امام ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی (المتوفی: 259ھ) اپنی کتاب ”احوال الرجال“ میں فرماتے ہیں:مجھے علی بن حسن بن شقیق نے حدیث بیان کی، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کو فرماتے سنا: ”جب تجھے فیصلہ کرنے پر آزمایا جائے تو تم اثر کو لازم پکڑو۔“علی بن حسن بن شقیق بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو حمزہ محمد بن میمون السکری کے سامنے اس قول کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا:کیا تمہیں معلوم ہے اثر کیا ہے؟ پھر فرمایا:یہ کہ میں تجھے کوئی حدیث بیان کروں تو تُو اس پر عمل کرے۔پھر قیامت کے دن تجھ سے کہا جائے: تجھے کس نے یہ حکم دیا تھا؟تو تم کہو: ابو حمزہ نے۔ (یعنی محمد بن میمون السکری نے)پھر مجھے لایا جائے اور مجھے کہا جائے: یہ آدمی کہتا ہے کہ تُو نے اسے اِس اِس بات کا حکم دیا تھا؟اگر میں کہوں: جی ہاں! تو آپ بَری الذمہ ہو گئے۔پھر مجھ سے پوچھا جائے : تُو نے یہ بات کہاں سے کی ہے؟میں کہوں: مجھے یہ بات اعمش نے کہی ہے۔ (یعنی سلیمان بن مہران نے)تو اعمش سے پوچھا جائے اور اگر وہ جواب دیں: ”جی ہاں!“ تو میں بَری الذمہ ہو جاؤں ۔اور اعمش سے پوچھا جائے : تُو نے یہ بات کہاں سے کی ہے؟تو اعمش کہیں کہ ”ابراہیم نے مجھے ایسا کہا تھا“۔ (یعنی ابراہیم النخعی التیمی نے)تو ابراہیم سے پوچھا جائے اور اگر انھوں نے کہا: ”جی ہاں!“ تو اعمش بَری الذمہ ہو جائیں گے۔اور ابراہیم سے مواخذہ کیا جائے گا کہ ”تُو نے یہ بات کہاں سے کی ہے؟“پس ابراہیم کہیں گے کہ ”مجھے علقمہ نے یہ بات کہی تھی۔“پس علقمہ سے پوچھا جائے گا اور اگر علقمہ نے کہا کہ ”جی ہاں!“ تو ابراہیم النخعی بَری الذمہ ہو جائیں گے۔اور علقمہ سے کہا جائے گا: ”تُو نے یہ بات کہاں سے کی ہے؟“وہ کہیں گے کہ مجھے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔پس سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال کیا جائے گا کہ ”آپ نے یہ بات کہاں سے کی ہے؟“تو وہ کہیں گے کہ ”مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔“پس رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا جائے گا، اگر وہ کہیں کہ ”جی ہاں!“ تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بَری الذمہ ہو جائیں گے۔پس نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا جائے گا تو آپ فرمائیں گے: ”مجھے جبریل نے کہا تھا۔“حتی کہ معاملہ اللہ تبارک وتعالیٰ تک پہنچ جائے گا۔
امام محمد بن میمون فرماتے ہیں:اسی کا نام اثر ہے اور معاملہ بہت سنگین (سخت) ہے، کوئی مذاق نہیں! تم میں سے ہر کوئی جان لے کہ بے شک وہ اپنے دین کے متعلق پوچھا جائے گا اور اس بارے میں کہ اس نے حلال اور حرام کہاں سے لیا؟
لفظ ِاثرکی اس مختصر سی تشریح سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم جو بات بھی جس کی طرف منسوب کریں گے،عنداللہ ہم سے اس بارے میں پوچھا جائے گا،بالخصوص سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کی طرف نسبت میں بے احتیاطی پر زبردست مواخذہ ہوگا؛یہی وجہ ہے کہ محدثین کے نزدیک موضوع حدیث کو جانتے ہوئے بیان کرنا بالاتفاق حرام ہے اور ایسے شخص کے لیے جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔اگر کوئی موضوع حدیث لاعلمی میں بیان کردے اور لاعلمی کا سبب غفلت ولاپرواہی نہیں ہے؛ بلکہ بیان کرنے والے نے موضوع حدیث سے بچنے کی کوشش کی تھی؛لیکن موضوع ہونے کاعلم نہ ہو سکا تو غلطی معاف ہے، جیسا کہ شریعت کے اصول اورمختلف احکام سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔اور اگر حدیث بیان کرنے میں سرے سے اس کی کوشش ہی نہیں کی کہ صحیح کو جان کر بیان کرے اور موضوع سے بچے؛ بلکہ کسی بھی کتاب یا رسالے میں کوئی حدیث دیکھی اور بیان کر دی یا کسی بھی خطیب اور مقرر سے سنی اوراس کو آگے چلانا شروع کردیا، نہ یہ دیکھا کہ کتاب کیسی ہے؟ معتبر ہے یا نہیں؟نیز اس حدیث کے متعلق محدثین کی کیا رائے ہے؟ نہ یہ غورکیا کہ حدیث بیان کرنے والا واعظ کیسا ہے؟ کیا وہ باصلاحیت اور احادیث کے معاملے میں احتیاط کرنے والا ہے یا کوئی عامی اور احادیث میں لاپرواہی برتنے والا ہے؟ تو وہ گنہگار ہوگا؛کیوں کہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: آدمی کے گناہ گار ہونے کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کردے۔(مستدرک حاکم)
افراط و تفریط سے بچیں!
یہاں یہ بات بھی عرض کرنا مناسبِ حال ہے کہ احادیث کے رد و قبول کے سلسلے میں گم راہ فرقوں کے نزدیک دو طرح کے تصورات عام ہیں، جنہیں ہم محدثین کے بیان کردہ اصول و ضوابط کی روشنی میں افراط و تفریط کا نام دے سکتے ہیں۔ ایک جماعت کا نظریہ ہے کہ اپنے موقف کی تائید کے لیے ہر طرح کی سچی جھوٹی حدیث بیان کی جاسکتی ہے، حتی کہ موضوع حدیث بیان کرنے کی بھی پوری گنجائش ہے؛بلکہ اس جماعت سے تعلق رکھنے والے واعظین و مبلغین خود ساختہ خرافات کو استحکام بخشنے کی غرض سے بے تکان من گھڑت روایات بیان کرتے ہیں اور اس کو کار خیر سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک دوسری جماعت کا نظریہ احادیث نبویہ کے معاملہ میں شدت وتعصب کا ہے،اس جماعت سے تعلق رکھنے والے اسکالرز بہت سی صحیح اور حسن حدیثوں کو بھی ”جھوٹی احادیث“ کے زمرہ میں داخل کرتے ہیں اور محدثین کی اصطلاحات:ضعیف، موضوع، متروک، مرسل وغیرہ کے مابین فرق نہیں کرتے ، بلکہ سب کو”جھوٹی حدیث“ کے تحت شمار کرتے ہیں۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ لکھتے ہیں:اس وقت دو پہلو قابل افسوس ہیں: ایک تو پیشہ ور واعظین کا ہے، جو اپنی تقریروں میں رنگ بھرنے کے لئے ہر رطب و یابس کو پیش کرتے ہیں،جن حدیثوں کا موضوع ہونا مسلم ہے ایسی بھی احادیث نقل کرنے سے گریز نہیں کرتے اور عوام بھی ایسے مقررین کو زیادہ پسند کرتی ہے۔دوسرا قابل افسوس پہلو ان بھائیوں کا ہے جو بغیر تحقیق کے احادیث کو موضوع قرار دینے میں سبقت لے جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بہت سی احادیث کا انکار کر بیٹھتے ہیں۔ (پیش لفظ از موضوع احادیث سے بچیے!ص:22)
