قرآنِ کریم سمجھ کر پڑھنے کی اہمیت اور عدمِ تَدَبُّر کے نقصانات

idara letterhead universal2c

قرآنِ کریم سمجھ کر پڑھنے کی اہمیت اور عدمِ تَدَبُّر کے نقصانات

مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

قرآن کریم اللہ رب العالمین کا لازوال کلام ہے؛جو قیامت تک کی انسانیت کے لیے سرچشمہٴ ہدایت اور حق و باطل کی کسوٹی ہے؛جس کا ہر ہر حرف منارہٴ نور، ہر ہر آیت مشعلِ راہ اور ہر ہر جملہ ہدایت کی روشن دلیل ہے۔قر آن مجید خالقِ کائنات کا وہ سدا بہار، دائمی، عالمی اورا نقلابی پیغام ہے، جو کتاب ہدایت بھی ہے اور کتاب زندگی بھی۔قرآن کریم کے الفاظ بھی محفوظ ہیں کہ اس کی ذمہ داری خود صاحب کلام نے لی ہے…جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ﴾․ (الحجر:9)

بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بے شک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

اس کے معانی بھی مجموعی طور پر محفوظ ہیں کہ اس کے معانی کو بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا،جنھوں نے اس کے حقیقی معانی کو امت کے سامنے واضح طور پر بیان فرمایا،جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ ﴾․ (النحل:44) اور ہم نے (اے نبی صلی الله علیہ وسلم) آپ کی طرف قرآنِ کریم نازل کیا تاکہ جو چیز اُن کے لیے اتاری گئی ہے آپ اسے ان پر واضح کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ قرآن کریم کی تشریح وتبیین فرمائی؛ بلکہ آپ نے عملی طور پر اس کو برت کر بھی دکھایا۔جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں (کان خلقہ القرآن) کہ رسول اللہ کے اخلاق کلام الٰہی کا پرتو تھے۔

نہ تو اس کے الفاظ میں کسی قسم کے شک کی گنجائش ہے، نہ معانی میں شبہ کا کوئی امکان ہے۔اس لیے کہ یہ کتاب (لاریب فیہ) ہے۔

اس کے الفاظ میں برکت اور اس کے معانی میں ہدایت ہے، تدبر و تفکر کے ذریعے ہم اس کی، ہدایت تک پہنچ سکتے ہیں اور اس کی برکتوں سے مالا مال ہوسکتے ہیں:﴿کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ﴾․

(یہ قرآن) بڑی برکت والی کتاب ہے، جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں اور عقل مند نصیحت حاصل کریں ۔

الفاظ قالب ہیں اور معانی و مضامین اس کے لیے روح ہیں اور قرآن الفاظ ومعانی دونوں کے مجموعہ کا نام ہے۔”القرآن ھو اسم للنظم و المعنی جمیعا“۔

اسے بغیر سمجھے بھی پڑھنا خیر وبرکت کا سبب اور اجر کا باعث ہے…جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے؛ ”منْ قرأَ حرفًا من کتابِ اللہِ فلہ بہ حسنةٌ ، والحسنةُ بعشرِ أمثالِہا ․“(ترمذی ) یعنی جو شخص کتاب اللہ کا ایک حرف بھی پڑھے گا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کو دس گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔

نزولِ قرآن کا مقصد حصول ثواب یا تحصیل ہدایت
قر آن کریم تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا معجزہ، انوار وبرکات اور اجر و ثواب کا خزانہ اور تمام انسانیت کے لیے آب حیات ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نزول قرآن کا مقصد صرف حصول ثواب ہے کہ امت کو زیادہ سے زیادہ اجر وثواب پانے کے مواقع فراہم کرنے لیے یہ کتاب مقدس نازل کی گئی ہے؟

یا اس کے نزول کا مقصد کچھ اور ہے اور اس مقصد کو پانے کے لیے بطور ترغیب و عطا ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ قرآن کریم خود اپنا تعارف کس طرح کراتا ہے اور نزول کا مقصد کیا بتاتا ہے۔

قرآن مجید کے نزول کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَیٰ وَالْفُرْقَانِ﴾․

