دین اسلام ایک نہایت ستھرا اورپاکیزہ مذہب ہے اور یہی وہ فطری دین ہے جو قیامت تک کے تمام مسلمانوں کے لیے ایک جامع دستور العمل اور مکمل ضابطہٴ حیات کی حیثیت رکھتاہے ؛ اس کے احکام، آفتاب نیم روزسے زیادہ روشن اورماہتاب شب افروزسے زیادہ واضح ہیں؛ اس کی تعلیمات نہایت عمدہ ، صاف اور صلاح و فلاح کی ضامن ہیں ۔بنیادی طور پردین اسلام دو چیزوں سے مرکب ہے عقیدہ عمل ۔ اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ وہ صحیح عقیدہ اور عمل ہی اللہ کی بارگاہ میں مقبول ومعتبر ہے جس کی شریعت نے تعلیم دی ہے اور اس عقیدہ و عمل کا کوئی اعتبار نہیں جوکلی یا جزئی طور پر دین اسلام کی تعلیمات کے مغائر و مخالف ہے ۔
موجودہ دور میں اسلامی تعلیمات سے دوری اور بے توجہی عام ہوتی جارہی ہے ؛ جس کا لازمی نتیجہ عقیدہ و عمل میں خرابی اور بگاڑ کی شکل میں رونما ہورہاہے اور اسی کا ایک حصہ بد شگونی، توہم پرستی اور خود ساختہ فاسد خیالات ونظریات بھی ہیں ، اس سلسلہ میں بعض مروجہ اعمال و افکار اور رسوم ورواج اس طرح لوگوں کے دلوں میں رچ بس گئے ہیں کہ اگراس قدر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پر توکل اور اس کی قدرت کاملہ کا یقین اور تقدیر پر ایمان دلوں میں راسخ ہوجائے تو دارین کی سعادت مندی نصیب ہوجائے ؛ من جملہ ان فاسد عقائدکے کچھ وہ جاہلانہ توہمات بھی ہیں جو ماہ صفر سے متعلق معاشرہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔
صفر اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے، جس کے بارے میں لوگوں کے درمیان بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔جہاں ایک طرف اس کے ساتھ بہت سی توہمات اور بدشگونیاں وابستہ کر لی گئی ہیں ،وہیں د دوسری طرف ان کے خود ساختہ حل بھی تلاش کر لیے گئے ہیں،صفر کا مہینہ اسلام سے پہلے بھی منحوس سمجھا جاتا تھا؛ لیکن اسلام نے نیک فالی کے طور پراسے صفر الخیر یا صفر المظفر(بھلائی اورکام یابی کا مہینہ)کانام دیا ۔
صفر کے معنی اور وجہ تسمیہ
عربوں کے ہاں چار مہینے حرمت کے تھے، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔ ان مہینوں میں وہ ہر قسم کے جنگ و جدل سے باز رہتے اور اس انتظار میں ہوتے کہ جیسے ہی یہ حرمت والے مہینے ختم ہوں تو وہ لوٹ مار کا بازار گرم کریں؛ لہٰذا صفر شروع ہوتے ہی وہ قتل و غارت گری ،لوٹ مارورہزنی اور جنگ و جدل کے ارادے سے گھروں سے نکلتے؛جس کے نتیجے میں ان کے گھر خالی ہو جاتے۔ اس طرح عربی میں یہ محاورہ صفر المکان (گھر کا خالی ہونا) مشہور ہو گیا، چناں چہ معروف محدث اور تاریخ داں علامہ سخاوی نے اپنی کتاب ”المشہور فی أسماء الایام و الشھور“ میں صفر کے مہینے کی یہی وجہ تسمیہ لکھی ہے ،نیزصفر کو صفر اس لیے بھی کہتے ہیں کہ لگاتار حرمت والے مہینے گزرنے کے بعد باشندگان مکہ جب سفر کرتے تھے تو سارامکہ خالی ہوجاتاتھا۔ ( لسان العرب لابن منظور)
ماہ صفر میں رائج خرافات
کچھ لوگ ماہ صفر اور خصوصاً اس کے ابتدائی تیرہ دن…… جنہیں تیرہ تیزی سے موسوم کیا جاتاہے …… کو منحوس جانتے ہیں اور ان میں آفات و بلیات اور مصیبتوں کے نازل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، حتی کہ بعضوں نے سینکڑوں کی تعداد میں آفات و بلیات کے نزول کی اور ماہ صفر کے منحوس ہونے کی بے اصل اور من گھڑت روایات بھی نقل کرلی ہیں۔
