زکوٰة کی فرضیت
زکوٰة ، اسلام کا اہم ترین رُکن ہے، قرآن کریم میں اس کی بار بار تاکید کی گئی ہے اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد میں بھی اس کی اہمیت وافادیت اور اس کے ادانہ کرنے کے وبال کو بہت ہی نمایاں کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:﴿وَالَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا یُنفِقُونَہَا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیمٍ، یَوْمَ یُحْمَیٰ عَلَیْہَا فِی نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوَیٰ بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوبُہُمْ وَظُہُورُہُمْ ہَٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِأَنفُسِکُمْ فَذُوقُوا مَا کُنتُمْ تَکْنِزُونَ﴾․(التوبہ:35-34)
ترجمہ:” جو لوگ سونے او رچاندی کا ذخیرہ جمع کرتے ہیں اوراسے الله کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، انہیں درد ناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔ جس دن ان سونے، چاندی کے خزانوں کو جہنم کی آگ میں تپاکر ان کے چہروں، ان کی پشتوں اور ان کے پہلوؤں کو داغا جائے گا ( اور ان سے کہا جائے گا کہ ) یہ تھا تمہارا مال، جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، پس اپنے جمع کیے کی سزا چکھو۔“
حدیث میں ارشاد ہے کہ : ” اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی شہادت دینا کہ الله تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی الله علیہ وسلم اس کے بندے اورر سول ہیں۔ نماز قائم کرنا۔ زکوٰة ادا کرنا۔ بیت الله کا حج کرنا۔ رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔
ایک او رحدیث میں ہے کہ : ” جس شخص نے اپنے مال کی زکوٰة ادا کر دی، اس نے اس کے شر کو دور کر دیا۔“(رواہ البخاری ومسلم واللفظ لہ:1/32)
”من أدی زکوٰة مالہ فقد ذھب عنہ شرہ․“(کنز العمال، حدیث:15778، مجمع الزوائد:3/63)
ایک اور حدیث میں ہے کہ : ” جب تم نے اپنے مال کی زکوٰة ادا کر دی تو تم پر جو ذمہ داری عائد ہوتی تھی، اس سے تم سبکدوش ہو گئے۔ (ترمذی:1/78، ابن ماجہ،ص:128، مطبوعہ نور محمد کارخانہ کراچی)
ایک اور حدیث میں ہے کہ : ” اپنے مالوں کو زکوٰة کے ذریعہ محفوظ کرو، اپنے بیماروں کا صدقے سے علاج کرو اور مصائب کے طوفانوں کا دعا وتضرع سے مقابلہ کرو۔“ (ابوداؤد)
ایک حدیث میں ہے کہ : ” جو شخص اپنے مال کی زکوٰة ادا نہیں کرتا قیامت میں اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں آئے گا او راس کی گردن سے لپٹ کر گلے کا طوق بن جائے گا۔“ (سنن نسائی:1/333، وسنن ابن ماجہ:128، وللفظ لہ)
اس مضمون کی بہت سی احادیث ہیں․ جن میں زکوٰة نہ دینے پرقیامت کے دن ہول ناک سزاؤں کی وعیدیں سنائی گئی ہیں۔
زکوٰة کے فوائد
حق تعالیٰ شانہ نے جتنے احکام اپنے بندوں کے لیے مقرر فرمائے ہیں ان میں بے شمار حکمتیں ہیں جن کا انسانی عقل احاطہ نہیں کرسکتی، چناں چہ الله تعالیٰ نے زکوٰة کافریضہ عائد کرنے میں بھی بہت سی حکمتیں رکھی ہیں اورسچی بات یہ ہے کہ یہ نظام ایسا پاکیزہ ومقدس او راتنا اعلیٰ وارفع ہے کہ انسانی عقل اس کی بلندیوں تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہے، یہاں چند عام فہم فوائد کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔
آج پوری دُنیا میں سوشلزم کی بات ہو رہی ہے ، جس میں غریبوں کی فلاح وبہبود کا نعرہ لگا کر انہیں متمول طبقے کے خلاف اُکسایا جاتا ہے، اس تحریک سے غریبوں کا بھلا کہاں تک ہوتا ہے؟ یہ ایک مستقل موضوع ہے، مگر یہاں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ امیر وغریب کی یہ جنگ صرف اس لیے پیدا ہوئی کہ الله تعالیٰ نے متمول طبقے کے ذمہ پسماندہ طبقے کے جو حقوق عائد کیے تھے ان سے انہوں نے پہلوتہی کی، اگر پورے ملک کی دولت کا چالیسواں حصہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا جائے اور یہ عمل ایک وقتی سی چیز نہ رہے، بلکہ ایک مسلسل عمل کی شکل اختیار کر لے اور امیر طبقہ کسی ترغیب وتحریص اور کسی جبرواکراہ کے بغیر ہمیشہ یہ فریضہ ادا کرتا رہے او رپھر اس رقم کی منصفانہ تقسیم مسلسل ہوتی رہے تو کچھ عرصے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ غرباء کو امیروں سے شکایت ہی نہیں رہے گی اور امیر وغریب کی جس جنگ سے دُنیا جہنم کدہ بنی ہوئی ہے، وہ اس نظام کی بدولت راحت و سکون کی جنت بن جائے گی۔
میں صرف پاکستان کی ملت اسلامیہ سے نہیں، بلکہ دُنیا بھر کے انسانوں او ر معاشروں سے کہتا ہوں کہ وہ اسلام کے نظامِ زکوٰة کو نافذ کرکے اس کی برکات کا مشاہدہ کریں اور سرمایہ دار ملکوں کی جتنی دولت کمیونزم کا مقابلہ کرنے پر صرف ہو رہی ہے وہ بھی اسی مد میں شامل کر لیں۔
مال ودولت کی حیثیت انسانی معیشت میں وہی ہے جو خون کی بدن میں ہے، اگر خون کی گردش میں فتور آجائے تو انسانی زندگی کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے او ربعض اوقات دل کا دورہ پڑنے سے انسان کی اچانک موت واقع ہو جاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح اگر دولت کی گردش منصفانہ نہ ہو، تو معاشرے کی زندگی خطرے میں ہوتی ہے اور کسی وقت بھی حرکت قلب بند ہو جانے کا خوف طاری رہتا ہے۔ حق تعالیٰ نے دولت کی منصفانہ تقسیم اور عادلانہ گردش کے لیے جہاں اور بہت سی تدبیریں ارشاد فرمائی ہیں، ان میں سے ایک زکوٰة وصدقات کا نظام بھی ہے اور جب تک یہ نظام صحیح طور پر نافذ نہ ہو اور معاشرہ اس نظام کو پورے طور پر ہضم نہ کر لے تب تک نہ دولت کی منصفانہ گردش کا تصور کیا جاسکتا ہے اورنہ معاشرہ اختلال وزوال سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
پورے معاشرے کو ایک اکائی تصور کیجیے او رمعاشرے کے افراد کو اس کے اعضا سمجھیے، آپ جانتے ہیں کہ کسی حادثے یا صدمے سے کسی عضو میں خون جمع ہو کر منجمد ہو جائے تو وہ گل سڑکر پھوڑے پھنسی کی شکل میں پیپ بن کر بہہ نکلتا ہے۔ اسی طرح جب معاشرے کے اعضا میں ضرورت سے زیادہ خون جمع ہو جاتا ہے تو وہ بھی سڑنے لگتا ہے او رپھر کبھی تعیش پسندی اور فضول خرچی کی شکل میں نکلتا ہے، کبھی عدالتوں اور وکیلوں کے چکر میں ضائع ہو تا ہے کبھی بیماریوں اور ہسپتالوں میں لگتا ہے، کبھی اونچی اونچی بلڈنگوں اور محلات کی تعمیرات میں برباد ہو جاتا ہے ( اور اس بربادی کا احساس آدمی کو اس وقت ہوتا ہے جب اس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو جاتے ہیں اور اسے بیک بینی ودوگوش یہاں سے باہر نکال دیا جاتا ہے)۔
