حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَیٰ بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ ﴾․ (سورةآل عمران، آیت:1)
وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم :”اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان، وبلغنا رمضان․“( المعجم الأوسط للطبرانی، من اسمہ علی، رقم الحدیث:3939، وشعب الإیمان للبیہقی، الباب الثالث والعشرون من شب الإیمان وھو باب فی الصیام، تخصیص شھر رجب بالذکر، رقم:3815)
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم․
میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! رجب المرجب کا مہینہ ختم ہو رہا ہے، اسلام میں سال کے بارہ مہینے ہیں اور یہ سال کے بارہ مہینے سو سال، پانچ سو سال، ہزار سال پہلے یا آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں یا آپ سے پہلے کسی نبی اور رسول کے زمانے میں، یہ بارہ مہینے مقرر نہیں ہوئے، بلکہ یہ بارہ مہینے تو اس وقت سے ہیں جب الله تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا، اس وقت الله تعالیٰ نے بارہ مہینے متعین اور مقرر فرمائے۔
”چناں چہ قرآن کی آیت ہے:﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّہُورِ عِندَ اللَّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِی کِتَابِ اللَّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ﴾․ (سورة التوبة، آیت:36)
”حقیقت یہ ہے کہ ا لله کے نزدیک مہینوں کی تعدادبارہ ہے، جو الله کی کتاب ( یعنی لوح محفوظ) کے مطابق اس دن سے نافذ چلی آتی ہے جس دن سے الله نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا، ان بارہ مہینوں میں سے چار رحمت والے مہینے ہیں“۔
ان بارہ مہینوں میں چار مہینے بطور خاص عزت والے، حرمت والے، عظمت والے ہیں اور یہ جوعزت والے، حرمت والے، احترام والے چار مہینے ہیں یہ بھی اس وقت سے ہیں، جب الله تعالیٰ نے آسمان وزمین پیدا فرمائے، یہ بھی بعد میں کسی نے نہیں بنائے، کسی نبی اور رسول نے نہیں بنائے، ہمارے پیارے رسول صلی الله علیہ وسلم نے نہیں بنائے۔”عن أبی بکرة رضی الله عنہ، عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: إن الزمان قد استدار کھیئتہ یوم خلق الله السموات والأرض، السنة اثنا عشر شھرا، منھا أربعة حرم، ثلاث متوالیات: ذوالقعدة، وذوالحجة والمحرم ورجب مضر الذی بین جمادی وشعبان․“ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الأضاحی، باب من قال: الأضحی یوم النحر، رقم الحدیث:5550، وسنن أبی داود، کتاب المناسک، باب الأشھر الحرم، رقم:1949)
ان میں تین مہینے تو مسلسل پے درپے ہیں۔ پہلا مہینہ ذوالقعدہ کا ہے، دوسرا مہینہ ذوالحجہ کا ہے اور تیسرا مہینہ محرم الحرام کا ہے اور چوتھا مہینہ ان تین مہینوں کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان رجب کا مہینہ ہے۔
تو یہ چار مہینے حرمت والے ہیں، عظمت والے ہیں، یہ چار مہینے قابل احترام ہیں، اب ان کے عظمت والے ہونے کا یا ان کے حرمت والے ہونے کا، قابل احترام ہونے کا مقصد کیا ہے؟
مقصد یہ ہے کہ ان چار مہینوں میں الله کی عبادت زیادہ سے زیادہ کی جائے او ربہت تفصیلات ہیں، لیکن خلاصہ یہ ہے کہ ان کو جو حرمت ان کو جو عظمت، ان کو جو عزت دی گئی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ان مہینوں میں خوب ا لله کی عبادت کی جائے، الله کی طرف رجوع او رانابت اختیار کیا جائے اور جو احکام ان مہینوں کے ہیں ان پر عمل کیا جائے۔
اب چوں کہ ہم رجب المرجب کے مہینے سے گزر رہے ہیں، اور یہ مہینہ بھی عزت، عظمت، حرمت والا ہے اور پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعا بھی اس کے ساتھ شامل ہوگئی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا فرمائی:﴿اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان ، وبلغنا رمضان﴾
