز ما حصلہ کل واحد منہم بعملہ یکون ما جمعوہ مشترکا بینہم بالسویة، وإن اختلفوا فی العمل والرأی کثرة وصوابا کما أفتی بہ فی الخیریة․(6/472کتاب الشرکة ، مطلب:فیما یقع کثیرا فی الفلا حین )
وفی البدائع:وأما حکم القرض فہو ثبوت الملک للمستقرض فی المقرض للحال، وثبوت مثلہ فی ذمة المستقرض للمقرض للحال، وہذا جواب ظاہر الروایة․(فصل فی حکم القرض:7/396)
مشترک خاندان میں بعض بھائیوں نے کسب معاش کے دوسرے ذرائع اختیارکیے اوربعض نے والدکاہاتھ بٹھایا
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک بھائی یا کچھ بھائیوں نے کاروبار میں والد کا ہاتھ بٹھا دیا ہے ، جب کہ دوسرے دیگر بھائیوں نے کسب معاش کے دوسرے ذرائع اختیار کیے ہیں اور آپس میں ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی ہے ،اس صورت میں اگر سب کا کھانا پینا ایک ساتھ ہواور تمام بھائی کمائی والد کے پاس جمع کرتے ہوں تو کل مال باپ کی ملکیت شمار ہوگا ۔ والد کے انتقال کے بعد تمام لڑکے اس مال کے حق دار ہوں گے ۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر بیٹے باپ کے عیال میں ہیں اور آپس میں تقسیم نہیں ہوئی ہے ،تو خواہ سب ایک ہی کاروبار میں مشغول ہوں یا مختلف قسم کے کاروبار میں مشغو ل ہوں ، یعنی ایک کا کاروبار دوسرے کے کاروبار سے مختلف ہو، مثلا :ایک سبزی کے کاروبار میں لگا ہو اور دوسرا مارکیٹ میں فرنیچر کے کاروبار میں مشغول ہو ، بہر صورت تمام مال کا مالک باپ ہوگا ، اس لیے کہ ہمارے عرف میں سب بھائیوں کو ایک مشترک خاندان کا فرد سمجھا جاتا ہے ، ان کو علیحدہ تصور نہیں کیا جاتا ۔ رہیں فقہاء کرام کی وہ عبارتیں جن میں لڑکے کے معاون ہونے کے لیے اتحاد صنعت کی صراحت ہے ، تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ بظاہر اتحاد ِصنعت کی وضاحت فقہائے کرام نے اپنے زمانے کے عرف کے اعتبار سے کی ہے ، لہٰذا وہ اپنے زمانے کے عرف پر مبنی ہے ۔
آج کل صورت حال یہ ہے کہ بعض اوقات اولاد کو دوسرے ذرائعِ معاش اختیار کرنے کا مشورہ باپ دیتا ہے ، اس سلسلے میں وہ اپنا مالی تعاون بھی کرتا ہے اور اپنے اثر و رسوخ کا استعمال بھی ، اس کے نفع و نقصان کی فکر بھی کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میرے مختلف بیٹے مختلف ذرائع سے میرے معاون ہیں ، بلکہ بسا اوقات معاشی پریشانی کی وجہ سے باپ اپنے بعض لڑکوں کو دوسرے ملک بھیجتے ہیں اور اس کے لیے لمبا چوڑا خرچہ برداشت کرتا ہے ، اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہے ، کھانا پینا سب مشترک ہی رہتا ہے ، ایسی صورت میں لڑکوں کی دوسرے ممالک کی کمائی پوری باپ کی ملک ہوگی ، ایسے لڑکے باپ کے معاون شمار ہوں گے ، وہ اپنی کمائی کے تنہا مالک نہ ہوں گے ، البتہ اس صورت میں اگر کوئی لڑکا اپنا کھانا پینا الگ کردے اور باقاعدہ الگ ہونے کا والد سے اظہار کردے ،تو اس کے بعد وہ الگ شمار ہوگا اور اپنی کمائی کا وہ خود مالک ہوگا ۔ لہٰذا آج کل کے عرف میں لڑکے کے معاون ہونے کے لیے اتحاد ِصنعت کی شرط قابل نظرہے۔
الگ ذرائع معاش اختیارکرنے والوں کی کمائی کاحکم
