حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم․ أما بعد!
فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَرَہُ،وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَرَہُ ﴾․(سورة الزلزلة:8-7)صدق الله مولانا العظیم․
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ پس جو کوئی بھی ذرے کے برابر، ذرے کے وزن کے برابر خیر اور نیکی کرے گا تو وہ اس کا نتیجہ دیکھے گا اور جو کوئی ذرے کے وزن کے برابر بدی، سیئہ اور برائی کرے گا تو وہ بھی اس کا نتیجہ دیکھے گا۔
یہ الله تعالیٰ کا فرمان ہے:چناں چہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں وہ یا خیر ہوتی ہے اور یا شر ہوتی ہے۔
چناں چہ کسی چھوٹے سے چھوٹے خیر کے عمل کو چھوٹا سمجھنا حقیر سمجھنا یا بیکار سمجھنا یہ کسی بھی طرح درست اور صحیح نہیں ۔
اور اسی طرح بدی اور برائی کو چھوٹا سمجھنا اور اسے کر لینا یہ بھی کسی طرح سے جائز اور درست نہیں، دونوں چیزیں اثرانداز ہوتی ہیں، دونوں چیزوں میں اثر ہوتا ہے۔
یہ جو آپ نے آیت سنی، جس میں الله تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ﴾
جو کوئی ذرے کے وزن کے برابر عمل کرے گا۔
ذرے کی تعریف
محقق علماء فرماتے ہیں کہ یہ جو ذرہ ہے، بعض حضرات فرماتے ہیں کہ رائی کے دانے کے اگر سو حصے کیے جائیں تو جو سوواں حصہ ہے وہ ذرہ ہے او ربعض حضرات فرماتے ہیں کہ دھوپ میں جو ذرات آپ اڑتے ہوئے دیکھتے ہیں، پہلے زمانے میں ٹین کی چھتیں ہوتی تھیں، لکڑی کی چھتیں ہوتی تھیں، ان چھتوں میں بعض دفعہ سوراخ ہوتے تھے یا روشن دان یا کھڑکی او راس سے روشنی کمرے کے اندر آتی تھی چاہیے وہ روشنی سوراخ سے آئے باروشن دان سے ، تو اس دھوپ میں ، روشنی میں ذرات اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں، تو بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ ذرہ ہے۔
اب اس کا تو بظاہر کوئی وزن ہی نہیں ہے، رائی کا سوواں حصہ اس کا بھی کوئی وزن نہیں، لیکن اگر اتنا بھی کوئی خیر کا عمل ہو تو وہ بھی الله کے ہاں رائیگاں نہیں اور اس کا بھی اثر ہے اور اسی طرح سے بدی او ربرائی ہے، وہ چاہے چھوٹی سے چھوٹی ہو تو اس کا بھی اثر ہے۔
ہم آج مادیت کے ایسے گڑھے میں گر گئے ہیں کہ ہمیں ان چیزوں کا کوئی احساس اور شعور نہیں، حالاں کہ یہ جتنے بھی اعمال خیر ہیں سب مؤثر ہیں، نہایت طاقت ور اثر رکھتے ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کا یقین، اس کا استحضار ہو۔
حضرت علی رضی الله عنہ کا واقعہ:
” بخاری شریف“ میں پڑھ رہے تھے کہ حضرت علی رضی الله عنہ کو آشوب چشم ہو گیا غزوہ خیبر کے موقع پر، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو بلایا او رکچھ پڑھ کر اپنا لعاب مبارک حضرت علی رضی الله عنہ کی آنکھوں پر لگایا، اسی وقت ٹھیک ہو گئے۔ یہ کیا ہے ؟ اثر ہے ۔
”عن سھل بن سعد رضی الله عنہ سمع النبی صلی الله علیہ وسلم یقول یوم خیبر: لأعطین الرایة رجلا یفتح الله علی یدیہ، فقاموا یرجون لذلک أیھم یعطی، فغدوا وکلھم یرجو أن یعطی، فقال: أین علی؟ فقیل: یشتکی عینیہ، فأمر فدعی لہ فبصق في عینیہ فبرأ مکانہ حتی کأنہ لم یکن بہ شيء․“ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الجہاد، باب دعاء النبي صلی الله علیہ وسلم إلی الإسلام والنبوة، رقم:2942)
حضرت سلمة بن الأکوع رضی الله عنہ کا واقعہ:
حضرت سلمہ بن الأکوع رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں غزوہ خیبر میں زخمی ہو گیا، ٹانگ میں چوٹ آگئی تو سب حضرات کہنے لگے کہ سلمہ زخمی ہو گیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کو پتہ چلا آپ صلی الله علیہ وسلم نے کچھ پڑھ کر دم کیا تو فوراً ٹھیک ہو گئے او رفرماتے ہیں کہ اب تک کوئی تکلیف نہیں۔
”حدثنا یزید بن عبید قال: رأیت أثر ضربة فی ساق سلمة فقلت: یا أبا مسلم، ما ھذہ الضربة؟ قال: ھذہ ضربة أصابتھا یوم خیبر، فقال الناس: أصیب سلمة، فأتیت النبی صلی الله علیہ وسلم فنفث فیہ ثلاث نفثات فما اشتکیتھا حتی الساعة․“( الجامع الصحیح للبخاری، کتاب المغازی، باب غزوة خیبر، رقم الحدیث:4206)
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا جو مرتبہ ومقام ہے وہ نہایت بلند ہے، وہ ہر کس او رناکس کا نہیں ہو سکتا، لیکن یہ طے ہے کہ ان سب چیزوں کے اثرات ہیں۔
” بخاری شریف“ میں ایک واقعہ ہے حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما نے اسے آپ صلی الله علیہ وسلم سے نقل فرمایا ہے او رامام بخاری رحمہ الله نے اسے اپنی جامع میں ذکر فرمایا ہے۔
وہ فرماتے ہیں، کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے اور ان تینوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ کام کے لیے کسی دوسرے شہر جاتے ہیں، چناں چہ وہ اپنے علاقے سے نکلے ، راستے میں بارش ہو گئی، پہاڑی علاقہ تھا، اس بارش سے بچنے کے لیے یہ ایک غار میں چلے گئے کہ بارش رکے گی تو پھر اپنا سفر شروع کریں گے۔
جب یہ غار کے اندر گئے، بارش ہو رہی تھی، جو لوگ پہاڑی علاقوں کے رہنے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بارش میں پہاڑوں سے بڑے بڑے پتھر لڑھک جاتے ہیں، تو ایک بڑی چٹان اوپر سے لڑھکی اور اس غار کے منھ کے اوپر بالکل منطبق ہو گئی، ایسی منطبق ہو گئی کہ روشنی اور ہوا کا گزر بھی بند ہو گیا اور چٹان اتنی بڑی تھی کہ یہ تینوں مل کر بھی اسے ہٹا نہیں سکتے تھے، سوائے موت کے او رکوئی چیز سامنے نہیں تھی۔
چناں چہ جو کچھ بھی زاد راہ تھا سب ختم ہو گیا اور اب موت سامنے نظر آنے لگی تو ان تینوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب الله تعالیٰ کے سوا اور کوئی آسرا نہیں، چناں چہ انہوں نے طے کیا کہ الله کے سامنے اپنا کوئی ایسا عمل پیش کریں جو خالص الله کے لیے کیا ہو اور وہ عمل پیش کرکے ہم الله تعالیٰ سے دعا کریں کہ اے الله! اگر یہ عمل ہم نے صرف آپ کی رضا کے لیے کیا ہے تو آپ اس عمل کو قبول فرما کر ہماری اس مشکل کو آسان فرما دیں۔
چناں چہ ان میں سے ایک نے الله کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اے الله! آپ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرے ماں باپ بوڑھے اور ضعیف ہیں اور میں اپنے گھر کی ضرورت کے لیے بکریاں اور مویشی چراتا تھا اور میرا معمول یہ تھا کہ میں جب شام کو واپس آتا تو میں جانوروں کا دودھ نکال کر اپنے ماں باپ کی خدمت میں پیش کرتا۔
ایک دفعہ واپسی میں مجھے کافی تاخیر ہو گئی، میرے ماں باپ میرا انتظار کرتے کرتے سو گئے، میری بیوی او رمیرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی انتظار میں تھے اور بچے بھوک کی وجہ سے رو رہے تھے۔ جب میں گھر پہنچا تو میرے بچے بھوک سے بلک رہے تھے، میں نے بکریوں کا دودھ نکالا اور سب سے پہلے جب میرے والدین بیدار ہوئے ان کو پیش کیا اور بچوں کو والدین سے پہلے نہیں دیا۔
