اسلام اور سیاست
اعتقادیات،عبادات،معاشرت اور معاملات کی طرح سیاست بھی اسلام کا اہم ترین شعبہ ہے،کیوں کہ سیاست کے معنی ہیں امور ِ سلطنت کو احکام ِ الہیہ کے مطابق چلانااور یہ کام اللہ تعالی کے تمام انبیاء اور ان کے سچے پیروکاروں نے کیا ہے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی راہ نمائی بھی کیا کرتے تھے ،جب بھی کوئی نبی دنیا سے چلا جاتا تھا تو دوسرا اس کی جگہ مبعوث کر دیا جاتا تھا،لیکن یاد رکھو! میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا،البتہ میرے نائب بہت ہوں گے۔(صحیح بخاری،کتاب حدیث الانبیاء)
قیام ِ امن کے لیے مجرمین پر حدود کا نفاذ ،متمول مسلمانوں سے زکوة کی وصولی اور مستحقین تک اس کی رسائی،اقوام ِ کفار سے جہاد،ذمیوں سے جزیہ کی وصولی ،درپیش چیلنجز سے نمٹنا،وبائی امراض اور زمینی و آسمانی آفات کے سد ِ باب کے لیے کوشش،رعایا کی معاشی ،دفاعی اور تعلیمی ضروریات کا انتظام اور ملکی نظم و نسق سے تعلق رکھنے والے دیگر تمام شعبہ جات کو بہتر انداز میں چلانا سیاست کہلاتا ہے ،جو کہ خالصةََ اسلامی امر ہے ،اس کو مذہب سے جدا کرنا کج فہمی اور دینی تعلیمات سے ناواقفیت کی دلیل ہے اور بے دین شخص کا حکمران بن کر خود ساختہ قوانین کے ذریعہ نظام ِ مملکت چلانا اللہ تعالی کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے،اسی حقیقت کا اظہار علامہ اقبال مرحوم کے اس شعر میں ہے
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
امور ِ سلطنت اور احکام ِ شریعت
اسلام ایک کامل دین اور مکمل نظام ِ حیات ہے، جس کا دستور ِ اصلی کتاب اللہ اور سنت ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ،اس لیے اس میں بڑی بسط و تفصیل اور شرح و توضیح سے حکومت اور حکمرانی کے حوالہ سے شرعی احکام بیان کیے گئے ہیں اور نہایت جامع ہدایات دی گئی ہیں،یہ احکام دو طرح کے ہیں ، بعض رعایا اور عوام سے اور بعض امراء ِ سلطنت اور ارباب ِ اقتدار سے متعلق ہیں ،پہلے رعایا سے متعلق احکامات بیان کیے جاتے ہیں۔
اطاعت ِ امیر
رعایا کی اولین ذمہ داری امیر اور حاکم ِ وقت کی اطاعت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خاص تاکید فرمائی ہے ،حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(حاکم کی بات)سنو اور (اس کی ) اطاعت کرو، اگرچہ تم پر کسی ایسے حبشی غلام کو امیر مقرر کر دیا جائے جس کا سر کشمش کی طرح (یعنی چھوٹا سا ) ہو۔(صحیح بخاری)اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جب رعایا قوانین ِ سلطنت کی پاس داری کرے گی اور اپنے امیر الموٴمنین کادست و بازو بنے گی تو اس سے ان کی اجتماعی قوت میں مزید اضافہ ہو گااور دشمن کے اس سلطنت کو ختم کرنے کے خواب چکنا چور ہو جائیں گے۔ اس کے بر عکس اگر کسی خطے یا قوم کے کچھ افراد اٹھ کر اسلامی حکومت کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کر دیں گے توان کی وحدت پارہ پارہ ہو جائے گی،اختلاف کی نحوست سے ہر محکمہ کمزور پڑ جائے گا،ملک ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کا شکار ہو جائے گا ، شریعت ِ اسلام نے اسی وجہ سے اسلامی حکومت کے باغیوں کی سزا قتل رکھی ہے، تاکہ کوئی شدت پسند گروہ بغاوت سے پہلے ہزار بار سوچے کہ اسے کس سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، البتہ اطاعت ِ امیر کے سلسلہ میں دو باتیں قابل ِ لحاظ ہیں ،ایک یہ کہ اگر کہیں حکام کی جانب سے عوام کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیا جائے اور بار بار کے مطالبے کے باوجود ان کی شنوائی نہ ہو توحکومت پر دباوٴ ڈالنے کے لیے قانون کے دائرے میں رہتے ہو ئے احتجاج کی بھی اجازت ہے،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ملکی املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے،جلاوٴ گھراوٴ کے احتجاج کی قطعاََ حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی اور دوسرا یہ کہ اگر حاکم ِ وقت کسی خلاف ِ شرع کام کا حکم دے تو اس کی پیروی نہ کی جائے ،حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے:جب تک (امیرالموٴمنین کی جانب سے) معصیت کا حکم نہ دیا جائے اس وقت تک مسلمان پر سمع و طاعت لازم ہے اور اگر اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو اس کے لیے نہ سننا ضروری ہے اور نہ اطاعت کرنا۔ (سنن ترمذی)
تعظیم ِ امیر
