اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کائنات میں جتنی مخلوقات پیدا کی ہیں، ان میں سب سے افضل واشرف انسان کو بنایا ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ انسان سے بہت محبت رکھتا ہے، وقفہ وقفہ سے ایسے مواقع انسان کو دیتا ہے، جس سے یہ اللہ سے زیادہ سے زیادہ قریب ہو سکے، اس کی رحمتوں کو سمیٹ سکے اور نعمتوں کا مستحق ہو سکے، اپنی کوتاہیوں کو معاف کرا سکے اور اپنے نامہ اعمال کو پاک وصاف کرا سکے، رمضان المبارک کا مہینہ ان تمام مواقع میں سب سے اعلیٰ حیثیت رکھتا ہے، صرف اس ایک مہینہ میں اللہ تعالیٰ مختلف انداز سے رحمتوں کی برسات کرتا ہے، کبھی سحر کے ثواب کے اعتبار سے، تو کبھی افطار کی فضیلت کے نام پر، کبھی روزوں کے انعام کی شکل میں، تو کبھی تراویح کے اجر کے طور پر، کبھی فرائض کا ثواب ستر گنا بڑھا کر، تو کبھی نوافل کو فرائض کی حیثیت عطا کر کے، کبھی سحر وافطار کے وقت دعا کی قبولیت کا مژدہ سنا کر، تو کبھی ہزاروں کی تعداد میں جہنم سے رہائی کا پروانہ تھما کر، اللہ تعالیٰ کے یہاں رمضان کا کتنا بڑا مقام ومرتبہ ہے… اس کا اندازہ اس بات سے لگانا مشکل نہ ہوگا کہ اس نے اپنے کلام کے نزول کے لیے اسی ماہ کا انتخاب کیا، اس مہینہ کے انتظار میں ایک سال قبل سے ہی جنت کو آنے والے رمضان کے استقبال میں سجانا شروع کردیا جاتا ہے، نیز اس ماہ کی خوشی اور شادیانے کے طور پر جنت اپنے تمام دروازوں کے ساتھ کھول دی جاتی ہے۔جب یہ مہینہ آتا ہے تو نہ صرف زمین پر رہنے والے انسانوں کے ماحول میں ایک خوش گوار تبدیلی واقع ہوتی ہے؛ بلکہ آسمان پر بھی اہتمام واحترام اور خوشی ومسرت کا عالم ہوتا ہے، فرشتوں اور جنت کے مکینوں کے درمیان اس مبارک مہینہ کی وجہ سے خوشیوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے اس مقدس اور بابرکت مہینہ کے پیش نظر سرکش شیاطین کو قید کر لیا جاتا ہے، اسی ماہ کی تیاری کے طور پر جہنم کے تمام دروازے پورے مہینہ کے لیے بند کر دیے جاتے ہیں۔
اس طرح ایک پاک وصاف ماحول انسان کو فراہم کیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس ایک مہینہ میں اپنے مقصد کے حوالے سے ان سب کی تلافی کر سکے، جو گیارہ مہینہ میں چھوٹ گئی ہیں، وہ سب حاصل کر سکے جو وہ چاہتا ہے، اپنے بنانے والے کی بارگاہ اور اس کی نظروں میں قربت کا مقام بلند حاصل کر سکے۔ اور دنیا میں آنے کے اپنے مقصد کو بڑی حد تک حاصل کر سکے۔
رسول اللہ کے یہاں رمضان کا اہتمام اور احترام