اس ماہ میں نہ رشتہ تلاش کیاجاتا ہے،نہ شادی بیاہ کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں؛ بلکہ جن کی شادی ہوچکی ہوتی ہے، ابتدا میں ان شوہر اور بیوی کو تیرہ دن تک جدا رکھا جاتا ہے اس نظریہ سے کہ ان ایام میں ان کا میل جول آپس میں کشیدگی اور نزاع کا باعث ہوگا۔
اس ماہ میں سفر نہیں کیا جاتا اور کسی نئے کام کا آغاز، مثلاًدکان یا مکان کا افتتاح وغیرہ نہیں کیا جاتا؛ اس بنا پر کہ اس ماہ کی نحوست کی وجہ سے یہ سب کام باعث خیر نہ ہوں گے ۔
تیرہویں تاریخ کی صبح کو تیرہ تیزی کی مخصوص خیرات ،آفات و بلیات سے حفاظت کے لیے بطور صدقہ فقراء میں تقسیم کردی جاتی ہے ۔
ماہ صفر کے آخری چہارشنبہ کو اہل خانہ کے ساتھ سیر و تفریح کی جاتی ہے؛ جس کانظریہ یہ ہے کہ اس روز نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے غسل صحت فرمایا تھا اور تفریح فرمائی تھی۔
یہ تمام کے تمام جاہلانہ نظریات اور بے حقیقت باتیں ہیں۔ شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں۔ اگر ماہ صفر میں نحوست ہوتی یا یہ آفات وبلیات کا مہینہ ہوتا تو شریعت میں اس کاضرور تذکرہ ہوتا اور اس سے حفاظت کے طریقے بھی بتائے جاتے؛لیکن قرآن و حدیث میں کہیں بھی ایسی تصریح نہیں ؛بلکہ اس کے برعکس صحاح ستہ و دیگر کتب حدیث کی سینکڑوں روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ماہ صفر میں قطعا کوئی نحوست نہیں ہے ۔ دین اسلام نے کبھی کسی مہینہ اور کسی دن کو منحوس قرار نہیں دیا؛ لہٰذا کوئی وقت برکت والا اور عظمت و فضیلت والا تو ہوسکتا ہے ،جیسے ماہ محرم، ماہ رمضان، سال کے متبرک شب و روز اور جمعہ کی ساعت اجابت (قبولیت کی گھڑی) وغیرہ؛ لیکن نحوست والا قطعی نہیں ہوسکتا اور ماہ صفر میں انجام دیے جانے والے یہ تمام امور اور اس سے متعلق نظریات خود ساختہ اور ایجاد بندہ کے قبیل سے ہیں۔ اب رہا آخری چہارشنبہ سے متعلق نظریہ ،سو اس کا جواب یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ اس روز آنحضرت صلی الله علیہ وسلم صحت یاب نہیں ہوئے؛ بلکہ مرض الموت(جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم تیرہ دن تک بیمار رہے)کی ابتدا اس دن سے یعنی ماہ صفر کے آخری چہارشنبہ سے ہوئی جو بڑھتی ہی گئی یہاں تک کہ آپ کا وصال ہوا۔ لہٰذا یہ آپ کے مرض وفات کے آغاز کا دن تھا، نہ کہ صحت یابی کا ۔(فتاوی رشیدیہ )چناں چہ مفتی عبدالرحیم صاحب فرماتے ہیں: ”مسلمانوں کے لیے آخری چہار شنبہ کے طور پر خوشی کا دن منانا جائز نہیں۔”شمس التواریخ“وغیرہ میں ہے کہ26/صفر 11ھ دو شنبہ کو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو رومیوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا اور 27/صفر سہ شنبہ کو اُسامہ بن زید امیرِلشکر مقرر کیے گئے ، 28/صفر چہار شنبہ کو اگرچہ آپ صلی الله علیہ وسلم بیمار ہوچکے تھے ؛ لیکن اپنے ہاتھ سے نشان تیار کر کے اُسامہ کو دیا تھا،ابھی (لشکر کے)کوچ کی نوبت نہیں آئی تھی کہ آخر چہار شنبہ اور پنج شنبہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی علالت خوف ناک ہوگئی اور ایک تہلکہ سا مچ گیا، اسی دن عشاء سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو نماز پڑھانے پر مقرر فرمایا۔ (شمس التواریخ) اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ 28/ صفر کو چہار شنبہ (بدھ) کے روز آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے مرض میں زیادتی ہوئی تھی اور یہ دن ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ تھا، یہ دن مسلمانوں کے لیے تو خوشی کا ہے ہی نہیں؛ البتہ یہود وغیرہ کے لیے شادمانی کا ہو سکتا ہے ، اس روز کو تہوار کا دن ٹھہرانا، خوشیاں مناناوغیرہ ،یہ تمام باتیں خلافِ شرع اور ناجائز ہیں“۔(فتاویٰ حقانیہ،کتاب البدعة والرسوم ،وکذا فی فتاویٰ رحیمیہ،ما یتعلق بالسنة والبدعة ، دارالاشاعت)