رمضان کامہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے سراپا ہدایت اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی اور حق وباطل کے درمیان دوٹوک فیصلہ کر دیتی ہیں۔ (بقرہ:185)

سورہ بقرہ ہی کی دوسری آیت ہے :﴿الٓمّٓ. ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾․

(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔

اگرچہ قرآن کریم نے ہر ایک کو صحیح راستہ دکھایا ہے۔خواہ وہ مومن ہو یا کافر۔اس لیے اس معنی کے لحاظ سے اس کی ہدایت سب کے لیے ہے؛ لیکن نتیجے کے اعتبار سے دیکھاجائے تو اس ہدایت کا فائدہ انہی کو پہنچتا ہے، جو اس کی بات کو مان کر اس کے تمام احکام اور تعلیمات پر عمل کریں، اس لیے فرمایا گیا کہ یہ قرآن ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لیے.

سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ قَدْ جَاء کُم مِّنَ اللَّہِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُّبِینٌ یَّہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہ وَ یَہْدِیْہِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾․ (المائدہ:15)

ترجمہ: تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی(قرآن) آئی ہے اور ایک ایسی کتاب جو حق کو واضح کر دینے والی ہے، جس کے ذریعہ اللہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہ دکھاتا ہے جو اس کی خوش نودی کے طالب ہیں اور انہیں اپنے حکم سے اندھیریوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے، اور انہیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا کرتا ہے.

سورة نساء آیت174 میں فرمایا گیا:﴿وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا﴾اور نازل کر دیا ہے ہم نے آپ کی طرف ایک روشن نور۔ یعنی قرآن کریم۔

سورہ یونس میں فرمایا:﴿ہُدًی وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ﴾یہ کتاب ہدایت ہے اور رحمت ہے، ایمان والوں کے لیے۔

سورہ لقمان میں فرمایا: ﴿ہُدًی وَّ رَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِیْنَ﴾۔ قرآن کریم ہدایت اور رحمت ہے محسنین کے لیے.

سورة بقرة اور سورة النمل میں ہے ﴿ہُدًی وَّ بُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ قرآن کریم خوش خبری اور ہدایت ہے مومنوں کے لیے۔
جب کہ سورہ آل عمران میں اور سورة المائدة میں:﴿ہُدًی وَّ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾کے الفاظ آئے۔یعنی قرآن کریم ہدایت اور نصیحت کا سامان ہے پرہیز گاروں کے لیے۔

معلوم ہوا کہ قرآن کریم کا مقصد نزول ھدی یعنی ہدایت ہے۔ اسی وجہ سے ھُدًی کا لفظ قرآن حکیم کے لیے کثرت کے ساتھ آیا ہے۔

تین مرتبہ تو اِس آیت مبارکہ میں آیا جو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے مقصدِ بعثت کو بیان کرتی ہے :﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ بِالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ﴾ (التوبة، الفتح، الصف) یعنی وہی الله ہے جس نے اپنے رسول محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت کا سامان قرآن کریم اوراس سچے دین کے ساتھ بھیجا ۔تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں کو یہ غلبہ ناپسند ہو۔

اسی طرح سورة النجم میں فرمایا :﴿وَ لَقَدْ جَآء َہُمْ مِّنْ رَّبِّہِمُ الْہُدٰی﴾۔یعنی ان کے رب کی طرف سے ھدایت کی کتاب آچکی.

سورة الجن کا آغاز جنات کی ایک جماعت کے اس قول سے ہوتا ہے:﴿اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا،یَّہْدِیْٓ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہ،وَ لَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا﴾․ انہوں نے کہا:بے شک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا۔جو بھلائی کی طرف راہ نمائی کرتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم ہرگز کسی کو اپنے رب کا شریک نہ ٹھہرائیں گے۔

آگے چل کر ان(جنات) کے الفاظ ہیں:﴿وَّ اَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْہُدٰٓی اٰمَنَّا بِہ ) یعنی جب ہم نے ہدی یعنی قرآن کو سنا تو ہم اس پر ایمان لے آئے…گویا سورة الجن نے یہ متعین کردیا کہ قُرْاٰنًا عَجَبًا اور اَلْھُدٰی مترادف الفاظ ہیں۔