اے الله ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکتیں عطا فرما۔
آپ جانتے ہیں کہ برکت یوں ہی حاصل نہیں ہو جاتی کہ ہم کچھ بھی نہ کریں او رہمیں برکت حاصل ہوجائے… ایسا تو نہیں ہوتا۔
قرآن کریم میں آپ سورة فاتحہ بار بار پڑھتے ہیں، اس میں کیا ہے ﴿إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ﴾
، پہلے عبادت ہے، اس کے بعد استعانت ہے، پہلے کچھ کرنا ہو گا، پھر الله سے مدد مانگنی ہو گی، پہلے کچھ کریں گے اس کے بعد برکت حاصل ہو گی۔
چناں چہ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنا اور اس مہینے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق موقع بموقع روزے رکھنا، ضروری نہیں، فرض اور واجب نہیں، لیکن مستحب ضرور ہے کہ ہم اس مہینے میں روزے رکھنے کا بھی اہتمام کریں،روزہ رکھ لیا، پھر کچھ وقفے کے بعد روزہ رکھ لیا۔ پھر کچھ وقفے کے بعد روزہ رکھ لیا اور یہ جو رجب اور شعبان میں روزے رکھنا ہے یہ اصل میں ”اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان، وبلغنا رمضان“ ہمیں رمضان تک پہنچا، تو رمضان میں اصل کیا ہے؟ روزے ہیں، تاکہ اس رمضان کی تیاری رجب سے شروع ہو اور ہم اس میں وہ تمام کام جو ہم نے رمضان المبارک میں کرنے ہیں اس کی ہم کسی نہ کسی قدر تمرین اورمشق ابھی سے شروع کریں
اور رمضان کے کاموں میں آپ سب جانتے ہیں کہ روزہ سب سے اہمیت کا حامل ہے کہ وہ روزے کا مہینے ہے، اسی طریقے سے رمضان قرآن کا مہینہ ہے، ”شھر القرآن“ تو ہم رجب ہی سے قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام شروع کر دیں، تاکہ رمضان المبارک میں ہم خوب یک سوئی کے ساتھ روزے رکھیں او رہم خوب اہتمام کے ساتھ تلاوت کریں، اسی طریقے سے رمضان تراویح اور الله کے سامنے قیام کا مہینہ ہے تو ہم کوشش کریں کہ اس رجب ہی سے کچھ نہ کچھ نوافل کا اہتمام شروع کریں اور نوافل کی عادت ڈالیں، تاکہ جب رمضان المبارک میں عشاء کی نماز کے بعد بیس رکعتوں کے لیے کھڑے ہوں تو ہم تیار ہوں اور ہما ری کسی نہ کسی قدر عادت بنی ہوئی ہو کہ ہم نے رجب اور شعبان میں دو دو رکعات ، چار چار، چھ چھ، آٹھ آٹھ رکعات نوافل پڑھے ہیں، اب ہمارے لیے رمضان میں تراویح میں قیام کوئی دشوار او رمشکل نہیں ہو گا۔
اسی طریقے سے رمضان المبارک میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سخاوت تو آپ کی صفات خاصہ میں سے تھی، بہت سخی تھے، اتنے سخی تھے کہ سخاوت کی وجہ سے اپنے آپ کو مقروض فرماتے تھے، مقروض ہو جاتے، عرب کے بڑے بڑے سخی لوگ وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سخاوت کو دیکھ کر حیران اور ششدر رہ جاتے، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کی جو پورے سال سخاوت ہوتی تھی، اس سخاوت کا جو عروج ہوتا تھا وہ رمضان المبارک میں ہوتا تھا۔
”صحیح بخاری“ کی روایت ہے:”عن ابن عباس رضی الله عنہما قال:کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم أجود الناس، وکان أجود مایکون فی رمضان حین یلقاہ جبریل، وکان یلقاہ فی کل لیلة من رمضان فیدارسہ القرآن، فلرسول الله صلی الله علیہ و سلم أجود بالخیر من الریح المرسلة․( الجامع الصحیح للبخاری، بدء الوحی، رقم الحدیث:6)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جُود وسخا میں تمام انسانوں سے فائق تھے اور رمضان میں جب جبرئیل علیہ السلام آپ صلی الله علیہ وسلم سے ملا کرتے تو آپ ہمیشہ سے زیادہ جواد اور سخی ہو جاتے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ سے ملاقات کیا کرتے اور آپ کے ساتھ قرآن کریم کا دور کرتے تھے، الغرض حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نفع رسانی میں تیز چلتی ہوا سے بھی زیادہ جواد اور سخی تھے۔
