حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ﴾․ (سورة الروم، آیت:41)
وقال الله سبحانہ وتعالیٰ:﴿مَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا﴾․ (سورة الحشر،آیت:7)
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم․
میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! الله تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾
خشکی او رتری میں بر او ربحر میں فساد پھیل گیا۔ کیوں پھیلا؟﴿ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاس﴾
انسانوں کے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے، انسانوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے، برو بحر خشکی او رتری میں فساد پھیل گیا۔
اسی طرح الله تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿مَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ﴾
الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم جو دین، جو طریقہ جو شریعت تمہیں دیں اسے لے لو،﴿ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا﴾
اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم جس چیز سے تمہیں روک دیں اس سے رک جاؤ۔ الله تعالیٰ کے تمام فرامین، تمام ارشادات نہایت واضح ہیں، ہر چھوٹی سے چھوٹی عقل رکھنے والا بھی الله کے اس فرمان کو سمجھ سکتا ہے۔
چناں چہ آج ہم من حیث القوم طرح طرح کی تباہیوں کا شکار ہیں، آفات ہیں، مصیبتیں ہیں، بارشیں ہیں، طوفان ہیں۔
ہم میں سے ہر شخص، جو حضرات یہاں تشریف فرما ہیں، یہ بے چارے تو نیک لوگ ہیں، مسجد سے الله کے گھر سے ان کو دل چسپی ہے اور یہ کتنے ہیں؟! جو مسجد سے باہر ہیں وہ کتنے ہیں؟! لیکن یہ لوگ بھی جو باہر کے لوگ ہیں ان کے احوال سے کسی نہ کسی طرح واقف ہیں کہ ہم گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، غرق ہیں، ہم ہر وقت ہر آن الله تعالیٰ کو ناراض کر رہے ہیں، اپنے خالق کو، اپنے مالک کو، اپنے رب کو، جو اتنا مہربان ہے، رحمن ہے، رحیم ہے، غفار ہے، غفور ہے، ودود ہے، حنان ہے، منان ہے۔ ہم نے اس مہربان رب کو ناراض کر دیا۔
ہر شخص اپنا اپنا جائزہ لے، ہم کفار نہیں ہیں، ہم مشرکین نہیں ہیں، ہم الحمدلله مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے لیے ایک آئین ہے، ایک دستور ہے، ایک قانون ہے اور وہ آئین اور دستور پاکستان کی پارلیمنٹ کا بنایا ہوا نہیں، جس میں نویں ترمیم بھی ہوتی ہے، سترہویں ترمیم بھی ہوتی ہے، اٹھارہویں ترمیمبھی ہوتی ہے، ﴿الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا﴾
قیامت تک یہ دین کامل اور مکمل ہے، اس میں کوئی کمی بیشی نہیں، سارے دنیا کے انسان مل کر بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے، اس میں کوئی ترمیم اور اضافہ نہیں کرسکتے۔
چناں چہ مسلمان اگر اس آئین کے مطابق، اس دستو رکے مطابق زندگی گزارے گا تو الله تعالیٰ کی مدد اور نصرت آئے گی او راگر وہ انسان اور مسلمان اس دستور کی خلاف ورزی کرے گا اور بار بار کرے گا اور ضد کرے گا، اور ہٹ دھرمی کرے گا او رماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوگا تو پھر الله کی طرف سے گرفت ہو گی، ہم الله کو دھوکہ دیتے ہیں، عرصے سے دے رہے ہیں۔
حجاب ہے، یوں نہیں، یوں ہے، ایسا نہیں ،ایسا ہے، یہ تو واضح ہے، صریح ہے، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات تھیں، ایک زوجہ مطہرہ نہیں تھی، سیدالانبیاء صلی الله علیہ وسلم کی گیارہ ازواج تھیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی ان ازواج مطہرات نے حجاب کیا ہے، اوران کی تفصیلات امت کے سامنے قرآن نے بیان کیں۔