اگر الگ ذرائع معاش اختیار کرنے والے بھائیوں کا رہنا سہنا اور کھانا پینا الگ ہو اور انہوں نے اپنا سرمایہ علاحدہ جمع کر رکھا ہو تو پھر وہ کمائی ان کی ذاتی ملکیت ہوگی، دوسرے بھائی اس میں شریک نہ ہوں گے ۔
کما فی رد المحتار : زوج بنیہ الخمسة فی دارہ و کلہم فی عیالہ واختلفوا فی المتاع فہو للأب ، و للبنین الثیاب التی علیہم لا غیر . (فصل فی الشرکة الفاسدة:4/392)
وأیضا فیہ:الأب وابنہ یکتسبان فی صنعة واحدة ولم یکن لہما شیء فالکسب کلہ للأب إن کان الابن فی عیالہ لکونہ معینا لہ ألا تری لو غرس شجرة تکون للأب؟ (ردالمحتار،فصل فی الشرکة، مطلب اجتمعافی دار واحدة، واکتسبا ولایعلم التفاوت:6/497)
وفی الہندیة:أب وابن یکتسبان فی صنعة واحدة ولم یکن لھما شیء فالکسب کلہ للأب إن کان الابن فی عیالہ لکونہ معینا لہ، ألا تری أنہ لو غرس شجرة تکون للأب؟ (الباب الرابع:فی شرکة الوجوہ وشرکة الأعمال:2/332، مکتبة دارالفکر)
وفی درر الحکام:فإذا کان الأب مزارعا والابن صانع أحذیة فکسب الأب من الزراعة والابن من صناعة الحذاء، فکسب کل واحد منہما لنفسہ و لیس للأب المداخلة فی کسب ابنہ لکونہ فی عیالہ ․ (3/445/مادة:1398)
کاروبارختم ہونے کے بعداولاد میں سے کسی نے اپنے سرمایہ سے دوبارہ کاروبارشروع کیا۔
اس سلسلے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی وجہ سے والد کا کاروبار ختم ہوگیا ، لیکن کاروبار کی جگہ، خواہ مملوکہ ہو یا کرایہ پر حاصل کی گئی ہو ، موجود ہو ، اولاد میں سے کسی نے اپنا سرمایہ لگا کر اسی نام سے دوبارہ کاروبار شروع کیا ،اس صورت میں جس لڑکے نے سرمایہ لگاکرکاروبارشروع کیاہے،یہ کاروبار اسی کی ملکیت شمار ہوگی ، والد اور دیگر بھائیوں کی ملکیت شمار نہیں ہو گی ۔ البتہ وہ مملوکہ جگہ والد کی ہوگی یا اگر دوکان کرایہ پر تھی اور اس سلسلے میں کچھ رقم پیشگی والد کو ادا کردی تھی تو وہ رقم بھی والد کی ملکیت شمار ہوگی، اور تمام بھائی والد کے بعد اس میں شریک ہوں گے ۔
عن عائشة قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”الخراج بالضمان“․ (سنن أبی داود: باب فیمن اشتری عبدا فاستعملہ:5/368، وفی الدر المختار: لا یستحق الربح إلا بإحدی ثلاث: بمال، أو عمل، أو تقبل․(مطلب شرکة الوجوہ:4/324)
اعلم أن أسباب الملک ثلاثة: ناقل کبیع وہبة، وخلافة کإرث، وأصالة وہو الاستیلاء حقیقة بوضع الید أو حکما بالتہیئة کنصب الصید لا لجفاف علی المباح الخالی عن مالک․ ( الدر المختار:کتاب الصید:6/463)
وفی رد المحتار:وما اشتراہ أحدہم لنفسہ یکون لہ ویضمن حصة شرکائہ من ثمنہ إذا دفعہ من المال المشترک․ (کتاب الشرکة:4/307)
ائمہ ،خطباء اورعلمائے کرام سے گزارش
ائمہ ، خطباء اور علمائے کرام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں اور حلقوں میں معاملات کی صفائی کے سلسلے میں لوگوں کی ذہن سازی کریں ۔ شرکت اور میراث کے متعلق جو شرعی احکام ہیں ان سے ان کو آگاہ کریں ۔ خاص طور پر والدین، اولاد اور بھائیوں کے درمیان کاروبار اور شرکت کے بنیادی مسائل سے واقف کرائیں ۔