یہ بات تو ا ربابِ عقل وخرد کے نزدیک ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ دورِحاضر میں کسی بھی فن سے متعلق ماہر وفاضل شخصیت کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، نیز بوقت ِ ضرورت اسی کی جانب مراجعت کو سمجھ داری تصور کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ علاج ومعالجے کے سلسلہ میں بھی جنرل فیزیشن کے مقابلے میں اسپیشلسٹ سے راہ نمائی کو حقائق کی دنیا میں قابلِ ترجیح سمجھا جاتا ہے۔
یہی روِش ومعیار علومِ دینیہ میں بھی رائج ہے، نیز اگر اس کو قانونِ فطرت سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، چناں چہ احادیث نبویہ سے بھی بعض اصحاب نبوی کا بعض علوم سے خصوصی شغف وتعلق اس علم وفن میں اختصاص وکمال کو واضح کرتاہے، جیسا کہ:”حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا علم الفقہ میں،حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ “ اعلم الفرائض میں اورحضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا فن قراء ت میں اختصاص از روئے حدیث ثابت ہے۔نیز متقدمین ومتاخرین کی تصریحات بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ علوم ضروریہ کے کلی واصولی قواعد کی معرفت کے بعد ذہنی وطبعی میلان ورجحان کے ذریعہ کسی ایک فن کا انتخاب کرکے اس میں اختصاصیت ونبوغ حاصل کرنا نہایت مفید ہے۔
اختصاص کا مفہوم
قبل از ایں کہ بات کو آگے بڑھایا جائے، اختصاصیت کے مفہوم پر روشنی ڈالنا نہایت ضروری ہے۔
”التخصص ھو التفحص والحصول علی ملکة قویة فی فن من الفنون أو علم من العلوم بحیث یحاط بہ علی أکثر أصولہ وتفریعاتہ بمھارة تامة فی التطبیق والتدریب حسب تلک الأصول“․(بینات عربی، سہ ماہی، محرم، صفر وربیع الاول، مقالہ از رکن مجلس دعوت و تحقیق اسلامی واستاذ جامعہ مولانا جمیل احمد برہان ، حفظہ اللہ)
”تخصص دراصل طلب و جستجو کا نام ہے، نیز کسی بھی علم میں اس طور پر کامل دست رس کا حصول،جس میں اس فن سے متعلق اکثر اصول وتفریعات پر قواعد متفقہ کی روشنی میں کمال ومہارت کے ذریعہ تطبیق وتمرین پر کامل احاطہ و دست رس پانے کا نام تخصص ہے“۔
اختصاص کی اہمیت
یہ بات تو ظاہرو باہرہے کہ موجودہ دور میں پست ہمتی اور متاعِ حیات کے مختصر ہونے کے ساتھ اس میں جملہ (تمام) علوم وفنون پر گرفت پالینے کی خواہش کرنا ایک امر مستبعد ہے، حتی کہ اس قسم کی کوشش کو معیوب گردانا گیا ہے، چناں چہ فقہ ظاہری کے امام ابن حزم (المتوفی:456ھ) فرماتے ہیں :
من طلب الاحتواء علی کل علم أوشک أن ینقطع وینحسر، ولایحصل علی شیء وکان کالمحضر إلی غیر غایة؛ إذ العمر یقصر عن ذلک،ولیأخذ من کل علم بنصیب، ومقدار ذلک: معرفتہ بأعراض عن ذلک العلم فقط، ثم یأخذ مما بہ ضرورة إلی ما لابدّ منہ، کما وصفنا۔ ثم یعتمد العلم الذی یسبق فیہ بطبعہ وبقلبہ وبحیلتہ، فیستکثر منہ ما أمکنہ۔ فربما کان ذلک منہ فی علمین أو ثلاثة أوأکثر، علی قدر ذکاء فھمہ، وقوة طبعہ ،وحضور خاطرہ، وإکبابہ علی الطلب۔(رسائل ابن حزم الأندلسی، لأبی محمد علی بن محمد بن سعید بن حزم الاندلسی، ط: المؤسسة العربیة للدراسات والنشر:4/77 )