اگر میرا یہ عمل آپ کو پسند آیا اور اسے آپ نے قبول فرمایا تو اس کی برکت سے ہمار ی اس مشکل کو آسان فرما دیں۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ غار کے منھ پر جو چٹان تھی اس میں حرکت ہوئی او رتھوڑی سی کھسک گئی، لیکن وہ چٹان اتنی کھسکی کہ اس میں سے کوئی نکل نہیں سکتا تھا۔
اس کے بعد دوسرے نے اپنا عمل پیش کیا اور کہنے لگا کہ اے الله! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں نے اپنے کسی کام کے لیے مزدور کو مزدوری پر رکھا اور اس سے مزدوری طے کی کہ میرا یہ کام کرو گے تو اتنی مزدوری میں تمہیں دوں گا، چناں چہ اس مزدور نے کام کیا اور کام کرنے کے بعد اس نے اپنی مزدوری نہیں لی اور بغیر مزدوری لیے وہ چلا گیا۔
چناں چہ میں نے اس کی اجرت کے پیسے اپنے پاس رکھے، لیکن وہ نہیں آیا تو میں نے ان پیسوں سے ایک بکری خریدی اور اس بکری میں خوب برکت ہوئی، اس بکری نے بچے دیے، وہ بڑے ہوئے او رانہوں نے اور بچے دیے، اس طرح ہوتے ہوتے بہت بڑا ریوڑ بکریوں کا ہو گیا، اتنا بڑا ریوڑ ہو گیا کہ وادی اس سے بھر گئی۔
برسوں بعد وہ مزدور مجھے تلاش کرتے ہوئے آیا او رمجھ سے کہنے لگا کہ کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ میں نے آپ کے پاس مزدوری کی تھی اور مزدوری کے پیسے میں نے نہیں لیے تھے ،وہ پیسے آپ کے پاس ہیں اس لیے آپ مجھے وہ مزدوری کے پیسے دیے دیں، تو میں نے اس سے کہا کہ وہ جو پہاڑوں کے درمیان وادی میں جانور چر رہے ہیں وہ سب کے سب آپ کے ہیں۔
اس نے کہا میرے ساتھ مذاق نہ کرو اور میری جو مزدور ی ہے وہ مجھے دے دو، میں نے اس سے کہا کہ وہ مزدوری جوآپ نے نہیں لی تھی اس سے میں نے بکری خریدی اور اس میں برکت ہوئی اور یہ سب اب آپ کی ہیں، چناں چہ وہ سب بکریاں لے گیا، اے الله! اگر آپ کو میرا یہ عمل پسند آیا ہو اور آپ کی بارگاہ میں قبول ہوا ہو تو آپ ہماری اس مشکل کو آسان فرمائیں اور اس مشکل سے نجات عطا فرمائیں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ چٹان اور کھسک گئی، یہ چٹان ہل رہی ہے کس وجہ سے ؟ عمل کی وجہ سے۔
تو اب بھی یہ چٹان اتنی ہلی کہ غار سے نکلنا اب بھی ممکن نہیں تھا، تیسرا آدمی تھا، اس نے بھی الله تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا عمل پیش کیا اے الله! آپ جانتے ہیں کہ میر ی ایک چچا زاد بہن تھی اور وہ بہت حسین تھی میرا دل اس پر آگیا او رمیں نے چاہا کہ اس سے اپنی ناجائز او رحرام خواہش پوری کروں تو اس نے مجھ سے کہا کہ اگر تم مجھے اتنا سونا دو گے تب میں تمہاری یہ خواہش پوری کروں گی۔
چناں چہ میں نے محنت مزدوری کی اور اتنا سونا میں نے کما لیا اورکمانے کے بعد اس سے کہا کہ میں نے تمہاری شرط پوری کر لی ہے، تو اس نے اپنے آپ کو میرے حوالے کر دیا او رجب میں اس سے اپنی ناجائز خواہش پور ی کرنا چاہ رہا تھا تواس نے مجھ سے کہا کہ اے الله کے بندے! الله سے ڈر! تو میں اٹھ گیا اور میں نے صرف آپ کی خوش نودی اور آپ کے ڈر سے اس کو ہاتھ نہیں لگایا۔اے الله! اگر آپ کو میرا یہ عمل پسند آیا ہو تو ہماری اس مشکل کو ختم فرما دیں۔
چناں چہ حدیث میں آتا ہے کہ وہ چٹان غار کے منھ سے پوری طرح ہٹ گئی اور غار کھل گیا اب یہ کیا ہے؟ عمل کی تاثیر ہے۔
