نام ونسب
سعد نام ہے۔ ابو عمر وکنیت، سید الاوس لقب، قبیلہ عبد الاشہل سے ہیں۔ سلسلہ نسب یہ ہے: سعد بن معاذ بن نعمان بن امرأ القیس بن زید بن عبد الاشہل بن جشم بن حارث بن خزرج بن نبیت (عمرو) بن مالک بن اوس۔ والدہ کا نام کبشہ بنت رافع تھا، جو حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی چچازاد بہن تھیں۔ قبیلہ اشہل، قبائل اوس میں شریف ترین قبیلہ تھا اور سیادت عامہ اس میں وراثةً چلی آتی تھی، چناں چہ حضرت سعد کے تمام مورث اپنے اپنے زمانہ میں تاج سیادت زیب سر کیے تھے۔
والد نے ایام جاہلیت ہی میں وفات پائی، والدہ موجود تھیں، ہجرت سے پیشتر ایمان لائیں اور حضرت سعد کے انتقال کے بعد بہت دنوں تک زندہ رہیں۔
اسلام
اگر چہ عقبہ اولیٰ میں یثرب کی سرز مین پر خورشید اسلام کا پرتو پڑ چکا تھا، لیکن حقیقی ضیا گستری حضرت مصعب بن عمیر کی ذات سے وابستہ تھی، چناں چہ جب وہ داعی اسلام بن کر پہنچے تو جو کان اس صدا سے نا آشنا تھے ان کو بھی چاروناچار اس کے سننے کے لیے تیار ہونا پڑا۔
سعد بن معاذ ابھی حالت کفر میں تھے۔ ان کو مصعب کی کام یابی پر سخت حیرت اور اپنی قوم کی بے وقوفی پر انتہا درجہ کا حزن و ملال تھا ۔ (خلاصة الوفا، الوفاء باخبار دار المصطفیٰ، ص92)
لیکن تا بہ کے؟ آخر ایک دن ان پر بھی حضرت مصعب بن عمیرt کا اثر پڑ گیا، اسعد بن زرارہ t نے جن کے مکان میں حضرت مصعبt فروکش تھے، ان سے کہا تھا کہ سعد بن معاذ مسلمان ہو جائیں گے تو دو آدمی بھی کافر نہ رہ سکیں گے، اس لیے آپ کو ان کے مسلمان کرنے کی فکر کرنی چاہیے، سعد بن معاذ حضرت مصعب t کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں، آپ بیٹھ کرسن لیجیے، ماننے کا آپ کو اختیار ہے، سعد tنے منظور کیا تو حضرت مصعبt نے اسلام کی حقیقت بیان کی اور قرآن مجید کی چند آیتیں پڑھیں، جن کو سن کر سعد بن معاذt کلمہ شہادت پکارا ٹھے اور مسلمان ہو گئے۔
قبیلہ عبد الاشہل میں یہ خبر فوراً پھیل گئی۔ سعد tگھر گئے تو خاندان والوں نے کہا کہ اب وہ چہرہ نہیں! حضرت سعدt نے کھڑے ہو کر پوچھا میں تم میں کس درجہ کا آدمی ہوں؟ سب نے کہا سردار اور اہل فضیلت، فرمایا ”تم جب تک مسلمان نہ ہو گے میں تم سے بات چیت نہ کروں گا“۔ حضرت سعد کو اپنی قوم میں جو عزت حاصل تھی اس کا یہ اثر ہوا کہ شام ہونے سے قبل تمام قبیلہ مسلمان ہو گیا اور مدینہ کے درودیوار تکبیر کے نعروں سے گونج اُٹھے۔
اشاعت اسلام میں یہ حضرت سعد کا نہایت عظیم الشان کارنامہ ہے، صحابہ میں کوئی شخص اس فخر میں ان کا حریف نہیں، آں حضرت e نے اس بنا پر فرمایا ہے ” خیر دور الانصار بنو النجار ثم بنو عبد الاشہل“ یعنی انصار کے بہترین گھرانے بنو نجار کے ہیں اور ان کے بعد عبد الاشہل کا درجہ ہے، حضرت سعدt اور ان کے قبیلہ کا اسلام عقبہ اولیٰ اور عقبہ ثانیہ کے درمیان کا واقعہ ہے۔ مسلمان ہو کر حضرت سعد tنے حضرت مصعب کو اسعد بن زرارہ کے مکان سے اپنے ہاں منتقل کر لیا۔
غزوات اور دیگر حالات
کچھ دنوں بعد عمرہ کی غرض سے مکہ روانہ ہوئے اور امیہ بن خلف کے مکان پر کہ مکہ کا مشہور رئیس اور ان کا دوست تھا، قیام کیا (امیہ مدینہ آتا تھا تو ان کے ہاں ٹھہرا کرتا تھا) اور کہا کہ جس وقت حرم خالی ہو مجھے خبر کرنا۔ چناں چہ دوپہر کے قریب اس کے ساتھ طواف کے لیے نکلے، راستہ میں ابو جہل سے ملاقات ہوئی، پوچھا یہ کون ہیں؟ امیہ نے کہا ”سعد“۔ ابو جہل نے کہا تعجب سے کہا کہ تم صابیوں (بے دین، اس کی مراد آں حضرت e اور صحابہ مراد تھے) کو پناہ دے کر اور اُن کے انصار بن کر مکہ میں نہایت اطمینان سے پھر رہے ہو؟ اگر تم ان کے ساتھ نہ ہوتے تو تمہارا گھر پہنچنا دشوار ہو جاتا۔ حضرت سعدt نے غصب آلود لہجہ میں جواب دیا۔ تم مجھے رو کو، پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے؟ میں تمہارا مدینہ کا راستہ روک لوں گا۔ امیہ نے کہا سعد ابو الحکم (ابو جہل) مکہ کا سردار ہے، اس کے سامنے آواز پست کرو۔ حضرت سعد t نے فرمایا، چلو، ہٹو، میں نے آں حضرت e سے سنا ہے کہ مسلمان تم کو قتل کریں گے، بولا کیا مکہ میں آکر ماریں گے؟ جواب دیا اس کی خبر نہیں۔ (صحیح بخاری جلد 2 ص 563)۔
اس پیشن گوئی کے پورا ہونے کا وقت غزوہٴ بدر تھا، کفار قریش نے مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے نہایت ساز وسامان سے تیاریاں کی تھیں، آں حضرت e کو خبر ہوئی تو صحابہ tسے مشورہ کیا، حضرت سعد t نے اٹھ کر کہا: ”یا رسول اللہ (e)! ہم آپ پر ایمان لائے، رسالت کی تصدیق کی، اس بات کا اقرار کیا کہ جو کچھ آپ لائے ہیں حق اور درست ہے اور طاعت پر آپ سے بیعت کی، پس جو ارادہ ہو کیجیے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا! آپ سمندر میں کودنے کو کہیں تو ہم حاضر ہیں، ہمارا ایک آدمی بھی گھر میں نہ بیٹھے گا۔ ہم کولڑائی سے بالکل خوف نہیں اور انشاء اللہ میدان میں ہم صادق القول ثابت ہوں گے، خدا ہماری طرف سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرے“۔ (زرقانی جلد 1، ص 479) آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس تقریر سے خوش ہوئے، فوجوں کی ترتیب کا وقت آیا تو قبیلہ اوس کا جھنڈا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حوالہ کیا۔ غزوہ بدر میں انہوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانہ پر پہرہ دیا تھا۔
کفار سے مقابلہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے تھی کہ مدینہ میں رہ کر کیا جائے، عبداللہ بن ابی ابن سلول کا بھی یہی خیال تھا، لیکن بعض نوجوان جن کو شوق شہادت دامن گیر تھا، باہر نکل کر لڑنے پر مصر تھے، چوں کہ کثرت رائے انہی کو حاصل تھی، اس بنا پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کی تائید کی اور زرہ پہننے کے لیے اندر تشریف لے گئے۔ سعد بن معاذ t اور اسید بن حضیرt نے کہا کہ ”تم لوگوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باہر چلنے کے لیے مجبور کیا ہے، حالاں کہ آپ پر آسمان سے وحی آتی ہے، اس لیے مناسب یہ ہے کہ اپنی رائے واپس لے لو اور معاملہ کو بالکل آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چھوڑ دو“۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تلوار، ڈھال اور زرہ لگا کر نکلے تو تمام لوگوں کو ندامت ہوئی۔ عرض کیا کہ ہم کو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت منظور نہیں، جو حکم ہو ہم بجالانے پر آمادہ ہیں۔ ارشاد ہوا کہ اب کیا ہوتا ہے؟ نبی جب ہتھیار باندھ لیتا ہے، تو جنگ کا فیصلہ کر کے اتارتا ہے۔(طبقات ابن سعد، ص 26، جلد 2، قسم 1)
غرض کوہ احد کے دامن میں لڑائی شروع ہوئی، اسلامی لشکر پہلے فتح یاب تھا، لیکن پھر تاب مقاومت نہ لا کر پیچھے ہٹا، اس وقت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ ثابت قدم تھے اور آپ کے ساتھ دو اصحاب داد شجاعت دے رہے تھے، انہی میں حضرت سعد بن معاذ بھی تھے۔ اس غزوہ میں ان کے بھائی عمیر شہید ہو گئے۔ (طبقات ص 30 جلد 2، قسم 1)
غزوہ خندق میں جو 5ھ میں ہوا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے مدینہ کے تہائی پھل عیینہ بن حصن بن اسد فزاری کو دینے کا مشورہ کیا تھا، اس مشورہ میں سعد بن عبادہ t کے ساتھ حضرت سعد بن معاذ بھی شریک تھے۔ (طبقات، ص 52، جلد 1، قسم 1)