سورہ بنی اسرائیل اور سورة الکہف میں ہے :﴿وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَآء َہُمُ الْہُدٰٓی﴾ (بنی اسرائیل، الکہف) ۔کیا شے ہے جو لوگوں کو ایمان لانے سے روکتی ہے جب کہ اُن کے پاس الہدیٰ یعنی قرآن آچکا ہے؟

اسی طرح سورہ شوری کے ذیل کی آیت میں قرآن مجید کو روح نور اور ہدایت قرار دیا گیا۔

﴿وَ کَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا-مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَ لَا الْاِیْمَانُ وَ لٰکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہ مَنْ نَّشَآء ُ مِنْ عِبَادِنَا،وَ اِنَّکَ لَتَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾

اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح (قرآن)کی وحی بھیجی۔اس سے پہلے نہ آپ کتاب کوجانتے تھے نہ شریعت کے احکام کی تفصیل کو۔لیکن ہم نے قرآن کو نور بنایا۔جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں سیدھی راہ دکھاتے ہیں اور بے شک آپ سیدھے راستے کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں۔

ذیل کی آیت میں قرآن کو ہدی اور رحمت کے ساتھ بصائر بھی قرار دیا گیا۔

﴿ہٰذَا بَصَآئِرُ لِلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ رَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ﴾․ (جاثیہ:20) یہ عام لوگو ں کے لیے بصیرتیں ہیں اور یقین کر نے والو ں کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔

عاقل یعنی غور و فکر کرنے والے اور سوچ بچار کرنے والے کے لیے ایمان کا منبع و سرچشمہ صرف قرآنِ حکیم ہے۔ ظفر علی خان نے اس کی شان دار تعبیر اس شعر میں کی ہے۔
          وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے
          ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سیپاروں میں!

مذکورہ آیات کریمہ سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن کریم کا اصل موضوع انسانوں کی ہدایت ہے…یہ ایسا کامل مکمل دستور حیات ہے جس کی اتباع کے نتیجے میں انسان حقیقی فوز فلاح اور دائمی سعادت کا مستحق بن جاتا ہے۔

رحمت، برکت اور ہدایت ملے گی تدبر قرآن کے ذریعے
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن کریم کے نزول کا اصل مقصد ہدایت ہے، قرآن کریم انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے ، اب یہ سوال ہے کہ قرآن کریم سے ہدایت کیسے ملے گی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہدایت ملے گی قرآن کریم کی آیات میں تدبر تفکر کے ذریعہ، سمجھ بوجھ کر تلاوت کے ذریعے،اس کے حقوق کو ادا کرنے کے ذریعے ۔ایک صاحب ایمان کے لیے اپنی زندگیوں کو قرآن کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے لیے یقینا بہت سے ذرائع ہوسکتے ہیں، مگر ان تمام ذرائع میں قرآن ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو براہِ راست اپنی خوب صورت، واضح اور دو ٹوک زبان میں اپنا پیغام سناتا ہے۔ قرآنِ مجید کا یہ پیغام قرآن کے حروف میں پوشیدہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کی غالب اکثریت اس کو براہِ راست سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی ہے ۔ معمول کی تلاوتِ قرآن کی صورت میں محض حروف و الفاظ کی حد تک قرآن سے وابستگی ہوتی ہے..