رمضان المبارک کا مہینہ آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے یہاں اس کے استقبال کی تیاریاں اس طرح ہوتیں کہ آپ شعبان کے تقریباً پورے مہینہ کے روزے رکھتے؛ تاکہ رمضان کے روزوں کا لطف زیادہ سے زیادہ حاصل ہو، آپ صلی الله علیہ وسلم صحابہ کو خوش خبری سناتے کہ ایک مبارک مہینہ آنے والا ہے، پھر اس کے فضائل ومناقب بیان فرماتے، اس کے فوائد ومنافع سے آگاہ فرماتے، اس میں غفلت اور سستی نہ برتنے کی وصیت فرماتے، اس سے محروم رہنے والے لوگوں پر افسوس کا اظہار فرماتے۔
خود کا یہ عالم ہوتاکہ آپ کی تلاوت میں اضافہ ہوجاتا؛ حتی کہ جبرئیل امین کے ساتھ قرآن کا دور ہوتا، آپ کی نمازوں کی کیفیت بدل جاتی، آپ کی سخاوت ہوا کی رفتار سے چلتی اور دریا کی رفتار سے بہتی، کبھی پورے مہینہ کے لیے مسجد میں معتکف ہوجاتے، کبھی بیس( (20دن کے لیے، اخیر عشرہ کا اعتکاف تو آپ نے پوری زندگی بڑے اہتمام کے ساتھ کیا ہے۔
رمضان المبارک میں آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا، زیادہ سے زیادہ عبادت، تلاوت اور دوسرے کار خیر کی فکر ہمیشہ آپ کے قلب ودماغ پر چھائی رہتی، دعاؤں کا اہتمام بڑھ جاتا، راحت وآرام اور بستر کو الوداع کہہ دیا جاتا۔آپ صلی الله علیہ وسلم کا رمضان عبادت وریاضت کا ایک مثالی مہینہ ہوتا تھا۔
رحمتوں کی خدائی بارش اور شیطانی چھتریاں
ایک طرف تو رمضان کا یہ اہتمام واحترام اللہ اور اس کے رسول کے یہاں ہمیں ملتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ہر گھڑی اہم(Special)ہے، ایک ایک ساعت قیمتی ہے، الگ الگ نام اور انداز سے اللہ کی رحمتیں دنیا والوں پر نازل ہوتی ہیں، ہر لمحہ ایسا ہے جس کا بے صبری سے انتظار کیا جانا چاہیے اور بھر پور طور پر اس میں موجود بشارتوں اور انعامات کو حاصل کرنے کی جی توڑ کوشش کرنی چاہیے، حتی کہ انسانوں میں اس تعلق سے مسابقے ((Competitionکا جذبہ ہونا چاہیے، ایک دوسرے سے آگے نکل کر زیادہ سے زیادہ اور اچھی سے اچھی عبادت کرنے کے جذبات ہونے چاہییں؛ لیکن افسوس کہ سوائے ایک چھوٹی سی جماعت کے، اکثر لوگ نہ صرف یہ کہ ان قیمتی اوقات سے غافل رہتے ہیں؛ بلکہ بعض تو ایسے مبارک لمحات میں بھی نفس اور نفسانی خواہشات کی قید وبند میں جکڑے رہتے ہیں، اپنے آس پاس ایسا ماحول بناتے( (Createہیں کہ کوئی نیکی، کوئی سعادت مندی اور کوئی ثواب ان تک پہنچ بھی نہ سکے، چناں چہ وہ رمضان المبارک میں بھی اپنی بری عادتوں((Habitsاور اپنے غلط معمول ((Routineسے باز نہیں آتے، گویا ان کا شیطانی نفس اللہ تعالی کی رحمتوں کے آگے اپنی نفسانی اور شیطانی چھتری تان کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ کہیں کوئی رحمت اس پر پڑ نہ جائے۔ معاذ اللہ!
