تدبر نہ کرنے والوں پر زجر شدید
قرآن کریم میں تدبر وتفکر نہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے، بلکہ وہ سنگین عمل ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے زجر شدید وارد ہوا ہے۔
سورہ محمد میں اللہ تعالیٰ نے تدبر نہ کرنے والوں پر سخت زجر کرتے ہوئے فرمایا:﴿أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْء َانَ أَمْ عَلَیٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُہَآ﴾․( 24)
تو کیا وہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے؟ بلکہ ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں ۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں :”یقول تعالیٰ آمرا بتدبر القرآن وتفہمہ، وناہیا عن الإعراض عنہ ، فقال:﴿أفلا یتدبرون القرآن أم علی قلوب أقفالہا﴾ أی: بل علی قلوب أقفالہا، فہی مطبقة لا یخلص إلیہا شیء من معانیہ ․“
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں قرآن میں غور و فکر کرنے اور سمجھنے کا حکم دیا اور اس سے روگردانی کرنے سے منع فرمایا، (کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں) مطلب یہ ہے کہ یقیناً ان کے دل بند ہیں۔ ان کے دل مقفل ہیں؛ لہٰذا اس کے معانی میں سے کچھ بھی ان کے دلوں تک نہیں پہنچ پاتا۔
علامہ عبد الرحمن سعدی اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وہ لوگ جو خدا کی کتاب سے روگردانی کرتے ہیں، اس میں غور و فکر اور تدبر وتفکر کیوں نہیں کرتے؟ اگر وہ اس میں غور و فکر کریں تو یہ کتاب ان کو تمام بھلائیوں کی طرف راہ نمائی کرے گی اور ہر برائی سے خبردار کرے گی، اور ان کے دلوں کو ایمان ویقین سے بھر دے گی۔ اور انہیں بلند تقاضوں اور قیمتی مواہب کی طرف راہ نمائی کرے گی اور انہیں وہ راستہ دکھائے گی جو خدا کی طرف اور اس کی جنت اور اس کے اسباب کی طرف لے جاتا ہے اور وہ راستہ جو عذاب کی طرف لے جاتا ہے اور جس سے تمہیں بچنا چاہیے اس کی بھی راہ نمائی کرتی ہے اور رب العالمین کی ذات، اس کے اسماء اور صفات سے واقف کراتی ہے اور انھیں ثواب اور اجر عظیم کا شوق دلاتی اور دردناک عذاب سے ڈراتی ہے ۔
کیا ترک قرآن اور ترک تدبر کی وعید صرف کفار کے لیے ہے؟
جب کسی مجلس میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے، اس میں تدبرو تفکر کرنے اور قرآن کریم کی ہدایت کو اپنانے کی ترغیب دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں کوتاہیوں پر نکیر کرتے ہوئے ان آیات سے استدلال کیا جاتا ہے تو بعض فضلاء یہ کہہ کر معاملہ کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان آیات کے مخاطب تو کفار ومنافقین ہیں، حالاں کہ اہل علم کو معلوم ہے کہ: ”العبرة بعموم اللفظ، لا لخصوص المورد“
کہ تفسیر میں لفظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے، نزول کے خاص پس منظر کا نہیں، اس کے علاوہ یہ بات بھی محل نظر ہے کہ اس آیت کا حکم صرف کفار کے لیے ہے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ زجر اور وعید ہر اس شخص کے لیے ہے، جس میں ترک قرآن اور عدم تدبر کی صفات ہوں، مشہور مفسر، محدث، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی نے آیت کریمہ:﴿قال الرسول…﴾ کے ذیل میں حاشیہ میں لکھا ہے :
آیت میں اگرچہذکر صرف کافروں کا ہے، تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا ،اس میں تدبر نہ کرنا ،اس پر عمل نہ کرنا ،اس کی تلاوت نہ کرنا، اس کی تصحیح قرا ت کی طرف توجہ نہ کرنا، اس سے اعراض کر کے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجرانِ قرآن کے تحت میں داخل ہو سکتی ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہم پر قرآن مجید کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں اگر انہیں ہم ادا نہیں کر رہے تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے اس قول اور فریاد کا اطلاق ہم پر بھی ہو گا۔ گویا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارے خلاف مدعی کی حیثیت سے کھڑے ہوں گے۔
