باعث تحریر
ہمارے ہاں جس طرح زندگی کے باقی شعبوں سے دینی احکام پر عمل کرنے کا جذبہ اور دینی تعلیمات ہی کی روشنی میں سفرِزندگانی طے کرنے کا جوش ماند پڑ چکاہے،یوں ہی ترکہ و میراث کے باب میں بھی بے راہ روی اور غفلت کاری عروج پر ہے۔آئے دن لوگ فوت ہورہے ہیں، لیکن ان کا ترکہ یا تو سرے سے تقسیم ہی نہیں ہوتا یا اس میں شرعی ہدایات کو مدنظر نہیں رکھاجاتا،جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ کچھ عرصہ بعد وارثوں کے اندر نزاعات واختلافات کا نامبارک سلسلہ شروع ہوجاتاہے جو بغض ونفرت، قطع رحمی وبے تعلقی،چوری وخیانت،لڑائی واختلاف اور غیبت وبہتان وغیرہ مختلف جرائم پر منتج ہوتاہے،ان جیسے جرائم کی وجہ سے اندرونِ خانہ سرد جنگ کی کیفیت شروع ہوجاتی ہے،باہمی الفت ومحبت کے جذبات پھیکے پڑجاتے ہیں،جس کی وجہ سے دنیوی میدان میں بھی نفسیاتی دباؤ وغیرہ نقصانات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔
ترکہ ومیراث سے متعلق شرعی ہدایات
جب کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی تجہیز وتکفین کی جائے،اس کے بعد اگر اس پر کسی کا کوئی مالی قرض یا دین ہو تو باقی ماندہ پورے ترکہ سے اس کی ادائیگی کردی جائے، پھرمرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو،تو ترکہ کے ایک تہائی مقدارسے اس کو پورا کیاجائے،ا س کے بعد جو کچھ ترکہ باقی بچے ،وہ کسی ایک وارث کا حصہ نہیں ہے، بلکہ تمام ورثاء کا مشترکہ حق ہے اور سبھی ورثاء اپنے اپنے مقررہ حصوں کے مطابق اس کے مالک ہیں اور سب کو چاہیے کہ بروقت اس کو تقسیم کرنے کا اہتمام کیاجائے۔
ہمارا موجودہ طرزِ عمل
اس وقت عام طور پر جو صورت حال رائج ہے،وہ یہ ہے کہ بروقت مرحوم کا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا، بلکہ اس کی تمام تر چیزیں اپنی جگہ پڑی رہتی ہیں، تدفین اور تعزیت کی رائج رسوم سے فارغ ہوجانے کے بعد مختلف چیزیں جس کے ہاتھ میں آتی رہتی ہیں،وہ اس کو استعمال کرتارہتاہے، یہ نوبت بھی انہی افراد کو زیادہ حاصل ہوتی ہے جن کے ساتھ مرحوم کا رہن سہن ہوتاتھا اور جن کے گھر مرحوم کا چھوڑا ہواسامان پڑا رہتاہے۔ ایک عرصہ کے بعد جو چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جن کا سر ِعام ریکارڈ نہیں رکھاجاتا، وہ جس وارث کے قبضہ میں آجائے،وہی اس کو اٹھاکر پاس رکھتاہے اور جو چیزیں عام ریکارڈ کی ہیں،مثال کے طور پر گاڑی، گھر، دکان اورزمین وغیرہ، وہ سرکردہ ورثاء استعمال کرتے رہتے ہیں،دوسرے ورثاء کو ان چیزوں کے استعمال کی نوبت ہی نہیں آتی۔ ایک عرصہ گزرنے کے بعد تمام وارثوں کے دلوں میں چہ می گوئیاں شروع ہوجاتی ہیں،جس کی وجہ سے مختلف دینی واخلاقی خرابیاں جنم لینا شروع ہوجاتی ہیں، لیکن بیٹھ کر صفائی وستھرائی کے ساتھ تصفیہ کرنے میں اب بھی وقت درکار ہوتا ہے ۔
ترکہ تقسیم نہ کرنے کی وجوہات
ہم ایک سے زیادہ باراس بات پر سوچتے رہے کہ ہمارے ہاں ترکہ تقسیم نہ کرنے کی جو عام عادت جاری ہے،اس کی بنیاد کیا ہے؟ جب ہم اقراری مسلمان ہیں اور صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ اپنی اس مسلمان ہونے پر فخر وشکر بھی کرتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس موقع پر اہم دینی تعلیمات کی طرف معاشرے کا رخ سیدھا نہیں ہوتا، ہزاروں افراد میں سے ایک دو خوش نصیب بندے ہی ایسے ملتے ہیں جن کو ایسے موقع پر دینی احکام پر عمل کرنے کی فکر رہتی ہے اور وہ اس موقع پر دینی تقاضوں کی تکمیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں!آخر اس بات کی کیا توجیہ ہوسکتی ہے کہ اعتقادی اور زبانی لحاظ سے مسلمان ہونے کے باوجود بھی پورے معاشرے کوان احکام پر عمل کرنے کی نہیں سوجھتی حالاں کہ عمل کرنے میں کوئی فوج وپولیس بھی مانع نہیں ہے؟!
