اگر پہاڑوں کا جگر ہوتا تو بعید نہ تھا کہ وہ بھی شق ہو جاتا، اگر درختوں کی آنکھیں ہوتیں تو عجب نہ تھا کہ وہ بھی آنسوؤں کا دریا بہادیتے۔ اگر زمین کی زبان ہوتی تو کیا عجب کہ اس کے نالہ وفریاد سے کرہٴ ارض میں کہرام برپا ہو جاتا او راگر درندے ان انسان نما درندوں کو دیکھ لیتے، تو شاید وہ بھی شرم سار ہو جاتے اور درندگی میں صہیونیوں اور ان کی موافقت کرنے والوں کی بالا دستی کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے۔ اس خون آشامی، ظلم وبربریت، قتل وغارت گری کی وجہ سے جو اس وقت ”غزہ“ میں جار ی ہے، جس کو سالہا سال سے اسرائیل کے ساتھ ساتھ اس کے نام نہاد، بے حمیت، کوتاہ ہمت، ضمیر فروش او رمنافق نام نہاد مسلم حکومتوں نے ایک ایسے قید خانہ میں تبدیل کر رکھا ہے، جو بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہے۔
سلامتی ہو غزہ کے ان مجاہدین پر، جنہوں نے اپنے لہو سے اسلام کے شجر طوبی کو سینچنے کا عزم کر رکھا ہے۔ صد ہزار رحمتیں ہوں ان شہداء راہِ حق پر، جنہوں نے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ دین حق کی سرخ رُوئی کے لیے نچھاور کر دیا ہے۔ لاکھوں سلام شوق پہنچے ان معصوم نونہالوں پر جنہوں نے اسلام کی سر بلندی کے لیے اپنی معصوم جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا ہے او راسی قدر لعنتیں ان صلیبی اور صہیونی ظالموں پر جو دین واخلاق اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیر کر اپنی خوں آشامی کی خوپوری کر رہے ہیں او ران خوفِ خدا سے عاری او رہمت مردانہ سے خالی مسلم حکم رانوں پر، جن کے سینوں میں شیطان نے ”دل“ کی بجائے پتھر کی سل رکھ دی ہے۔ جن میں سے بعض علی الاعلان یا خفیہ طور پر اسرائیل کے ہم نوا ہیں اور بد ترین قسم کی برادر کشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ بارالہا! اپنے ان مظلوم بندوں پر رحم فرما، جن سے مغرب ومشرق کی عداوت صرف اس لیے ہے کہ وہ تیرے پاک نام سے نسبت رکھتے ہیں اور پروردگارا! ہلاک وبرباد فرما، ان شقی وبدبخت حکومتوں کو جو بے قصور انسانوں کے خون میں ڈوبی ہوئیہیں یا اس میں مدد گار ہیں!!
سوال یہ ہے کہ جو مسلمان اپنے ان مظلوم اور نہتے بھائیوں کی اخلاقی مدد کرنے کے سوا کچھ اور نہیں کرسکتے، انہیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک اصول بیان فرما دیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی برائی کو دیکھے تو اول اسے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے اوراگر اس پر قادر نہ ہو تو زبان سے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل سے۔ یعنی دل سے برا سمجھے اور دل میں یہ ارادہ رکھے کہ الله تعالیٰ جب بھی قدرت دیں گے، وہ اسے روکنے کی کوشش کرے گا۔ (ابوداؤد) ظلم وجور سے بڑھ کر کوئی منکر اور برائی نہیں، یہ تو دنیا میں شرک سے بھی بڑھ کر ہے، کیوں کہ دنیوی احکام کی حد تک شرک کو گوارا کیا جاسکتا ہے، لیکن ظلم ایسی برائی ہے کہ وہ کسی طور پر قابل قبول نہیں۔ کفر وشرک بھی ایسا جرم نہیں کہ جو شخص پہلے سے اس عقیدہ پر ہو، اسے قتل کرنا جائز ہو، لیکن اگر کوئی شخص کسی کا مال لے لے، کسی کی عزت وآبرو پر حملہ آور ہو، یا کسی کو قتل کر دے تو وہ ضرور لائق سزا ہے۔ پس ظلم سب سے بڑی برائی ہے اور اپنی طاقت وصلاحیت بھر اس کی مخالفت واجب ہے! مخالفت او رناراضگی کے اظہار کا ایک طریقہ ترکِ تعلق بھی ہے او رظالموں کے ساتھ ترک تعلق کی تعلیم خود قرآن مجیدنے دی ہے، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ: اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو ان کو دوست رکھے گا، وہ ان ہی میں سے ہوگا۔ بے شک الله ظلم شعار لوگوں کو ہدایت نہیں دیتے۔ (المائدہ)