آیت کریمہ:﴿وَ قَالَ الرَّسُوْلُ﴾
کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ فرماتے ہیں: قرآن میں غور و تدبر نہ کرنا اور اس کو سمجھ کر نہ پڑھنا بھی گویا قرآن کو ترک کرنا اور اسے بالائے طاق رکھنا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر:6/108)
ابن قیم رحمہ اللہ نے قرآن کو چھوڑے رکھنے کی کئی اقسام بیان کی ہیں، چناں چہ فرماتے ہیں:چوتھی قسم یہ ہے کہ بندہ قرآن میں غور و فکر کرنا اور اسے سمجھ کر پڑھنا چھوڑ دے اور قرآن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا کیا مطالبہ ہے اسے جاننے کی کوشش نہ کرے۔(بدائع التفسیر:2/292)
ارشاد باری تعالیٰ:﴿اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ﴾․(سورة النساء 82)
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟اس کے ذیل میں ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو قرآن میں غور و فکر کرنے اور اسے سمجھنے کا حکم دیا ہے اور اس کے الفاظ و معانی کو نہ سمجھنے اور اس سے اعراض کرنے سے منع فرمایا ہے، آیت کریمہ کے اس حکم سے صاف واضح ہے کہ قرآن میں غور و تدبر واجب ہے. (تفسیر ابن کثیر:3/364)
آیات تدبر اور مفسرین کی آرا
جب ہم ہر چیز کو سمجھنے کے لیے توجہ اور غور کے ساتھ اسے پڑھنے کے اصول پر عمل کرتے ہیں تو قرآن کی قرات کو اس اصول سے کیوں خارج کر ڈالتے ہیں؟! قرآن کے معاملے میں تو اس کا سب سے زیادہ لحاظ رکھا جانا چاہیے۔امام ابن تیمیہ کہتے ہیں:یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ہرکلام کا مقصد اس کے الفاظ کو نہیں، بلکہ مفہوم کو سمجھنا ہوتا ہے اور قرآن اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے کہ اس کے معانی کو سمجھا جائے۔ (مقدمہ فی اصولِ التفسیر)۔
امام قرطبی سورہ نساکی آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:یہ آیت قرآن میں تدبر کرنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے، تاکہ قرآن کا مفہوم معلوم کیا جا سکے۔(الجامع لاحکام القرآن)
امام قرطبی آیت کریمہ:﴿لو انزلنا ھذا القران﴾
کے تحت کہتے ہیں کہ اگر پہاڑوں کو عقل عطا کر کے ان سے قرآن کے الفاظ میں خطاب کیا جاتا تو پہاڑ اس کے مواعظ کے سامنے یوں مطیع ہو جاتے کہ تم ان کی سختی کے باوجود انھیں اللہ کے خوف وخشیت سے روتا اور ٹوٹتا پھوٹتا دیکھتے۔ (الجامع لاحکام القرآن)
قرآن کی قوتِ تاثیر اس وقت مزید واضح ہوکر سامنے آتی ہے جب ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے یہ کلمات سنتے ہیں کہ:مجھے سورہ ہود اور اس جیسی دیگر سورتوں نے بوڑھا ہونے سے قبل ہی بوڑھا کر دیا ہے۔
جب اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم پوری پوری رات ایک آیت کو دہراتے گزار دیتے ہیں اور قرآن کی تذکرہ آخرت پر مشتمل سورتیں آپ صلی الله علیہ وسلم کے اوپر بڑھاپا طاری کر دیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محض قرآن کے الفاظ کی تلاوت سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ لازماً قرآن کے مفہوم و معنٰی کے اثرات تھے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کی حقیقی قدروقیمت اس کے معانی و مفاہیم کے اندر ہے۔
سورہ بقرہ میں یہ آیت کریمہ ہے:﴿الَّذِینَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلَاوَتِہِ أُولَٰئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہِ وَمَن یَکْفُرْ بِہِ فَأُولَٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ﴾․(البقرة الآیة: 121)