متعدد بار سوچنے کے باوجود بھی اس کی کوئی مضبوط بنیادنہیں مل سکی،بلکہ جہاں تک سوچا، دیکھا تو درج ذیل اسباب ہی کی وجہ سے کوتاہی برتی جاتی ہے:
الف:شرم وحیاء ۔ بہت سے افراد کے لیے یہ بات بڑے ہی ننگ وعار کا باعث ہوتی ہے کہ وہ اپنے مرحوم کا ترکہ وجائیداد تقسیم کریں یا اس کا مطالبہ کرلیں۔کوئی اس کو اپنی روایتی غیرت وحمیت کے خلاف خیال کرتاہے تو کوئی یہ تصور کرتاہے کہ اس طرح کرنے سے لوگوں کی نگاہوں میں اس پر مختلف طرح کی حرف گیری پیدا ہوگی۔
ب:اختلا ف اور قطع رحمی کاخوف۔ کوئی اس بہانے اس حکم کی ادائیگی سے رکتا ہے کہ اس کے خیال میں ایسا کرنے سے آپس کی رشتہ داری اور پیار ومحبت کی فضا ختم ہوجائے گی، اختلافات شروع ہوجائیں گے اور تقسیم کو یوں ہی مشترکہ حالت میں چھوڑ دیاجائے تو باہمی اتفاق برقرار رہے گا۔
ج:فقر واحتیاج کاخوف۔بعض لوگوں کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوتی ہے کہ ترکہ تقسیم کرنے اور حصوں کے علیحدہ علیحدہ کرنے میں ان کا اپنا یا دیگر کسی وارث کا نقصان ہے ،وہ اس تقسیم کرنے کے نتیجہ میں فقر واحتیاج کا شکار ہوجائے گا۔
د:عدمِ التفات۔ہزاروں افراد ایسے بھی ہیں جو اس بات کی طرف کوئی خاطرخواہ التفات ہی نہیں کرتے کہ جنازہ پڑھنے اور مرحوم کو دفنانے کے بعد بھی ان پرکوئی دینی حکم /تقاضا عائد ہوتاہے ، میراث یا تقسیمِ ترکہ کے احکام کا یا تو ان بے چاروں کو علم ہی نہیں ہوتا یا اگرعلم ہوتا بھی ہے تو بھی چوں کہ معاشرے میں اس میدان کے احکام کا عام چلن نہیں ہے ،اس لیے عملی طور پر اس کو انجام دینے کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی۔
بنیادوں کا کھوکھلا پن
یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے عام طور پر میراث کے متعلق شرعی تعلیمات واحکام پر عمل کرنے سے پورا معاشرہ محروم رہتاہے۔ ان چیزوں کو ”مضبوط بنیاد“نہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے چوتھی چیز تو محض مجرمانہ غفلت ہی ہے ،جہاں تک پہلے تین اسباب ہیں تو عام طور پر ان کا صحیح مقام”موہوم خیالات“اور ”بے بنیاد مفروضوں “ہی کا ہوتا ہے، جس کی واقعی دنیا میں کوئی تسلی بخش بنیاد موجود نہیں ہوتی اور اگر کہیں ان کو واقعی بنیاد نصیب بھی ہوجائے تو بھی ان ”مصالح“کی وجہ سے جس راستہ کا انتخاب کیاجاتاہے وہ راستہ ا ن مصالح سے زیادہ پُر خطر، مضر اور مفاسد کا باعث ہے ، اس لیے کسی عقل مند سے یہ متوقع نہیں ہے کہ وہ ایک چھوٹے سے خطرہ سے نمٹنے کے لیے دس بڑے خطرات کی راہ لے کر ان کو گوارا کرلے۔
موجودہ رسم کے دینی واخلاقی نقصانات