اس حوالے سے معتدل موقف وہی ہے جو علمائے اہل سنت کا ہے کہ جو روایت جس مرتبے کی ہو اس کو اسی مرتبے میں رکھاجائے اور جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہو اسے اسی درجے میں تسلیم کیا جائے اور اس پر اسی حد تک عمل کیاجائے۔مختصر یہ کہ ضعیف روایات کو جھوٹی حدیثیں کہنا بھی بہت بڑی غلطی ہے اور حدیث کے نام پر من گھڑت روایات بیان کرنا بھی گناہ کبیرہ ہے؛یہی وجہ ہے کہ حضرات محدثین فن حدیث میں مہارت رکھنے کے باوجوداحادیث کے بیان کرنے میں خوب احتیاط سے کام لیتے تھے، کہ کہیں اس حدیث کی وعیدمیں نہ آجائیں؛ لیکن آج کل موبائل پیغامات میں طرح طرح کی بے سندباتوں کو بہت سے دین سے بیزارعناصراورناواقف لوگ بغیرتحقیق کے کہ یہ واقعی حدیث ہے یاحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط نسبت کی گئی ہے اسے آگے بھیج دیتے ہیں اوراس حدیث کی وعید میں آجاتے ہیں۔ماہ رجب سے متعلق بھی بہت سی موضوع حدیثیں سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہتی ہیں،چوں کہ رجب کا مہینہ شروع ہوچکاہے،اس مناسبت سے ضروری محسوس ہوا کہ بعض موضوع اور من گھڑت روایات کا جائزہ لیاجائے؛تاکہ حقائق تک رسائی ہو اور بدعات و خرافات کا سد باب ہوسکے۔
رجب کی مخصوص نماز
عوام الناس کے درمیان ماہ رجب میں صلاة الرغائب کافی اہمیت رکھتی ہے؛اس نماز کی کیفیت حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک موضوع حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے: ”جو شخص ماہ رجب کی پہلی جمعرات کو روزہ رکھے اور جمعہ کی رات عشاء اور تاریکی ہونے کے درمیان بارہ رکعت نماز پڑھے، ہر رکعت میں سورة الفاتحہ ایک مرتبہ اور﴿إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ﴾
تین مرتبہ اور ﴿قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ﴾
بارہ مرتبہ اور ہر دو رکعت میں سلام پھیرے۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوجائے تو مجھ پر ستر مرتبہ درود بھیجے، پھر دو سجدے کرے، پہلے سجدے میں ستر مرتبہ:”سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبَّنَا وَرَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوْحِ “
پڑھے، پھر سجدے سے سر اٹھائے اور ستر مرتبہ :”رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ،أَنتَ الْعَزِیزُ الْاعظمُ“
کہے، پھر دوسرا سجدہ کرے اور اس میں بھی یہی دعا پڑھے، پھر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت کا سوال کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرمائے گا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو بندہ یا بندی اس نماز کو پڑھے اللہ اس کے تمام گناہوں کو معاف کردے گا ،خواہ اس کے گناہ سمندر کے جھاگ، ریت کے ذرات، پہاڑوں کے وزن اور درختوں کے اوراق کے برابر ہوں، نیز قیامت کے دن وہ اپنے خانوادے سے ستر جہنم واجب لوگوں کی شفاعت کرے گا“۔(تبیین العجب فیما ورد فی فضل رجب لابن حجر، ص 22-24)
امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”المجموع“ میں اور ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الادب فی رجب“میں اس نماز کو منکرات اور بدعات میں سے قرار دیا ہے اور ان روایات کو باطل قرار دیا ہے جن سے اس نماز کی مشروعیت پراستدلال کیا جاتا ہے۔
اس نماز کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”جہاں تک صلاة الرغائب کا تعلق ہے تو اس کی کوئی اصل نہیں؛ بلکہ بدعت ہے۔ لہٰذا اسے نہ تن تنہا پڑھنا مستحب ہے نہ باجماعت، کیوں کہ صحیح مسلم کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی رات کو تہجد کے لیے اور دن کو روزہ کے لیے خاص کرنے سے منع فرمایا ہے، صلاة الرغائب کے سلسلہ میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے وہ باتفاق علماء جھوٹی اور موضوع ہے، کسی ایک بھی سلف اور امام سے اس کا ذکر تک منقول نہیں ہے“۔(فتاوی ابن تیمیہ: 23/132)