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے ، وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے ۔ وہ اس پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں ۔ اور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کریں ، وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔
اس آیت کے ضمن میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے۔وہ فرماتے ہیں:قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قرآن کی کما حقہ تلاوت یہ ہے کہ بندہ قرآن کی حلال کردہ چیزوں کو حلال اور حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھے اور اس کو ویسے ہی پڑھے جیسے اللہ تعالی نے اسے اتارا ہے۔(تفسیر ابن کثیر:1/403)
علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہاں تلاوت کرنے کا مطلب اس پر عمل کرنا ہے۔(فتح القدیر:1/135)
ارشاد ربانی ہے :﴿وَ مِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِیَّ وَ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ ﴾․(سورة البقرة: 78)
ان میں سے بعض ان پڑھ ایسے بھی ہیں جو کتاب کے صرف ظاہری الفاظ کو ہی جانتے ہیں ،صرف گمان اور اٹکل ہی پر ہیں ۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں : ایک قول کے مطابق یہاں ”امانی“ کا مطلب تلاوت ہے یعنی انہیں کتاب کی صرف زبانی تلاوت معلوم ہے، وہ کتاب کو سمجھنا اور اس میں غور و فکر کر کے پڑھنا نہیں جانتے۔(فتح القدیر:1/156)
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہاں اللہ تعالی نے اپنی کتاب کو بدلنے والوں کی اور ایسے ان پڑھ لوگوں کی مذمت کی ہے جو صرف لفظی تلاوت کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔ (بدائع التفسیر:1/300)
تدبر قرآن کی اہمیت و فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میں
قرآن مجید میں تفکرو تدبر کی اہمیت کے پیش نظر صحابہ کرام اور تابعین قرآن کو پڑھنے، یاد کرنے، اس کی آیات کو سمجھنے، غور و فکر کرنے اور ان پر عمل کرنے کا خاص اہتمام کرتے تھے، یہی حال اور یہی معمول دیگر تمام سلف صالحین کا تھا. بعد کے زمانے میں جس قدر امت کے اندر کم زوری آتی گئی قرآن کے ساتھ اس خاص تعلق و اہتمام سے لوگ دور ہوتے چلے گئے، جس کے نتیجے میں لوگوں نے قرآن پر عمل کرنا ترک کر دیا اور عملی زندگی میں کمی اور کوتاہی در آئی ،حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نازل فرمایا اور ہمیں اس میں غور و فکر کا حکم دیا اور خود اس کی حفاظت کی ذمے داری لی. اس سلسلے کی نبوی بشارتیں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو لوگ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اسے سمجھ کر پڑھنے، پڑھانے اور مذاکرہ کرنے کا اہتمام کرتے ہیں تو ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے سکون و اطمینان کا نزول ہوتا ہے، رحمت الہٰی انہیں ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے پاس موجود فرشتوں کے درمیان ان کا ذکر خیر فرماتے ہیں۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2699)
یہاں اس حدیث میں قابل غور بات یہ ہے کہ مذکورہ فضیلتیں یعنی سکون و اطمینان کا نزول، رحمت الہی کا ڈھانپنا اور فرشتوں کے درمیان ذکر خیر یہ سب اس تلاوت کے بدلے میں ہے، جس تلاوت میں سمجھنا اور غور و فکر کرنا شامل ہو. مگر آج کل ہماری صورت حال یہ ہے کہ ہم حدیث کے صرف ایک ٹکڑے پر عمل کرتے ہیں، یعنی تلاوت، جب کہ سمجھ کر پڑھنے پڑھانے اور غور و تدبر کرنے کو بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے حفظ قرآن میں زیادہ وقت لگے گا اور تلاوت کی مقدار میں کمی آئے گی لہذا اس کی کوئی ضرورت نہیں۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ایک لمبی روایت ہے، جس میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور قرأت کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رات نماز ادا کی تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کَر پڑھ رہے تھے، جب تسبیح کی آیت سے گزرتے تو سبحان اللہ کہتے، دعا کی آیت پڑھتے تو دعا مانگتے اور جب پناہ مانگنے والی آیت ہوتی تو پناہ مانگتے۔