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ جو ”جود“ کا معاملہ کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔
حضرت بلال رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب کسی حاجت مند کو دیکھتے تو مجھے حکم دیتے، میں کسی سے قرض لیتا اوراسے کپڑے پہناتا او رکھانا کھلاتا، ایک دفعہ ایک مشرک میرے پاس آیا اورکہنے لگا میرے پاس مال کی فراوانی ہے، تم کسی اور سے قرض نہ لینا، میں دے دیا کروں گا۔
ایک دن جب میں وضو کرکے اذان کی تیاری کر رہا تھا کہ وہ مشرک اپنے ہم پیشہ تاجروں کی ایک جماعت لے کر آدھمکا اور پکار کر کہنے لگا او حبشی! او رپھر نہایت درشت لہجے میں کہنے لگا کہ معلوم ہے مہینہ پورا ہونے میں کتنے دن ہیں؟
میں نے کہا کہ بس چند ہی دن ہیں، اس نے کہا کہ صرف چار دن ہیں، اگر ان دنوں کے اندر اندر میرا قرض نہیں چکایا تو میں تمہیں اپنا غلام بنا لوں گا، حضرت بلال رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے سخت پریشانی لاحق ہوئی، کسی طرح عشاء کی نماز پڑھی اور حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہو کر واقعہ ذکر کیا او رعرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ کے پاس اس وقت کچھ نہیں ہے کہ قرضہ چکایا جاسکے اور نہ ہی میرے پاس ہے اور وہ مجھے رسوا کرکے چھوڑے گا ،مجھے اجازت دیجیے کہ میں کچھ دن کہیں روپوش ہو جاؤں، تاآنکہ آپ کے پاس الله تعالیٰ کچھ مال بھیج دے۔
یہ کہہ کر میں نکلا او رگھر آکر تیاری کر لی، صبح پَو پھٹنے کے انتظار میں تھا کہ ایک شخص دوڑا دوڑا آیا او رکہا کہ اے بلال! رسول الله صلی الله علیہ و سلم بلا رہے ہیں، میں حاضر ہوا تو دیکھاکہ چار اونٹنیاں سامان سمیت بیٹھی ہوئی ہیں، حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے مجھے بشارت سنائی اور فرمایا کہ یہ چار اونٹنیاں مع سامان شاہ فدک کی طرف سے ہدیہ ہے، اب ان کے ساتھ جو معاملہ چاہوکرو۔ حضرت بلال رضی الله عنہ نے قرضہ ادا کیا اور پھر وہ مسجد تشریف لائے تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم تشریف فرما تھے، آپ نے مال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ الله تعالیٰ نے سارا قرضہ چکا دیا، اب کوئی قرضہ نہیں رہا،آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا کچھ باقی بچا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ہاں! باقی بچ گیا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: باقی مال تقسیم کرکے مجھے بے فکر کر دو، کیوں کہ جب تک تمام مال تقسیم کرکے مجھے راحت نہیں پہنچاؤ گے میں اپنی ازواج میں سے کسی کے پاس نہیں جاؤں گا۔
پھر عشاء کی نماز کے بعد حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں بلا کر دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ ابھی تک مال موجو دہے، کوئی مستحق نہیں آیا، حضو راکرم صلی الله علیہ و سلم اپنے گھر تشریف نہیں لے گئے، بلکہ مسجد ہی میں رات گزاردی، دوسرے دن جب دریافت فرمایا تو حضرت بلال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے الله کے رسول! سارا مال تقسیم ہو گیا، آپ نے خوش ہو کر تکبیر کہی اور الله کی تعریف کی، آپ کو یہڈرتھا کہ کہیں اس مال کے ہوتے ہوئے موت نہ آجائے۔۔ (سنن أبی داود، کتاب الخراج والإمارة والفیٴ، باب فی الامام یقبل ھدایا المشرکین، رقم:3055)
چناں چہ ہم رجب ہی سے سخاوت کی بھی عادت ڈالیں اور یہ یاد رکھیں کہ یہ شیطان کا دھوکہ ہے اور یہ اس نفس کا دھوکہ ہے اور یہ اس دنیا کو، جو کمینی ہے، اس کو خرچ کرنے نہیں دیتا، یہاں کی معاشرت او ریہاں کا رہنا اس کو خرچ نہیں کرنے دیتا، شیطان خرچ نہیں کرنے دیتا، نفس خرچ نہیں کرنے دیتا، یہاں کی جو معاشرت ہے وہ خرچ نہیں کرنے دیتی، لیکن آپ یادرکھیں کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے بڑا کوئی معیار نہیں، ان سے زیادہ کا م یاب کوئی معیار نہیں، اگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے کوئی عمل فرمایا ہے تو یقینا اس میں فائدہ ہے۔
چناں چہ سخی کا مال کبھی کم نہیں ہوتا، سخی کا مال خوب بڑھتا ہے، الله تعالیٰ خوش ہوتے ہیں،۔ چناں چہ رجب کے مہینے سے ہم سخاوت شروع کریں، اپنے دائیں، اپنے بائیں، اپنے آگے، اپنے پیچھے، اپنے عزیز واقارب جو ضرورت مند ہیں، مساکین ہیں، یتیم ہیں، بیوائیں ہیں اورامت مسلمہ کی جو اہم ترین ضرورت ہے ، مدارس کی شکل میں پوری دنیا میں بالخصوص ہمارے اس خطے میں ان پر خوب خرچ کریں اور یہ یاد رکھیں کہ یہ مدارس اس وقت حق او رباطل کی کش مکش او رحق اور باطل کی جنگ کا اہم ترین حصہ ہیں، باطل کسی صورت نہیں چاہتا کہ یہ مدارس قائم ہوں، چناں چہ ایمانی، اسلامی غیرت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی جانوں پر کھیل کر ،اپنے اموال کو خرچ کرکے، بہرحال ان مدار س کی بقا اورترقی کا ذریعہ بنیں، خوب خرچ کریں۔
سخی آدمی الله کے قریب ہے
”عن أبی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم : السخی قریب من الله، قریب من الناس، قریب من الجنة، بعید من النار، والبخیل بعید من الله، بعید من الناس، بعید من الجنة، قریب من النار، والجاھل سخی أحب إلی الله من عابد بخیل․“ (سنن الترمذی، أبواب البر والصلة، باب ماجاء فی السخاء، رقم الحدیث:1961)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: سخی بندہ الله سے قریب ہے، ( یعنی اس کو قرب خدا وندی حاصل ہے) نیز الله کے بندوں سے قریب ہے ( یعنی الله کے بندے اس کی سخاوت کی صفت کی وجہ سے اس سے تعلق اور محبت رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ لگے رہتے ہیں ) اور جنت سے قریب اور دوزخ سے دور ہے۔
اور بخیل او رکنجوس آدمی الله سے دور، یعنی قرب خداوندی کی نعمت سے محروم ہے، الله کے بندوں سے بھی دور ہے، (کیوں کہ اس کی کنجوسی کی وجہ سے وہ اس سے الگ اور بے تعلق رہتے ہیں) اور جنت سے دور اور دوزخ سے قریب ہے اور بلاشبہ ایک بے علم سخی الله تعالیٰ کو عبادت گزار کنجوس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔
سخی بندے پر الله تعالیٰ خرچ کرتا ہے
”عن أبی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: قال الله تعالیٰ: انفق أنفق علیک․“(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ: وکان عرشہ علی الماء، رقم الحدیث:4684، والجامع الصحیح لمسلم، کتاب الزکاة، باب الحث علی النفقة، رقم الحدیث:2308)
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:(اے بندے) تو خرچ کر تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا۔
بخل او رایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے
”عن أبی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لا یجتمع الشح والإیمان قی قلب عبد أبداً․“ (السنن الکبری للبیہقی، کتاب السیر، باب فی فضل الجہاد فی سبیل الله، رقم الحدیث:18978، وسنن النسائی، کتاب الجہاد، فضل من عمل فی سبیل الله علی قدمہ، رقم:3110)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: حرص وبخل اور ایمان کبھی ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔
بخیل جنت میں داخل نہیں ہو سکتا
”عن أبی بکر الصدیق عن النبی صلی الله علیہ و سلم قال:لا یدخل الجنة خب ولا منان ولا بخیل“․
نبی کریم صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا کہ دھوکہ باز، بخیل او راحسان جتانے والا آدمی جنت میں نہ جاسکے گا۔ (سنن الترمذی، ابواب البر والصلة، البخیل، رقم الحدیث:1963)
میں عرض کر رہا تھا کہ یہ رجب المرجب یہ اشہر حرم میں سے ہے او رالله کے رسول صلی الله علیہ و سلم نے بھی اس کی برکت کی دعا فرمائی ہے، ہم اس کی کوشش کریں کہ ہم اس میں وہ تمام کام، جوہم نے رمضان المبارک کے مہینے میں کرنے ہیں، ابھی سے اس کی عادت ڈالیں۔