موبائل اور ٹی وی کا اثر رمضان پر
چناں چہ مرد و خواتین، نوجوان بچے اور بچیوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے، جو رمضان کے مقدس اوقات بھی ٹی وی یا موبائل کی نذر کر دیتے ہیں، اسلامی نام کے بہت سے چینل خاص رمضان میں شروع ہوتے ہیں، جن پر رمضان کی مناسبت سے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں، ایک اچھی خاصی تعداد ایسے پروگرام بھی دیکھتی ہے، نیز بعض تو سیریل کی زنجیر میں ایسے پھنسے رہتے ہیں کہ ایک کے بعد دوسرے قسط( (Episodeکو دیکھنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے کہ رمضان کے مبارک مہینہ میں بھی موبائل کی لت( (Addictionان سے نہیں چھوٹتی، وہ کبھی فیس بک( (Face Bookپر رہتے ہیں، کبھی واٹس ایپ ( (WhatsAppمیں، کبھی ٹویٹر( (Twitterپر،تو کبھی انسٹاگرام( (Instagramپر، نیز کبھی ویڈیو گیم کھیلنے، تو کبھی ریل (Real کا مشاہدہ ((Watchingکرنے میں وقت گزارتے ہیں، اس طرح وہ رمضان کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں اور بجائے سعادت اور نیکی کے اپنے حصہ میں بد بختی، بد نصیبی اور محرومی جمع کرتے ہیں ۔
ایسے لوگوں کے تعلق سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بہت سے روزہ دار ایسے ہیں، جنہیں بھوک کی شدت کے سوا روزہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر121)
رمضان پر تجارت کا اثر
ہمارے بہت سے مسلمان تاجر ایسے ہیں جن کی تجارت رمضان المبارک میں بہت چلتی ہے، جیسے کپڑے والے، جوتے چپل والے، فروٹ والے اور درزی وغیرہ، حتی کہ بعض کے لیے تو یہ سالانہ سیزن ہوتا ہے، وہ اپنی سالانہ آمدنی کا بڑا حصہ اسی مہینہ میں کماتے ہیں؛ لہٰذا ان کی توجہ رمضان کی عبادتوں سے زیادہ اپنی تجارت کے فروغ اور زیادہ سے زیادہ تجارت کرنے پر رہتی ہے، حتی کہ بعض تو ایسے بھی ہیں، جو اپنے کاروبار کے چکر میں تراویح نہیں پڑھتے، بعض نوافل کا اہتمام نہیں کرتے، بعض قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرتے یا بہت معمولی کرتے ہیں۔ اور بعض تو ایسے ہیں کہ وہ روزہ سے بھی محروم رہ جاتے ہیں، اللہ اکبر!یہ کیسی محرومی کی بات ہیکہ رمضان جیسا متبرک مہینہ ایک مسلمان بغیر روزے کے گزارے! آخر ایک ایمان والا اس کی ہمت کیسے کرسکتا ہے؟!
یہ انتہا درجے کی بد نصیبی اور محرومی ہے، یہ رمضان المبارک کی بے احترامی اور بے وقعتی ہے، یہ اللہ کے انعام کو ٹھکرانا اور اس سے منھ موڑنا ہے، بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ اپنے لیے اور اہل وعیال کے لیے روزی کمانا بھی شرعی فریضہ ہے۔ یہ بالکل صحیح ہے؛ لیکن نماز چھوڑ کر، روزے چھوڑ کر اور اللہ تعالی کے احکام کو توڑکرجو روزی کمائی جائے گی، وہ پیٹ کی بھوک کو تو راحت پہنچا سکتی ہے؛ لیکن دل ودماغ کی تسکین کا باعث نہیں بن سکتی، ایسی تجارت روزی کے ساتھ ساتھ نحوست بھی لائے گی، اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی تو یہ صفت بیان کی ہے:
﴿رِجَالٌ لَا تُلْہِیہِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللَّہِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِیتَاء ِ الزَّکَاةِ یَخَافُونَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیہِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ﴾․
ترجمہ: وہ ایسے لوگ ہیں، جنہیں نہ کوئی تجارت اور نہ کوئی خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے، نماز قائم کرنے سے، زکاة دینے سے غافل رکھتی ہے، وہ ایسے دن سے ڈرتے ہیں، جس میں دل اور نگاہیں پلٹ جائیں گی۔(سورة النور37)
بلکہ اللہ کے بندے تو ایسی تجارت کرتے ہیں، جس میں کبھی گھاٹا نہیں ہوتا اور وہ تجارت درج ذیل ہے:
﴿إِنَّ الَّذِینَ یَتْلُونَ کِتَابَ اللَّہِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَةً یَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ. لِیُوَفِّیَہُمْ أُجُورَہُمْ وَیَزِیدَہُمْ مِنْ فَضْلِہِ إِنَّہُ غَفُورٌ شَکُورٌ﴾.