(صحیح مسلم حدیث نمبر 772)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز میں کھڑے ہوئے اور ایک آیت کو صبح تک دہراتے رہے اور وہ آیت یہ تھی:﴿إن تعذبہم فإنہم عبادک وإن تغفر لہم فإنک أنت العزیز الحکیم﴾ اگر تو ان کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اوراگر تو ان کو بخش دے، تو تو عزیز ( غالب ) اور حکیم ( حکمت والا ) ہے۔ ( سورة المائدة: 118 )(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1350)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کے لیے قیام فرمایا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک ہی آیت (کی بار بار تلاوت)کرتے ہوئے صبح ہوگئی۔ وہ آیت یہ تھی:﴿إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْلَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ﴾
(اے اللہ!)اگر توانہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہے)۔(نسائی، احمد)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک شخض نے انہیں کہا:میں(سورہ)مفصل کو ایک رکعت میں پڑھتا ہوں۔ تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا:(تم) اس طرح جلدی جلدی پڑھتے ہو جس طرح شعر پڑھے جاتے ہیں۔ بے شک کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن اُن کے گلے سے نیچے نہیں اترتا۔ (لیکن یاد رکھو!) قرآن مجید جب دل و دماغ میں راسخ و پختہ ہو جائے تب ہی نفع دیتا ہے۔(مسلم، احمد)
عدم تدبر پر وعید
حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے عرض کیا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں جو سب سے حیران کن بات دیکھی اس کے بارے میں مجھے بتائیے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ رضی الله عنہا کچھ دیر خاموش رہیں، پھر فرمایا: جن راتوں میں (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام) میرے پاس تھا ان میں سے ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:اے عائشہ!مجھے الگ چھوڑ دو کہ میں آج رات اپنے رب کی عبادت کروں۔ آپ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: خدا کی قسم! میں آپ کے قرب کو پسند کرتی ہوں اور اس چیز کو بھی پسند کرتی ہوں جو آپ کو پسند ہے۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے اور وضو کیا اور پھر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل روتے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک تر ہوگئی۔ پھر فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما رہے اور روتے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک (آنسوؤں سے) تر ہوگئی۔ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل روتے رہے، یہاں تک کہ زمین بھی تر ہوگئی۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نمازِ فجر کی اطلاع دینے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روتے دیکھا تو عرض کیا:یا رسول الله! آپ رو رہے ہیں حالاں کہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں؟! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:کیا میں (اپنے رب کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ پھر فرمایا:آج رات مجھ پر ایک آیت نازل ہوئی ہے،اس کے لیے بربادی ہے جس نے اسے پڑھا اور اس میں غور و فکر نہ کیا۔ (وہ آیت یہ ہے):﴿إنَّ فِی خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ)
بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخر تک مکمل آیت بیان کی۔(صحیح ابن حبان)
حضرت سفیان سے مرفوعاً روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جس نے سورہ آل عمران کی آخری آیات تلاوت کیں اور ان میں غور و فکر نہ کیا تو اس کے لیے بربادی ہے۔ انہوں نے اپنی انگلیوں پر یہ بات دس بار شمار کر کے بتائی۔(الترغیب والترہیب)
یہ رہا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ کہ آپ غور و تدبر کے ساتھ پڑھنے کو کثرت تلاوت پر ترجیح دیتے تھے، یہاں تک کہ بعض اوقات ایک آیت پڑھتے ہوئے پوری رات گزار دیتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:ہم لوگ دس آیتیں سیکھتے تھے، پھر آگے اس وقت تک نہیں بڑھتے تھے جب تک ان دس آیات کے معانی سمجھ نہ لیتے اور ان پر عمل کرنا نہ سیکھ لیتے۔ ( رواہ الطبری فی تفسیر:1/80)
ایک بار جب عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین رات سے کم میں قرآن ختم کرنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرماتے ہوئے کہا:جو شخص قرآن کو تین رات سے کم میں ختم کرے وہ قرآن کو نہیں سمجھ سکتا۔(سنن أبی داود، حدیث نمبر 1390)
اس سے معلوم ہوا کہ تلاوت قرآن کا اصل مقصد اسے سمجھنا اور اس کی آیات میں غور و فکر کرنا ہے۔صرف لفظی طور پر تلاوت کرنا اس کے مقاصد میں سے نہیں ہے۔
مؤطا امام مالک میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جہری نماز پڑھائی، دوران نماز کوئی ایک آیت چھوٹ گئی، نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے دریافت کیا :کیا نماز میں مجھ سے کوئی آیت چھوٹ گئی ہے؟ اس نے جواب دیا:مجھے نہیں معلوم، اسی طرح دو تین اور لوگوں سے پوچھا، سب نے جواب دیا ہمیں نہیں معلوم، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا بات ہے لوگوں کے سامنے قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے، مگر انہیں اتنا نہیں معلوم ہوتا کہ کیا پڑھا گیا اور کیا چھوٹ گیا، بنی اسرائیل کے دلوں سے اللہ کی عظمت و کبریائی اسی وجہ سے جاتی رہی ،کیوں کہ ان کے بدن حاضر ہوتے تھے، مگر دل و دماغ غائب ہوتے تھے اور اللہ کو وہی عمل مقبول اور پسند ہے جس میں بدن کے ساتھ دل بھی حاضر ہو۔
حضرت علی فرماتے ہیں:میں نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب فتنے ظاہر ہوں گے، میں نے پوچھا اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے آپ نے فرمایا:اس سے خلاصی اللہ کی کتاب قرآن ہے، اس میں تم سے پہلے اور بعد کی خبریں ہیں اور اس میں تمہارے درمیان فیصلے ہیں، وہ قول فیصل ہے، فضول بات نہیں ہے، جوجابر سرکش اس کو چھوڑے گا اللہ اس کو توڑکر رکھ دے گا، اور جو اس کے علاوہ ہدایت تلاش کرے گا اللہ اس کو گم راہ کردے گا،قرآن ہی حبل اللہ ہے اور محکم نصیحت نامہ ہے اور صراطِ مستقیم ہے۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”یا اھل القرآن ! لا تتوسدوا القراٰن واتلوہ حق تلاوتہ من اٰناء اللیل والنھار،وافشوہ، وتغنوہ، وتدبروا فیہ؛ لعلکم تفلحون“۔ (رواہ البیہقی)
ترجمہ:اے اہل قرآن!اس قرآن کو پس پشت نہ ڈالو اور اس کی تلاوت کرو، جیسا اس کا حق ہے صبح اور شام اور اس کو پھیلاؤ اور اسے خوب صورت آوازوں سے پڑھو اور اس میں تدبر کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔
تدبر قرآن اور سلف صالحین
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں:حضرتعمر رضی اللہ عنہ نے سورہ بقرہ بارہ سال میں سیکھی جب اسے مکمل سیکھ کر فارغ ہوئے تو ایک اونٹ ذبح کیا۔(نزہة الفضلاء، تہذیب سیر أعلام النبلاء:1/35)