اگرچہ قرآن کریم کے الفاظ کے تلفظ و ترنم کے اندر یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ انسان پر اثر انداز ہو اور خرق عادت کے طور پر بھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ قرآن کے محض الفاظ سن کر ہی اشکوں کا سیل رواں جاری ہوجاتا ہے۔

مگر بالعموم دلوں کی کیفیت اسی وقت بدلتی ہے جب الفاظ کا معنی و مفہوم انسان کے دل و دماغ اور قلب و شعور میں اتر رہا ہو۔ ہم آیات تو پڑھ لیتے ہیں ،مگر ان کے اندر بیان کی گئی ہدایات سے یکسر ناآشنا رہتے ہیں۔

قرآن کے ساتھ تعلق پر نظرثانی کی ضرورت
ہر صاحب ِایمان کو قرآن کے ساتھ اپنے اس تعلق پر نظرثانی کی ضرورت ہے ،کیوں کہ قرآن کے الفاظ کی برکت مسلم!لیکن اس کی حقیقی روح تو اس کے معانی اور مفاہیم میں مضمر ہے۔اسی بنیاد پر اکتاہٹ اور بے دلی کی کیفیت میں قرآن کی قرات سے منع کیا گیا ہے کہ اس طرح قرآن کے الفاظ کی ادائیگی تو ہو سکتی ہے، لیکن ان کے مفہوم سے آگاہ ہونا ممکن نہیں ہوتا۔

قرآن کی تلاوت یا سماعت کے وقت تدبر و تفکر کی اہمیت تو قرآن کی اپنی آیات سے واضح ہے۔ قرآن پر عمل کرنے کے لیے قرآن کو سمجھنا اور اس کا فہم حاصل کرنا ضروری ہے اور جب فہم حاصل ہوتا ہے تو یہ دل کے اندر تاثیر چھوڑتا ہے اور یہی تاثیر عمل کا محرک بنتی ہے.

اللہ کی سب سے عظیم نعمت قرآن کریم
اللہ تعالیٰ نے بندو ں کو جتنی نعمتیں عطاکی ہیں، ان میں قرآن پاک سب سے بڑی نعمت ہے۔

جس کی تلاوت اور معانی میں تدبر کے ذریعے ایک مسلمان خدا سے قر یب ہو تاہے اور خدا اس کے قریب آجاتا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ کہ لوگو ں میں کچھ اللہ کے خاص گھر کے لوگ ہیں، صحابہ کرام نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ قر آن والے ہیں، یہ اللہ کے گھر کے لوگ اور خاص بند ے ہیں، (اھل اللہ وخاصتہ)۔

یہ تعلق بندے کو اللہ سے اتنا قر یب کر دیتاہے جیسے کہ دنیا میں کسی کے خاص گھر کے لوگ ہوں۔

قرآن کریم میں تدبر کی لزومیت آیات کریمہ کی روشنی میں
مندرجہ ذیل آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح انداز میں قرآن مجید کی آیات میں تدبر کرنے، سمجھ کر پڑھنے اور اس سے نصیحت حاصل کرنے اور اس کی ہدایتوں پر عمل کرنے کا حکم فرمایا۔

اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں تذکر اور تدبر کے الفاظ استعمال کیے۔

تذکر اور تدبر دونوں ایک دوسرے سے ملتے جلتے الفاظ ہیں. الگ الگ یہ دونوں قرآن کریم کے بہت سے مقامات پر آئے ہیں، البتہ سورة صٓ کی آیت میں دونوں الفاظ یکجا آ گئے ہیں:﴿کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ ﴾یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبی) ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے، تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔ تذکر کا مطلب ہے قرآن مجید سے ہدایت اخذ کر لینا، نصیحت حاصل کر لینا، اصل راہ نمائی حاصل کرلینا۔ مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اتارنے کا اصل مقصد یہ بتایا کہ اس میں غور و تدبر کیا جائے اور اس سے عبرت و نصیحت حاصل کی جائے، یہ مقصد نہیں ہے کہ بلاتدبرصرف زبانی تلاوت کی جائے . اگرچہ تلاوت کا بھی بڑا اجر و ثواب ہے. چوں کہ یہی تدبر اور ہدایت تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔

حروف کو یاد اور حدود کو پامال؟
مشہور تابعی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اللہ کی قسم! قرآن میں غور و فکر اسے نہیں کہتے کہ اس کے حروف کو تو یاد کیا جائے ،مگر اس کے حدود کو پامال کیا جائے، یہاں تک کہ بعض لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ میں نے پورا قرآن ختم کر لیا جب کہ ان کے اخلاق و کردار میں قرآن کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔(تفسیر ابن کثیر :7/64)