”جو شخص تمام علوم میں جامعیت کا خواہش مند وطالب ہوا ، وہ ختم ہوکر رہ گیااور اپنے مقصود کو حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس کی مثال تیز رفتار شخص کی مانند ہے جو ہدف ومنزل کی تعیین کے بغیر خود کو تھکاتا ہے، اس لیے کہ انسانی عمر کی میعاد نہایت مختصر ہے، (ایسی صورت میں سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ) ہر علم میں سے کچھ کچھ حصہ کرلینا چاہیے، جس کا معیار ومقدار یہ ہے کہ اس علم کے بنیادی واہم مقاصد تک رسائی کے بعد ضروری مباحث ومسائل کو حاصل کرے۔ اس کے بعد جس فن کی جانب طبعی وقلبی رجحان ومیلان ہو اس میں حتی الوسع خود کو مشغول رکھے۔ نتیجہ میں ممکن ہے کہ وہ اپنی فہم وذکاوت،طبیعت کی قوت اور جمعیت ِ خاطر اورعلمی توجہ کے سبب دو یا تین یا اس سے زائد علوم میں اختصاص وکمال پیدا کرسکے گا۔“(اور یہی اس کے لیے باعث امتیاز ثابت ہوگا)
یہی نقطہ نظر عام فہم انداز میں امام مبرد (المتوفی:909ھ)کی زبانی ملاحظہ ہو:”جو شخص باکمال بننا چاہتا ہے ،اس کو چاہیے کہ ہر علم سے بقدر ضرورت حاصل کرکے پھر کسی ایک فن کو اپنا موضوع بناکر کمال پیدا کرے۔“(عمدة الکتاب لأبی جعفر النحاس النحوی أحمد بن محمد اسماعیل (متوفی:338ھ)، صفحہ،147، ط:دار ابن حزم)
کسی فن میں مہارت واختصاص کے نتیجہ میں حاصل شدہ فوائد وثمرات کی امام محمد کے تلمیذِ خاص، لغت کے امام ابو عبیدہ قاسم (المتوفی:224ھ)کا مشہور قول بہترین عکاسی کرتا ہے، وہ فرماتے ہیں: ”ما ناظرنی رجل قط وکان مفننا فی العلوم إلا غلبتہ، ولا ناظرنی رجل ذو فن واحد إلا غلبنی فی علمہ ذلکَ“․(جامع بیان العلم وفضلہ، لأبی عمر یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر (متوفی:463ھ) ، 1/522، دار ابن جوزی) مجھ سے جس کسی شخص نے بھی مناظرہ کیا اور وہ متعدد علوم پر نظر رکھنے والا تھا سو میں اس پر غالب رہا، لیکن ایک فن کے ماہر شخص کو اپنے فن میں مہارت کے نتیجہ میں مجھ پر ہمیشہ غلبہ حاصل رہا ہے۔
فضلاء ِ درس نظامی کے لیے علوم حدیث میں اختصاص کی اہمیت وضرورت
عام طور پر مدارس ِ اسلامیہ سے رسمی طالب علمی سے فراغت کے بعدفضلاء کو ہر فن سے متعلق بنیادی شناسائی تو ضرور پیدا ہوجاتی ہے، لیکن کسی ایک فن میں اختصاصی مہارت تک رسائی حاصل نہیں کرپاتے۔ اور ظاہر ہے کہ کسی فن میں کمال واختصاص اس فن سے متعلق ایک دو کتب کی عبارت خوانی سے ممکن بھی نہیں، مروّجہ نصاب محض آگے علمی دنیا میں قدم رکھنے کے لیے بمنزلہ سیڑھی کے ہے، جس کو بروئے کار لاتے ہوئے آگے راہِ سفر کے انتخاب میں مدد ملتی ہے، چناں چہ اربابِ مدارس ِ دینیہ کی جانب سے اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اختصاص کے مختلف شعبہ جات قائم کرکے مطالعہ کا ذوق رکھنے والے فضلاء کو اس میں شرکت کی باقاعدہ ترغیبی مہم چلائی جاتی ہے۔