فواحش، بد کاری، زنا اور اس کے مقدمات دنیا کی مہلک برائیوں میں سے ہے، جن کے مہلک اثرات صرف اشخاص وافراد کو نہیں، بلکہ قبائل اور خاندانوں کو اور بعض اوقات بڑے بڑے ملکوں کو تباہ کر دیتے ہیں، اس وقت دنیامیں جتنے قتل وغارت گری کے واقعات ہوتے ہیں اگر صحیح تحقیق کی جائے تو اکثر واقعات کے پس منظر میں کوئی عورت اور شہوانی جذبات کا جال نظر آئے گا، یہی وجہ ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اس میں کوئی قوم، کوئی مذہب، کوئی خطہ ایسا نہیں جو اس کی برائی اور مہلک عیب ہونے پر متفق نہ ہو۔
دنیا کے اس آخری دور میں یورپین اقوام نے اپنی مذہبی حدود اور قدیم وقوی روایات، سب کو توڑ کر اگرچہ زنا کو اپنی ذات میں کوئی جرم ہی نہیں رکھا اور تمدن ومعاشرت کو ایسے سانچوں میں ڈھال دیا ہے جن میں ہر قدم پر جنسی انارکی اور فواحش کو دعوت عام ہے، مگر ان کے اثرات ونتائج کو وہ بھی جرائم سے خارج نہ کرسکے، عصمت فروشی، زنا بالجبر، منظر عام پر فحش حرکات کو تعزیری جرم قرار دینا پڑا، جس کی مثال اس کے سوا کچھ نہیں کہ کوئی شخص آگ لگانے کے لیے لکڑیوں کا ذخیرہ جمع کرے، پھر اس پر تیل چھڑکے ،پھر اس میں آگ لگائے اور جب اس کے شعلے بھڑکنے لگیں ، تو ان شعلوں پر پابندی لگانے اور روکنے کی فکر کرے، ہنڈیا پکانے کے لیے اس کے نیچے آگ جلائے ،پھر اس کے اُبال او رجوش کو روکنا چاہے۔
اس کے بر خلاف اسلام نے جن چیزوں کو جرائم اورا نسانیت کے لیے مضر قرار دے کر قابل سزا جرم کہا ہے، ان کے مقدمات پر بھی پابندیاں عائد کیں اور ان کو ممنوع قرار دیا ہے۔
اس معاملے میں مقصود اصلی زنا او ربد کاری سے بچانا تھا تو اس کو نظر نیچے رکھنے کے قانون سے شروع کیا۔
چناں چہ قرآن کی آیت ہے:﴿قُل لِّلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ﴾․ (سورة النور، آیت:30)
اے نبی! آپ ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں او راپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں عورتوں مردوں کے بے محا بااختلاط کو روکا، عورتوں کو گھروں کی چار دیواری میں محدود رکھنے کی ہدایت کی۔
﴿وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُولَیٰ﴾․ (سورہ احزاب، آیت:24)
ترجمہ:”اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہو اور ( غیر مردوں کو ) بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو، جیسا کہ پہلی جاہلیت میں دکھایا جاتا تھا۔“
﴿یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاء ِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِن جَلَابِیبِہِنَّ﴾․(سورہ احزاب، آیت:59)
ترجمہ:”اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں او رمسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے (منھ کے) اوپر جھکا لیا کریں۔“
”جلابیب“”جلباب“
کی جمع ہے اور ”جلباب“
ایک خاص لمبی چادر کو کہا جاتا ہے، اس چادر کی ہیئت کے متعلق حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا کہ وہ چادر ہے جو دوپٹہ کے اوپر اوڑھی جاتی ہے۔
اور حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما نے اس کی ہیئت یہ بیان فرمائی ہے :”أمر الله نساء المومنین إذا خرجن من بیوتھن فی حاجة أن یغطین وجوھھن من فوق رؤوسھن بالجلابیب ویبدین عینا واحدة․“(تفسیر الطبری، سورہٴ احزاب، آیت:59،19/181، تفسیر ابن کثیر، سورہ احزاب، آیت:59،6/425)