اس آیت میں ایک جامع لفظ ”دوست نہ بنانے“ کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ایک معنی خیز تعبیر ہے، جس میں قلب ونگاہ کی محبت، فکر ونظر میں تاثر، سماجی زندگی کی مماثلث او رمالی معاملات وتعلقات سب شامل ہیں۔ یہ کوئی شدت پر مبنی حکم نہیں ہے، بلکہ ظلم کے خلاف ناراضگی کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ اس آیت کے اخیر میں ظالموں کا تذکرہ کرکے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا کہ جو یہود ونصاریٰ ظلم وجور پر کمر بستہ ہوں، مسلمانوں کے لیے اپنی طاقت وقدرت کے مطابق ان سے بے تعلقی برتنا واجب ہے۔ الله تعالیٰ نے ایک او رموقع پر اس حکم کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہے، ترجمہ: بے شک الله تم لوگوں کو ا ان لوگوں سے تعلق رکھنے سے منع کرتے ہیں، جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی، تم کو تمہارے گھروں سے نکالا او رتمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی اور جوان سے تعلق رکھیں، وہ بھی ظالم ہیں۔ (الممتحنہ)
گھروں سے نکالنا، محض دین کی بنا پر آمادہٴ قتل وقتال ہونا اور جو لوگ مسلمانوں کے شہروں او رآبادیوں کو ویران کرنے پر تلے ہوئے ہوں، ان کو مدد پہنچانا، یہ وہ اوصاف ہیں جن کے حامل بدطینت یہودیوں اورنصرانیوں سے بے تعلقی برتنے کا حکم دیا گیا ہے۔ غور کیجیے کہ کیا آج امریکا وبرطانیہ ان جرائم کے مرتکب نہیں ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ بوسینا میں مسلمانوں کے قتل عام میں در پردہ برطانیہ نے ظالم سربوں کی مدد کی ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان ممالک کی جفا کاریوں اور ستم انگیزیوں کی وجہ سے افغانستان کے مسلمان بڑی ابتلاؤں سے گزرے ہیں؟ کیا یہ اس ظالم اسرائیل کے ناصر ومدد گار نہیں ہیں جو آئے دن بے قصور فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں؟ او رجنہوں نے لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے مادر وطن میں رہنے کے حق سے بھی محروم کر دیا ہے ؟ قرآن نے جن یہود ونصاری سے بے تعلق ہونے اور رشتہ محبت کاٹ لینے کا حکم دیا ہے ان مغربی طاقتوں میں ان میں سے کون سی بات نہیں پائی جاتی؟ پھر کیا ایسے اعدائے دین سے بے تعلقی واجب نہ ہو گی؟۔ ” الله تعالیٰ تمہیں ان غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف سے نہیں روکتا، جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہ کی ہو او رتمہیں تہارے گھروں سے نہ نکالا ہو، بے شک الله انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں“۔ (الممتحنہ)
جو غیر مسلم انصاف کی روش پر قائم ہوں، وہ ہمارے انسانی بھائی ہیں او رہمارے برادرانہ سلوک اور حسن اخلاق کے مستحق ہیں اور ان کے ساتھ زیادتی کسی طور جائز نہیں۔ بے تعلقی کا حکم ان لوگوں سے ہے، جنہوں نے اسلام او رمسلمانوں کے بارے میں جارحانہ اور نامنصفانہ روش اختیار کر رکھی ہو۔ یہ سمجھنا کہ کسی خاص شخص کی حوالگی یا کسی خاص مطالبہ کی تکمیل مغربی طاقتوں کو مطمئن کر دے گی اور اسلام کے خلاف بغض وعناد کی جو آگ ان کے سینوں میں سلگی ہوئی ہے، اسے بجھانے میں کام یاب ہو جائے گی، محض ایک طفلانہ خیا ل ہے۔ اس عناد کا اصل نشانہ اسلامی فکر وعقیدہ، اسلامی تہذیب وثقافت اور مسلمانوں کا قبلہٴ اول مسجد اقصیٰ ہے۔
قرآن نے یہود ونصاری کی نفسیات اوران کے اندرونی جذبات کی خوب ترجمانی کی ہے اور یہ بات جس قدر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں مبنی برواقعہ تھی، اسی قدر آج بھی ہے کہ : یہود ونصاریٰ آپ سے اس وقت تک راضی ہو ہی نہیں سکتے، جب تک آپ ان کے دین کے پیرو نہ ہو جائیں ، آپ کہہ دیجیے کہ ہدایت تو وہ ہے جو الله کی ہے، اگر آپ علم حاصل ہونے کے بعد بھی ان کی خواہشات کی پیروی کرنے لگیں تو آپ کے لیے الله کے مقابلہ کوئی حامی ومدد گار نہ ہو گا۔ (البقرہ) قرآن نے اس میں یہود ونصاری کے اندرونی جذبات کو کھول کر رکھ دیا ہے او رخلافت عثمانیہ کے سقوط سے اب تک عالم اسلام میں جو جنگیں ہوئی ہیں ، وہ سب اس کے واضح شواہد ہیں۔ اس لیے جب تک مسلمان اپنے مذہبی تشخصات اور اپنے ثقافتی امتیازات کو خیر باد نہ کہہ دیں، مسجد اقصیٰ سے اور اپنے مقدسات سے دست بردار نہ ہو جائیں اور پوری طرح مغربی فکر او رمغربی ثقافت کے سامنے جبین تسلیم خم نہ کر دیں، ان کی تشفی نہیں ہوسکتی اور ان شاء الله مسلمان کبھی اس کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ اس لیے کہ وہ دین کے لیے سب کچھ کھونے کو ”پانا“ اور الله کی راہ میں رگِ گلو کٹانے کو ”جینا“ تصور کرتے ہیں اور یہ ان کے ایمان وعقیدہ کا حصہ ہے۔
ہم میں سے ہر شخص کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں وہ سب کرنا چاہیے جو ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے کرسکتے ہیں۔ کم سے کم درجے میں ہم امریکا اور اسرائیل کی تجارتی اشیاء کا بائیکاٹ کریں، جس کی فہرست بھی اخبارات اور سوشل میڈیا میں آچکی ہیں، یہ بھی منکر پر ناراضگی کے اظہار اور ظلم سے بے تعلقی برتنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے اور شرعاً بہ حیثیت مسلمان ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ اس سلسلہ میں جو طریقہ اختیار کرنا ہمارے لیے ممکن ہو، ہم اس سے دریغ نہ کریں۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ صرف مسلمانوں کے بائیکاٹ کرنے سے ان کا کیا نقصان ہو گا؟ یہ درست نہیں ہے۔ اوّل تو اگر مسلم ممالک بھی اس بائیکاٹ میں شامل ہو جائیں تو اس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسرے مسئلہ ان کو نقصان پہنچنے اورپہنچانے کا نہیں ہے، بلکہ اپنی طرف سے اظہار ناراضگی کا ہے، کتنے ہی واقعات پیش آتے ہیں کہ خاندان میں اختلاف پیدا ہوا اور اس کی وجہ سے ایک دوسرے کی دعوت میں شرکت سے گریز کرنے لگے، یہاں تک کہ بعض اوقات بات چیت بھی بند ہو جاتی ہے ، حالاں کہ معلوم ہے کہ اس کے دعوت میں شریک نہ ہونے او ربات نہ کرنے سے دوسرے شخص کا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے، لیکن مقصود اپنے جذبات کا اظہار ہوتا ہے، یہی جذبہ یہاں بھی ہونا چاہیے۔ غرض کہ یہ انسانی فریضہ ہے، یہ شرعی ذمہ داری ہے اور حمیت ایمان اور غیرت اسلامی للکار کر ہم سے پوچھ رہی ہے کہ کیا ہم اس کے لیے بھی تیار نہیں ہیں؟؟