رجب کے مخصوص روزے
رجب کے مخصوص روزوں کی فضیلت کے سلسلہ میں بھی لوگوں کے درمیان مختلف حدیثیں رائج ہیں؛جب کہ اس حوالے سے نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت ہے اور نہ آپ کے صحابہ سے۔علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”جہاں تک خصوصیت کے ساتھ ماہ رجب کے روزوں کا تعلق ہے تو اس کی تمام احادیث ضعیف؛ بلکہ موضوع ہیں، ان میں سے کسی پر بھی اہل علم اعتماد نہیں کرتے اور یہ ان ضعیف احادیث میں سے بھی نہیں ہیں جو فضائل میں روایت کی جاتی ہیں، بلکہ تمام کی تمام جھوٹی اور موضوع ہیں۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ وہ لوگوں کے ہاتھوں پر ڈنڈے سے مارتے تھے، تاکہ وہ ماہ رجب میں اپنے ہاتھوں کو کھانوں میں ڈال دیں اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ ماہ رجب کو رمضان کے مشابہ نہ بناؤ۔ جہاں تک روزوں کو رجب، شعبان اور رمضان تین مہینوں کے اعتکاف کے ساتھ خاص کرنے کی بات ہے تو اس سلسلہ میں مجھے کسی بات کا علم نہیں، البتہ جو مسلمان مشروع روزہ رکھے اور ان روزوں کے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے تو بلا شک یہ جائز ہے۔ (مجموع فتاوی ابن تیمیہ)
فائدہ:ماہ رجب کے خصوصی روزہ کی فضیلت کے سلسلہ میں کچھ وارد نہ ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ماہ رجب میں کوئی نفل روزہ نہیں ہے، بلکہ جن روزوں کے بارے میں عام نصوص وارد ہوئے ہیں، جیسے پیر اور جمعرات کے روزے، نیز ہر ماہ کے تین روزے اور صوم داود یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن ترک کرنا تو یہ سب جائز ہیں۔
ان سب کے علاوہ 27/رجب سے متعلق بھی لوگوں کے درمیان بہت سے خرافات رائج ہیں؛جن کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں، ان سے اجتناب ضروری ہے۔
خلاصہ ٴکلام
جب متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پرجھوٹ باندھنے والا شخص جہنمی ہے، اس کے باوجود اپنی تقریروں، تحریروں اور عام گفت گو میں جھوٹی، بے اصل اور مردود روایتیں بیان کرنا،بالخصوص سوشل میڈیا پر بغیر کسی حوالے کے انہیں نشر کرنا اور بلاتحقیق آگے چلانا بہت بڑا گناہ؛بلکہبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی نسبت ہے،جس کے لیے جہنم کی سزاہے۔ لہٰذاجو باتیں احادیث کی کتب میں صحیح طور پر منقول ہیں ان کو ضرور نقل کیا جائے اور ان سے سبق حاصل کیا جائے؛ لیکن اعتدال اور حق و سچ کا دامن نہ چھوڑا جائے۔
اسلامی مہینوں میں ربیع الاول، رمضان المبارک، محرم الحرام، صفر المظفر،رجب المرجب اور شعبان المعظم میں بے بنیاد اور جھوٹے میسیجز بہت پھیلائے جاتے ہیں،اس لیے بلاتحقیق انہیں آگے نہ بھیجا جائے؛بلکہ معتبر علمائے دین و مفتیان شرع متین کی خدمت میں تحقیق واصلاح کی غرض سے بھیجا جائے اور ان کی توثیق کے بعد ہی نشر کیاجائے۔رہے وہ حضرات جنہوں نے اب تک ناواقفیت کی بنیاد پراس طرح کی احادیث آگے بھیجی ہیں، ان پرلازم ہے کہ وہ توبہ واستغفار کریں اورآئندہ احتیاط سے کام لیں۔ حق تعالیٰ ہمیں توفیق ِعمل نصیب فرمائے۔آمین!