بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله وسلام علی عبادہ الذین اصطفی․
دین اسلام کامل ومکمل دین ہے، جس کی تعلیمات میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہدایت وراہ نمائی ملتی ہے۔ اسلام کا حسن یہ ہے کہ اس میں تمام جان داروں کے حقوق کی پاس داری اور رعایت رکھی گئی ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو جانوروں سمیت تمام انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے۔ رحمت وشفقت اور عدل واحسان اس کا خاصہ ہے۔ جب کہ ظلم وستم، ناحق مارپیٹ، کسی کو پریشان کرنا یا کسی کی حق تلفی کرنا، اسلام کی نظر میں معیوب اور ناپسندیدہ عمل ہے، جس سے اسلام منع کرتا اور روکتا ہے۔ اسلام آنے سے پہلے انسانوں کو غلامی کی چکی میں کسا جاتا اور ان کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا جاتا تھا، اسلام ہی نے غلاموں اور باندیوں کو ان کے انسانی حقوق کا مستحق ٹھہرایا۔ جیسا کہ کئی احادیث اس پر شاہد ہیں:
حضرت ابو ذر ضی الله عنہ راوی ہیں کہ:”قال: ان اخوانکم خولکم، جعلھم الله تحت ایدیکم، فمن کان اخوہ تحت یدہ فلیطعمہ مما یاکل ولیلبسہ مما یلبس، ولا تکلفوھم ما یغلبھم، فان کلفتوھم ما یغلبھم فاعینوھم․“(صحیح بخاری:1/346)
یعنی:” نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جن کو الله تعالیٰ نے تمہارا دستِ نگر اور ماتحت بنایا ہے، وہ تمہارے بھائی ہیں ( یعنی لونڈی غلام اور خدمت گار) تو جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو ان کو وہ کھانا دے جو خود کھائے او ران کو وہ پہنائے، جس کو خود پہنے۔ ان کو ایسے کام کی تکلیف نہ دو جس سے وہ تھک جائیں، اگر اسے ایسے کام کی تکلیف دو جس سے وہ تھک جائیں تو پھر خود اس کی امداد کرو، یعنی ہاتھ بٹاؤ۔“
حضرت علی کرم الله وجہہ سے روایت ہے کہ:” کان آخر کلام النبی صلی الله علیہ وسلم : الصلاة وما ملکت ایمانکم․“ (ابن ماجہ،ص:193)
”آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے وصال سے قبل آخری نصیحت یہ ارشاد فرمائی: ” نماز کا خیال رکھو، اپنے زیردست غلاموں کے بارے میں الله تعالیٰ سے ڈرو۔“
سوچنے کی بات ہے کہ جس دین کی تعلیمات واحکامات جانوروں او رغلاموں کے بارے میں اس قدر انصاف پسند ہیں، اس دین نے اشرف المخلوقات، یعنی انسانوں کے حقوق کی پاس داری پر کتنا زور نہ دیا ہو گا۔
اسلام نے جنگوں کے احکام او رجنگوں میں دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک کی تفصیلا ت بیان کی ہیں۔ خصوصاً جب دشمن کو قیدی بنا لیا جائے تو ان کے ساتھ کس طرح سلوک کیا جائے۔ آج کی نام نہاد مہذب دنیا اسلامی روایات اور تہذیب وتمدن کے آگے ہیچ ہے، اس لیے کہ آج کی نام نہاد مہذب دنیا دشمن قیدیوں کو کسی قسم کی رعایت کا مستحق نہیں گرادنتی، بلکہ ان پر ہر قسم کا ظلم وستم روا اور جائز سمجھتی ہے۔
اسلام نے عدل وانصاف کے دونوں پلڑے، قیدی خواہ مسلم ہوں یا کافر، دونوں کے لیے برابر رکھے ہیں، چناں چہ جس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے مسلمان قیدی کو دشمن کی ظالمانہ قید سے رہا کرانے کا حکم دیا ہے، وہیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دشمن قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید بھی فرمائی۔ غزوہٴ بدر کے قیدیوں سے متعلق صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کو حکم نبوی ہوا: قیدیوں کا اکرام کرو۔ چناں چہ صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین خود قیدیوں کے لیے طعام پیش فرماتے تھے۔ (تفسیرابن کثیر)
اسیران بدر کے ساتھ صحابہ کرام کے حسن سلوک کی تفصیل علامہ شبلی نعمانی رقم فرماتے ہیں کہ :” صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین نے ان کے ساتھ یہ برتاؤ کیا کہ ان کو کھانا کھلاتے تھے او رخود کھجور کھا کر رہ جاتے تھے۔ ابوعزیز کہتے ہیں کہ مجھے شرم آتی اور میں روٹی انہیں واپس کر دیتا ،لیکن وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے او رمجھے ہی کھلاتے، کیوں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے انہیں قیدیوں کے ساتھ اچھے سلوک کی تاکید فرمائی تھی۔ ( سیرة النبی:1/230)