ترجمہ:یقینا جو لوگ اللہ کی کتاب تلاوت کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، پوشیدہ اور علانیہ طور پر ہمارے دیے ہوئے رزق سے خرچ کرتے ہیں، وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں، جس میں کبھی نقصان نہیں ہوتا۔ تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو پورا پورا اجر دے اور اپنے فضل سے اور زیادہ بھی دے؛ یقیناً وہ بڑا بخشنے والا اور قدر دان ہے۔ (سورة الفاطر29-30)
یقینا دنیا داروں کے لیے بھی رمضان کا مہینہ ایک سیزن ہے، پیسے کمانے، مال بڑھانے اور دنیا جمع کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اور اللہ کے نیک اور با توفیق بندوں کے لیے بھی یہ مہینہ ایک سیزن اور نیکیوں کا موسم بہار ہے، جس میں وہ نیکیوں کا انبار جمع کرتے ہیں، تلاوت، تراویح، روزہ اور دیگر عبادات میں اپنی محنت ومشقت اور اپنا وقت خرچ کرکے ایسی تجارت کرتے ہیں، جس میں تاجر ہمیشہ سرخ رو ہوتا ہے اور بڑے فائدہ کا حق دار بن جاتا ہے۔ ایک دنیا کے لیے تجارت ہے اور ایک آخرت کے لیے ہے، دونوں کو نفع ہوتا ہے؛ لیکن دونوں میں زمین وآسمان جیسا فرق ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کردیا ہے:
﴿الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِینَةُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَالْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَیْرٌ أَمَلًا﴾.
ترجمہ:مال واولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں۔ اور جو نیکیاں ہمیشہ رہنے والی ہیں، آپ کے رب کے نزدیک ان کا ثواب بھی بہتر ہوگا اور ان کے ساتھ وابستہ توقع (اور اس کا نتیجہ)بھی اچھا ہوگا۔ (سورة الکہف: 26)
جو لوگ روزے نہیں رکھتے وہ کس درجہ محروم اور بد نصیب ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلمنے انہیں اپنا دشمن قرار دیا ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی وعید ہے:”ثلاثٌ مَنْ حَفِظَہُنَّ فَہُوَ وَلِیّ حَقاً، ومَنْ ضَیِّعَہُنَّ عَدُوِّیْ حَقًّا: الصَّلاَةُ وَالصِّیَامُ وَاْلجَنَابَةُ“
ترجمہ:تین چیزوں کی حفاظت جس نے کی، وہ واقعتامیرا دوست ہے۔ اور جس نے انہیں ضائع کیا، وہ در حقیقت میرا دشمن ہے:نماز، روزہ اور جنابت۔ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر: 8961)
بازار بازی اور رمضان
بہت سے لوگ رمضان جیسے سنہرے موقع (Golden Chance)کو منظم ( Planned) نہیں کرتے، پہلے سے اس کی تیاری نہیں کرتے، رمضان میں پیش آنے والی ضرورتوں کا پہلے سے انتظام نہیں کرتے، عید کے انتظامات بھی قبل از وقت ((Before Time نہیں کرتے، جس کے نتیجہ میں وہ رمضان المبارک کا بڑا حصہ بازار اور خرید وفروخت( (Shoppingمیں ضائع کردیتے ہیں، سحر وافطار کے سامان کے انتظام میں کافی وقت بازار میں گزارتے ہیں اور پھر پندرہ رمضان کے بعد تو مساجد کی رونق ماند( (Dimپڑجاتی ہے اور بازار کی چمک دمک اور چہل پہل میں غیر معمولی اضافہ( Extraordinary Increase) ہوجاتا ہے۔ ہماری بعض خواتین تو اخیر عشرہ کی راتیں بازار میں ہی گزارتی ہیں، ان کو شب قدر سے زیادہ نئے ڈیزائن کے کپڑوں اور نئے ماڈل کی سینڈلوں کی تلاش رہتی ہے۔ جب کہ اخیر عشرہ میں اللہ کی رحمت، عنایت، توجہ اور انوار وبرکات کا نزول پہلے سے زیادہ ہونے لگتا ہے اور اس قیمتی عشرہ کو ہمارا معاشرہ بازار بازی کی نذر کر دیتا ہے، اللہ کی رحمت ہماری طرف متوجہ ہے اور ہم بازار کی طرف۔ کتنے افسوس کا مقام ہے!