لمحہٴ فکریہ
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مرض وفات کے آغاز پر یہود کا جشن کے طور پر آخری چہارشنبہ منانا تو ان کی اسلام دشمنی کی وجہ سے ظاہر اور واضح ہے؛ لیکن اہل اسلام اس امر میں غور کریں کہ وہ آخری چہارشنبہ کی اس یہودیانہ رسم کو اپنا کر کہیں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی مرض وفات کا جشن منانے میں صورتاً یہود کی موافقت تو نہیں کر رہے ہیں؟(اللہ ہماری حفاظت فرمائے)
ماہ صفر کو منحوس سمجھنے کی تردید
اس مہینے کے تعلق سے لوگوں میں جو درج بالارسومات رواج پاچکے ہیں ان کی تردید نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے جا بہ جا متعدد احادیث میں فرمائی ہے،چندحدیثیں ملاحظہ فرمائیں:
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کی مشیت کے بغیرکوئی بیماری متعدی نہیں اور نہ ہی بد شگونی لینا جائز ہے ، نہ اُلو کی نحوست یا روح کی پکارکوئی چیز ہے اور نہ ماہِ صفرمیں نحوست ہوتی ہے۔(بخاری )ایک اور روایت میں ہے :کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے ، کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے ۔ (رواہ ابو داوٴد )سنن ابوداوٴدکی اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ :جا ہلیت میں لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ بدشگونی (کسی چیز کو منحوس سمجھنا)نفع لاتی ہے یا نقصان دور کرتی ہے، چناں چہ جب اُنھوں نے اسی اعتقاد کے مطابق عمل کیا تو گویا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرکِ خفی کا ارتکاب کیا۔ ایک موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے یوں فرمایا : جو شخص بدشگونی کے ڈر کی وجہ سے اپنے کسی کام سے رک گیا یقینا اس نے شرک (اصغر)کا ارتکاب کیا۔ (رواہ احمد فی مسندہ)
حضرت عمر کے دور خلافت میں ایک واقعہ پیش آیا۔مصر میں زمانہ جاہلیت سے یہ تصور عام تھاکہ سال میں ایک مرتبہ دریا ئے نیل میں ایک کنواری خوب صورت لڑکی کو ڈا ل دیا جاتا،اس عمل کوباشندگان مصراس لیے انجام دیتے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو دریا ئے نیل ٹھہر جائے گااور ساراپانی ختم ہوجائے گا ،کچھ تجربات کی وجہ سے ان کا اعتقاد بھی اس سلسلہ میں مضبوط ہو گیاتھا ،جب اسلام اس سر زمین پر پہنچا اورحضرت عمر وبن العاص گورنر مقرر کیے گئے تو یہی صورت حال پیش آئی ،لوگ آپ کے پاس جمع ہوگئے اور اپنی سابقہ روایات کاتذکرہ کیا،حضر ت عمر و بن العاص نے صاف کہہ دیا کہ یہ تو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ایسا نہیں کیا جائے گا ،پھر آپ نے امیر الموٴمنین حضرت عمر کو ایک خط لکھا اور حالات سے واقف کروایا ۔حضرت عمر نے ایک چٹھی لکھی اور کہا کہ اسے دریا ئے نیل میں ڈال دیں۔حضرت عمروبن العاص نے اس چٹھی کو دریا ئے نیل میں ڈال دیا ،پانی پوری روانی کے ساتھ بہنا شروع ہوگیا اور سارے لوگ حیران تھے ۔اس چٹھی میں حضرت عمر فاروق نے لکھا تھاکہ:یہ خط اللہ کے بندے عمر کی طرف سے دریائے نیل کے نام :امابعد! اگر تو اپنی طرف سے جاری ہوتا تھاتواب مت ہو اور اگر اللہ واحدو قہار نے تجھ کو جاری کیا تو ہم اسی سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تجھ کو جاری کردے ۔(تاریخ الخلفاء للسیوطی:114)اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت کے ایک غلط دستور اور رواج کا نہ صرف خاتمہ فرمایا، بلکہ اسلام کی حقانیت اور اللہ تعالی کی قدرت کوبھی واضح فرمادیا۔
الغرض : ماہ و سال، شب و روز اور وقت کے ایک ایک لمحے کا خالق اللہ ربّ العزت ہے ، اللہ تعالیٰ نے کسی دن، مہینے یا گھڑی کو منحوس قرار نہیں دیا؛بلکہ قرآن مجید میں اس کاصاف اعلان فرمادیا : کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں پر، مگر وہ ایک کتاب میں ہے ، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیداکریں۔(سورة الحدید)
لہٰذا ایسے جاہلانہ خیالات جو غیر مسلم اقوام اور قبل از اسلام مشرکین کے ذریعے مسلمانوں میں داخل ہوئے ہیں ان سے بچنا از حد ضروری ہے ،آج یہی فاسد نظریات مسلم اقوام میں بھی دَر آئے ہیں، اس لیے ماہ صفر بالخصوص اس کی ابتدائی تاریخوں کو منحوس سمجھنا سب جہالت کی باتیں ہیں، دین اسلام کے روشن صفحات ایسے توہمات سے پاک ہیں، کسی وقت کو منحوس سمجھنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں؛ بلکہ کسی دن یا کسی مہینہ کو منحوس کہنا درحقیقت اللہ ربّ العزت کے بنائے ہوئے زمانہ میں، جو شب وروز پر مشتمل ہے ، نقص و عیب نکالنے کے مترادف ہے ۔
سعادت و نحوست کا معیار!
حقیقت یہ ہے کہ نحوست اور سعادت کا معیار انسان کا اپنا عمل ہے ، ہر وہ نیک عمل جو خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا ہو ،چاہے وہ سال کے کسی مہینے اورمہینے کے کسی روز وشب میں ہو ،وہ مہینہ اور وہ زمانہ باسعادت ہے، اسی طرح ہر برا عمل جسے انسان نے اپنی زندگی کے کسی بھی وقت انجا م د یا ہو، وہ وقت اس کے لیے نحوست کا باعث ہے ۔بالفاظِ دیگر دین و شریعت کے احکامات وتعلیمات پر عمل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے، اللہ اور رسول کی بتائی ہو ئی باتوں اور سنتوں کا اہتمام و التزام کرنے نیز اوامر کے امتثال و نواہی سے اجتناب کی سعی کرنے میں جو وقت گذرتا ہے وہ وقت انسان کی نیک بختی و سعادت مندی،فلاح وظفرمندی اورفوز و کامرانی کا سبب بنتا ہے، جوہرمردِ مومن کے لیے اس کے ایمان کی تروتازگی اور نشوونما کا باعث ہے،اس کے برعکس خلافِ شریعت، ترکِ سنت اورارتکاب معصیت کی وجہ سے انسان پر غیر شعوری طریقے سے جو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ اس کی زندگی میں قباحتوں اور نحوستوں کا احساس دلاتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ بعینہ اسی وقت کو منحوس سمجھنے لگتا ہے۔مختصر یہ کہ صفر ، سراپا خیرہے، صفر باظفر ہے ،صفر نے غزوات کے سب سے پہلے غزوے،غزوة الابواء سے اسلام کو کام یابیاں بخشی ہیں ،صفر نے صحابہ کرام، سابقینِ اولین کو جینے کا حوصلہ دیا ہے ،سن 4/ھجری ماہ صفر میں رحمت دوعالم صلی الله علیہ وسلم نے اُم الموٴمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہاسے اورماہ صفرسن 7/ہجری میں اُم الموٴمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایاہے۔
اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم بدشگونی اور بدفالی کے اس عمل کو چھوڑ کر عزم و یقین ، خلوص و نیک نیتی اورتقوی و للہیت کے ذریعہ ماہِ صفر میں بلا تامل ہر وہ عمل کریں جوہم شبانہ روز ماہ و سال کے دوران مختلف مواقع سے کرتے رہتے ہیں۔حق تعالی ہمیں عقل سلیم اور فہم مستقیم عطا فرمائے ۔آمین!