قرآن نے بار بار تذکر اور تفکر پر آمادہ کیا ہے، تذکر ذکر سے بنا ہے۔ تذکر یاددہانی کو کہتے ہیں۔

سورہ قمر میں یہ لفظ چار مرتبہ آیا ہے:﴿وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾․

اور بے شک ہم نے قرآن کو یاد کرنے / نصیحت لینے کے لیے آسان فرمادیا، تو ہے کوئی یاد کرنے /نصیحت لینے والا؟

قابلِ ذکر ہے کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی نوراللہ مرقدہ نے اس آیت کریمہ کا ترجمہ ان جملوں سے کیا ہے :

اور ہم نے آسان کردیا قرآن، سمجھنے کو، پھر ہے کوئی سوچنے والا؟

سورہ تکویر میں فرمایا:﴿اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ،لِمَنْ شَآء َ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَ،وَ مَا تَشَآء ُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآء َ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ﴾․
وہ تو سارے جہانوں کے لیے نصیحت ہی ہے۔اس کے لیے جو تم میں سے سیدھا ہونا چاہے۔اور تم کچھ نہیں چاہ سکتے، مگر یہ کہ اللہ چاہے، جو سارے جہانوں کا رب ہے۔

سورہ رحمن میں فرمایا:﴿اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ﴾․

وہ تو نہیں مگر نصیحت اور روشن قرآن۔

قرآن کا اصل ہدف یہی تذکر ہے اور اس اعتبار سے قرآن کا دعویٰ سورة القمر میں چار مرتبہ آیا ہے:﴿وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾․ہم نے قرآن کو تذکر کے لیے بہت آسان بنا دیا ہے، تو کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟

قرآن تمام ذی شعور انسانوں کو جنہیں وہ:﴿ اُولُوا الْاَلْبَابِ اور قَوْمٌ یَّعْقِلُوْنَ﴾ قرار دیتا ہے تفکر اور تعقل کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ :

﴿کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ﴾․ (یونس)

اسی طرح ہم کھولتے ہیں اپنی آیات ان لوگوں کے لیے جو تفکر کریں۔اور فرمایا :

﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ﴾․(النحل)

اور اتارا ہم نے آپ پر ذکر، تاکہ آپ جو کچھ لوگوں کے لیے اتارا گیا ہے اس کی وضاحت کردیں، تاکہ وہ تفکر کریں۔

اسی طرح فرمایا : ﴿کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾․ (البقرة)

اسی طرح اللہ اپنی آیات کی وضاحت فرماتا ہے، تاکہ تم اچھی طرح سمجھ بوجھ سکو۔

سورہ زخرف میں فرمایا :﴿اِنَّا جَعَلْنٰہُ قُرْء ٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ﴾ (الزخرف)

ہم نے اسے قرآن عربی بنا کر اتارا تاکہ تم اسے سمجھ سکو۔

سورہ ص میں فرمایا:﴿کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ﴾․(صٓ)

(یہ قرآن) ایک کتابِ مبارک ہے، جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی، تاکہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں اور سمجھ دارلوگ نصیحت حاصل کریں۔

تدبر کے ساتھ تلاوت کرنے والے کی کیفیت
جب انسان تدبر تفکر کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے تو اس کی کیفیت بدل جاتی ہے، اللہ کی عظمت کے احساس سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، جنت اور اس کی نعمتوں کے تذکرے سے پر شوق ہوتا ہے اور جہنم اور اس کی ہول ناکیوں کے تذکرے سے خائف ہوتا ہے… اس کیفیت کی عکاسی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ، تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ،ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَ قُلُوْبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ،ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہ مَنْ یَّشَآء ُ،وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہ مِنْ ہَادٍ﴾․

اللہ نے بہترین کلام نازل فرمایا، ایسی کتاب جس کی تمام باتیں ایک جیسی ہیں، بار بار دہرائی ہوئی، جو مسلمان اپنے رب سے ڈرتے ہیں اس سے ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف نرم ہوجاتے ہیں۔ (الزمر:23)

﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ﴾․(الانفال:2)

