اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و مشیت سے مخلوقات کے درمیان بعض کو بعض پرفضیلت و فوقیت عطا فرمائی ہے، مثلاًجمعہ کے دن کو ہفتے کے باقی دنوں پر،عرفہ کے دن کو سال کے دیگر ایام پر، لیلة القدر کودوسری تمام راتوں پر فضیلت دی ہے اور سال کے بارہ مہینوں میں رمضان کو افضل ترین مہینہ قراردیاہے۔ علمائے کرام کااس بارے میں اختلاف ہے کہ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن افضل ہیں یارمضان شریف کے آخری دس دن؟کچھ علماء نے عشرہ ذی الحجہ کوافضل مانااورکچھ اہل علم نے رمضان شریف کے آخری عشرے کوافضل بتایا۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے تحریرفرمایا اور یہی مختار مذہب بھی ہے کہ عشرہٴ ذی الحجہ کے دن رمضان کے آخری دنوں سے افضل ہیں؛ کیوں کہ انہی دنوں میں یومِ عرفہ ہے اوررمضان کے آخری عشرے کی راتیں ذوالحجہ کے ابتدائی عشرے سے افضل ہیں؛ کیوں کہ انہی راتوں میں شب قدرہے۔(حاشیہ مشکوٰة)
ماہ ذی الحجہ کی خصوصیت
حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں کہ: ”ذی الحجہ کے مہینے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک عجیب خصوصیت اورفضیلت بخشی ہے ؛بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ فضیلت کا یہ سلسلہ رمضان المبارک سے شروع ہورہا ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عبادتوں کے درمیان عجیب و غریب ترتیب رکھی ہے کہ سب سے پہلے رمضان آیا اور اس میں روزے فرض فرمادیے ، پھر رمضان المبارک ختم ہونے پر فوراً اگلے دن سے حج کی عبادت کی تمہید شروع ہوگئی ؛اس لیے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حج کے تین مہینے ہیں شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ۔ اگرچہ حج کے مخصوص ارکان تو ذی الحجہ ہی میں ادا ہوتے ہیں ؛ لیکن حج کے لیے احرام باندھنا شوال سے جائز اور مستحب ہوجاتا ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی شخص حج کو جانا چاہے تواس کے لیے شوال کی پہلی تاریخ سے حج کا احرام باندھ کر نکلنا جائز ہے ، اس تاریخ سے پہلے حج کا احرام باندھنا جائز نہیں ۔ پہلے زمانے میں حج پر جانے کے لیے کافی وقت لگتا تھا اور بعض اوقات دو، دو، تین تین مہینے وہاں پہنچنے میں لگ جاتے تھے ۔ اس لیے شوال کامہینہ آتے ہی لوگ سفر کی تیاری شروع کردیتے تھے ۔ گویا کہ روزے کی عبادت ختم ہوتے ہی حج کی عبادت شروع ہوگئی اور حج کی عبادت ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں انجام پاتی ہے، اس لیے کہ حج کا سب سے بڑا رکن، جو ”وقوفِ عرفہ“ ہے ، 9/ذی الحجہ کو انجام پاجاتا ہے ۔ ان دس ایام کی اس سے بڑی اور کیا فضیلت ہوگی کہ وہ عبادتیں جو سال بھر کے دوسرے ایام میں انجام نہیں دی جاسکتیں ،ان کی انجام دہی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی زمانے کو منتخب فرمایا ہے ۔ حج ایک ایسی عبادت ہے جو اِن ایام کے علاوہ دوسرے ایام میں انجام نہیں دی جاسکتی۔ دوسری عبادتوں کا یہ حال ہے کہ انسان فرائض کے علاوہ جب چاہے نفلی عبادت کرسکتاہے ۔ مثلاً نماز پانچ وقت کی فرض ہے؛ لیکن ان کے علاوہ جب چاہے نفلی نماز پڑھنے کی اجازت ہے ۔ رمضان میں روزہ فرض ہے ؛لیکن نفلی روزہ جب چاہیں رکھیں ۔ زکوٰة سال میں ایک مرتبہ فرض ہے ؛لیکن نفلی صدقہ جب چاہے ادا کریں۔ان سے ہٹ کر دو عبادتیں ایسی ہیں کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے وقت مقرر فرمادیا ہے ۔ ان اوقات کے علاوہ دوسرے اوقات میں اگر ان عبادتوں کو کیا جائے گا تو وہ عبادت ہی نہیں شمار ہوگی۔ ان میں سے ایک عبادت حج ہے ،حج کے ارکان مثلاً عرفات میں جاکر ٹھہرنا، مزدلفہ میں رات گزارنا، جمرات کی رمی کرنا وغیرہ یہ وہ اعمال ہیں کہ اگر انہی ایام میں انجام دیے جائیں تو عبادت ہے اور ان کے علاوہ دوسرے دنوں میں اگر کوئی شخص عرفات میں دس دن ٹھہرے تو یہ کوئی عبادت نہیں ، سال کے بارہ مہینے منیٰ میں کھڑے رہناکوئی عبادت نہیں ،اسی طرح سال کے دوسرے ایام میں کوئی شخص جاکرجمرات پر کنکریاں ماردے تویہ کوئی عبادت نہیں ۔ غرض حج جیسی اہم عبادت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی مہینے کو مقرر فرمادیا کہ اگر بیت اللہ کا حج ان ایام میں انجام دوگے تو عبادت ہوگی اور اس پر ثواب ملے گا ورنہ نہیں۔