مسجد نبوی
جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے 1 ہجری میں مسجد قبا کی، تعمیر کے بعد صحابہ کرام کے ساتھ مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی۔ اس وقت مسجد نبوی105 فٹ لمبی اور 90 فٹ چوڑی تھی۔ ہجرت کے ساتویں سال فتح خبر کے بعد نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی توسیع فرمائی۔ اس توسیع کے بعد مسجد نبوی کی لمبائی اورچوڑائی150 فٹ ہو گئی۔ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے عہد خلافت میں مسلمانوں کی تعداد میں جب غیر معمولی اضافہ ہو گیا اور مسجد ناکافی ثابت ہوئی تو 17ھ میں مسجد نبوی کی توسیع کی گئی۔29 ھ میں حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کے زمانے میں مسجد نبوی کی توسیع کی گئی۔ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے88ھ تا91ھ میں مسجد نبوی کی غیر معمولی توسیع کی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزاس وقت مدینہ منورہ کے گورنر تھے۔ اموی اور عباسی دورمیں مسجد نبوی کی نئے سرے سے تعمیر کی گئی۔
اس میں سرخ پتھر کا استعمال کیا گیا۔ مضبوطی اور خوب صورتی کے اعتبار سے ترکوں کی عقیدت مندی کی ناقابل فراموش یاد گار آج بھی برقرار ہے۔ حج اور عمرہ کرنے والوں اور زائرین کی کثرت کی وجہ سے جب یہ توسیعات بھی ناکافی رہیں تو موجودہ سعودی حکومت نے قرب وجوار کی عمارتوں کو خرید کر او رانہیں منہدم کرکے عظیم الشان توسیع کی ،جواب تک کی سب سے بڑی توسیع مانی جاتی ہے۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 3 مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کا سفراختیار نہ کیا جائے: مسجد نبوی، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” میری اس مسجد میں نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلے میں ہزار گناہ زیادہ ہے، سوائے مسجد حرام کے۔“
دوسری روایت میں 50 ہزار نمازوں کے ثواب کا ذکر ہے۔ جس خلوص کے ساتھ وہاں نماز پڑھی جائے گی اسی کے مطابق اجر وثواب ملے گا، ان شاء الله۔
حجرہ مبارکہ
حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری11،10 سال مدینہ منورہ میں گزارے۔8 ہجری میں فتح مکہ مکرمہ کے بعد بھی آپ نے اسی مبارک شہر کو اپنا مسکن بنایا۔ آپ کے انتقال کے بعد حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے حجرہ میں ہی آپ کو دفن کر دیا گیا۔ اسی حجرہ میں آپ کا انتقا ل بھی ہوا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ بھی اسی حجرہ میں مدفون ہیں۔ اسی حجرہ مبارکہ کے پاس کھڑے ہو کر سلام پڑھا جاتا ہے۔ حجرہ مبارکہ کے قبلہ رخ 3 جالیاں ہیں، جس میں دوسری جالی میں 3 سوراخ ہیں، پہلے اور بڑے گولائی والے سوراخ کے سامنے آنے کا مطلب ہے کہ حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کی قبر اطہر سامنے ہے۔ دوسرے سوراخ کے سامنے آنے کا مطلب حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی قبر سامنے ہے اور تیسرے سوراخ کے سامنے آنے کا مطلب حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کی قبر سامنے ہے۔
ریاض الجنة
قدیم مسجد نبوی میں منبر او رروضہ اقدس کے درمیان جو جگہ ہے وہ ریاض الجنة کہلاتی ہے۔
حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”ما بین بیتی ومنبری روضة من ریاض الجنة․“
”منبر اور روضہ میرے گھر کے درمیان کی جگہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔“
ریاض الجنة کی شناخت کے لیے یہاں سفید سنگ مرمر کے ستون ہیں۔ ان ستونوں کو اسطوانہ کہتے ہیں، ان ستونوں پر ان کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں۔ ریاض الجنة کے پورے حصہ میں جہاں سفید اور ہری قالینوں کا فرش ہے نمازیں ادا کرنا زیادہ ثواب کا باعث ہے، نیز قبولیت دعا کے لیے بھی خاص مقام ہے۔
اصحاب صفہ کا چبوترہ
مسجد نبوی میں حجرہٴ شریفہ کے پیچھے ایک چبوترہ بنا ہوا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ مسکین وغریب صحابہ کرام قیام فرماتے تھے جن کا نہ گھر تھا، نہ در اور جو دن ورات ذکر وتلاوت کرتے اور حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی صحبت سے مستفیض ہوتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ اسی درس گاہ کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں۔
اصحاب صفہ کی تعدادکم اور زیادہ ہوتی رہتی تھی، کبھی کبھی ان کی تعداد 80 تک پہنچ جاتی تھی۔ سورة الکہف کی آیت نمبر28 انہی اصحاب صفہ کے حق میں نازل ہوئی، جس میں الله تعالیٰ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو ان کے ساتھ بیٹھنے کا حکم دیا۔
جنت البقیع (بقیع الغرقد)
یہ مدینہ منورہ کا قبرستان ہے، جو مسجد نبوی سے بہت تھوڑے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس میں بے شمار صحابہ ( تقریباً10 ہزار) اور اولیاء الله مدفون ہیں۔ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ، حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی چاروں صاحب زادیاں، حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات، آپ کے چچا حضرت عباس رضی الله عنہم بھی اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔
جبل اُحد(اُحد کا پہاڑ)
مسجد نبوی سے تقریباً4 یا5 کیلومیٹر کے فاصلہ پریہ مقدس پہاڑ واقع ہے، جس کے متعلق حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ھذا جبل یحبنا ونحبہ“
ترجمہ:”اُحد کا پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اُحد سے محبت رکھتے ہیں۔“
اسی پہاڑ کے دامن میں 3ھ میں جنگ اُحد ہوئی، جس میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سخت زخمی ہوئے اور تقریباً70 صحابہ کرام شہیدہوئے تھے۔ یہ سب شہداء اسی جگہ مدفون ہیں، جس کا احاطہ کر دیا گیا ہے۔ اسی احاطہ کے بیچ میں حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی الله عنہ مدفون ہیں، آپ کی قبر کے برابر میں حضرت عبدالله بن حجش رضی الله عنہ اور حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ مدفون ہیں۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم خا ص اہتمام سے یہاں تشریف لاتے اور شہداء کو سلام ودعا سے نوازتے تھے۔
مسجد قبا
مسجد قبا مسجد نبوی سے تقریباً4 کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ مسلمانوں کی یہ سب سے پہلی مسجد ہے۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ بن عوف کے پاس قیام فرمایا اور آپ نے صحابہٴ کرام کے ساتھ خو داپنے دست مبارک سے اس مسجد کی بنیاد رکھی۔ اس مسجد کے متعلق الله تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَیٰ﴾․ (التوبہ:108)
ترجمہ:” وہ مسجد جس کی بنیاد اخلاص وتقویٰ پر رکھی گئی ہے۔“
مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے بعد مسجد قبا دنیا بھر کی تمام مساجد میں سب سے افضل ہے۔
حضو اکرم صلی الله علیہ وسلم کبھی سوار ہو کر، کبھی پیدل چل کر مسجد قبا تشریف لایا کرتے تھے۔ آپ کا ارشاد ہے :”جو شخص(اپنے گھر سے ) نکلے اور اس مسجد( یعنی مسجد قبا) میں آکر (2رکعت) نماز پڑھے تو اسے عمرہ کے برابر ثواب ملے گا۔“
مسجد جمعہ
حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے سب سے پہلے اسی مسجد میں جمعہ ادا فرمایا تھا، یہ مسجد قبا کے قریب واقع ہے۔
مسجد فتح (مسجد احزاب)
یہ مسجد جبل سلع کے غربی کنارے پر اونچائی پر واقع تھی۔ غزوہ خندق (احزاب) میں جب تمام کفار مدینہ منورہ پر مجتمع ہو کر چڑھ آئے تھے اور رسول ۱لله صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرام کی جانب سے خندقیں کھو دی گئی تھیں، رسول اکرم صلی الله علیہ و سلم نے اس جگہ دعا فرمائی تھی چناں چہ آپ کی دعا قبول ہوئی اورمسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اس مسجد کے قریب کئی چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنی ہوئی ہیں، جو مسجد سلمان فارسی، مسجد ابوبکر، مسجد عمر اور مسجد علی کے نام سے مشہور ہیں۔ دراصل غزوہٴ خندق کے موقع پر یہ اُن حضرات کے پڑاؤ تھے، جن کو محفوظ او رمتعین کرنے کے لیے غالباً سب سے پہلے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مساجد کی شکل دی۔ یہ مقام مساجد خمسہ کے نام سے مشہور ہے۔ اب سعودی حکومت نے اس جگہ پر ایک بڑی عالی شان مسجد( مسجد خندق) کے نام سے تعمیر کی ہے۔
مسجد قبلتین
تحویل قبلہ کا حکم عصر کی نماز میں ہوا۔ ایک صحابی نے عصر کی نماز نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی، پھر انصار کی جماعت پر ان کا گزر ہوا۔ وہ انصار صحابہ ( مسجد قبلتین میں ) بیت المقدس کی جانب نماز ادا کر رہے تھے۔ ان صحابی نے انصار صحابہ کو خبر دی کہ الله تعالیٰ نے بیت الله کو دوبارہ قبلہ بنا دیا ہے، اس خبر کو سنتے ہی صحابہٴ کرام نے نماز ہی کی حالت میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کر لیا۔ اس مسجد ( قبلتین) میں ایک نماز2 قبلوں کی طرف ادا کی گئی، اس لیے اسے مسجد قبلتین کہتے ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ تحویل قبلہ کی آیت اسی مسجد میں نماز پڑھتے وقت نازل ہوئی تھی۔
مسجد ابی بن کعب
یہ مسجد جنت البقیع کے متصل ہے۔ اس جگہ زمانہ نبوی کے مشہور قاری حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ کا مکان تھا۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم یہاں اکثر تشریف لاتے او رنماز پڑھتے تھے، نیز حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ سے قرآن سنتے اور سناتے تھے۔
باغ سلمان فارسی رضی الله عنہ
اس باغ کو حضور رحمت دو عالم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی الله تعالیٰ عنہ کو غلامی سے آزاد کرانے کے لیے اپنے دست نبوت سے لگایا تھا۔
بئر خاتم
اس کنویں میں حضور رحمت دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی مبارک انگوٹھی حضرت عثمان غنی رضی الله تعالیٰ عنہ کی انگلی سے نکل کر کنویں میں گر گئی تھی۔ اور تلاش بسیار کے بعد بھی نہ مل سکی۔
بئر عثمان رضی الله عنہ
اس کنویں کو ذوالنورین حضرت عثمان غنی رضی الله تعالیٰ نے خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