وہی لوگ مومن کامل ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل خوف زدہ ہوجائیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں تلاوت کی جائیں تو وہ ان کے ایمان کو زیادہ کردیں اور وہ اپنے رب پر ہی توکل کرتے رہیں۔

چوں کہ قرآن کریم میں سب سے زیادہ تدبر تفکر رسول اللہ صلی علیہ وسلم کرتے تھے اس لیییہ کیفیت سب سے زیادہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوتی تھی۔

ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہنے عرض کیا :یارسول اللہ!آپ بوڑھے نظر آ رہے ہیں (کہ آپ کے بال سفید ہوگئے) آپ نے فرمایا مجھے سورة ھود، سورة الواقعہ اور سورة المرسلات نے بوڑھا کردیا۔ (ان سورتوں میں قیامت کا ذکر ہے، یعنی قیامت کی ہول ناکیوں کے خوف سے آپ کے بال سفید ہوگئے۔ ) (شمائل ترمذی ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث: 3297 )

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، مجھے قرآن سناؤ۔ تو میں نے سورة النساء پڑھی۔ حتی کہ جب میں اس آیت پر پہنچا :”فکیف اذا جئنا من کل امة بشہید و جئنا بک علی ھؤلاء شہیدا“اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ہم آپ کو ان پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ (النساء: 41) ۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ (صحیح البخاری ،رقم الحدیث: 4582 ، صحیح مسلم ،رقم الحدیث:800)

قرآن مجید کے پانچ حقوق
ہر مسلمان پر حسب استعداد قرآن مجید کے پانچ حقوق عائد ہوتے ہیں:

اسے مانے جیسا کہ ماننے کا حق ہے ۔ (ایمان و تعظیم)

اسے پڑھے جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے ۔ (تلاوت و ترتیل)

اسے سمجھے جیسا کہ سمجھنے کا حق ہے ۔ (تذکر و تدبر)

اس پر عمل کرے جیسا کہ عمل کرنے کا حق ہے۔(حکم وا قامت)

قرآن کو دوسروں تک پہنچانا اسے پھیلانا اور عام کرنا۔ (تبلیغ و تبیین)

حسبِ صلاحیت ان حقوق کی ادائیگی لازمی ہے اور ان میں کوتاہی کرنا حق تلفی ہے۔(مستفاد از فضائل قرآن، بیان القرآن)

قرآن مجید کے حقوق کو ادا نہ کرنا قرآن کو ترک کر دینے کے مترادف ہے۔ سورة الفرقان میں محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی یہ فریاد نقل ہوئی ہے، جو روز قیامت آپ اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں کریں گے… فریاد کیا وہ مستقل مقدمہ ہوگا، ان لوگوں کے خلاف جو قرآن کریم کو چھوڑے ہوئے ہیں:﴿وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا﴾․

اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فریاد کریں گے کہ اے میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھاتھا۔

علامہ اقبال اسی آیت قرآنی کی طرف اپنے اس شعر میں اشارہ کرتے ہیں #
          خوار از مہجوری قرآں شدی
          شکوہ سنج گردشِ دوراں شدی!

(اے مسلمان!) تیری ذلت اور رسوائی کا اصل سبب تو یہ ہے کہ توقرآن سے دُور اور بے تعلق ہو گیا ہے، لیکن تو اپنی اس زبوں حالی پر الزام گردشِ زمانہ کو دے رہا ہے!

اللہ کے رسو ل صلی الله علیہ وسلم نے فر ما یا:”ان اللہ یرفع بہذا الکتاب اقواما ویضع آخرین“․ حق تعالیٰ سبحانہ اس کتاب سے کسی قوم کو عزت دیتا ہے اور کسی کو ذلت ، یعنی جس نے اپنا تعلق قر آن سے پیدا کرلیا معزز ہو ا اور جس نے نہ کیا ذلیل ہوا۔
          وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
          تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر

قرآن مجید میں دو مقامات پر قرآن کے حقوق ادا نہ کرنے کو قرآن کی تکذیب قرار دیا گیا ہے۔ آپ لاکھ سمجھیں کہ آپ قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں، لیکن اگر آپ اس کے حقوق کی ادائیگی اپنی استعداد کے مطابق اپنی امکانی حد تک نہیں کر رہے تو درحقیقت آپ قرآن کو جھٹلا رہے ہیں۔