سہیل بن عمرو جو حضور صلی الله علیہ وسلم کے خلاف پُر زور تقریریں کیا کرتا تھا، بدر میں قیدی بنا تو حضرت عمر نے مشورہ دیا کہ اس کے نیچے کے دو دانت اکھڑوا دیجیے تاکہ اچھی طرح بول نہ سکے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : اگر میں اس کے عضو بگاڑوں تو اگرچہ نبی ہوں لیکن خدا اس کے بدلے میں میرے اعضا بھی بگاڑ دے گا۔ ( طبری)
آپ صلی الله علیہ وسلم کے حسن سلوک ہی سے متاثر ہو کر آپ صلی الله علیہ وسلم کا بہت بڑا دشمن ثمامہ بن اثال جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی قید سے رہا ہوا تو ایمان لے آیا اورپھر وہ حضرت ثمامہ بن اثال رضی الله عنہ کہلائے۔ (سنن ابی داؤد)
ہوازن کے قیدیوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے عمدہ کپڑے خرید کر پہنانے کا حکم دیا۔ ( دلائل النبوة للبیہقی)
حضرت ابو ایوب انصاری فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک قیدی خاتون اور اس کے بچے کو جدا کرنے والے کے بارے میں وعید ارشاد فرمائی کہ الله تعالیٰ روز محشر اس کے او راس کے چاہنے والوں کے درمیان جدائی ڈال دے گا۔ ( ترمذی)
حضرت ابو اسید انصاری فرماتے ہیں کہ میں کچھ قیدیوں کو حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس لے گیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک قیدی خاتون رو رہی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ میرا بچہ مجھ سے الگ کرکے بیچ دیا گیا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فوراً حکم دیا کہ اس کے بچے کو واپس لاؤ، چناں چہ اس عورت کو اس کا بچہ واپس کر دیا گیا۔ ( مستدرک حاکم)
قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے اہل جنت کے دنیاوی احوال کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَیٰ حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا﴾․(الدھر:8)
ترجمہ:” اور کھلاتے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو۔“
اسلام کی ان سنہری روایات کی روشن کرنیں آج بھی جہاں رنگ وبو میں اجالا کر رہی ہیں۔ماضی قریب میں افغانستان کے اندر مجاہدین اسلام کی قید میں ایک برطانوی خاتون صحافی دس دن رہ کر جب واپس آئیں تو طالبان کو دہشت گرد، انتہا پسند، جاہل، گنوار، اجڈ، وحشی کے القاب سے یاد کرنے والی مغربی دنیا پر اس وقت سکتہ طاری ہو گیا، جب یو ان ریڈلی نے دوران ِ قید طالبان کے حسن سلوک اوراحترام انسانیت کے رویے کی گواہی دی۔ ان کی شرافت ووضع داری او راخلاقی صفات سے متاثر یہ عیسائی خاتون بعد میں قرآن کریم کے مطالعے کی روشنی میں مزید حقیقت آشنا ہوئیں تو اسلام کے زیرنگیں آگئیں۔ جب کہ دوسری طرف گوانتا موبے میں امریکی فوج کے مسلمان قیدیوں پر دل خراش مظالم کی داستانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے۔
حال ہی میں فلسطین کے مغربی کنارے غزہ میں صہیونی قہر وجبر کاشکار او راپنی آزادی کے لیے لڑنے والے مجاہدین اسلام حماس اوراسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوا تو حماس کی قید سے رہا ہونے والی عورتیں اوربچے ان کی تعریفوں کے پل باندھتے نہیں تھک رہے ہیں۔ ایک خاتون کہتی ہیں کہ اس کی بیٹی حماس کی قید میں شہزادیوں کی طرح زندگی گزار رہی تھی۔ رہا ہونے والے بچوں کے ہاتھ میں کھانے پینے کی اشیا ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم قید کا یہ وقت بھلا نہیں سکتے۔ ایک اسرائیلی خاتون دینیل او راس کی ننھی بچی ایمیلیانے حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈر کے نام عبرانی زبان میں شکریہ کا خط تحریر کیا ہے، جو عالمی میڈیا سمیت قومی اخباروں میں بھی شائع ہوا ہے۔ اس کے مندرجات درج ذیل ہیں:
” مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گے، لیکن میں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے میری بیٹی کے ساتھ حسن سلوک او رمحبت کا مظاہرہ کیا، آپ نے اس سے والدین کی طرح سلوک کیا، اسے اپنے کمروں میں بلاتے اوراسے یہ احساس دلایا کہ آپ سب اس کے صرف دوست نہیں، بلکہ محبت کرنے والے بھی ہیں۔ آپ کی شکر گزار ہوں۔ اس سب کے لیے جب آپ گھنٹوں ہماری دیکھ بھال کرتے اور ساتھ ساتھ مٹھائیوں، پھلوں اور جو کچھ میسر تھا، اس سے ہمیں نوازنے کے لیے شکریہ، بھلے وہ دست یاب نہ بھی ہوں، بچے قید میں رہنا پسند نہیں کرتے، لیکن آپ اور دوسرے ملنے والے اچھے لوگوں کا شکریہ۔ میری بیٹی خود کو غزہ میں ملکہ سمجھتی تھی اور سب کی توجہ کا مرکز تھی، اس دوران مختلف عہدوں پر موجود لوگوں سے واسطہ رہا او ران سب نے ہم سے محبت، شفقت اور نرمی کا برتاؤ کیا، میں ہمیشہ ان کی شکر گزار ہوں گی، کیوں کہ ہم یہاں سے کوئی دکھ لے کر نہیں جارہے، میں سب کو آپ کے حسن سلوک کا بتاؤں گی، جو غزہ میں مشکل حالات اور نقصان کے باوجود ہم سے کیا۔“ اسرائیلی خاتون نے خط کے آخر میں مجاہدین او ران کی اہل خانہ کی صحت اور تن درستی کے لیے دعا کی۔“