بروقت میراث تقسیم نہ کرنے کے نتیجے میں جو نقصانات اورخرابیاں جنم لیتی ہیں،ان میں سے چند اہم مفاسد درج ذیل ہیں:
بر وقت میراث تقسیم کرنا شریعت کا حکم ہے،تقسیم نہ کرنے کی وجہ سے اس حکم پر عمل کرنے سے محرومی ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے کے بہت سے علاقوں میں اس ”حکم عدولی“کو کوئی جرم تصور نہیں کیاجاتا،بلکہ بہت سے افراد تو ایسے بھی ہیں جو تقسیم کرنے کو اور شرعی ضابطہ کے مطابق مختلف وارثوں تک پہنچانے کو باعثِ شرم وعیب خیال کرتے ہیں جو نہایت ہی خطرے کا باعث ہے۔
مرحوم کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ تمام وارثوں کی طرف منتقل ہوجاتاہے اور وہ اپنے اپنے مقررہ حصوں کے تناسب سے اس کے مالک بن جاتے ہیں ،لیکن اس کے باوجود بھی بعض وارث مشترکہ چیزوں کو اپنے کام میں استعمال کرتے رہتے ہیں، حالاں کہ کسی کی چیز کو اس کی رضامندی کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ یاد رہے کہ اب پہلے کی طرح باہمی پیار ومحبت کی فضا برقرار نہیں رہی، بلکہ خود غرضی اور مادہ پرستی ہی کا ہر جگہ دور دورہ ہورہا ہے،اس لیے یہ بات یقینی نہیں ہوتی کہ تمام وارث دلی طور پر اس طرح کرنے پر راضی ہیں اور ان کی طرف سے اس بات کی اجازت ہے، نیز ورثاء میں نابالغ اور مجنون افراد بھی ہوسکتے ہیں، جن کی رضامندی اگر ہو بھی تو بھی شرعاً اس کا اعتبار نہیں ہے۔
مسلمانوں کی باہمی رنجشوں اور جھگڑوں کو شریعت نہایت ہی مذمت اور نا پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھتی ہے،اس کی نظر میں مسلمانوں کے باہمی نزاعات نہ صرف یہ کہ ناجائز ہیں، بلکہ جن غیر ضروری راستوں سے اس طرح جھگڑوں تک رسائی ہوتی ہے،وہ بھی اس کی نظر میں ممنوع ومذموم ہیں، چناں چہ ناجائز مالی معاملات(جن کو فقہی اصطلاح میں بیوع فاسدہ، اجارات فاسدہ وغیرہ سے تعبیر کیاجاتاہے) میں تیسیوں ایسے معاملات ہیں جن کو شریعت نے اسی بنیاد پر ناجائز وممنوع ٹھہرایا ۔ حضرات فقہائے کرام ان معاملات کے ناجائز ہونے کی وجہ یہی بیان فرماتے ہیں کہ چوں کہ اس طرح معاملہ باہمی نزاع وجھگڑی کا باعث ہے،اس لیے ناجائز ہے۔اسی طرح مالی معاملات(خریدوفروخت کا معاملہ ہو یا کرایہ داری اور شراکت داری وغیرہ کا) کے درست ہونے کے لیے شرعی نقطہ نظر سے جن شرائط کا خیال رکھنا ضروری ہے،ان میں سے متعدد شرائط کے ضروری ٹھہرانے کی وجہ یہی قراردی گئی ہے کہ ان شرائط کا تحفظ کرتے ہوئے ممکنہ اختلافات ونزاعات سے بچاجاسکتا ہے۔