الله تعالیٰ نے مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے یہ چادر لٹکا کر چہروں کو چھپالیں اور صرف ایک آنکھ (راستہ دیکھنے کے لیے) کھلی رکھیں اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پردے کے احکام جن عورتوں ، مردوں کو دیے گئے ہیں، ان میں عورتیں تو ازواج مطہرات ہیں، جن کے دلوں کو پاک صاف رکھنے کا حق تعالیٰ نے خود ذمہ لے لیا ہے:﴿لِیُذْھبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ اھلَ الْبَیْتِ﴾۔
دوسری طرف جو مرد مخاطب ہیں وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام ہیں جن میں بہت سے حضرات کا مقام فرشتوں سے بھی آگے ہے۔
لیکن ان سب امور کے ہوتے ہوئے ان کی طہارت قلب اور نفسانی وساوس سے بچنے کے لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ مرد وعورت کے درمیان پردہ کرایا جائے، آج کون ہے جو اپنے نفس کو صحابہ کرام کینفوس پاک سے او راپنی عورتوں کے نفوس کو ازواج مطہرات کے نفوس سے زیادہ پاک ہونے کا دعوی کرسکے اور یہ سمجھے کہ ہمارا اختلاط عورتوں کے ساتھ کسی خرابی کا موجب نہیں ہے؟
اہل یورپ اور ان کے مقلدین نے اپنی فحاشی کے جواز میں عورتوں کے پردہ کو عورتوں کی صحت اور اقتصادی او رمعاشی حیثیت سے معاشرہ کے لیے مضر ثابت کرنے اور بے پردہ رہنے کے فوائد پر بحثیں کی ہیں، اس کے متعلق یہاں اتنا سمجھ لینا بھی کافی ہے کہ فائدہ اور نفع سے تو کوئی جرم وگناہ بھی خالی نہیں، چوری، ڈاکہ، دھوکہ، فریب ایک اعتبار سے بڑا نفع بخش کاروبار ہے، مگر جب اس کے ثمرات ونتائج میں آنے والی مہلک مضرتیں سامنے آتی ہیں، تو کوئی شخص ان کو نفع بخش کاروبار کہنے کی جرات نہیں کرتا، بے پردگی میں اگر کچھ معاشی فوائد بھی ہوں، مگر جب پورے ملک وقوم کو فتنہ وفساد میں مبتلا کر دے تو پھر اس کو نفع بخش کہنا کسی دانش مند کا کام نہیں ہوسکتا۔
نزول حجاب کی تاریخ
عورتوں اور مردوں میں بے محابا اختلاط تو دنیا کی پوری تاریخ میں آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء صلی الله علیہ وسلم تک کسی زمانے میں درست نہیں سمجھا گیا اور صرف اہل شرائع ہی نہیں دنیا کے عام شریف خاندانوں میں ایسے اختلاط کو روا نہیں رکھا گیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر مدین کے وقت جن عورتوں کا اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے الگ روکے ہوئے کھڑے ہونے کا ذکر ہے اس کی وجہ یہی بتلائی گئی ہے کہ ان عورتوں نے مردوں کے ہجوم میں گھسنا پسند نہ کیا، سب کے بعد بچے ہوئے پانی پر قناعت کی۔
چناں چہ ”التفسیر الکبیر“ میں قرآن کی اس آیت:﴿وَلَمَّا وَرَدَ مَاء َ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْہِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُونَ وَوَجَدَ مِن دُونِہِمُ امْرَأَتَیْنِ تَذُودَانِ﴾․(سورة القصص، آیت:23)
” او رجب وہ ( موسی علیہ السلام) مدین کے کنویں پر پہنچے تو دیکھا کہ اس پر ایسے لوگوں کا ایک مجمع ہے جو اپنے جانوروں کوپانی پلا رہے ہیں اوردیکھا کہ ان سے پہلے دو عورتیں ہیں جو اپنے جانوروں کو روکے کھڑی ہیں۔“
ان عورتوں کا پنے جانوروں کو الگ روکے رکھنے کی علت بیان کی ہے :”لئلا تختلطا بالرجال․“
تاکہ مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو۔ (التفسیر الکبیر للامام الرازی، سورة القصص، آیت:23)
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے جب حضرت زینب بنت حجش رضی الله عنہما سے نکاح فرمایا، اس وقت حجاب کی آیت نازل ہوئی، لیکن آیت کے نازل ہونے سے پہلے بھی روایات میں ان کی گھر میں نشست کی یہ صورت بیان کی ہے:” وھی مولیة وجھھا إلی الحائط“
یعنی حضرت زینب رضی الله عنہا اپنا رخ دیوار کی طرف پھیرے ہوئے بیٹھی تھیں۔ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب النکاح، باب زواج زینب بنت جحش، رقم:1428، و سنن الترمذی، ابواب تفسیرالقرآن، باب: ومن سورة الأحزاب، رقم:3218)
اس سے معلوم ہوا کہ نزول حجاب سے پہلے بھی عورتوں مردوں میں بے محابا اختلاط اور بے تکلف ملاقات وگفت گو کا رواج شریف اور نیک لوگوں میں کہیں نہ تھا، قرآن کریم میں جس جاہلیت اولیٰ اور اس میں عورتوں کے تبرج وظہور کا ذکر ہے وہ بھی عرب کے شریف خاندانوں میں نہیں، بلکہ لونڈیوں اور آوارہ عورتوں میں تھا، عرب کے شریف خاندان اس کو معیوب سمجھتے تھے، عرب کی پوری تاریخ اس کی شاہد ہے،ہندوستان میں ہندو، بدھ مت اور دوسرے مشرکانہ مذاہب والوں میں عورتوں مردوں کے درمیان بے محابا اختلاط گوارا نہ تھا، یہ مردوں کے دوش بدوش کام کرنے کے دعوے اور بازاروں اور سڑکوں پر پریڈ کرنے اور تعلیم سے لے کر ہر شعبہ زندگی میں مردوزن کے بے تکلف اختلاط، ضیافتوں اور کلبوں میں بے تکلف ملاقاتوں کا سلسلہ صرف یورپین اقوام کی بے حیائی اور فحاشی کی پیدا وار ہے، جس میں یہ اقوام بھی اپنے ماضی سے ہٹ جانے کے بعد مبتلا ہوئی ہیں۔ قدیم زمانے میں ان کی بھی یہ صورت نہ تھی۔
آعندلیب مل کر کریں آہ وزاریاں
تو چلائے ہائے گل میں پکاروں ہائے دل
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
الله تعالیٰ نے جس طرح عورت کی جسمانی تخلیق کو مردوں سے ممتاز رکھا ہے، اسی طرح ان کی طبیعتوں میں ایک فطری حیا کا جوہر بھی رکھا ہے، جو ان کو فطری طو رپر عام مردوں سے الگ تھلگ رہنے اورستر پر آمادہ کرتا ہے اور یہ فطری اور طبعی حیاء کا پردہ عورتوں او رمردوں کے درمیان ابتدائے آفرینش سے حائل رہا ہے، ابتدائے اسلام میں بھی باہمی پردہ کی یہی نوعیت تھی۔
پردہ نسواں کی یہ خاص نوعیت کہ عورتوں کا اصل مقام گھروں کی چار دیواری ہو او رجب کسی شرعی ضرورت سے باہر نکلنا ہو تو پورے بدن کو چھپا کر نکلیں، اس طرح پردے کا حکم5ھ میں نازل ہوا۔
” عن أنس قال: نزل الحجاب مبتنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم بزینب بنت جحش، وذلک سنة خمس من الھجرة․“( الطبقات الکبری لابن سعد، ذکر حجاب رسول الله صلی الله علیہ و سلم نساء ہ:8/139، و تفسیر ابن کثیر، سورة الأحزاب، آیت:53،6/399)
پردے سے متعلق چند احادیث
حضرت اُم سلمہ رضی الله عنہا کی روایت ہے کہ وہ اور حضرت میمونہ رضی الله عنہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں ،اتفاقاً عبدالله ابن ام مکتوم (نابینا صحابی) آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے، تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان دونوں(ام سلمہ اور میمونہ رضی الله عنہما) سے فرمایا کہ ان سے پردہ کرو۔ حضرت ام سلمہ ر ضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اے الله کے رسول! کیا وہ نابینا نہیں؟ وہ ہم کو دیکھ نہیں سکتے۔ تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”أفعمیاوان أنتما؟ ألستما تبصرانہ؟“
(تم تو نابینا نہیں، کیا تم ان کو نہیں دیکھتیں؟) (سنن الترمذی، ابواب الأدب، باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال، رقم :2778، وسنن ابی داود، کتاب اللباس، باب فی قولہ عزوجل:﴿وقل للمومنات یغضن من أبصارھن﴾، رقم:4112)
صحابہ کرام رضی الله عنہم کی عورتوں کا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے پردہ
حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی روایت ہے، فرماتی ہیں:” أومت إمرأة من وراء ستر بیدھا کتاب إلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم․“
ایک عورت نے پردہ کی پیچھے سے خط دینے کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ (سنن ابی داود ، کتاب الترجل، باب فی الخضاب للنساء، رقم:4166)
اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرم رضی الله عنہم کی عورتیں خود آپ صلی الله علیہ وسلم سے بھی پردہ کرتی تھیں۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ ام خلاد نامی صحابیہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے اس لیے حاضر ہوئیں کہ اس کا بیٹا جہاد میں شہید ہو گیا تھا، آخرت میں اس کا کیا درجہ ہے معلوم کرے۔
تو بعض لوگوں نے اس سے کہا کہ جوان بیٹے کی موت کے حادثہ فاجعہ کے ہوتے ہوئے بھی تم نقاب وحجاب کے ساتھ آئی ہو؟ (حالاں کہ ایسے حوادث میں عموماً عورتوں سے پردہ چھوٹ جاتا ہے) تو اس نے کہا:”إن أرزء ابنی فلن أرزء حیائی“
میرا بیٹا مارا گیا ہے، میری حیا تو نہیں ماری گئی۔(سنن ابی داود، کتاب الجہاد، باب فی رکوب البحر فی الغزو، رقم:2488،السنن الکبری للبیہقی، جماع أبواب السیر، باب ماجاء فی فضل قتال الروم، رقم:18591)
عورت کے لیے بغیر حجاب اور بغیر ضرورت کے گھر سے نکلنے کی ممانعت
ایک حدیث میں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفھا الشیطٰن․“ (سنن الترمذی، ابواب النکاح، رقم الحدیث:1173، والمعجم الأوسط للطبرانی، رقم الحدیث:8096)
عورت سرتا پا پوشیدرہنے کے قابل ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں لگ جاتا ہے۔
اسی طرح حضرت جابر رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”إن المرأةتقبل في صورة شیطان وتدبر في صورة شیطان․“ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب النکاح، باب ندب من رأی امرأة فوقعت فی نفسہ إلی أن یاتی امرأتہ، فیواقعھا، رقم:1403، وسنن أبی داود، کتاب النکاح، باب مایؤمربہ من غض البصر، رقم:2151․“
”(بے پردہ) عورت شیطان کی صورت میں سامنے آتی ہے اورشیطان کی صورت میں و اپس جاتی ہے“۔ اس حدیث میں عورت کی کوئی تنقیص یا برائی نہیں، بلکہ یہ بتلانا ہے کہ عورت کا باہر نکلنا فطری طور پر فتنوں کا سبب بن سکتا ہے۔
عورت کے لیے ضرورت او رمجبوری میں حجاب کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: لیس للنساء نصیب فی الخروج إلا مضطرة… ولیس لھم نصیب فی الطرق إلا الحواشی․“ (المعجم الکبیر للطبرانی، مسند عبدالله بن عمر، رقم الحدیث:13871)
”عورتوں کے لیے (گھر سے ) باہر نکلنے میں کوئی حصہ نہیں، مگر بحالت اضطرار ومجبوری اور عورتوں کے لیے راستوں میں چلنے کا کوئی حق نہیں، سوائے کناروں کے ( یعنی بحالت مجبوری بھی نکلیں تو راستے کے بیچ میں نہ چلیں، تاکہ مردوں سے اختلاط نہ ہو)۔
عورت کی افضل نماز
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”صلاة المرأة في بیتھا أفضل من صلاتھا فی حجرتھا، وصلاتھا فی مخدعھا أفضل من صلاتھا فی بیتھا․“ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب الصلوٰة، رقم الحدیث:757، وسنن أبی داود، کتاب الصلوٰة، باب التشدید فی ذلک، رقم:570)
”عورت کا گھر کے اندر نماز پڑھنا صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور کوٹھڑی میں نماز پڑھنا گھرکے اندر پڑھنے سے افضل ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں ہے:”خیر مساجد النساء قعر بیوتھن“․ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب الصلوٰة، رقم الحدیث:756، ومسند الإمام أحمد بن حنبل، رقم الحدیث:26571)
عورتوں کے لیے بہتر مسجد ان کے گھر کی کوٹھڑی ہے
تین قسم کے لوگ جنت میں نہیں جائیں گے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” ثلاث لا یدخلون الجنة أبداً، الدیوث من الرجال، والرجلة من النساء، ومدمن الخمر․“