قدرت نے زکوٰة وصدقات کے ذریعہ ان پھوڑے پھنسیوں کا علاج تجویز کیا ہے، جو دولت کے انجماد کی بدولت معاشرے کے جسم پر نکل آتی ہیں۔
اپنے بنی نوع سے ہم دردی انسانیت کا عمدہ ترین وصف ہے، جس شخص کا دل اپنے جیسے انسانوں کی بے چارگی، غربت وافلاس، بھوک ، فقر وفاقہ اور تنگ دستی وزبو ں حالی دیکھ کر نہیں پسیجتا وہ انسان نہیں، جانور ہے اور چوں کہ ایسے موقعوں پر شیطان او رنفس ، انسان کو انسانی ہم دردی میں اپنا کردار ادا کرنے سے باز رکھتے ہیں، اس لیے بہت کم آدمی اس کا حوصلہ کرتے ہیں، حق تعالیٰ شانہ نے اپنے کم زور بندوں کی مدد کے لیے امیر لوگوں کے ذمہ یہ فریضہ عائد کر دیا ہے، تاکہ اس فریضہ خداوندی کے سامنے وہ کسی نادان دوست کے مشورے پر عمل نہ کریں۔
مال ، جہاں انسانی معیشت کی بنیاد ہے، وہاں انسانی اخلاق کے بنانے او ربگاڑنے میں بھی اس کو گہرا دخل ہے، بعض دفعہ مال کا نہ ہونا انسان کو غیر انسانی حرکات پرآمادہ کر دیتا ہے اور وہ معاشرے کی نا انصافی کو دیکھ کر معاشرتی سکون کو غارت کرنے کی ٹھان لیتا ہے۔
بعض اوقات وہ چوری، ڈکیتی، سٹہ او رجوا جیسی قبیح حرکات شروع کر دیتا ہے، کبھی غربت و افلاس کے ہاتھوں تنگ آکر وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھولینے کا فیصلہ کر لیتا ہے، کبھی وہ پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے اپنی عزت وعصمت کو نیلام کرتا ہے او رکبھی فقر وفاقہ کا مداوا ڈھونڈنے کے لیے اپنے دین وایمان کا سودا کرتا ہے، اسی بنا پر ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے : ” کاد الفقر أن یکون کفرا․“ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان، مشکوٰة،ص:429)
یعنی:”فقر وفاقہ آدمی کو قریب قریب کفر تک پہنچا دیتا ہے۔“ اورفقر وفاقہ میں اپنے منعم حقیقی کی ناشکری کرنا تو ایک عام بات ہے۔
یہ تمام غیر انسانی حرکات، معاشرے میں فقر وفاقہ سے جنم لیتی ہیں اور بعض اوقات گھرانوں کے گھرانوں کو برباد کرکے رکھ دیتی ہیں، ان کا مداوا ڈھونڈنا معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور صدقات وزکوٰة کے ذریعے خالق کائنات نے ان برائیوں کا سد باب بھی فرمایا ہے۔
اس کے برعکس بعض اخلاقی خرابیاں وہ ہیں جو مال ودولت کے افراط سے جنم لیتی ہیں، امیر زادوں کو جو جو چونچلے سوجھتے ہیں اور جس قسم کی غیر انسانی حرکات ان سے سرزد ہوتی ہیں، انہیں بیان کرنے کی حاجت نہیں، صدقات وزکوٰة کے ذریعے حق تعالیٰ نے مال ودولت سے پیدا ہونے والی اخلاقی برائیوں کا بھی انسداد فرمایا ہے، تاکہ ان لوگوں کو غرباء کی ضروریات کا بھی احساس رہے او رغرباء کی حالت ان کے لیے تازیانہٴ عبرت بھی ہے۔
زکوٰة وصدقات کے نظام میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس سے وہ مصائب وآفات ٹل جاتی ہیں جو انسان پر نازل ہوتی رہتی ہیں، اسی بنا پر بہت سی احادیث شریفہ میں بیان فرمایا گیا ہے کہ صدقہ سے رَدِّ بلا ہوتا ہے اور انسان کی جان ومال آفات سے محفوظ رہتی ہے۔
عام لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی شخص بیمار پڑ جائے تو صدقے کا بکرا ذبح کر دیتے ہیں، وہ مسکین یہ سمجھتے ہیں کہ شاید بکرے کی جان کی قربانی دینے سے مریض کی جان بچ جائے گی، ان لوگوں نے صدقے کے مفہوم کو نہیں سمجھا، صدقہ صرف بکرا ذبح کر دینے کا نام نہیں، بلکہ اپنے پاک مال سے کچھ حصہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے کسی ضرورت مند کے حوالے کر دینے کا نام ہے، جس میں ریا وتکبر اور فخر ومباہات کی کوئی آلائش نہ ہو، اس لیے جب کوئی آفت پیش آئے، صدقے سے اس کا علاج کرنا چاہیے، آپ جتنی ہمت واستطاعت رکھتے ہیں تو بازار سے اس کی قیمت معلوم کرکے اتنی قیمت کسی محتاج کو دے دیجیے یا بکرا ہی خرید کر کسی کو صدقہ کر دیجیے، الغرض بکرے کو ذبح کرنے کو رَدِّبلا میں کوئی دخل نہیں، بلکہ بلا تو صدقے سے ٹلتی ہے، اس لیے صرف شدید بیماری نہیں، بلکہ ہر آفت ومصیبت میں صدقہ کرنا چاہیے، بلکہ آفتوں اور مصیبتوں کے نازل ہونے سے پہلے صدقے سے ان کا تدارک ہونا چاہیے، ہمارا متمول طبقہ جس قدردولت میں کھیلتا ہے، بدقسمتی سے آفات ومصائب کا شکار بھی اسی قدر زیادہ ہوتا ہے۔
اس کا سبب بھی یہی ہے کہ وہ اپنے مال کی زکوٰة ٹھیک ٹھیک ادا نہیں کرتے او رجتنا الله تعالیٰ نے ان کو دیا ہے، اتنا الله تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔
زکوٰة وصدقات کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے مال ودولت میں برکت ہوتی ہے اور زکوٰة وصدقات میں بخل کرنا آسمانی برکتوں کے دروازے بند کر دیتا ہے، حدیث میں ہے کہ : ” جو قوم زکوٰة روک لیتی ہے۔ الله تعالیٰ اس پرقحط او رخشک سالی مسلط کر دیتا ہے اور آسمان سے بارش بند ہو جاتی ہے۔“ (طبرانی،حاکم)
ایک اور حدیث میں ہے کہ چار چیزوں کا نتیجہ چار چیزوں کی شکل میں ہوتا ہے : 1.. جب کوئی قوم عہد شکنی کرتی ہے تو اس پر دشمنوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔ 2.. جب وہ ماانزل الله کے خلاف فیصلے کرتی ہے، تو قتل وخوں ریزی او رموت عام ہو جاتی ہے۔ 3.. جب کوئی قوم زکوٰة روک لیتی ہے تو ان سے بارش روک لی جاتی ہے۔ 4.. جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو زمین کی پیداوار کم ہو جاتی ہے اور قوم پر قحط مسلط ہو جاتا ہے۔ (طبرانی)
خلاصہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا تجویز فرمودہ نظامِ زکوٰة وصدقات انقلابی نظام ہے، جس سے معاشرے کو راحت وسکون کی زندگی نصیب ہوسکتی ہے اوراس سے انحراف کا نتیجہمعاشرے کے افراد کی بے چینی وبے اطمینانی کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔
یہ تمام امور تو وہ تھے جن کا تعلق دنیا کی اسی زندگی سے ہے، لیکن ایک مؤمن جو سچے دل سے الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ و سلم پر ایمان رکھتا ہو، یہ دُنیوی زندگی ہی اس کا منتہائے نظر نہیں، بلکہ اس کی زندگی کی ساری تگ ودو آخرت کی زندگی کے لیے ہے، وہ اس دار فانی کی محنت سے اپنا آخرت کا گھر سجانا چاہتا ہے، وہ اس تھوڑی سی چند روزہ زندگی سے آخرت کی دائمی زندگی کی راحت وسکون کا متلاشی ہے۔ عام انسانوں کی نظر صرف اس دُنیا تک محدود ہے اور وہ جو کچھ کرتے ہیں صرف اسی دنیا کی فلاح وبہبود کے لیے کرتے ہیں، جس منصوبے کی تشکیل کرتے ہیں، محض اس زندگی کے خاکوں اور نقشوں کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں، الله تعالیٰ نے صدقات وزکوٰة کے ذریعہ اہل ایمان کو آخرت کے بینک میں اپنی دولت منتقل کرنے کا گُر بتایا ہے، زکوٰة وصدقات کی شکل میں جو رقم دی جاتی ہے وہ براہِ راست آخرت کے بینک میں جمع ہوتی ہے اور یہ آدمی کو اس دن کام آئے گی، جب وہ خالی ہاتھ یہاں کی چیزیں یہیں چھوڑ کر رُخصت ہو گا:”سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لادچلے گا بنجارا“
اس لیے بہت ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنی دولت یہاں سے وہاں منتقل کرنے میں پیش قدمی کرتے ہیں۔
انسان دنیا میں آتا ہے تو بہت سے تعلقات اس کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں، ماں باپ کا رشتہ، بہن بھائیوں کا رشتہ، عزیز واقارب کا رشتہ، اہل وعیال کا رشتہ وغیرہ وغیرہ۔
لیکن مؤمن کا ایک رشتہ اپنے خالق ومحسن او رمحبوب ِ حقیقی سے بھی ہے اور یہ رشتہ تمام رشتوں سے مضبوط بھی ہے اور پائیدار بھی، دوسرے سارے رشتے توڑے بھی جاسکتے ہیں او رجوڑے بھی سکتے ہیں، مگر یہ رشتہ کسی لمحے نہ توڑا جاسکتا ہے نہ اس کا چھوڑنا ممکن ہے، یہ دُنیا میں بھی قائم ہے، نزع کے وقت بھی رہے گا، قبر کی تاریک کوٹھری میں بھی رہے گا، میدان ِ محشر میں بھی اور جنت میں بھی، جوں جوں زندگی کے دور گزرتے اور بدلتے رہیں گے، یہ رشتہ قوی سے قوی تر ہوتا جائے گا اور اس کی ضرورت کا احساس بھی سب رشتوں پر غالب آتا جائے گا۔ اس رشتے کی راہ میں سب سے بڑھ کر انسان کی نفسانی خواہشات حائل ہوتی ہیں اور ان خواہشات کی بجا آوری کا سب سے بڑا ذریعہ مال ہے، زکوٰة وصدقات کے ذریعہ الله تعالیٰ اس کی خواہشات کو کم سے کم کرنا چاہتے ہیں اور بندے کا جو رشتہ اس کے ساتھ ہے اس کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانا چاہتے ہیں، اس لیے جو صدقہ کسی فقیر مسکین کو دیا جاتا ہے، وہ دراصل اس کو نہیں دیا جاتا، بلکہ یہ اپنی مالی قربانی کا حقیر سا نذرانہ ہے، جو بندے کی طرف سے محبوبِ حقیقی کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے، چناں چہ حدیث میں آتا ہے کہ جب بندہ صدقہ کرتا ہے تو الله تعالیٰ اسے اپنے دست ِ رضا سے قبول فرماتے ہیں او رپھر اس کی پرورش فرماتے رہتے ہیں، قیامت کے دن وہ صدقہ رائی سے پہاڑ بنا کر بندے کو واپس کر دیا جائے گا۔ پس حیف ہے! ہم بارگاہ ربّ العزّت میں اتنی معمولی سی قربانی پیش کرنے سے بھی ہچکچائیں اور حق تعالیٰ شانہ کی بے پایاں عنایتوں اور رحمتوں سے خود کو محروم رکھیں۔
زکوٰة ٹیکس نہیں
اُوپر کی سطور سے یہ حقیقت بھی عیاں ہو گئی کہ زکوٰة ٹیکس نہیں، بلکہ ایک اعلیٰ ترین عبادت ہے، بعض لوگوں کے ذہن میں زکوٰة کا ایک نہایت گھٹیا تصور ہے، وہ اس کو حکومت کا ٹیکس سمجھتے ہیں، جس طرح کہ تمام حکومتوں میں مختلف قسم کے ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں، حالاں کہ زکوٰة کسی حکومت کا عائدہ ٹیکس نہیں، نہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اسلامی حکومت کی ضروریات کے لیے اس کو عائد کیا ہے، بلکہ حدیث میں صاف طور پر ارشاد ہے کہ زکوٰة مسلمانوں کے متمول طبقے سے لے کر ان کے تنگ دستوں کو لوٹا دی جائے گی۔
اسی طرح یہ سمجھنا بھی غلط ہے کہ زکوٰة دینے والے فقراء ومساکین پر کوئی احسان کرتے ہیں، ہر گز نہیں ! بلکہ خود فقراء ومساکین کا مال داروں پر احسان ہے کہ ان کے ذریعے سے ان لوگوں کی رُقوم خدائی بینک میں جمع ہو رہی ہیں، اگر آپ کسی کو بینک میں جمع کرانے کے لیے کوئی رقم سپرد کرتے ہیں تو کیا آپ اس پر احسان کر رہے ہیں؟ اگر یہ احسان نہیں تو غرباء کو زکوٰة دینا بھی ان پر احسان نہیں!
پہلی اُمتوں میں جو مال الله تعالیٰ کی بارگاہ میں نذرانے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، اس کا استعمال کرنا کسی کے لیے بھی جائز نہیں تھا، بلکہ وہ سوختنی قربانی کہلاتی تھی، اسے قربان گاہ میں رکھ دیا جاتا تھا، اب اگر آسمان سے آگ آکر اسے راکھ کر جاتی تو یہ قربانی کے قبول ہونے کی علامت تھی اور اگر وہ چیز اسی طرح پڑی رہتی تو اس کے مردود ہونے کی نشانی تھی۔ حق تعالیٰ نے اس امتِ مرحومہ پر یہ خاص عنایت فرمائی ہے کہ امراء کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ جو چیز حق تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرنا چاہیں اسے ان کے فلاں فلاں بندوں ( فقراء اور مساکین) کے حوالے کر دیں۔ اس عظیم الشان رحمت کے ذریعہ ایک طرف فقراء کی حاجات کا انتظام کر دیا گیا اور دوسری طرف اُمت ِ مرحومہ کے لوگوں کو رسوائی اور ذِلت سے بچا لیا گیا ، اب خدا ہی جانتا ہے کہ کون پاک مال سے صدقہ کرتا ہے؟ او رکون ناپاک مال سے؟ کون ایسا ہے جو محض رضائے الہی کے لیے دیتا ہے؟ اور کون ہے جو نام ونمود اور شہرت وریا کے لیے؟ الغرض زکوٰة ٹیکس نہیں، بلکہ الله تعالیٰ کی بارگاہ میں نذرانہ ہے، یہی وجہ ہے کہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں اسے قرضِ حسن فرمایا: ” کون ہے جو الله کو قرض حسن دے؟ پس وہ اس کے لیے اس کو کئی گنا بڑھا دے۔“ (البقرہ)
یہاں صدقات کو ” قرض حسن“ سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس طرح قرض واجب الادا ہے، اسی طرح صدقہ کرنے والوں کو مطمئن رہنا چاہیے کہ ان کا یہ صدقہ بھی ہزاروں برکتوں اور سعادتوں کے ساتھ انہیں واپس کر دیا جائے گا۔ یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ کو کسی کی احتیاج ہے، یہی وجہ ہے کہ صدقہ فقیر کے ہاتھوں میں جانے سے پہلے الله تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچ جاتا ہے اور فقیر گویا اس دینے والے سے وصول نہیں کر رہا، بلکہ یہ اس کی طرف سے دیا جارہا ہے جو سب کا داتا ہے۔