اس خط کی سطر سطر ان مجاہدین اسلام کے حق میں گواہی ہے، جنہیں اسرائیل، دہشت گرد قرار دے کر ان کی آڑ میں پندرہ ہزار سے زائد مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام کرچکا ہے۔ یہ گھرکی گواہی ہے، جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا اور درحقیقت یہ اس بات کی بھی شہادت ہے کہ مجاہدین اسلام نے جہاد اسلام کے دوران اسوہٴ نبوی اور شیوہٴ محمد کو مکمل مدنظر رکھا اور ذرا بھی دشمنان ِ اسلام کو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات پر انگشت نمائی کا موقع نہیں دیا۔ اس موقع پر تمام مسلمان بھی فلسطینی مجاہدین کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں دنیا کے سامنے اخلاقی جرأت کے ساتھ سر اٹھانے کا حوصلہ بخشا، آپ کی شجاعت و بسالت ،قربانی وجاں نثاری، اسلام کے ساتھ وفاداری ومظلوم مسلمانوں کے حق کے لیے دکھائی گئی بہادری کو سلام ہے! آپ نے اسلام کے اولین دور کی یاد تازہ کر دی، آپ کا کردار تاریخ کے اَ ن مٹ نقوش بن کر آئندہ نسلوں کے لیے مشعل راہ ہو گا۔
لیکن جہاں فلسطینی مجاہدین کا یہ قابل ستائش اقدام سامنے آیا ہے، وہیں اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وستم کی بھیانک اسرائیلی تصویر بھی نظر آئی ہے۔ برطانوی نشریات ادارے بی بی سی کی یکم دسمبر 2023 کی رپورٹ کے مطابق 18 سالہ ” محمد نزل“ جنہیں اگست میں بلا جرم اسرائیل نے گرفتار کرکے جیل میں رکھا تھا 7/اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد ” محمد نزل“ سمیت کئی فلسطینی قیدیوں کو مارا پیٹا گیا، ان پر کتے چھوڑے گئے، انہیں کپڑوں او رکمبل سے محروم کر دیا گیا، نیز انہیں کھانے سے محروم رکھا گیا۔ایک خاتون قیدی کو جنسی زیادتی کی دھمکی دی گئی، اس کے کمرے میں آنسو گیس پھینکی گئی، کچھ قیدیوں کے اوپر اسرائیلی فوجوں نے پیشاب کیا، نیز ان پر چھریوں سے حملے کیے گئے، جس کے بعد گرشتہ سات ہفتوں میں چھ قیدی اسرائیلی تحویل میں جام شہادت نوش کر گئے ہیں۔ حالیہ جنگ بندی کے دوران قیدیوں کے تبادلے میں ” محمد نزل“ رہا کیے گئے تو ان کے طبی معائنے سے معلوم ہوا کہ ان کے دونوں ہاتھوں کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں، جس کی تفصیل انہوں نے بیان کی کہ کئی فوجیوں نے ان پرحملہ کرکے انہیں بری طرح مارا پیٹا۔ محمد نزل اپنے سر کا بچاؤ ہاتھوں سے کرتے رہے، کچھ دیربعد انہیں یقین ہوگیاکہ ان کے ہاتھوں کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں اور وہ حرکت کے قابل نہیں رہے۔ رہا ہونے کے بعد ہسپتال میں ان کے ہاتھ کے ایکسرے کرائے گئے، جس سے اُس بات کی تصدیق ہو گئی۔
یہ ہے اسرائیلی مظالم کی ایک جھلک، جو دنیاکے سامنے انسانی حقوق کا رونا روتے نہیں تھکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حالیہ غزہ کی جنگ کے بعد انسانیت، انسانی حقوق، عالمی برادری، مساوات وبرابری، عدل وانصاف جیسے الفاظ بے معنی ہو گئے ہیں۔ اور صاف نظر آرہا ہے کہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکا وبرطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک کے ہاں عدل وانصاف کے پیمانے برابر نہیں ہیں۔ نیز بعض مسلم ممالک کے بے حسی بھی اسلامی اخوت وبھائی چارگی کے تصور کو غلط ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ بہرحال! اس کے باوصف حماس نے اپنے دشمن قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کے ذریعے اسلام کی روشن تعلیمات کو ایک بار پھر مجسم کردار کی صورت میں پیش کر دیا ہے، جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ الله تعالیٰ انہیں کام یابی وفتح نصیب فرمائے، ظالموں کو نیست ونابود فرمائے اور حق کا بول بالا فرمائے، آمین!
وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین․