جہیز کی رسم اور اسلامی تعلیمات

idara letterhead universal2c

جہیز کی رسم اور اسلامی تعلیمات

مولانا عبیدالرحمن

یوں تو انسانی زندگی کے تمام تر اہم شعبہ جات بے بنیاد رسوم وروایات کے گہرے سایوں میں گرے پڑے ہیں،جن کے اپنے نقصانات ونتائج تو اپنی جگہ ہیں ہی، لیکن بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسانی زندگی مختلف مشکلات ومسائل کا شکار ہوجاتی ہے۔ان میں سے ایک اہم ترین شعبہ ”شادی بیاہ“ہے، جو ہمیشہ سے رسوم وروایات کے نرغے میں رہتا ہے اورشادی سے متعلقہ رسوم میں سے ایک اہم رسم”جہیز“ہے۔ جہیز سے مراد وہ سازو سامان ہے جو شادی بیاہ کے موقع پر لڑکی کے اہل خانہ کی طرف سے مہیا کیا جا تا ہے،چاہے وہ نقد، سونا وچاندی اورزیورات کی شکل میں ہو یا فرنیچر، برتن وغیرہ روزہ مرہ استعمال ہونے والے چیزوں کی صورت میں۔

شرعی اور فقہی حیثیت
”جہیز“کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ فقہی نقطہ نظر سے اس کی حیثیت ہبہ اور عطیہ کی ہے، جو والدین وغیرہ کی طرف سے لڑکی کو بلا عوض فراہم کی جاتی ہے ، لہٰذا اس کے بذات خود جائز ہونے ،بلکہ خلوص نیت ہو تو احسان اورکار خیر ہونے میں شبہ نہیں ہے،خصوصاً بیٹی یا بہن کو کچھ داد دہش دینا نیکی اوربھلائی کی بات ہے۔ لیکن دین اور علم دین سے تعلق رکھنے والے حضرات کے لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ بہت سی چیزیں فی نفسہ جائز،بلکہ مندوب ہونے کے باوجود، بعض عناصر کی وجہ سے مذموم وممنوع بن جاتی ہیں۔ مروجہ رسم”جہیز“بھی بحالت موجودہ یہی صورت اختیار کرگیا ہے اور فی نفسہ مندوب ہونے کے باوجود اب اس کے ساتھ اس قدر مفاسد ومنکرات وابستہ ہوچکے ہیں کہ اس کی کھلی چھوٹ دیناکسی طرح قرینِ قیاس نہیں رہا۔ ذیل میں اس کے چند مفاسد لکھے جاتے ہیں:

غیر معمولی حد تک پابندی
اس بات میں دو رائے نہیں ہیں کہ جہیزشرعاً ایک غیر ضروری چیز ہے، شریعت نے کہیں اس کو لازم یا ضروری قرار نہیں دیا۔اوراگر یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی پاکیزہ بیٹیوں کی رخصتی کے موقع پر جو کچھ دیا تھا ،اس کی حیثیت جہیز کی تھی اوراس کو جہیز کے لیے بنیاد قرار دیاجائے تو بھی اس کی نوعیت زیادہ سے زیادہ ایک مندوب اور غیر ضروری سنت عمل کی ہوگی ،اس کو فرض یا واجب تو کجا، سنتِ مؤکدہ قرار دینا بھی درست نہیں ہے۔اب ایسی غیر ضروری چیز کی پابندی کرنااورہر حال میں اس کا انتظام واہتمام کرنا شرعاً کسی طرح پسندیدہ نہیں ہے۔ بلکہ اگر اس کو لازم قرار دیاجائے تو بدعت ہونے میں بھی کلام نہیں ہے۔

غلط رسم کی بنیاد ڈالنا یا تائید کرنا
اگر کوئی شخص اپنی ذات کی حد تک اس کو لازم نہ بھی سمجھے، لیکن اس کے باوجوداس کی پابندی کرتا ہے توبھی اس سے اس رسم باطل کی تائید وتقویت ہوتی ہے۔

مزاج ِشریعت سے تصادم
نکاح سے متعلق شرعی تعلیمات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس میں یسر وسہولت اورسادگی پسندیدہ ہے، اس موقع پر غیر ضروری مالی اخراجات یا عملی انتظامات شریعت کے مزاج ومذاق کے خلاف ہے، کیوں کہ یہی سرگرمیاں رفتہ رفتہ نکاح کا حصہ بنتی جاتی ہیں اور اگر کہیں اس کے تکمیل کے اسباب ووسائل میسر نہ ہوں تواس کی وجہ سے نکاح بھی مؤخر یا معطل ہوجاتا ہے۔ ایک حدیث شریف میں ہے:

”عن سعید بن أبی ہلال:أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: تناکحوا، تکثروا، فإنی أباہی بکم الأمم یوم القیامة․“ (مصنف عبد الرزاق، باب وجوب النکاح وفضلہ:6/173)

ترجمہ:آپ صلی الله علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے:”نکاح کرکے اولاد کی کثرت کرو،کیوں کہ میں قیامت کے دن آپ کی وجہ سے دوسری امتوں پرفخر کروں گا“۔

بے حیائی کا فروغ
عقل اور تجربہ،دونوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نکاح کو مشکل بنانے سے معاشر ے میں بے حیائی کو فروغ ملتا ہے اور عفت وعصمت کی چادریں تار تار ہوجاتی ہیں۔چناں چہ نفسانی خواہشات فطری طور پر عاقل بالغ آدمی کے اندر ودیعت رکھے گئے ہیں،اگراس کے لیے کوئی جائز راستہ مہیا نہ ہو تو ناجائز پہلو کی طرف قدم اٹھے گا۔اگر ان فطری خواہشات کی تسکین کا جائز راستہ موجود تو ہو، لیکن طرح طرح کے تکلفات اور پابندیوں کو اس میں ٹھونس ٹھونس کر پیچیدہ تر بنادیاجائے تو بھی عام متوسط افراد بروقت اپنی ضرورت کی تکمیل نہیں کرپائیں گے اوراس کا بھی نتیجہ وہی ظاہر ہوگا کہ ناجائز راستوں کی بادہ پیمائی شروع ہوجائے گی ۔

انسانی تاریخ کا لمبا چوڑا تجربہ بہر حال اس بات کی تصدیق فراہم کرتا ہے ،چناں چہ ماضی کی طرح اب بھی جن معاشروں میں جلدی اور سادگی کے ساتھ نکاح کرنے کادستور ہے، وہاں فحاشی،بے حیائی اور بدکاری کے واقعات کم تر پیش آتے ہیں اور جہاں اس کے برعکس شادی بیاہ کا انتظام مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے وہاں ہر سو بے حیائی اور بے پردگی کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس لیے شادی بیاہ کے معاملات میں غیر ضروری رسموں کو جگہ دینے کا نتیجہ یہی ظاہر ہوتاہے کہ اس کی بدولت معاشرے میں بے حیائی اوربے پردگی کو فروغ ملتا ہے۔

لڑکے والوں کی جانب سے جہیز کا مطالبہ
ہمارے ہاں ایک لمبے عرصہ سے جہیز کے لین دین کا تعامل جاری ہے،اس لیے اب وہ نکاح کا ایک ضروری حصہ بن چکا ہے،لڑکی والے بھی اس کا پورا انتظام کرتے ہیں اور لڑکے والوں کی طرف سے بھی اس کے باقاعدہ مطالبے ہوتے ہیں، بلکہ متعدد جگہوں پر تواس رواج نے ا س حد تک ترقی کی ہے کہ رشتہ کی بات طے کرتے وقت ہی ساتھ یہ بھی طے کیاجاتا ہے کہ جہیز میں کیا کیا ملے گا؟ اس کا ایک نقصان تو یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ لڑکی کے اہلِ خانہ اکثر اوقات شرما شرمی میں اور دلی رضامندی کے بغیر ہی جہیز دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور دوسرا خراب نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ اس کے بدلے پھر لڑکے کے اہل خانہ سے بھی مختلف چیزوں کا مطالبہ شروع ہوجاتا ہے، حالاں کہ یہ دونوں باتیں شرعا ممنوع،گناہ اور اخلاقی ومعاشرتی لحاظ سے حد درجہ نامناسب ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر کسی مسلمان کو ملامت کرنااور طعنے دینا جائز ہوسکے۔ حدیث شریف میں ہے:

عن أبی حُرَّةَ الرَّقاشِیّ، عن عَمِّہ أن رسولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم قال:”لا یَحِلُّ مالُ امرءٍ مُسلِمٍ إلا بطیبِ نَفسٍ مِنہ․“ السنن الکبری للبیہقی،بابُ مَن غَصَبَ لَوحًا فأدخَلَہ فی سَفینَةٍ أو بَنَی عَلَیہ جِدارًا:12/62)

ترجمہ:”کسی مسلمان کامال اس کی دلی رضامندی کے بغیر لیناجائز نہیں“۔

”بحر“میں ہے:
”ولو أخذ أہل المرأة شیئا عند التسلیم فللزوج أن یستردہ؛ لأنہ رشوة․“(البحر الرائق،کتاب النکاح،باب المہر:3/200)

ترجمہ:”اگرسسرال والے رخصتی کے وقت کچھ لے لیں تو شوہر واپسی کامطالبہ کرسکتاہے، کیوں کہ شرعایہ رشوت کے زمرہ میں آتاہے“۔

”فتاویٰ شامی“میں ہے:
”أخذ أہل المرأة شیئا عند التسلیم فللزوج أن یستردہ، لأنہ رشوة․“ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین ،کتاب النکاح، باب المہر:3/156)

ترجمہ:”اگرسسرال والے رخصتی کے وقت کچھ لے لیں تو شوہر واپسی کامطالبہ کرسکتاہے، کیوں کہ شرعایہ رشوت کے زمرہ میں آتاہے“۔

غریب والدین اور لڑکی کو طعنوں کا سامنا
عام رسم ورواج کے برخلاف اگر والدین کم زور اور کم حیثیت کے لوگ ہوں اور وہ جہیز کا انتظام کیے بغیر ہی اپنی لخت جگر کورخصت کردیں توخود والدین کو بھی مختلف قسم کے طعن وتشنیع اور ملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور لڑکی کی زندگی بھی اسی کی نذر ہوجاتی ہے، چناں چہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس کو یہ طعنے ملتے ہیں۔ حالاں کہ جہیز بالکل نہ دینا یا کم دینا کوئی ایسا جرم نہیں ہے جس کی وجہ سے کسی مسلمان پر طعن وتشنیع کی اجازت دی جاسکے۔

ناجائز کمائی پر مجبور کرنا
بہت سی مرتبہ لڑکی کے اہل ِخانہ ناجائز کسب وکمائی پر مجبور ہوجاتے ہیں اور جہیز کا انتظام کرنا ان کے لیے متعدد منکرات کے ارتکاب کا ذریعہ بن جاتا ہے۔اس کی صاف سیدھی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں پہلے سے ”متوسط جہیز “میں بہت سی چیزیں داخل ہیں اور اس میں روز افزوں ترقی جاری ہے، نت نئی چیزیں اس فہرست میں جگہ پارہی ہیں ۔جب کہ عام طور پر حلال کمائی سے اس کا انتظام کرنا مشکل ہوجاتا ہے تو چار وناچار اس کے لیے حرام ذرائع کی طرف ہاتھ اٹھ جاتے ہیں،چناں چہ کہیں سودی قرض لیاجاتا ہے اور کبھی ناجائز کارو بار کی مختلف صورتیں اختیار کر لی جاتی ہیں۔

وقتی یا دائمی طور پر نکاح سے محروم
بہت سے غریب گھرانے ایسے ہیں جہاں کی لڑکیاں محض اس لیے نکاح سے محروم ہوتی ہیں کہ ان کے والدین اور بھائیوں کے پاس جہیز فراہم کرنے کی استطاعت نہیں ہے اور ایسا تو آئے دن دیکھنے میں آتا ہے کہ نکاح مکمل طور پر معطل تو نہیں ہوتا، لیکن اس میں خاصی تاخیر کی جاتی ہے اوربروقت شادی کرنا اسی فکرِ جہیز کی بدولت التوا کی نذر ہوجاتا ہے۔ حالاں کہ عام حالات میں نکاح کرنا سنت مؤکدہ ہے اور اگر قوی خدشہ ہوکہ نکاح نہ کرنے یا ملتوی کرنے کی صورت میں بدنظری، بے حیائی یا بدکاری وغیرہ گناہوں میں مبتلا ہوجائے گا تواس وقت نکاح کرنا واجب ہے۔جو چیز مسنون عمل میں تاخیر یا تعطیل کا سبب بن جائے وہ یوں ہی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے اور اگر اس کی وجہ سے کسی گناہ کے ارتکاب کرنے کی بھی نوبت آئے تو مذموم وشنیع ہونے میں شبہ نہیں ہے۔

شاید کوئی خیر خواہ دوست اس کو فرضی کارستانیاں خیال فرمائیں یا مجنون کی بھڑ کتصور کریں ،لیکن زمینی حقائق اور معاشرے کی عملی صورت حال سے ہر وقت اس کی تصدیق وتائیدہوسکتی ہے۔

جب دل ہی نہ چاہے تو بہانے ہزار ہیں
جولوگ جہیز کی اس رسم بد کی حمایت وتائید کرتے ہیں وہ عموماً یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں برصغیر کے معاشر ے میں چوں کہ عموماً عورتوں کو اپنا مقررہ حصہ میراث نہیں دیاجاتا،اس لیے کیوں نہ اس موقع پران کے ساتھ خوب نیکی واحسان کا معاملہ کیاجائے، تاکہ ان کے حقوق کی کچھ تو تلافی ہوسکے!

لیکن یہ عذر کسی طرح لائق التفات نہیں ہے، کیوں کہ وراثت میں جس طرح مردوں کا حصہ مقرر ہے اور ان کو اپنا حصہ دے دینا واجب ہے، یوں ہی عورتوں کو بھی اپنا مقررہ شرعی حصہ سپرد کردینا ضروری ہے اور اس پر قبضہ جمانا حرام ومذموم ہے۔جہیز کو اس کا متبادل قرار دینا قطعاً درست نہیں ہے، بلکہ اگر کوئی اس جذبے سے دینا چاہے تو یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دینے میں خلوص نیت بھی کار فرما نہیں ہے۔

یہ اشکال نہ اٹھایاجائے کہ کچھ بھی نہ دینے سے کچھ کچھ دینا توبہرحال بہتر ہے، کیوں کہ پہلی صورت(یعنی بالکل کچھ حصہ نہ دینے ) میں لوگ اپنے آپ کو کم ازکم مجرم تو خیال کرتے ہیں اور اگر عملی طور پر وہ اس گناہ کے مرتکب بن جاتے ہیں کہ عورتوں کے حصے پر ناجائز قبضہ جماتے ہیں تو بھی کم از کم اس کو گناہ وجرم تو تصور کرتے ہیں، جب کہ جہیز کی صورت میں تو یہ احساس بھی مردہ یا نیم مردہ ہوجاتا ہے اور لوگ اپنے تئیں اپنے آپ کومجرم ہی خیال نہیں کرتے۔

عملی تجاویز
ایک کڑوی حقیقت یہ ہے کہ جہیز کے اس رسم بد نے ہمارے ہاں معاشرے کے تقریباً تمام طبقات میں اپنے لیے جگہ پیدا کی ہے اور تقریباً سبھی لوگ کسی نہ کسی شکل میں اس کا اہتمام کرتے ہیں ۔ایسی چیزکو بدلنے کی مناسب صورت یہی ہے کہ:

الف:اپنی حد تک مضبوطی کے ساتھ اس کے لین دین سے گریز کرلیاجائے۔

ب:تمام معاشرے میں عموماً اور اپنے اپنے حلقہ اثر کی حد تک خصوصاً اس کی مذمت کی جائے ، مسلمانوں کے دینی شعور اور مذہبی حس کو بے دار کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے اور اس سلسلہ میں میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں ہوناچا ہیے۔ جو لوگ مجاہدہ سے کام لے کر سادگی کے ساتھ شادی بیاہ کریں ان کی مناسب طریقے سے حوصلہ افزائی کی جائے اور جو لوگ اسی رسم بد پر عمل پیرا ہوں،اعتدال ومیانہ روی کے ساتھ ان کے اس عمل کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس طرح کرنے سے امید کی جاتی ہے کہ کچھ ہی عرصہ میں یہ رسم بد ختم یا کم ہوجائے گی۔اللہ تعالیٰ امت مرحومہ کو رسوم ورواج کے نرغہ سے نکال کر سیادت وقیادت کے منصب پر سرفراز فرمائیں۔

مقالات و مضامین سے متعلق