صرف ایک سورت کو سیکھنے میں اتنی لمبی مدت اس لیے لگی کہ انہوں نے اسے غور و تدبر کے ساتھ پڑھا اور سیکھا تھا۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی حاضر ہوا توحضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے لوگوں کے احوال دریافت کرنے لگے ،انہوں نے کہا:اے امیر المومنین!ان میں سے بعض لوگوں نے اتنا اتنا قرآن پڑھ لیا ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نے کہا :اللہ کی قسم! مجھے پسند نہیں کہ لوگ قرآن پڑھنے میں اس قدر جلد بازی سے کام لیں ، میری یہ بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے ڈانٹا اور کہا خاموش ہو جاؤ، میں رنجیدہ خاطر ہو کر گھر واپس لوٹنے لگا توحضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور پوچھنے لگے:ابھی اس شخص کی کون سی بات تمہیں ناگوار گزری ہے؟ میں نے کہا :اگر یہ لوگ قرآن پڑھنے میں اس قدر جلد بازی کریں گے تو اس کے معانی و مفاہیم کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھ سکیں گے، جس کے نتیجے میں باہم اختلاف ہوگا اور اس اختلاف کے نتیجے میں آپس میں لڑائی جھگڑے کریں گے ، چناں چہ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے:اے ابن عباس! تم نے سچ کہا، یقینا ،میں اس بات کو لوگوں سے چھپاتا تھا، مگر تم نے حقیقت بیان کردی۔(نزہة الفضلاء، تہذیب سیر أعلام النبلاء:1/278)
یقینا بعد میں وہی کچھ ہوا جس کا اندیشہ عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ظاہر کیا تھا، چناں چہ خوارج کا ظہور ہوا جو قرآن کو پڑھتے ہیں، مگر یہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :اس امت کے شروع کے دور میں ایک فاضل صحابی رسول کو صرف بعض سورتیں یاد ہوتی تھیں، مگر انہیں قرآن پر عمل کرنے کی توفیق ملی ہوئی تھی، جب کہ بعد کے دور کے لوگوں کا حال یہ ہے کہ یہ سب قرآن کو پڑھتے ہیں، یہاں تک کہ بچے اور اندھے بھی، مگر انہیں قرآن پر عمل کرنے کی توفیق نہیں ملتی ۔
اسی مفہوم کو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس طرح بیان کیا ہے : قرآن حفظ کرنا ہمارے لیے مشکل ہے، مگر اللہ نے اس پر عمل کرنا آسان بنا دیا ہے، جب کہ ہمارے بعد کے لوگوں کے لیے حفظ قرآن آسان ہے اور اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔ (الجامع لأحکام القرآن :1/39)
حضرت عباد بن حمزہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت اَسماء رضی الله عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ یہ آیت:﴿فَمَنَّ اللهُ عَلَیْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ﴾
(پس الله نے ہم پر احسان فرما دیا اور ہمیں نارِ جہنّم کے عذاب سے بچا لیا) پڑھ رہی تھیں۔آپ بیان کرتے ہیں کہ میں وہاں کھڑا ہوگیا تو آپ رضی الله عنہا اس آیت کو دوہراتی جاتیں اور (ساتھ) دعا کرتی جاتیں۔ پس ان کا یہ عمل مجھ پر طول پکڑ گیا، (وہاں سے) میں بازار چلا گیا اور میں نے اپنی ضرورت پوری کی، پھر وہاں سے میں لوٹا (تو کیا دیکھا کہ) وہ (ابھی تک) اس آیت کو دہرا رہی تھیں اور دعا کر رہی تھیں۔ (رواہ ابن أبی شیبة)
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور محمد بن یحییٰ بن حبان بیٹھے ہوئے تھے، پس محمد نے ایک آدمی کو بلایا اور کہا: مجھے اس چیز کے بارے میں خبر دو جو تو نے اپنے والد سے سنی ہے۔ آدمی نے کہا:مجھے انہوں نے یہ خبر دی ہے کہ وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کا سات دن میں قرآن پاک پڑھنے (ختم کرنے) کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسا کرنا اچھا ہے، مگر یقینا مجھے آدھے ماہ میں یا بیس دنوں میں قرآن پڑھنا زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہے۔ اور مجھ سے بھی انہوں نے (یہی) سوال کیا اور فرمایا:پس میں تجھ سے (بھی ایسا)کرنے کو کہتا ہوں۔ پھر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں (قرآن پاک کی قرات کرتے ہوئے) اس میں تدبّر کرتا ہوں اور اس (کے اَسرار و رموز) پر آگاہ ہوتا ہوں:”قَالَ زَیْدٌ: لَکِنِّی أَتَدَبَّرُ وَأَقِفُ عَلَیْہِ“۔(رواہ البیہقی)