تین قسم کے لوگ کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گے 1.. دیوث 2.. مردانی شکل بنانے والی عورتیں 3.. ہمیشہ شراب پینے والا۔
تو صحابہ کرام رضی الله عنہم نے دیوث کے بارے میں پوچھا کہ دیوث کون سا شخص ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” الذی لا یبالی من دخل علی أھلہ․“
دیوث وہ شخص ہے جس کو اس کی پروا نہ ہو کہ اس کی گھر والوں کے پاس کون آتا ہے، کون جاتا ہے۔ (شعب الإیمان للبیہقی، الثانی والسبعون من شعب الإیمان، وھو باب فی الغیرة والمذاء، رقم الحدیث:10310)
خاوند کی اجازت کے بغیرگھر سے نکلنا جائز نہیں
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عورت کے لیے جو الله تعالیٰ پر او رقیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو جائز نہیں کہ اپنے شوہر کے گھر میں بدون اس کی اجازت کے کسی کو آنے دے۔
اور نہ عورت شوہر کی مرضی کے خلاف گھر سے نکلے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث:114، والمستدرک علی الصحیحین کتاب النکاح، رقم الحدیث:277)
عورت کے لیے نامحرم سے بات چیت کرنے کی ممانعت
آپ صلی الله علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا:” لا تحدثن الرجل إلا محرما“
اپنے محرم مردوں کے سوا دوسرے مردوں سے بات نہ کریں۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث:410)
نامحرم عورت کو دیکھنے کی ممانعت
حضرت جریر بن عبدالله رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کسی نامحرم عورت پر اچانک نظر پڑ جائے تو کیا کرناچاہیے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:(فوراً) نظر کو ہٹالو۔(الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الأداب، باب نظر الفجاء ة، رقم:45، والمستدرک علی الصحیحین، تفسیر سورة النور، رقم الحدیث:3498)
بد نظری سے بچنے پر بشارت
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:ما من مسلم ینظر إلی محاسن امرأة اول مرة، ثم یغض بصرہ، إلا أحدث الله لہ عبادة یجد حلاوتھا․“( مسند احمد بن حنبل، رقم الحدیث:22278)
جو کوئی مسلمان کسی عورت کے محاسن یعنی حسن وجمال کو دیکھ کر اپنی آنکھ بند کر لیتا ہے تو الله تعالیٰ اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائے گا، جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔
خوش بو لگا کر باہر نکلنے کی ممانعت
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”أیما امرأة استعطرت فمرت علی قوم لیجدوا ریحھا فھی زانیة․“
جو عورت عطر لگا کر مردوں کے پاس سے گزرے، تاکہ وہ اس کی خوش بو سونگھیں وہ عورت زنا کار ہے۔ ( المستدرک علی الصحیحین، تفسیر سورة النور، رقم الحدیث:3497، والسنن الکبری للبیہقی، باب ما یکرہ للنساء من الطیب، رقم:5975)
حالت احرام میں بھی پردے کا اہتمام
حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی روایت ہے، فرماتی ہیں:”کان الرکبان یمرون بنا، ونحن مع رسول الله صلی الله علیہ وسلم محرمات، فإذا حاذوا بنا سدلت احدانا جلبابھا من رأسھا علی وجھھا، فإذا جاوزونا کشفناہ․“ (سنن أبی داود، کتاب المناسک، باب فی المحرمة تغطی وجھھا، رقم:1833، و مسند احمد، رقم:24021، والسنن الکبری للبیہقی، جماع ابواب الإحرام، رقم الحدیث:9051)
ہم (ازواج مطہرات) رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ حج کو جاتے ہوئے احرام کی حالت میں جب ہمار ے پاس سے سوار ( حج کو جانے والے) گزرتے تو ہم اپنی چادر اپنے سر کے اوپر سے کھینچ کر اپنے چہروں پر لے آتے اور جب ہم آگے بڑھ جاتے تو ہم چہرہ کھول لیتے تھے۔