کاش ہمارے اندر عقل اور تمیز ہوتی!رمضان کی مقدس ساعات بدترین جگہ میں ہم گزارتے ہیں، چناں چہ بازار کے تعلق سے اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے:
”أحَبُّ الْبِلَادِ إِلَی اللہِ مَسَاجِدُہَا، وَأَبْغَضُ الْبِلَادِ إِلَی اللہِ أَسْوَاقُہَا“․
ترجمہ: اللہ کے نزدیک سب سے بہترین جگہ مسجدیں ہیں اور سب سے بد ترین جگہ اللہ کے نزدیک بازار ہیں۔ (صحیح مسلم، باب أحب البلاد إلی اللہ مساجدہا، حدیث نمبر: 671)
رمضان کے ناقدروں کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی تنبیہ
اس مبارک مہینہ کی ناقدری کرنے والے کو کبھی حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اس طرح بد دعا دی:ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکی، جس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے آمین کہی۔ کبھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا:بد بخت ہے وہ شخص جو اس ماہ مبارک میں بھی باران رحمت سے محروم رہا۔ (کنز العمال، حدیث نمبر:23693)، کہیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:جس کی رمضان میں مغفرت نہ ہوسکی تو پھر کب ہوگی؟!(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر:8963)، رمضان المبارک کے مہینہ میں بھی جو لوگ گناہوں میں ملوث رہتے ہیں، ان کے بارے میں اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم کی وعید ہے کہ اگلے ایک سال تک فرشتے ان پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔(کنزالعمال، حدیث نمبر:23724)، ایک روایت میں اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:میری امت اس وقت تک ذلیل وخوار نہیں ہوسکتی، جب تک وہ روزوں کا اہتمام کرتی رہے۔ (کنز العمال، حدیث نمبر 23701)، کہیں رمضان کے بے قدروں کے بارے میں رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کو کوئی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگ بھوکے پیاسے رہیں۔ یعنی اللہ کے یہاں ان کے اس عمل کی کوئی وقعت اور اہمیت نہیں۔
آخری پیغام
لہٰذا رمضان المبارک کے موقع کو ہمیں غنیمت سمجھنا چاہیے، اس کی ایک ایک ساعت اور گھڑی کے ہم قدر کرنے والے بنیں، روزہ، تراویح اور اعتکاف کے ساتھ ساتھ تلاوت اور دیگر عبادتوں کا بہت اہتمام کرنا چاہیے، اس مقدس مہینہ میں ہر طرح کے گناہ سے پرہیز کرنا بے حد ضروری ہے، اپنے آپ کو رمضان کی مخصوص عبادتوں کے لیے زیادہ سے زیادہ فارغ کر لینا چاہیے، تجارت اور کاروبار میں کم سے کم وقت خرچ کرنا چاہیے، خرید وفروخت بالکل محدود کردینی چاہیے، ٹی وی، موبائل اور بازار میں وقت گزارنے سے بالکل دور رہیں؛ تاکہ رمضان کی رحمتیں، برکتیں اور نیکیاں زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکیں۔ اور خدا نخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم رمضان کے محروم لوگوں میں شامل ہوجائیں، بجائے سعادت مندی کے بد بختی ہمارے ہاتھ آئے، بجائے رحمت الٰہی کے فرشتوں کی لعنت ہم پر برسے اور نہ جانے ان سب کی تلافی کے لیے اگلا رمضان ملے یا نہ ملے!