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:بے شک اس قرآن کو غلاموں اور بچوں نے پڑھا ،جنہیں قرآن کی نہ کوئی سمجھ ہے اور نہ تفسیر کا کوئی علم ،قرآن میں غور و فکر قرآن پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ صرف اس کے حروف کو یاد کرنے اور اس کے حدود و احکامات کو پامال کرنے سے، بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ میں نے پورا قرآن پڑھ لیا ایک حرف بھی نہیں چھوڑا ،حالاں کہ اللہ کی قسم !اس نے پورا قرآن چھوڑ دیا، کیوں کہ قرآن پڑھنے کا کوئی اثر اس کے اخلاق و کردار میں نظر نہیں آتا، بعض لوگ فخریہ انداز میں یہ کہتے پھرتے ہیں:میں ایک سانس میں پوری سورت پڑھ لیتا ہوں،اللہ کی قسم! ایسے لوگ نہ قاری ہیں، نہ عالم، نہ حکیم و دانا اور نہ متقی وپرہیزگار۔بھلا قرآن پڑھنے والوں کا کب یہ طرز و انداز تھا؟!اللہ تعالی ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ نہ کرے۔ (الزہد :276)
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:قرآن اس لیے نازل کیا گیاکہ اسے سمجھ کر پڑھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے، لیکن لوگوں نے اس کی تلاوت ہی کو عمل بنا لیا ۔(مدارج السالکین1/485)
یعنی انہوں نے قرآن کو عمل کی کتاب بنانے کے بجائے صرف لفظی تلاوت کی کتاب بنا لیا، چناں چہ بغیر سمجھے اور عمل کیے صرف تلاوت کرتے ہیں۔
محمد بن کعب القرظی فرماتے ہیں : میں رات سے لے کر صبح تک صرف دو سورتیں:﴿ إذا زلزلت الأرض اور القارعة﴾
غور و فکر کے ساتھ پڑھتا رہوں، یہ میرے لیے اس سے کہیں بہتر ہے کہ پورا قرآن بغیر غور و تدبر کے جلدی جلدی پڑھوں۔(الزہد لابن المبارک 97)
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ایک انسان کے لیے دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ سود مند چیز اور اس کی نجات کا سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ وہ قرآن میں غور و فکر کرے اور اس کی آیات کے معانی و مفاہیم کو سمجھنے کے لیے اپنی پوری توجہ اور کوشش صرف کرے۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن میں غور و فکر کرنا اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔
امام غزالی رحمة الله تعالیٰ علیہ احیاء العُلوم میں فرماتے ہیں کہ ایک آیت سمجھ کر اور غور و فکر کر کے پڑھنا بغیر غور و فکر کیے پورا قرآن پڑھنے سے بہتر ہے۔(احیاء العلوم، کتاب التفکر، بیان مجاری الفکر)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخض نے انہیں کہا:میں(سورہ) مفصل کو ایک رکعت میں پڑھتا ہوں۔ تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:(تم) اس طرح جلدی جلدی پڑھتے ہو، جس طرح شعر پڑھے جاتے ہیں۔ بے شک کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں، مگر قرآن اُن کے گلے سے نیچے نہیں اترتا۔ (لیکن یاد رکھو!) قرآن مجید جب دل و دماغ میں راسخ و پختہ ہو جائے تب ہی نفع دیتا ہے۔ (مسلم واحمد وابن خزیمة)
تدبر قرآن کا صحیح منہج کیا ہے؟
قرآن کا ذکر کرنا، اسے پڑھنا، دیکھنا، چھونا سب عبادت ہے۔ قرآن میں غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ قرآن میں وہی غوروفکر مُعْتَبر اور صحیح ہے جو صاحب ِ قرآنصلی الله تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے فرامین اور آپ کے صحبت یافتہ صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم اور ان سے تربیت حاصل کرنے والے تابعینرحمة الله تعالیٰ علیہم کے علوم کی روشنی میں ہو، کیوں کہ وہ غور و فکر جو اُس ذات کے فرامین کے خلاف ہو، جن پر قرآن اترا اور اس غور و فکر کے خلاف ہو جو وحی کے نزول کا مُشاہدہ کرنے والے بزرگوں کے غوروفکر کے خلاف ہو، وہ یقینا معتبر نہیں ہوسکتا۔