ہمارا زیرِ بحث مسئلہ یعنی بروقت میراث کو تقسیم نہ کرنا بھی ان عناصر میں سے ایک اہم عنصر ہے جن کی وجہ سے باہمی جنگ وجھگڑوں کا دروازہ کھل جاتاہے۔پھر یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ان جھگڑوں کی نوعیت ان جھگڑوں سے مختلف اور بہت ہی مختلف ہے جو ”بیع فاسد“وغیرہ ناجائز معاملات کے نتیجے میں پیدا ہوسکتے ہیں، وہاں تو عام طور پر ایک دو افراد کے وقتی نزاع وجھگڑے کا خطرہ ہوتاہے، جب کہ میراث تقسیم نہ کرنے کی صورت میں جن نزاعات کا خطرہ ہوتاہے وہ گھرانوں کا جھگڑا ہوتاہے، جس کی صدائے باز گشت ہفتوں اور مہینوں، بلکہ بعض اوقات سالوں تک سنائی دیتی ہے۔
اس کی وجہ سے بہت سے افراد مختلف قسم کی عبادتوں سے بھی محروم رہتے ہیں،چناں چہ بیسیوں مرتبہ یہ پیش آتاہے کہ کوئی وارث اپنے حصہ میراث کی وجہ سے صاحب نصاب اور صاحبِ حیثیت بن جاتاہے اور حج وقربانی کے دنوں میں وہ یہ عبادتیں بجالانا چاہتا بھی ہے ،لیکن سرکردہ افراد کے میراث تقسیم نہ کرنیکی وجہ سے وہ ان عبادتوں کی ادائیگی سے محروم رہتے ہیں۔
بعض افراد ترکہ کی مشترکہ اشیاء میں خرید وفروخت وغیرہ مختلف قسم کے تصرفات کرتے رہتے ہیں، حالاں کہ دیگر شرکاء کی طرف سے نہ زبانی طور پر اس کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی وہ دلی طور پر اس پر خوش ہوتے ہیں،اس کی وجہ سے وہ تصرفات شرعاً نافذ نہیں ہوتے، حالاں کہ معاشرے کا ایک بڑا قابل ِلحاظ طبقہ ان چیزوں کو استعمال کرتا رہتاہے۔
ترکہ تقسیم نہ کرنے کا یہ تسلسل بہت مرتبہ”ناجائز کمائی“ اور”حرام خوری“کا بھی باعث بن جاتی ہے،مثال کے طور پر کسی شخص کا انتقال ہوجائے اور ترکہ میں کھیت ،دکان، ٹرانسپورٹ، کرایہ کامکان وغیرہ کوئی ایسی چیز چھوڑے جس سے مالی نفع حاصل ہوتا رہتاہے،اب کوئی ایک وارث یا چند ورثاء اس پر ایک گونا قبضہ جمالیتے ہیں اور حاصل ہونے والی آمدنی کو اپنے ہی کام میں استعمال کرتے رہتے ہیں۔
کرنے کاکام
کرنے کاکام یہ ہے کہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق تمام دین پر عمل کرنے اور کرتے رہنے کا خوب خوب اہتمام کرلے،”عبادت“ اور”اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا حصول“اگر مقصودزندگی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اس راہ میں آنے والے تمام مشکلات کو خندہ پیشانی ،دلی مسرّت اور خود اعتمادی کے ساتھ برداشت کیاجائے۔ میراث سے متعلق دینی تعلیمات کو اُجاگر کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ ہر شخص اپنے ہاں فوتگی کے موقع پر پوری پابندی اور احتیاط کے ساتھ ان احکام کو علمائے کرام سے پوچھ پوچھ کر زندہ کرتارہے۔
اللہ تعالیٰ پوری اُمت ِمسلمہ کو اپنی دینی تعلیمات کی صحیح قدردانی کرتے رہنے کی توفیق سعید نصیب فرمائیں۔