حالت احرام میں چہرے کے پردے کا طریقہ
حالت احرام میں بھی عورت کے لیے پردہ ضرور ی ہے، البتہ عام حجاب استعمال کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ چہرے کے سامنے اس انداز سے کپڑا لٹکا لیا جائے کہ کپڑا چہرے کو مس نہ کرے۔
وعن عائشة رضی الله عنہا قالت: کان الرکبان یمرون بنا…إلخ فدل الحدیث علی أنہ لیس للمرأة أن تغطی وجھھا وأنھا لو أسدلت علی وجھھا شیئا وجافتہ عنہ لابأس بذلک، ولأنھا إذا جافتہ عن وجھھا صار کما لو جلست في قبة أو استرت بفسطاط․(بدائع الصنائع:2/182)
سفر حج میں عورت کے لیے حجاب سے متعلق ہدایات
”آپ کے مسائل او ران کا حل“ میں ہے۔
سوال: اکثر دیکھا گیا کہ سفر حج میں چالیس حاجیوں کا ایک گروپ ہوتا ہے، جس میں محرم ، نامحرم سب ہوتے ہیں، ایسے مبارک سفر میں بے پردہ عورتوں کو تو چھوڑ یے، باپردہ عورتوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ پردے کا بالکل اہتمام نہیں کرتیں… نماز وطواف کے لیے باریک کپڑے پہن کر تشریف لاتی ہیں او ران کا یہ حال ہوتا ہے کہ خوب آدمیوں کے ہجوم میں طواف کرتی ہیں او راسی طرح حجراسود کے بوسے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کرتی ہیں۔
جواب: احرام کی حالت میں عورت کو حکم ہے کہ کپڑا اس کے چہرے کو نہ لگے، لیکن اس حالت میں جہاں تک اپنے بس میں ہونا محرموں سے پردہ کرنا ضروری ہے او رجب احرام نہ ہو تو چہرے کا ڈھکنا لازم ہے، یہ غلط ہے کہ مکہ مکرمہ میں یا سفر حج میں پردہ ضروری نہیں، عورت کا باریک کپڑا پہن کر ( جس سے سر کے بال جھلکتے ہوں) نماز اور طواف کے لیے آنا حرام ہے اور ایسے کپڑے میں ان کی نماز بھی نہیں ہوتی، طواف میں عورتوں کو چاہیے کہ مردوں کے ہجوم میں نہ گھسیں اور حجر اسود کا بوسہ لینے کی بھی کوشش نہ کریں، ورنہ گناہ گار ہوں گی اور نیکی برباد گناہ لازم کا مضمون صادق آئے گا۔
عورتوں کو چاہیے کہ حج کے دوران بھی نمازیں اپنے گھر پر پڑھیں، گھر پر نماز پڑھنے سے پورا ثواب ملے گا، ان کا گھر پر نماز پڑھنا حرم شریف میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور طواف کے لیے رات کو جائیں، اس وقت رش نسبتاً کم ہوتا ہے ۔ (آپ کے مسائل او ران کا حل:5/348-347)
وہ رشتہ دار جن سے پردہ ضروری ہے
پہلے ان رشتہ داروں کا ذکر کیا جاتا ہے جس سے پردہ نہیں او ران رشتہ داروں کے علاوہ بقیہ سب رشتہ داروں سے پردہ ضروری ہے۔ اس حوالے سے ایک اصول بھی ہے اور وہ یہ کہ وہ شخص جو ہمیشہ کے لیے حرام ہو اوراس سے کبھی بھی نکاح نہیں ہو سکتا ہو اس سے پردہ نہیں اور ہر وہ شخص جس سے کبھی بھی نکاح ہو سکتا ہو اس سے پردہ کرنا فرض ہے، تو وہ رشتہ دار جن سے پردہ نہیں، وہ درج ذیل ہیں:
شوہر باپ، چچا، ماموں خسربیٹا، پوتا، نواساشوہر کا بیٹادامادبھائی بھتیجا بھانجا۔
ان کے علاوہ وہ رشتہ دار جن سے پردہ ضروری ہے، مثلاً: چچا زاد بھائی ماموں زاد بھائی پھوپی زاد بھائی خالہ زاد بھائی شوہر کے بھائی بہنوئی شوہر کے بھتیجے، بھانجے وغیرہ پھوپھی کے خاوند، پھوپھا اور خالہ کے خاوند۔
اگر مشترک گھر ہے اورچچازاد بھائی وغیرہ یا شادی کے بعد شوہر کے بھائی وغیرہ ساتھ رہتے ہیں، تو ایسی صورت میں بھی پردہ ضروری ہے اوران کی موجودگی میں گھونگھٹ کرے، ان کے ساتھ ہنسی مذاق نہ کرے، چناں چہ”فتاوی محمودیہ “ میں ایک سوا ل کے جواب میں ہے، بہنوئی، پھوپھا، چچازاد بھائی وغیرہ سے پردہ ہے، بالکل ان کے سامنے نہ آئے، اگر ایک ہی مکان میں رہتے ہوں اور مکان کی تنگی ہو تو مجبوراً اتنا پردہ بھی کافی ہے کہ چہرہ ہاتھ نہ کھولے، بلکہ گھونگھٹ کرے اور تنہائی میں ایک جگہ ان کے ساتھ نہ ہو اور بے تکلفی ہنسی مذاق نہ کرے۔ (فتاوی محمودیہ:19/175)