دوسری عبادت قربانی ہے ، قربانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ذی الحجہ کے تین دن یعنی دس گیارہ اور بارہ تاریخ مقرر فرمادی ہے ۔ ان ایام کے علاوہ اگر کوئی شخص قربانی کی عبادت کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا۔ البتہ اگر کوئی شخص صدقہ کرنا چاہے تو بکرا ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرسکتاہے ؛مگر یہ قربانی کی عبادت ان تین دنوں کے سوا کسی اور دن میں انجام نہیں پاسکتی؛ لہٰذا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس زمانے کو یہ امتیاز بخشا ہے ۔ اسی وجہ سے علمائے کرام نے احادیث کی روشنی میں یہ لکھا ہے کہ رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے ایام ذی الحجہ کے ابتدائی ایام ہیں ، ان میں عبادتوں کا ثواب بڑھ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان ایام میں اپنی خصوصی رحمتیں نازل فرماتے ہیں “۔(ملخص ازاصلاحی خطبات ج2ص122)
حضرت کعب راوی ہیں، فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے وقت کو منتخب فرمایا، اس طرح پسندیدہ ترین اوقات چار محترم مہینے ہیں اور ان میں بھی سب سے زیادہ پسندیدہ ماہ ذی الحجہ ہے اور اس ماہ میں بھی سب سے بڑھ کر پسندیدہ اس کے ابتدائی دس روز ہیں۔ (لطائف المعارف)
عشرہ ٴذی الحجہ کے فضائل
ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام کی فضیلت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان دنوں کی قسم کھائی ہے اور اللہ تعالی معمولی چیزوں کی قسم نہیں کھاتے ؛بلکہ مہتم بالشان چیزوں کی قسم کھاتے ہیں ،چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ” قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی“۔(سورہٴ فجر)امام ابن کثیر نے فرمایا: دس راتوں سے مراد عشرہٴ ذی الحجہ ہے ۔اسی طرح فرمان الٰہی ہے : ”اور یہ کہ وہ چند معلوم ومعروف دنوں میں اللہ کو یاد کیا کریں۔“ (سورہٴ حج) امام ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق اس سے مراد عشرہٴ ذی الحجہ ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ﴿ولیال عشر﴾
کے ذیل میں فرماتے ہیں، یہ دس راتیں وہی ہیں جن کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں ذکرہے ﴿اتممناھابعشر﴾(اعراف)
؛کیوں کہ یہی دس راتیں سال کے تمام ایام میں افضل ہیں،امام قرطبی نے فرمایا کہ حدیث سے ذُوالحجہ کے پہلے عشرہ کا تمام دنوں میں افضل ہونامعلوم ہوا، نیز یہ بھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے بھی یہی دس راتیں ذی الحجہ کی مقرر کی گئی تھیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں اِن(ذی الحجہ کے)دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب ہو اور پسندیدہ ہو“،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یارسول اللہ!کیا یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے؛ مگر وہ شخص جو جان اور مال لے کراللہ کے راستے میں نکلے، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے“(سب اللہ کے راستے میں قربان کردے اور شہید ہو جائے، یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بھی بڑھ کر ہے )۔(مسنداحمد)
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے یہاں(ذو الحجہ کے )دس دنوں کی عبادت سے بڑھ کرعظیم اور محبوب ترکوئی عبادت نہیں لہٰذاان میں لا الہ الا اللّٰہ، اللّٰہ اکبر، الحمد للّٰہ کثرت سے پڑھا کرو۔ (احمد،بیہقی)
ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی فضیلت یہ بھی ہے کہ ان ایام میں ہر قسم کی عبادات جمع ہوجاتی ہیں، ان دنوں میں کلمہٴ شہادت کے اقرار، تجدیدایمان اور کلمہ کے تقاضوں کی تکمیل کا بھرپور موقع ہے، ان دنوں میں صلاة پنج گانہ اور دیگر نفل نمازیں بھی ہیں، ان دنوں میں صدقہ وزکاة کی ادائیگی کا موقع بھی ہے،ان دنوں میں روزے کی عبادت بھی ادا کی جاسکتی ہے، یہ دن حج وقربانی کے دن تو ہیں ہی،البتہ حج وقربانی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صرف انھیں دنوں میں ادا کیے جاسکتے ہیں، دیگر ایام میں نہیں، ذکرودعا اور تلبیہ پکارنے کے بھی یہ ایام ہیں۔ہرقسم کی عبادت کا ان دنوں میں اکٹھا ہوجانا یہ وہ شرف واعزاز ہے جو ان دس دنوں کے ساتھ مخصوص ہے، اس اعزاز میں اس کا کوئی اور شریک نہیں۔
ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی فضیلت یہ ہے کہ یہی وہ ایام ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنے دین کی تکمیل کی ہے۔تکمیل دین وہ گراں قدر عطیہ ہے جس سے اہل دین کی تکمیل ہوتی ہے، ان کے اعمال وکردار اور اجروثواب کی تکمیل ہوتی ہے، حیات کاملہ نصیب ہوتی ہے، اطاعت وفرماں برداری میں لذت ملتی ہے، گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے، مخلوقات کی محبت ملتی ہے، ایمان اور اہل ایمان کو طاقت وقوت ملتی ہے، نفاق اور اہل نفاق ذلت وپستی میں گرجاتے ہیں، تکمیل دین سے نفس امارہ پر، شیطان لعین پر اور نارواخواہشات پر غلبہ نصیب ہوتاہے، اللہ کی عبادت میں نفس پُرسکون ہوتا ہے، قرآن مجید کے اندر تکمیل دین کا اعلان بھی اسی عشرہ میں ہوا ہے، جس کی بنا پر یہودی ہم سے حسد کا شکار ہوگئے، ایک بار ایک یہودی عالم نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ کی کتاب قرآن مجید میں ایک ایسی آیت ہے کہ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم یوم نزول کو عیدبنالیتے، وہ آیت ہے: آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو کامل کردیا اورتم پراپنا انعام بھرپور کردیااور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا (المائدة) حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ یہ آیت کب اور کہاں نازل ہوئی ہے؟جمعہ کے دن میدان عرفات میں نازل ہوئی ہے۔
ان دس بابرکت دنوں کے مستحب اعمال
حج اور عمرہ کی ادائیگی: یہ دونوں سب سے افضل عمل ہیں۔نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”پے در پے عمرہ کرنا دو عمرے کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مقبول کا صلہ جنت ہی ہے۔“ (جنت کے سوا کچھ بھی نہیں) (متفق علیہ)
پورے دنوں کے روزے رکھنا یا اتنے رکھنا جتنے کہ رکھ سکیں(عید اور ایام تشریق کے علاوہ) امام نووی نے بیان فرمایا کہ روزہ رکھنا نہایت درجہ مستحب عمل ہے۔ (شرح مسلم) نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے عرفہ کے روزے کے متعلق دریافت کیے جانے پر فرمایا: گذشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے ۔(صحیح مسلم)
کثرت سے عمل صالح انجام دینا جیسے، نفلی عبادتیں، روزہ، خیرات، تلاوت اور صلہٴ رحمی وغیرہ۔
زیادہ سے زیادہ سبحان اللہ، الحمدللہ، لاالہ الااللہ، اللہ اکبر
کہتے رہنا۔آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ” ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی پاکی، بڑائی، حمد وثنا یبان کرو اور اس کی بندگی وعبودیت کا اظہار کرو“ (مسنداحمد )
خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ایام حج میں منی کے اندر اپنے خیمے میں بلند آواز سے تکبیر پڑھا کرتے تھے اور اس طرح مسجد میں موجود لوگ اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے ان کی آواز سن کر پڑھا کرتے تھے، پھر پورا منی ان آوازوں سے گونج اٹھتا تھا۔
قربانی کی تیاری:رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور جس کسی نے بھی قربانی کرنے کی نیت کی ہو تو پھر اسے اپنے بال کتروانے اور ناخن تراشنے سے رکے رہنا چاہیے“۔ (مسلم شریف)
خلاصہٴ کلام
ہم سب کی حتی الامکان کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارا زیادہ سے زیادہ وقت طاعت وعبادت میں صرف ہو، ہم اپنے شب وروز مالک الملک کو منانے اور روٹھے رب کوراضی کرنے کی کوشش میں گزاریں، معاصی اور گناہوں سے کلی اجتناب کی فکر کریں، بالخصوص آنکھ اور زبان کے گناہوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں اور اس بات کو بھی ذہن نشیں کرلیں کہ بابرکت ساعتوں میں جس طرح نیکیوں کا اجر و ثواب بڑھادیا جاتا ہے، ٹھیک اسی طرح ان میں گناہوں کا وبال بھی دوگنا ہوجاتا ہے۔ اگر ہم نے کماحقہ اس جانب توجہ کی تو ذات باری تعالی سے امید ہے کہ ذی الحجہ کے یہ بابرکت ایام ہمارے لیے خوش بختی کا پیغام ہوں گے اور ہم دائمی سعادتوں سے بہرہ مند ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے اعمال کی توفیق بخشے جو اس کی رضا و خوش نودی کا سبب ہوں اور ہمارے اعمال صالحہ کو شرف قبول عطا فرمائے ۔ آمین!