لڑائی کا وقت آیا تو زرہ پہنے اور ہاتھ میں حربہ لیے میدان کو روانہ ہوئے، بنو حارثہ کے قلعہ میں ان کی ماں موجود تھیں اور حضرت عائشہ rکے پاس بیٹھی تھیں، شعر پڑھتے ہوئے گزرے تو ماں نے کہا بیٹا! تم پیچھے رہ گئے، جلدی جاؤ۔
جس ہاتھ میں حربہ تھا وہ باہر نکلا ہوا تھا۔ حضرت عائشہr نے کہا سعد کی ماں! دیکھو زرہ بہت چھوٹی ہے، میدان میں پہنچے تو حبان بن عبد مناف نے کہ عرقہ کا بیٹا تھا، ہاتھ پر ایک تیر مارا، جس سے ہفت اندام(بازو کی نس) کٹ گئی، (صحیح بخاری ص 591جلد 2ودیگر کتب رجال) اور نہایت جوش میں کہا لو، میں عرقہ کا بیٹا ہوں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا خدا اس کا چہرہ دوزخ میں عرق آلود کرے۔
اس کے بعد مسجد نبوی میں ایک خیمہ لگایا اور رفیدہ اسلمیہ کو ان کی خدمت پر مامور کیا۔ حضرت سعد t چوں کہ اسی خیمہ میں رہتے تھے اس لیے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ ان کی عیادت کو تشریف لاتے تھے۔
چوں کہ زندگی سے مایوس ہو چکے تھے، اس لیے خدا سے دعا کی کہ قریش کی لڑائیاں باقی ہوں تو مجھے زندہ رکھ، ان سے مجھے لڑنے کی بڑی تمنا ہے، کیوں کہ انہوں نے تیرے رسول کو اذیت دی، تکذیب کی اور مکہ سے نکال دیا اور اگر لڑائی بند ہونے کا وقت آگیا ہے تو اس زخم سے مجھے شہادت دے اور بنی قریظہ کے معاملہ میں میری آنکھیں ٹھنڈی کر، اس دعا کا دوسرا ٹکڑا مقبول ہوا۔(صحیح بخاری ص 591جلد 2) چناں چہ جب بنو قریظہ کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جلا وطن کرنا چاہا تو چوں کہ وہ قبیلہ اوس کے حلیف تھے، کہلا بھیجا کہ ہم سعد کا حکم مانیں گے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد tکو اطلاع کی، وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے،مسجد کے قریب پہنچے تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے کہا کہ اپنے سردار کی تعظیم کے لیے اُٹھو۔
پھر سعد tسے فرمایا کہ ”یہ لوگ تمہارے حکم کے منتظر ہیں“ عرض کی ” تو میں حکم دیتا ہوں کہ جو لوگ لڑنے والے ہیں قتل کیے جائیں گے، اولا دغلام بنائی جائے اور مال تقسیم کر دیا جائے“۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ سن کر کہا کہ تم نے آسمانی حکم کی پیروی کی، چناں چہ اس کے بموجب اپنے سامنے 400 آدمی قتل کرائے۔
وفات
اس واقعہ کے بعد کچھ دنوں تک زندہ رہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود زخم کو داغا، جس سے خون رک گیا، لیکن اس کے عوض ہاتھ پھول گیا تھا، ایک دن زخم پھٹا اور اس زور سے خون جاری ہوا کہ مسجد سے گذر کر بنی غفار کے خیمہ تک پہنچا، لوگوں کو بڑی تشویش ہوئی، پوچھا کیا معاملہ ہے؟ جواب ملا کہ سعدکا زخم پھٹ گیا۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو گھبرا اٹھے اور کپڑا گھسیٹتے ہوئے مسجد میں آئے دیکھا تو حضرت سعد کا انتقال ہو چکا تھا۔ نعش کو اپنی آغوش میں لے کر بیٹھے، خون برابر بہہ رہا تھا۔ لوگ آآکر جمع ہونا شروع ہوئے، حضرت ابو بکر tآئے اور نعش کو دیکھ کر ایک چیخ ماری کہ ہائے ان کی کمر ٹوٹ گئی، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ایسانہ کہو“۔ حضرت عمر tنے رو کر کہا ”انا للہ وانا الیہ راجعون “خیمہ میں کہرام پڑا تھا۔ دُکھیاماں رورہی تھی۔
ویل ام سعدٍ سعدَا
براعة ونجدَا
ویل ام سعدٍ سعدا
حزامة وجِدًّا