امت مسلمہ کے زوال کے دو اسباب شیخ الہند کی نظر میں
شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے مالٹا کی تنہائیوں میں جو غور و خوض کرکے اس بیمار ملت کے لیے دوا تجویز کی تھی اے کاش! اس ملت نے اگر اس نصیحت پر عمل کیا ہوتا تو شاید آج حالات اتنے ناگفتہ بہ نہ ہوتے اور نہ صرف دوا تجویز کی تھی؛ بلکہ ترجمہ تفسیر کی شکل میں مالٹا سے نسخہ کیمیا بھی لے کر آئے تھے۔

حضرت مفتی محمدشفیع عثمانی اس سلسلے میں شیخ الہند کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: رہائی کے بعد ایک مرتبہ دارلعلوم دیوبند میں علما کے ایک مجمع میں آپ نے فرمایا:ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں۔ یہ الفاظ سُن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہو گیا کہ اس استاذ العلماء درویش نے اسّی سال علماء کو درس دینے کے بعد آخر عمر میں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں؟ فرمایاکہ: میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیامیں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں؟ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے:ایک ان کا قرآن کریم کو چھوڑ دینا، دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کیے جائیں ، بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔ مفتی صاحب فرماتے ہیں: نبَّاضِ امّت نے مِلّت ِمرحومہ کے مرض کی جو تشخیص اور تجویز فرمائی تھی، باقی ایّام زندگی میں ضعف وعلالت اور ہجومِ مشاغل کے باوجود اس کے لیے سعی پیہم فرمائی۔(وحدتِ امت)

قرآن کریم کو چھوڑ نے کی وجہ سے دنیا میں بھی ذلت اٹھانی پڑ رہی ہے اور آخرت میں بھی چھوڑنے والوں کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شکایت فرمائیں گے۔

ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو شفیع المذنبین ہیں، جن کی شفاعت ایک مسلمان کے لیے آخرت میں آخری سہارا ہے،اگر انہوں نے بھی آخرت میں ہمارے بارے میں یہ شکایت اللہ تعالیٰ کی بارگا ہ میں کردی کہ ہم نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا تھا تو پھر ہمارا ٹھکانہ کیا ہوگا؟

دنیا کی اکثر زبانوں کے مستند تراجم ہمارے لیے تحفہ ہیں
اس لیے ہر مسلمان اس بات کا عزم کرے کہ اس کا کوئی دن بھی قرآن کریم کی تلاوت اور تدبر تفکر سے خالی نہیں جائے۔

یہ بات بھی نہیں کہ اس کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہو، الحمد للہ اس دور میں تقریباً ہر زبان میں ہی قرآن کریم کے تراجم اور تفاسیر علماء کی جانب سے لکھے جا چکے ہیں،اس لیے ہر مسلمان کوشش کرے کہ اپنے پاس کوئی مستند ترجمہ یا تفسیر رکھے اور اس کو پڑھ کر قرآن کریم کوسمجھنے کی کوشش کرے،چوں کہ عام انسانوں کے لیے مستند ترجمہ تفسیر کی شناخت مشکل ہے؛ اس لیے کسی مستند عالم دین سے مشورہ کر کے انھیں کی نگرانی میں کوئی ترجمہ یا تفسیر حاصل کریں اور اس کو روزانہ پڑھنے کا معمول بنائیں۔

فہم کا حصول بلاشبہہ الفاظ کی قرات کا ہی نتیجہ ہوتا ہے اور اگر فہم حاصل نہ ہو رہا ہو تو محض الفاظ کی قرا ت کیوں کر مطلوب ہو سکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے فرمایا تھا:وہ آدمی اس (قرآن)کو سمجھ نہیں سکتا جو تین دن سے کم وقت میں اس کی قرات کر لیتا ہے۔ (صحیح الجامع الصغیر) (جاری)

مقالات و مضامین سے متعلق