اسی طرح کے ایک اور سوال کے جواب میں ہے، باقی بدن تو چھپا رہتا ہی ہے، چہرہ بھی سامنے نہ کریں اور نامحرم کے ساتھ خلوت کا موقع کبھی آنے نہ دیں، ہنسی مذاق سے پوری احتیاط رکھیں، یہ اس وقت جب کہ مکان میں تنگی کی وجہ سے اتنی گنجائش نہ ہو کہ نامحرم کی آمد کے وقت مکان کے اندرونی حصے میں چلی جائیں یا پردہ درمیان میں لٹکا دیں، اگر گنجائش ہو تو چہرہ چھپا کر بھی سامنے آنے سے اجتناب کریں، یہ تو عورتوں کے حق میں ہے۔
مردوں کے حق میں یہ ہے کہ جب مکان میں جائیں اطلاع کرکے جائیں او رنگاہ نیچی رکھیں اور ہنسی مذاق، نیز خلوت سے پوری احتیاط کریں۔ (فتاوی محمودیہ:19/176)
اور مرد کے لیے بیوی کی بہنوں سے پردہ ضروری ہے، چچا زاد بہنیں، خالہ زاد بہنیں، چچا کی بیوی چچی سے، ممانی سے پردہ کرنا ضروری ہے۔
بے دین خواتین سے پردہ کرنے کا حکم
”فتاوی حقانیہ“ میں ایک سوال کے جواب میں ہے۔ اسلام انسان کی عفت وعصمت اور عزت وآبرو کا خیال رکھتا ہے او رجن عوامل سے اس کی عفت وعصمت پامال ہوتی ہو وہاں سے منع کرتا ہے، جیسا کہ دین دار اور باپردہ گھروں میں برے او رگندے اخلاق والی خواتین کے آنے جانے سے بچوں، خصوصاً عفت مآب خواتین کے متاثر ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ لہٰذا فتنہ وفساد سے بچنے کے لیے بے دین اور برے اخلاق والی عورتوں سے عفیف اور دین دار خواتین کو پردہ کرنا ضروری ہے۔ (فتاوی حقانیہ:2/468)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں: باہر پھرنے والی عورتوں سے پردہ کااہتمام نہیں ہے، حالاں کہ فقہاء نے صاف لکھا ہے کہ کافر عورت سے مسلمان عورت کو ویسا ہی پردہ کرنا چاہیے، جیسا کہ اجنبی مرد سے کیا جاتا ہے۔
اور شاہ عبدالقادر صاحب نے فاجر عورتوں سے پردہ کرنا ﴿أونسائھن﴾کی تفسیر میں لکھا ہے، اسی سے باہر پھرنے والی لا اُبالی عورتوں سے بھی پردہ کی تاکید مستنبط ہوتی ہے، کیوں کہ یہ باہر پھرنے والیاں اکثر کٹنیاں ہوتی ہیں، جو بد معاش مردوں سے گھر والی عورتوں کے حالات جاکر بیان کرتی ہیں، پھر اس سے بڑے بڑے فتنے پیش آتے ہیں۔ (خطبات حکیم الامت:24/55)
پردہ کے مخالف والدین کا حکم ماننا
”جامع الفتاویٰ“ میں ہے:
سوال: میرے والدین پردہ کرنے کے خلاف ہیں ، میں کیا کروں؟
جواب: الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم بے پردگی کے خلاف ہیں، آپ کے والدین کا الله او رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مقابلہ ہے، آپ کو چاہیے کہ اس مقابلہ میں الله اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ساتھ دیں، والدین اگر الله اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت کرکے جہنم میں جانا چاہتے ہیں تو آپ ان کے ساتھ نہ جائیں ۔ (جامع الفتاوی:5/111)
پردہ قید ہے اعتراض کا جواب
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله نے لکھا ہے کہ ایک افسر نے کہا کہ پردہ قید ہے، میں نے کہا قید کس کو کہتے ہیں؟ تو اس نے کہا کہ کسی کو نہ نکلنے دینا، یہ قید ہے، میں نے کہا کہ یہ ناتمام حقیقت ہے، پوری حقیقت ہم سے سنیے؛ ہم نے قید خانے د یکھے ہیں، جو وہاں شان ہوتی ہے، قید وہ ہے کہ قیدی نکلنا چاہے اور اس کو نکلنے نہ دیں، پس حقیقت قید کی خلاف طبع پر مجبور کرنا ہے او رہمارے یہاں یہ حالت ہے کہ اگر عورت کو گھر سے نکالیں تو وہ اندر گھسے ، تو اس کے لیے قید باہر نکلنا ہوا، نہ کہ گھر میں بیٹھنا، کیوں کہ گھر میں بیٹھنا اس کے خلاف طبع نہیں تو وہ قید بھی نہیں اور باہر نکلنا خلاف طبع ہے، اس لیے وہ قید ہے۔ (ملفوظات حکیم الامت:20/33) (جاری)