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور رونے والیاں جھوٹ بولتی ہیں، لیکن یہ سچ کہتی ہیں۔ جنازہ روانہ ہوا تو خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ساتھ تھے، فرمایا کہ ان کے جنازہ میں ستر ہزار فرشتے شریک ہیں، لاش بالکل ہلکی ہو گئی تھی، منافقین نے مضحکہ کیا تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا جنازہ فرشتے اٹھائے ہوئے تھے۔ (جامع ترمذی ص 633) دفن کر کے واپس ہوئے تو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نہایت مغموم تھے، ریش مبارک ہاتھ میں تھی اور اس پر مسلسل آنسو گر رہے تھے۔
حضرت سعد tکی وفات تاریخ اسلام کا غیر معمولی واقعہ ہے، انہوں نے اسلام کی جو خدمات انجام دی تھیں جو مذہبی جوش ان میں موجود تھا۔ اس کی بدولت وہ انصار میں صدیق اکبر سمجھے جاتے تھے۔ حضرت عائشہ r کے معاملہ میں جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دشمن خدا (ابن ابی) نے مجھے سخت تکلیف دی ہے تم میں کوئی اس کا تدارک کر سکتا ہے؟ تو سب سے پہلے انہوں نے اٹھ کر کہا تھا کہ ”قبیلہ اوس کا آدمی ہو تو مجھ کو بتلائیے، میں ابھی گردن مارنے کا حکم دیتا ہوں۔ “
اس وقت اسی محب صادق اور عاشق جاں نثار نے وفات پائی تھی۔ اس واقعہ کی اہمیت اس سے اور بڑھ جاتی ہے کہ فرشتے جنازہ میں موجود تھے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان کی موت سے عرش مجید جنبش میں آگیا ہے۔(صحیح بخاری ص 536 جلد 1)
ایک انصاری فخریہ کہتا ہے:
وما اہتز عرش اللّٰہ من موت ہالک
سمعنا بہ الا سعد أبی عمرو
کسی مرنے والے کی موت پر خدا کا عرش نہیں ہلا ، مگر سعد ابی عمرو کی موت پر
حلیہ
حلیہ یہ تھا کہ قد در از، بدن دو ہرا۔ (ترمذی ص 295)
اولاد
دو بیٹے تھے، عمرو اور عبد اللہ، دونوں صحابی تھے اور بیعت رضوان میں شریک تھے۔
فضل وکمال
جیسا کہ اوپر معلوم ہوا، حضرت سعد tکا انتقال اوائل اسلام میں ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے انہوں نے 5 برس فائدہ اُٹھایا۔ اس عرصہ میں بہت سی حدیثیں سنی ہوں گی، لیکن چوں کہ روایات کا سلسلہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قائم ہوا اس لیے ان کی روایتیں اشاعت نہ پاسکیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی ایک روایت مذکور ہے، جس میں ان کے عمر کا ذکر آیا ہے۔
مناقب واخلاق
اخلاقی حیثیت سے حضرت سعدt بڑے درجہ کے انسان تھے، حضرت عائشہ r فرماتی ہیں: رسول اللہ e کے بعد سب سے بڑھ کر عبد الاشہل کے تین آدمی تھے، سعد بن معاذt، اسید بن حضیرt، عبادہ بن بشرt۔
وہ خود کہتے ہیں کہ یوں تو میں ایک معمولی آدمی ہوں، لیکن تین چیزوں میں جس رتبہ تک پہنچنا چاہیے پہنچ چکا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ رسول اللہ e سے جو حدیث سنتا ہوں اس کے من جانب اللہ ہونے کا یقین رکھتا ہوں، دوسرے نماز میں کسی طرف خیال نہیں کرتا، تیسرے جنازہ کے ساتھ رہتا ہوں تو منکر نکیر کے سوال کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔
حضرت سعید بن مسیب رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ خصلتیں پیغمبروں میں ہوتی ہیں۔
آں حضرت محمد e کو ان کے اعمال پر جو اعتماد تھا وہ اس حدیث سے معلوم ہوسکتا ہے۔ جس مردہ کو قبر کے دبانے کا ذکر آیا ہے، اس کا ایک فقرہ یہ بھی ہے کہ اگر قبر کی تنگی سے کوئی نجات پاسکتا تو سعد بن معاذt نجات پاتے۔ ایک مرتبہ کسی نے آں حضرت e کے پاس حریر کا جبہ بھیجا تھا، صحابہ اس کو چھوتے اور اس کی نرمی پر تعجب کرتے تھے، آنحضرتe نے فرمایا کہ ”تم کو اس کی نرمی پر تعجب ہے، حالاں کہ جنت میں سعد بن معاذ t کے رومال اس سے بھی زیادہ نرم ہیں“۔