حاکم قوم کا بڑا ہوتا ہے،اس نسبت سے اس کااحترام رعایا پر واجب ہے ،اس کے شایان ِ شان اس کو القاب و اسماء سے بھی پکارا جا سکتا ہے، چناں چہ حدیث میں حاکم ِ وقت کو ”ظل اللہ“ یعنی خدا کا سایہ کہا گیا ہے ،جس کا ترجمہ ہمارے عرف میں ”ظل ِ الہی“ سے کرتے ہیں، حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بادشاہ زمین پر خدا کا سایہ ہے، جس کے پاس خدا کے بندوں میں سے جومظلوم ہوتے ہیں ان کو پناہ ملتی ہے ،حاکم جب عدل کرتا ہے تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اور رعایا پر اس کی شکر گزاری واجب ہے۔(بیہقی)دوسری حدیث میں حاکم کی اہانت کو اللہ کی اہانت اور حاکم کی عزت کو اللہ کی عزت قرار دیا گیا ہے،چناں چہ ارشاد ِ نبوی ہے : جس نے اللہ کے (مقررکردہ) بادشاہ کی عزت کی اس نے اللہ کی عزت کی۔ (مناوی)
بحیثیت رعایا کے ایک فرد کے جس طرح ان پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور وہ ان سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے ،اسی طرح سلطان ِ مملکت کے بھی کچھ فرائض ہیں، جن کی تکمیل کے بغیر اسے تخت ِ شاہی پر بیٹھنے کا حق حاصل نہیں ،لہٰذااب وہ امور ذکر کیے جاتے ہیں جن کا تعلق حاکم ِ وقت سے ہے۔
خدمت ِ خلق کا جذبہ
حاکم ِ وقت کی سب سے پہلی اور بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خلق ِ خدا کی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہو،کہنے کو تو وہ امیر الموٴمنین ہوتا ہے ،لیکن درحقیقت وہ اس قوم کا خادم ہوتا ہے ،حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :قوم کا سردار سفر میں ان کا خادم ہوتا ہے۔
(بخاری،مسلم)حدیث اگرچہ سفر سے متعلق ہے، لیکن اس سے صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ امیر ِ قوم کا پیشہ خدمت ِ خلق ہونا چاہیے،عوام کی دہلیز تک انصاف کی فراہمی ،بے جا ٹیکسز نہ لگانا،ماتحت امراء اور وزراء کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھنااوربرابری کی بنیاد پر حقوق کی تقسیم کرناوغیرہ سب خدمت ِ خلق کے زمرے میں آتا ہے ،اس سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایام ِ خلافت کے حالات کا مطالعہ سلاطین ِعالم کے لیے بے حد مفید ہے،آپ رضی اللہ عنہ کے سوانح سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کو بذات ِ خود مدینے کی گلیوں میں پہرہ داری کرتے ،اس دوران کوئی پریشان حال مل جاتا تو اس کی مدد کرتے ،ایک مرتبہ دوران ِ گشت معلوم ہوا کہ ایک خیمہ میں عورت کے ہاں بچے کی ولادت ہو رہی ہے تو اپنی بیوی کو اس کے ہاں بھیج دیا ،ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک عورت ہنڈیا میں پانی ابال رہی تھی، تاکہ بچوں کو کھانا پکنے کی آس دلا کر سلا دے،آپ رضی اللہ عنہ نے خود اپنے کندھے پر گندم کا توڑا رکھ کر اس کے گھر پہنچایا اور آئندہ کے لیے اس کا مستقل وظیفہ جاری فرمایا،نیک حکمرانوں کے اس نوع کے واقعات سے کتب بھری پڑی ہیں،شیخ سعدی رحمہ اللہ کی معروف ِ زمانہ کتاب ”گلستان ِ سعدی“کاپہلا باب ”در سیرت ِ پادشاہاں“ ہر حکمران کو بنظرِ غور پڑھنا چاہیے۔
قومی خزانے کا درست استعمال
حکمران کے ذمہ دوسرا اہم کا م یہ ہے کہ عوامی ضروریات کے لیے بیت المال میں جمع کی جانے والی رقوم،اشیاء اور اجناس کو عوام ہی کے لیے استعمال کرے ،اپنے ذاتی کام میں ملکی خزانے کا ستعمال انتہا درجے کی خیانت ہے،جن خطوں میں حکام ِ وقت کرپشن جیسے قبیح اور شنیع عمل میں پڑجاتے ہیں اور قوم کا پیسہ مال ِ غنیمت سمجھ کر استعمال کرتے ہیں ،وہا ں برکت ختم ہو جاتی ہے ،حکام کے لیے یہ امر قابل ِ توجہ ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص کا حساب دینا اتنا مشکل ہے کہ اس حق دار کا حق نیکیوں کی صورت میں جب تک نہ دیا قدم اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتے تو سوچیے کہ قومی وسائل میں لاکھوں کروڑوں کی آبادی میں سے ہر ایک برابر کا حصہ دار ہوتا ہے توایسے مشترکہ مال میں خیانت کر کے اتنے انسانوں کاحساب کیسے دیں گے؟حدیث ِ مبارک کی رو سے خیانت ایک منافقانہ عمل ہے، جس سے ارباب ِ اقتدارکو بچنے کا خصوصی حکم ہے اور اس پر سخت وعید بیان کی گئی ہے،چناں چہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ان کی عیادت کے لیے حاضر ہوئے،اس دوران عبید اللہ رضی اللہ عنہ بھی آگئے،حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اگر کوئی شخص مسلمانوں کا حاکم مقرر کیا گیا اور اس نے ان کے معاملہ میں خیانت کی اور اسی حالت میں مر گیا تواللہ تعالی اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔(صحیح بخاری)