ذیل میں دورہ حدیث سے رسمی سند فراغت حاصل کرنے والے ایک عام متوسط درجہ کے عالم کی استعداد ولیاقت کو مدّنظررکھتے ہوئے چند علمی وعملی فوائد کو نذرِ قارئین کیا جاتا ہے:
اہل علم ا س بات سے بخوبی واقف ہیں کہ علمی پختگی ومتانت کا حصول متداول چند کتب سے ہرگز ممکن نہیں ہے، چناں چہ ایسی صورت حال میں علمی رسوخ کا مفید ترین ذریعہ شعبہ اختصاص سے منسلک ہونا ہے، جس میں علوم الحدیث موضوع کی شرافت، مقصد کی رِفعت، مسائل کی کثرت، مباحث کی وسعت اور نتائج کی نزاکت کے لحاظ سے نہایت اہم ترین علم ہے، جس میں خصوصی اشتغال ومہارت علمی رسوخ وترقی سمیت نبی صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی کی محبتِ عقلی ، طبعی وایمانی کے حصول کا مؤثر ذریعہ ہے۔
کتب ستہ و شاملِ نصاب دیگر کتبِ حدیث پر مشتمل درس نظامی کا یہ دورانیہ بسااوقات نصاب کی طوالت ، تنگیٴ وقت اور حالات کے نشیب وفراز کے باعث سرد عبارت کی نذر ہوکر علمی وتحقیقی مباحث پر سے تیز رفتاری سے گزرجاتا ہے، جس کی تشنگی طالب علم ہمیشہ محسوس کرتا ہے، جس کا ازالہ اس فن سے خصوصی اشتغال کی صورت میں کیا جانا ممکن ہے۔
درس نظامی کے مروّج نصاب کی تکمیل کا بار بسااوقات روایت کی سند ورواة پر کلام تو کُجا ،متنِ حدیث کی تشریح وتوضیح سے بھی منتہی طا لب علم کو محروم کردیتا ہے، جس کا احساس دورانِ تدریس محسوس کیا جاتا ہے۔
احادیث کی تشریح وتوضیح، تطبیق وحلّ عقدات کے سلسلہ میں علمائے دیوبند کی علمی خدمات وثمرات کا تذکرہ اسباق کی کثرت اور طالب علمی کے لا اُبالی پن کے نتیجہ کا شکار ہوکر محض گفت وشنید تک محدود رہ جاتا ہے، جس کا گہرائی وگیرائی سے جائزہ ایک طویل فرصت ویکسوئی کا متقاضی ہوتا ہے، جس کے لیے شعبہ اختصاص کا قیام نہایت موزوں ہے۔
متداول نصاب سے سند فراغت کے بعد اکثرو بیشترذی استعداد فاضل بھی حنفیہ کے اصول حدیث سے ناآشنائی اور متداول حافظ ابن حجر (المتوفی:852ھ)کی”نزھة النظر فی توضیح نخبة الفکر“اور علامہ سیوطی (المتوفی:911ھ) کی ”تدریب الراوی فی تقریب النواوی“کو پڑھ کرحدیثی مباحث میں محدثین و شافعیہ کے اصول کو مدّنظر رکھتے ہوئے شدیداُلجھن کا شکار ہوجاتا ہے اور بقول اقبال مرحوم ”چند کلیوں پر قناعت کرکے“علمائے احناف کو اس میدان میں مسبوق تصور کرتا ہے۔ چناں چہ اس غلط فہمی کا ازالہ شعبہ اختصاص کے چند ابتدائی وتمہیدی محاضرات میں ہی کردیا جاتا ہے۔
اکثر وبیشتر علوم حدیث کی دو تین کتب پر انحصار اور کتب تراجم سے عدم ممارست کے نتیجہ میں منتہی طالب علم بھی علمائے احناف کی دیدہ ور ، لائق تقلید شخصیات کے تقوی و للہیت سے متعلق واقعات اور علمی اسفار میں پیش آمدہ مصائب ومشکلات سے نا واقف مشہور جملہ”چراغ تلے اندھیرے“کا مصداق ٹھہرتا ہے، جس کی وافر معلومات سے پُر الماریاں متخصصینِ علومِ حدیث کی راہ تکتی نظر آ تی ہیں۔
اس فن میں اختصاص علمی وعوامی حلقوں میں چلنے والی شدید ضعیف و موضوع روایات کے سدباب کا بہترین ذریعہ ہے، نیز اس فن میں اشتغال صحیح وضعیف مرویّات کے مابین امتیاز کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔
درس نظامی کے ایک طویل مرحلہ کو طے کرنے کے باوجود متوسط استعداد کے حامل بعض طلباء ساتھی تصنیفی وخطابی صلاحیتوں سے نابلد ہوتے ہیں، جس کا بنیادی سبب اس موضوع سے متعلق مواد کی عدم دستیابی و مطالعہ کی نُدرت ہوتا ہے، شعبہ اختصاص میں اس نہج سے تربیتی تمرین وتدریب کے مراحل سے گزارا جاتا ہے، جس کے بعد کتب بینی کا مشغلہ اس کا اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے، جس کو زندگی کے نشیب وفراز کے باوجود ترک کرنا نفس پر نہایت گرانی کا باعث بنتا ہے۔
معاشرے میں جنم لینے والا وہ گروہ جو خود کو تقلید سے آزاد براہ راست احادیث نبویہ سے استفادہ کی ناکام کوشش کرتا ہے، سوشل وپرنٹ میڈیا کے توسط سے مسلک حنفیت اور اس کے بانی مبانی امام اعظم ابو حنیفہ کے خلاف دشنام درازی کو قابل فخر گردانتے ہوئے حدیث کے مقابلے میں قیاس ورائے کو ترجیح دینے کا الزام دھرتا ہے، جس کے نتیجہ میں درس وسماع کی حد تک محدود دلائل سمیت منتہی طالب علم بھی مرعوب نظر آتا ہے، لیکن اس شعبہ سے وابستگی وتکمیل کے بعد وہ مذہب حنفیت پر علی وجہ البصیرة عمل کر تا ہے۔
سیکولر وعقلیت پسند اور مغربی تہذیب کے مدّاح افراد آئے روز نت نئے مباحث چھیڑ کراپنی مردہ اسکیم میں روح پھونکنے کی غرض سے قدیم اعتراضات کو جدید و دلفریب عنوانات تعبیرات کا لبادہ اوڑھا کر پیش کرتے ہیں، جس کے طریقہ واردات سے عدم معرفت بسااوقات معاشرے کی پُرسکون فضا کو شکوک وشبہات کے مہلک جراثیم سے متعفّن کردیتی ہے۔
علوم الحدیث میں اختصاص کی بدولت عملی زندگی میں مُشاہَد خوش آئند اثرات
اس علم کے ذریعہ عملی زندگی میں بھی تبدیلی وانقلابات رونما ہوتے دکھائی دیئے ہیں، جن میں چند درج ذیل ہیں:
درس نظامی کی محدود کُتب سے آگے کمال واتقان پیدا کرنے کی غرض سے علمی سفر کا یہ اقدام علوم کی وُسعت اورتصنیف کردہ کتب کی کثرت، انسان کے دل میں پیدا شدہ علمیت کا طلسم توڑکراپنی جہالت کا اعتراف کرنے پر مجبور کرتی ہے، جس کے بعد اس کا دل تحقیر وعُجب پسندی کے مرض سے کافی حد تک نجات پاتا ہے اور زبانِ حال سے اس مقولہ کی ترجمانی کرتا ہے:”لَیْسَ مَعِی مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا أَنِّی أَعْلَمُ أَنِّی لَسْتُ أَعْلَمُ“ (جامع بیان العلم وفضلہ 1/530۔
یہ مقولہ بعض اہل علم کی جانب منسوب ہے، کسی کے نام کی تصریح درج نہیں ہے۔) میرے پاس تو بجز اس بات کے کچھ علم نہیں کہ مجھے کسی بات کا علم نہیں۔
مصادر ومراجع کی جانب بارہامراجعت کے باوجود ناکامی کی صورت میں اپنی لا علمی کا اظہار و اعتراف اس عالم میں دیانت وصداقت کی صفات کو اجاگر کرتا ہے۔
علوم الحدیث سے ممارست کے نتیجہ میں سلف صالحین کے حالاتِ زندگی اور تعیش پسندی سے کنارہ کشی کے واقعات دل پر اس قدر اثر کرتے ہیں کہ عام طور پر متخصصین فی علوم الحدیث کی زندگی میں اس سادگی کا اثر واضح طور پرنمایاں ہوتا ہے۔
بساااوقات کسی جزئیہ کی تلاش ہزاروں صفحات کی ورق گردانی پر مجبور کرکے تحقیق وجستجو کا شوق پیدا کرتی ہے، جس کے بعد بغیر تحقیق یا بے سند بات کو آگے چلتا کردینے پر متخصص کا ضمیر ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
اس مفید مرحلہ کا سفر انسانی جذبات واقدار کی حق تلفی سے محفوظ رکھتے ہوئے قدر شناسی کے وصف سے روشن زندگی میں نکھار پیداکرتا ہے، جس کے نتیجہ میں اکابر ِعلماء کی تحقیق پر مزید اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔
کتب بینی کا مشغلہ انسانی طبیعت کو ٹھہراؤ ویکسوئی کے وصف سے نوازتا ہے، جس کی عملی تدریب ومشق کے لیے تخصص فی علوم الحدیث کا انتخاب نہایت موزوں ہے۔
تراجمِ محدثین ‘خصوصا وصف للہیت واستغنا کا بغور مطالعہ ذاتی زندگی میں عمل پر آمادگی پیدا کرتا ہے، جس سے اسلامی مزاج کا تسلسل و توارث برقرار رہتا ہے۔
احادیث نبویہ علی صاحبھا الصلوات والتسلیمات کی خدمت میں مشغولیت کا شرف اس قدر باعثِ برکت عمل ہے کہ سلف صالحین نے اس کو فتنوں سے خلاصی ونجا ت کا باعث قرار دیا ہے۔
ہر نئے میدان میں قدم رکھنے سے قبل اور آغازِ سفر کے وقت اس فن کے ماہر شخص سے مشورہ کی ضرورت پیش آتی ہے، متخصص فی علوم الحدیث اس حوالہ سے آداب کی رعایت بجا لاتے ہوئے اجر وثواب حاصل کرتا ہے۔
علوم الحدیث میں مختلف علوم ومباحث کو ضبط ویکجا کرنے کے لیے مضامین لکھنے کا اہتمام کرایا جاتا ہے، جو متخصص میں تصنیفی صلاحیت پیدا کرکے معاشرے کے لیے ایک بہترین آئیڈیل پیش کرتا ہے۔
تخصص کے لیے درکار نہایت اہم امور
ہر علم کے حصول میں چند باتوں کا اہتمام نہایت ضروری ہے،یہ ہدایات دیگر فنون کے متخصصین کے لیے بھی ان شاء اللہ نہایت مفید ثابت ہوں گی۔
استاذ ومُشرف کی صحبت ومجالست:جدید آلات وٹیکنالوجی کی دستیابی و ِ فراہمی نے اساتذہ کی نجی مجالست ومصاحبت سے طالب علم کو دور کر دیا ہے، جس کے نتیجہ میں درس کے علاوہ اوقات کو بجائے قیمتی بنانے کے وہ اسکرین کے سامنے بیٹھ کر بسااوقات خود کوعلمی میدان کا کام یاب شہسوار تصور کرکے تاک لگائے بیٹھے فریق مخالف کو مناظرہ ومجادلہ کی دعوت دیتا ہے اور کسی استاذ یا بزرگ صحبت ومشرب سے فیض یابی سے محرومی کی بنا پر وہ باطل نظریات کا حامل ہوکر معاشرے کے لیے ایک ضمیر فروش ناسور کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
اس صحبت ومجالست کی اہمیت پر مولانا عبدالرشید نعمانی (سابق رئیس شعبہ تخصص فی الحدیث جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن، متوفی:1420ھ) کا اپنے استاذ مولانا محمد عاقل صاحب (سابق شیخ الحدیث ونگران شعبہ تخصص فی الحدیث جامعہ مظاہر علوم)کے ساتھ سلسلہ مکاتبت سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں، جو مولانا نعمانی نے اپنے استاذ کی خدمت میں لکھا تھا:
یاد آتا ہے کہ آپ نے ‘”تخصص فی الحدیث “کے بارے میں دریافت فرمایا تھا۔محترما !تخصص تو وہ ہے جو شیخ کی خدمت میں رہ کر حاصل ہو، جیسے آپ کو حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں رہ کر حاصل ہوا، حضرت شیخ کو حضرت سہارن فوری کی خدمت میں رہ کر حاصل ہوا۔ (ضمیمہ مقدمہ الدر المنضود:1/14 ۔افادات درسیہ مولانا محمد عاقل صاحب، ط:مکتبة الشیخ بہادرآباد)
ممارست وانہماک:علم حدیث کا متخصص ہو یا کسی اور فن کا، اس کے لیے یکسوئی کے ساتھ ممارست نہایت ضروری ہے، اگر تخصص کی سند کے حصول کے بعد وہ اپنے لیے کسی اور میدان کا انتخاب کرکے اسی میں منہمک ہوجاتا ہے اور اس علم سے ممارست کو ترک کردیتا ہے، سو یہ اپنی نگاہ میں اس فن کی اہمیت کوخود گھٹانے کے مترادف ہے، امام جرح وتعدیل عبدالرحمن مہدی (المتوفی: 198ھ) فرماتے ہیں :
”إنما مثلٍ صاحب الحدیث مثل السمسار،إذا غاب عن السوق خمسة أیام تغیر بصرہ“․(الجامع لأخلاق الراوی وآدابہ، لأبی بکر أحمد بن علی الخطیب البغدادی(متوفی: 463ھ)، 2/278، مکتبة المعارف، 1848)
”طالب ِحدیث کی مثال تو دلال کی ہے (موجودہ دور میں اس کوMoney changerسے سمجھا جانا آسان ہے)اگر چند روز بھی مارکیٹ سے دور رہے تو اس کی فنی بصیرت میں فرق آجاتا ہے۔“
نیزعلمی میدان میں یکسوئی کے حصول پر ہمارے جامعہ کے سابق مہتمم حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب (المتوفی1442ھ) تعلیمی سال کے آغاز پر منعقد تربیتی نشست میں اس حوالہ سے تاکید فرماتے تھے اور اس کو ”الاستجماع“سے تعبیر فرماتے تھے۔
عمل کا شوق:اس وسیع میدان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہدایات وراہ نمائی احادیث نبویہ علی صاحبھا الصلوات والتسلیمات اور سلف صالحین کے نوشتہ حیات سے ملتی ہیں، جن کو اپنی عملی زندگی میں زندہ کرکے اس کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو ایک باعمل وحسن ِ کردار کاحامل شخص بناکرامت کے لیے علم وعمل کا جامع بہترین نمونہ بناکر پیش کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو تادمِ حیات اخلاص ویکسوئی کے ساتھ علوم الحدیث کی خدمت کرنے اور اس کی برکت سے نبی صلی الله علیہ وسلم کی عشق ومحبت سے معمور اتباع کی توفیق نصیب فرمائے (آمین)۔