اکابر علمائے ہند کا نقطہٴ نظر
ہندوستان میں اس سلسلے کا محوری کام اور عوام کو قرآن کریم سے جوڑنے کی مہم حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے قرآن مجید کا فارسی ترجمہ کرکے شروع کیا ،پھر شاہ ولی اللہ دہلوی کے صاحب زادے نے اردو ترجمہ کے ذریعے اس تحریک کو آگے بڑھایا، ان کے ترجمہ کو اردو کا الہامی ترجمہ کہا جاتا ہے۔
شاہ عبد القادر رحمة اللہ علیہ نے موضح قرآن کے مقدمے میں اپنے اردو ترجمہ قرآن کو آسان زبان و عام فہم اسلوب میں پیش کرنے کی وہی غرض و غایت بیان کی ہے جو ان کے مرحوم والد محترم نے اپنے فارسی ترجمہ قرآن ( فتح الرحمن) کے مقدمہ میں واضح کی تھی ۔
”اس (اللہ) کے کلام میں جو ہدایت ہے دوسرے میں نہیں، پر کلام پاک اس کا عربی زبان میں ہے اور ہندوستانی کو اس کا ادر اک محال ہے۔ اس واسطے اس بندہ عاجز عبد القادر کو خیال آیا کہ جس طرح ہمارے والد بزرگوار حضرت شاہ ولی اللہ ابن عبد الرحیم محدث دہلوی ترجمہ فارسی کر گئے ہیں سہل اور آسان، اب ہندی زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ کرے۔ الحمد للہ کہ سن ھ میں میسر ہوا… اور اس کتاب کا نام موضح قرآن ہے۔ یہی اس کی صفت ہے اور یہی اس کی تاریخ ہے …۔ (معارف،جنوری ء مقالہ نگار ڈاکٹر محمد انس حسان)
مسند ہند حجة الاسلام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے فارسی ترجمہ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ :
قرآن مجید کا متن اور فارسی کے مختصر رسائل پڑھنے کے بعد جب فارسی زبان بے تکلف سمجھنے کی استعداد پیدا ہو جائے تو اس ترجمے کو شروع کرانا چاہیے خصوصا سپاہیوں اور پیشہ ور لوگوں کے بچوں کے سن شعور کو پہنچنے کے ساتھ ہی اس کی تعلیم دینی چا ہیے، کیوں کہ ان سے یہ امید نہیں کہ وہ علوم عربیہ کی مکمل تحصیل کریں گے، تاکہ ان کے دلوں میں پہلی چیز جو جاگزیں ہو وہ کتاب اللہ کے معانی و مطالب ہوں، اس سے ان کی فطری سلامتی باقی رہے گی۔
شیخ الہند مولانا محمود حسن کے ترجمہ قرآن کے مقدمے کا دل میں نقش کر جانے والا یہ اقتباس قابلِ توجہ اور مشعلِ راہ ہے،فرماتے ہیں :سب کو معلوم ہے کہ آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو سب چیزوں سے ناواقف اور محض انجان ہوتا ہے، پھر سکھلانے سے سب کچھ سیکھ لیتا ہے اور بتلانے سے ہر چیز جان لیتا ہے۔ اسی طرح حق کا پہچاننا اور اس کی صفات اور احکام کا جاننا بھی بتلانے اور سکھلانے سے آتا ہے، لیکن جیسا حق تعالی نے ان باتوں کو قرآن شریف میں خود بتلایا ہے، ویسا کوئی نہیں بتلا سکتا اور جو اثر اور برکت اور ہدایت خدائے تعالی کے کلام میں ہے وہ کسی کے کلام میں نہیں ہے، اس لیے عام و خاص جملہ اہلِ اسلام کو لازم ہے کہ اپنے اپنے درجے کے موافق کلام اللہ کے سمجھنے میں غفلت اور کوتاہی نہ کریں۔
گذشتہ سطور میں تفصیل سے آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ، آثار صحابہ وسلف صالحین اور مستند مفسرین اور اکابر واساطین علماء کے اقوال کی روشنی میں قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے، اس میں تفکر تدبر اور غور فکر کی اہمیت اورفضیلت کو بیان کیا گیا، تدبر قرآن کے سلسلے میں سلف صالحین کے طرز عمل کی نشان دہی کی گئی، جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں تدبر کتنا عظیم عمل اور کتنا ضروری ہے اور بلاسمجھے پڑھنا، عدم تفکر کو اپنی عادت بنالینا، تدبر کی ضرورت سے انکار کرناکس حد تک قرآن کریم کے حقوق کی پامالی اور کتنا سنگین عمل ہے؟
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم میں تدبر کرنے اور حسبِ استطاعت اس کے تمام حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے. آمین. واللہ ولی التوفیق!