(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار، رقم:3465)
ہم بھی اعمال کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور بے شمار اعمال کرتے ہیں، لیکن اس استحضار کے ساتھ نہیں کرتے کہ الله نے اس عمل میں کتنی طاقت رکھی ہے۔
چناں چہ ہر بدی اور ہر گناہ سے بچنا بہت اہمیت کا حامل ہے، اسی طرح ہر نیکی کا کام کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔
ہر نیکی او رخیر کو حقیر نہ سمجھیں، ہلکا نہ سمجھیں، کبھی اس کو چھوٹا نہ سمجھیں، چھوٹے چھوٹے اعمال، یہ انسان کے لیے زینہ ہوتے ہیں، سیڑھی ہوتے ہیں، انسان قدم بقدم ان اعمال کے ذریعے اوپر کی طرف جاتا ہے، ترقی کرتا ہے، اور بدی اورگناہ ایسے ہیں کہ ان سے انسان کا قلب سیاہ ہو جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ انسان ایک گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے ،دوسرا گناہ کرتا ہے تو دوسرا نقطہ لگ جاتا ہے او رایک وقت آتا ہے کہ اس کا قلب گناہوں کی کثرت کی وجہ سے سیاہ ہو جاتا ہے۔ (سنن الترمذی، تفسیر القرآن، سورة ویل للمطففین، رقم:3334، وسنن ابن ماجہ کتاب الزھد، باب ذکر الذنوب، رقم:4244) اور پھر وہ بے حس ہو جاتا ہے، احساس نہیں ہوتا، گناہ کرتا ہے اور اس کے اندر یہ شعور او راحساس نہیں ہوتا کہ یہ میں کیا کر رہا ہوں۔
انسان سے گناہ سرزد ہو جائے تو فوراً توبہ کرے، فوراً استغفار کرے، استحضار کے ساتھ استغفار کرے اور الله تعالیٰ کی طرف رجوع اورانابت بھی استحضار کے ساتھ کرے۔ اور گناہوں سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کرے۔
ایک بہت بڑا گناہ جو آج کل عام ہے وہ بدنظری کا گناہ ہے اوربدنظری ایسا خوف ناک گناہ ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی کو عبادت میں حلاوت نہیں ملتی، آدمی نماز پڑھ رہا ہے، لیکن حلاوت نہیں، اس میں الله تعالیٰ کی طرف انابت پیدا نہیں ہوتی۔
آج نماز پڑھتے ہیں لیکن حلاوت نصیب نہیں ہوتی، وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایسے گناہ سر زد ہو جاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے نماز میں استحضار نہیں ہوتا تو اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ خیر کے ہر عمل کی طرف راغب ہوں اور شر چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو اس سے اپنے آپ کو بچائیں:”إماطة الأذی عن الطریق“
راستے میں کوئی تکلیف دہ چیز پڑی ہوئی ہے، اس کو ہٹا دیں۔”عن أبی سعید الخدری رضی الله عنہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: الإیمان بضع وسبعون شعبة، أرفعھا لا إلہ إلا الله وأدناھا إماطة الأذی عن الطریق․“ (المعجم الأوسط، رقم الحدیث:6962، وسنن الترمذی، کتاب الإیمان، باب استکمال الإیمان زیادتہ ونقصانہ، رقم:6416)
اپنے ساتھیوں سے خوش خلقی سے پیش آئیں۔ اپنے ماں باپ کا احترام کرنا، بہن بھائیوں کا احترام کرنا، اپنے اساتذہ کا ادب اور احترام کرنا او راپنے بڑوں کا ادب اور احترام کرنا یہ سب نیکیاں ہیں۔
ہر ہر نیکی کی حرص اور لالچ ہو، یہ بھی کر لیں، یہ بھی کر لیں اور استحضار کے ساتھ ہو، پانی پیتے ہیں، لیکن عام طور پر ” بسم الله“
پڑھنا بھول جاتے ہیں، بیٹھ کرپینا، تین سانس میں پینا، آخر میں الحمدلله کہنا، اس میں کیا جاتا ہے؟ یہ سب نیکیاں ہیں، الله تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