کسی بھی زندہ قوم کے لیے سال و تاریخ کا اہتمام نہایت ضروری ہے، اسی لیے زمانہ قدیم سے اکثر اقوام کے پاس اپنی اپنی تاریخ تھی، جس سے وہ کام لیا کرتے تھے اور یہ لوگ بعض مشہور واقعات سے تاریخ مقرر کیا کرتے تھے اور بعض لوگ بادشاہوں کی بادشاہت کے عروج وزوال سے تاریخ مقرر کرتے تھے۔ یہود نے بیت المقدس کی ویرانی کے واقعے سے تاریخ مقرر کی اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا سے جانے کے بعد سے تاریخ بنائی۔ اسی طرح عرب کے لوگوں نے واقعہ فیل سے تاریخ مقرر کی، جب ابرہہ شاہِ یمن نے کعبة اللہ کو ڈھانے کے لیے کوہ پیکر ہاتھیوں کے ذریعے کوشش کی تھی، مگر اللہ کی قدرت کہ اس کی بے ایمانی وکعبے کی (شان میں)گستاخی کے نتیجے میں وہ خود ابابیل نامی پرندوں کے ذریعے ہلاک کردیا گیا۔ عربوں نے اسی واقعے سے تاریخ مقرر کر لی۔(نفائس الفقہ)
ہجری سن کا آغاز
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سال کے بارہ مہینے بنائے اور ارشاد فرمایا: اللہ کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں، اس روز سے کہ اس نے آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا۔ اللہ کی کتاب میں سال کے بارہ مہینے لکھے ہوئے ہیں، ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ (التوبہ)اس آیت سے سال کے بارہ مہینے ہونا تو معلوم ہو گیا، لیکن ان میں کس مہینے سے سال کی ابتدا ہوگی، اس طرح کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ اسلام میں سنہ ہجری کا استعمال بعد خلافت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جاری ہوا۔ یوم الخمیس (جمعرات:30جمادی الثانی 17ھ) کو حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے سنہ کا شمار واقعہ ہجرتِ نبویہ سے کیا گیا اور حضرت عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ کے مشورے سے محرم کو اولین شہور مقرر کیا گیا۔(رحمة للعالمین)جس کاواقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب صحابہ کو تعیینِ تاریخ کے بارے میں مشورہ کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تو بحث وتمحیص کے بعد سب کا اتفاق اس پر ہوا کہ ہجرت کے واقعے سے تاریخ مقرر ہونی چاہیے ۔ فاروق اعظمنے اسی رائے کو پسند کیا، اس لیے کہ ہجرت سے ہی حق اور باطل کا فرق واضح ہوا اور شعائرِ ِاسلام یعنی جمعہ وعیدین علی الاعلان ادا کیے گئے ۔ (سیرة المصطفیٰ)اس کا پس منظر یہ ہے کہ16 ھ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک تحریر پیش ہوئی، جس پر صرف شعبان لکھا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا؛ یہ کیسے معلوم ہو کہ اس سے گزشتہ شعبان کا مہینہ مراد ہے یا موجودہ؟ اسی وقت مجلسِ شوریٰ منعقد کی گئی، تمام بڑے صحابہ جمع ہوئے اور یہ مسئلہ پیش کیا گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہجرتِ نبوی کی رائے دی اور اسی پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ (الفاروق)
قمری تقویم اور اس کے فوائد
اگر ہم ہجری سن کا دوسرے مروجہ سنین سے تقابل کریں تو یہ سن بہت سی باتوں میں دوسروں سے منفرد وممتاز نظر آتا ہے ۔ ہجری سن کی ابتدا چاند کے اعتبار سے کی گئی اور اسلامی مہینوں کا تعلق چاند سے جوڑا گیا، تاکہ چاند کو دیکھ کر ہر علاقے کے لوگ، خواہ پہاڑوں میں رہتے ہوں یا جنگلوں میں، خواہ شہروں میں بستے ہوں یا دیہاتوں میں، نیز دور دراز جزیروں میں رہنے والے حضرات بھی چاند دیکھ کر اپنے معاملات بہ آسانی طے کرسکیں اور انھیں کسی طرح کی کوئی مشکل درپیش نہ ہو۔ اس لیے کہ نہ اس میں کسی کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے، نہ دیگر کسی مادّی سبب کا احتیاج ہے ۔اسلام کی اعلیٰ خصوصیات میں سے ایک خصوصیت مساوات ہے اور ایک خصوصیت ہمہ گیری بھی ہے ۔ اسلام نے ان خصائص کی حصانت وحمایت میں یہ پسند فرمایا کہ اسلامی مہینے ادلتے بدلتے موسم میں آیا کریں۔ ذرا اسلام کے رکنِ چہارم، ماہِ رمضان کے روزوں پر غور کرو کہ اگر اسلام میں شمسی مہینہ مقرر فرمادیا جاتا تو نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ کے لیے آسانی میں اور نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ کے لیے تنگی وسختی میں پڑ جاتے۔ اسلام کی مساواتِ جہاں گیری کا اقتضا ہی یہ تھا کہ اسلامی سال قمری حساب پر ہو۔ (رحمة للعالمین)
قمری حساب کی حفاظت ضروری
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿والشمسَ و القمرَ حُسباناً﴾
حسبان بالضم مصدر ہے ، جو حساب کرنے اور شمار کرنے کے معنی میں آتا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آفتاب و ماہتاب کے طلوع و غروب اور ان کی رفتار کو ایک خاص حساب سے رکھا ہے ، جس کے ذریعے انسان سالوں، مہینوں، دنوں اور گھنٹوں کا، بلکہ منٹوں اور سکنڈوں کا حساب بآسانی لگا سکتا ہے ۔ یہ اللہ جلِّ شانہ ہی کی قدرتِ قاہرہ کا عمل ہے کہ ان عظیم الشان نورانی کُروں اور ان کی حرکات کو ایسے مستحکم اور مضبوط انداز سے رکھا کہ ہزاروں سال گذر جانے پر بھی ان میں کبھی ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا۔ ان کی مشینری کو نہ کسی ورک شاپ کی ضرورت پڑتی ہے ، نہ پُرزے گھسنے اور بدلنے سے کوئی سابقہ پڑتا ہے ۔ یہ دونوں نور کے کُرے اپنے اپنے دائرے میں ایک معین رفتار کے ساتھ چل رہے ہیں: ﴿لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر ولا اللیل سابق النہار﴾
ہزاروں سال میں بھی ان کی رفتار میں ایک سکنڈ کا فرق نہیں آتا۔ قرآنِ کریم کے اس ارشاد نے اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ سالوں اور مہینوں کا حساب شمسی بھی ہو سکتا ہے اور قمری بھی۔ دونوں ہی اللہ جل شانہ کے انعامات ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ عام اَن پڑھ دنیا کی سہولت اور ان کو حساب کتاب کی اُلجھن سے بچانے کے لیے اسلامی احکام میں قمری سن و سال استعمال کیے گئے اور چوں کہ اسلامی تاریخ اور اسلامی احکام، سب کا مدار قمری حساب پر ہے ، اس لیے امت پر فرض ہے کہ وہ اس حساب کو قائم اور باقی رکھے۔ دوسرے حساباتِ شمسی وغیرہ اگر کسی ضرورت سے اختیار کیے جائیں تو کوئی گناہ نہیں، لیکن قمری حساب کو بالکل نظر انداز اورمحو کر دینا گناہِ عظیم ہے ، جس سے انسان کو یہ بھی خبر نہ رہے کہ رمضان کب آئے گا اور ذی الحجہ اور محرم کب۔(معارف القرآن)
قمری تاریخ کی حفاظت کا حکم
چوں کہ احکامِ شریعت کا مدار حسابِ قمری پر ہے ، اس لیے اس کی حفاظت فرض علی الکفایہ ہے ۔پس اگر ساری امت دوسری اصطلاح کو اپنا معمول بنالے ، جس سے حسابِ قمری ضائع ہوجائے ، تو سب گناہ گار ہوں گے اور اگر وہ محفوظ رہے تو دوسرے حساب کا استعمال بھی مباح ہے ، لیکن سنتِ سلف کے خلاف ضرور ہے اور حسابِ قمری کا برتنا بوجہ اس کے فرضِ کفایہ ہونے کے لا بد افضل واحسن ہے ۔(بیان القرآن)
سنہ ہجری پر مبارک باد
اسلامی سالِ نو کے آغاز پر ایک دوسرے کو مبار بادینا ناجائز تو نہیں،لیکن اس طرح کی مبارک باد وغیرہ سے آہستہ آہستہ وہ عمل رسم ورواج کا درجہ اختیار کر لیتا ہے اور اس طرح بدعتیں وجود میں آتی ہیں۔ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم دس سال مدینہ منورہ میں رہے اور آپ صلی الله علیہ وسلمکے بعد تیس سال خلافت ِ راشدہ کا عہد رہا،صحابہ کرامکی نگاہ میں اس واقعے کی اتنی اہمیت تھی کہ اسی کو اسلامی کیلنڈر کی بنیاد واساس بنایا گیااور حضرتِ عمر کے عہد سے ہی ہجری تقویم کو اختیار کر لیا گیا تھا،لیکن ان حضرات نے کبھی سالِ نو یا یومِ ہجرت منانے کی کوشش نہیں کی۔اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اس طرح کے رسوم ورواج کا قائل نہیں ہے ،کیوں کہ عام طور پر رسمیں نیک مقصد اور سادہ جذبے کے تحت وجود میں آتی ہیں،پھر وہ آہستہ آہستہ دین کاجز بن جاتی ہیں،اس لیے اسلام کو بے آمیز رکھنے کے لیے ایسی رسموں سے گریز کرنا ضروری ہے ۔(کتاب الفتاوی)