اس کے علاوہ ویسے تو اقوال بہت ہیں لیکن ایک قول کے مطابق اس رجب المرجب کے مہینے میں اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا۔
ایک قول ربیع الاول کا بھی ہے کہ اسراء کا واقعہ ربیع الاول میں پیش آیا، ایک قول شوال کا بھی ہے، لیکن مشہور قول رجب کا ہے۔
اس رجب المرجب کے مہینے میں جو اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا ہر مسلمان جانتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ و سلم کو الله تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا اور آپ صلی الله علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے مسجد اقصی تشریف لے گئے، براق پر تشریف لے گئے اور وہاں تمام انبیاء کی امامت فرمائی او راس کے بعد پھر پہلے آسمان، دوسرے آسمان، حتی کہ ساتویں آسمان او رپھر عرش پر پہنچے۔ قرآن میں ہے : ﴿وَالنَّجْمِ إِذَا ہَوَیٰ، مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَیٰ، وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَی، إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحیٰ، عَلَّمَہُ شَدِیدُ الْقُوَی ، ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَی، وَہُوَ باِالْأُفُقِ الْأَعْلیٰ ، ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی﴾․(سورة النجم، آیت:8-1)
جن آیات میں اس کا ذکر ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا الله رب العزت سے ملاقات کا واقعہ پیش آیا، اب اس کی کیا کیفیات ہیں وہ الله رب العزت ہی جانتے ہیں، لیکن اس موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم کو ایک عظیم تحفہ اپنے پاس بلا کر دیا گیا اور وہ تحفہ نماز کا تحفہ ہے۔
میں جو بات عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ آپ صلی الله علیہ و سلم کی حیات مبارکہ میں یہ واقعہ پیش آیا، آپ کا زمانہ اس واقعے کے بعد بھی ایک عرصہ رہا اور آپ کے بعد پھر صدیق اکبر رضی الله عنہ کا زمانہ ہے، حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ کا زمانہ ہے، حضرت عثمان ذوالنورین رضی الله عنہ کا زمانہ ہے، حضرت علی کرم الله وجہہ کا زمانہ ہے، حضرت حسن رضی الله عنہ کا زمانہ ہے، حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا زمانہ ہے اور خیر القرون، تابعین، تبع تابعین کے زمانے ہیں۔ کہیں پر ہمیں اس موقع پر پٹاخے، اس موقع پر حلوے، اس موقع پر چراغاں، اس موقع پر فلاں اور فلاں کہیں بھی نظر نہیں آتا، نہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں، آپ جانتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے سفر معراج کے واقعے کی کفار مکہ نے تکذیب کی، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟! آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس واقعے کی تصدیق حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ نے کی تو اگر اس موقع پر کوئی چراغاں ہوتا، اس موقع کے اوپر اگر حلوے، پٹاخے ہوتے تو پھر وہ تو سب سے پہلے حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ کو کرنے چاہییں اور آپ صلی الله علیہ و سلم کو اس پر خوش ہونا چاہیے تھا اور دیگر صحابہ کرام کو کرنا چاہیے تھا، حالاں کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔
چناں چہ ہم لوگوں پر یہ لازم ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جو دین، جو شریعت لائے ہیں اس پر عمل کریں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں اور آپ کی حیات طیبہ میں کہیں اس کا تذکرہ نہیں ملتا کہ اس واقعہ پر صحابہ کرام نے کوئی خوشی منائی ہو یا وہ رسمیں کی ہوں جو آج ہمارے مسلمان بھائی نادانی ، لاعلمی کی وجہ سے نفس وشیطان کا شکار ہو کر کرتے ہیں، اس میں تو ثواب کے بجائے سخت ترین گناہ ہے اور یہ بدعت ہے اور بدعت گم راہی ہے او رگم راہی کا انجام جہنم ہے۔ چناں چہ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، خود بھی اجتناب کریں اوراپنے اپنے دائرے میں، اپنے اپنے لوگوں میں، گھر میں، خاندان میں، دوستوں میں، ان کو یہ بات سمجھائیں کہ اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ خالص بدعت ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے:
معراج
الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک او رمسجد اقصی سے سبع سموات تک اسی جسم اور روح کے ساتھ بحالت بیداری ایک ہی شب میں سیر کرائی، جس کو اسراء ومعراج کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔(عمدة القاری:17/26، فتح الباری،7/247، مرقاة المفاتیح، باب فی المعراج:10/547)
معراج عربی میں سیڑھی کو کہتے ہیں او رمعراج کو معراج اس لیے کہتے ہیں کہ مسجد اقصی سے آسمانوں تک کے سفر کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے جنت سے ایک سیڑھی لائی گئی، جس کے ذریعے آپ صلی الله علیہ وسلم آسمان پر چڑھے۔ (دلائل النبوة للبیہقی:2/391، فتح الباری:7/261)
اور اسراء کہتے ہیں مکہ مکرمہ سے لے کر بیت المقدس تک کے سفر کو۔ (التعلیق الصبیح:7/136)
”معراج“ کا یہ واقعہ ہجرت سے کتنے سال پہلے پیش آیا، مختلف اقوال ہیں، مثلاً ہجرت سے ایک سال چند ماہ پہلے، ہجرت سے تین سال پہلے، ہجرت سے پانچ سال پہلے، ہجرت سے چند ماہ پہلے۔
البتہ ہجرت سے ایک سال پہلے والے قول کو ترجیح دی گئی ہے کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔ (سبل الھدی والرشاد:3/65، زاد المعاد:3/42، مرقاة المفاتیح:10/548، فتح الباری:7/254)
اسی طرح اس حوالے سے بھی مختلف اقوال ہیں کہ معراج کا یہ واقعہ کس مہینے میں پیش آیا؟
علامہ عینی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ اکثر علماء کا قول ”ربیع الاول“ کے مہینے کا ہے کہ معراج کا واقعہ ربیع الاول کے مہینے میں پیش آیا۔(عمدة القاری:17/27، شر المواھب للزرقانی:2/69)
اس کے علاوہ ”ربیع الثانی“ ”شوال“ اور ”ذوالحجہ“ کے مہینے میں معراج کا واقعہ پیش آنے کے اقوال بھی ہیں۔
علامہ نووی او رعلامہ زرقانی رحمہما الله نے”رجب“ کے مہینے کو ترجیح دی ہے ۔(شرح المواہب للزرقانی:2/71)
جس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کومعراج کروائی گئی اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم حضرت أم ہانی رضی الله عنہا کے گھر میں تھے، وہاں سے جبریل علیہ السلام آپ کو مسجد حرام لے گئے اور وہیں سے براق پر سوار کیا۔ (فتح الباری:7/255)۔
صحیح بخاری میں معراج کا واقعہ بڑی تفصیل سے مذکور ہے، جس کو تھوڑے اختصار کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا کہ جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے او رانہوں نے حلق سے لے کر ناف تک میرے سینے کو چاک کیا، پھر میرا دل نکالا او رایک سونے کا طشت لایا گیا جو ایمان سے لبریز تھا، میرا دل دھویا گیا اور ایمان سے بھرا گیا، اس کے بعد دل کو اپنی جگہ رکھ دیا گیا، پھر براق لایا گیا، جس پر مجھے سوار کیا گیا، وہ براق منتہائے نظر پر قدم رکھتا تھا، جبرئیل علیہ السلام مجھ کو لے کر چلے، یہاں تک کہ آسمان دنیا پر پہنچ گئے، جبرئیل نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو اندر سے پوچھا گیا کون ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا میں جبرئیل ہوں، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ جبرئیل نے بتایا، محمد صلی الله علیہ وسلم ہیں، پوچھا گیا یہ بلائے گئے ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا ہاں، اندر سے کہا گیا اُنہیں خوش آمدید، خوب آئے۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا، جب میں وہاں پہنچا تو آدم علیہ السلام تشریف فرما ہیں، جبرئیل علیہ السلام نے کہا یہ آپ کے والد آدم علیہ السلام ہیں۔ انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھر فرمایا: خوش آمدید صالح فرزند اور صالح نبی، پھر جبرئیل علیہ السلام مجھ کو لے کر اوپر چڑھے، یہاں تک کہ دوسرے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھولنے کو کہا ( یہاں بھی اسی طرح کا سوال جواب ہوا)۔ جب میں اندر پہنچا تو دیکھا کہ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسی علیہما السلام تشریف فرما ہیں، ( ان کے ساتھ بھی آدم علیہ السلام کی طرح سلام جواب ہوا) پھر جبرئیل علیہ السلام مجھ کو لے کر تیسرے آسمان کی طرف چڑھے ( وہاں پر بھی پہلے کی طرح سوال وجواب ہوا) پھر جب میں اندر پہنچا تو دیکھا کہ یوسف علیہ السلام ہیں (ان کے ساتھ بھی سلام وجواب ہوا)۔چوتھے آسمان پر ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، پانچویں آسمان پر ہارون علیہ السلام سے، چھٹے آسمان پر حضرت موسی علیہ السلام سے، ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
پھر مجھ کو سدرہ المنتہی تک لے جایا گیا تو دیکھا کہ اس کے پھل ہجر کے مٹکوں کے برابر ہیں اور دیکھا کہ اس کے پتے ہاتھی کے کان کے برابر ہیں… پھر مجھ پر روزانہ پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں، پھر میں لوٹ آیا تو موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا آپ کو کیا حکم ملا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے روزانہ پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا ہے، موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ کی امت روزانہ پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکتی اور میں بخدا آپ سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور میں بنی اسرائیل پر بہت سختی کرچکا ہوں، اس لیے آپ اپنے پروردگار کے پاس واپس جائیں او ران سے اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کیجیے، چناں چہ میں واپس حاضر ہوا تو الله نے مجھ سے دس نمازیں معاف فرما دیں، پھر میں لوٹ کر موسی علیہ السلام کے پاس واپس آیا تو موسی علیہ السلام نے اسی طرح کہا، پھر میں واپس حاضر ہوا تو دس او رمعاف فرما دیں، پھر لوٹ کر موسی علیہ السلام کے پاس آیا تو موسی علیہ السلام نے اسی طرح کہا تو میں پھر الله تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو الله تعالیٰ نے دس اورمعاف فرما دیں ۔پھر میں موسی علیہ السلام کے پاس آیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اسی طرح کہا تو میں پھر الله تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو مجھے رورانہ دس نمازوں کا حکم دیا گیا، پھر میں لوٹ کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو موسی علیہ السلام نے وہی کہا، پھر میں بارگاہ الہٰی میں لوٹ کر گیا تو مجھے روزانہ پانچ نمازوں کا حکم دیاگیا، پھر میں لوٹ کر موسیٰ علیہ لاسلام کے پاس آیا تو موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا روزانہ پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا ہے۔موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ کی امت روزانہ پانچ نمازوں کی استطاعت نہیں رکھ سکتی ۔میں نے آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کیا ہے اور بنی اسرائیل پر میں بہت زور ڈال چکا ہوں۔ اس لیے آپ اپنے پرور گار کے پاس پھر جائیے او راپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کیجیے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنے رب سے بہت درخواست کرچکا ہوں اور اب مجھے شرم آتی ہے، اب میں اس پر راضی ہو جاتا ہوں اور اسے تسلیم کرتا ہوں۔ (جاری)