حضور خاتم النبیین والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کوخلاق عالم کی طرف سے جب خلعتِ نبوت سے نواز اگیا تو آپ eصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوتی زندگی کا آغاز اپنے آبائی وطن مکہ اور سرزمین حجاز سے کیا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ سے جو خوش قسمت افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے، ان میں اکثریت اہل عرب، خصوصاً اہل مکہ اور اہل مدینہ کی تھی، فتح مکہ کے بعد طائف اور دیگر شہر بھی اسلام کی کرنوں سے منورہوئے، لیکن عجمی دنیا سے تعلق رکھنے والوں میں اسلام قبول کرنے والے اتنی تھوڑی تعداد میں تھے جنہیں انگلیوں پر بھی گنا جا سکتا ہے، انہیں نصیبہ ور ہستیوں میں سید نا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی ہیں، ماہ رجب 6ھ میں حق تعالی شانہ نے انہیں بارگاہ نبوت میں پہنچایا اور ان کے دل میں عشق رسالت کی ایسی چنگاری روشن کی کہ عمر بھر اپنے محبوب و مرغوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑا، اسی مناسبت سے آپ رضی اللہ عنہ کے مختصر حالات زندگی قارئین کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔
نام ونسب اور سکونت
آپ رضی اللہ عنہ کا آبائی علاقہ ملک فارس کے شہر رام ہرمز کے مضافاتی علاقے میں واقع جئی نامی گاؤں ہے، فارس کے شاہی خاندان کے ایک فرد ہیں، اسلام لانے سے قبل آپ رضی اللہ عنہ کا نام ما بہ اور والد کا نام بوذخشان تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد سلمان نام تجویز ہوا، ابو عبد اللہ کنیت اور لقب سلمان الخیر ہے، اس لقب سے ملقب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ خداداد اعلی خوبیوں اور عمدہ فطری صفات کے باعث بھلائی کا مجسمہ اور خیر وخوبی کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ یہ تو آپ رضی اللہ عنہ کا حقیقی شخصی تعارف ہے، جب کہ آپ رضی اللہ عنہ کا وہ تعارف جو اپنے ذوق میں لوگوں کو کرواتے تھے وہ بڑا دلچسپ ہے، چناں چہ جب کوئی آپ سے پوچھتا ابن من انت؟ کہ آپ کس کے بیٹے ہیں؟ تو جواب میں فرماتے ”انا سلمان بن اسلام“ یعنی میں سلمان اسلام کا بیٹا ہوں، پھر فرماتے ”فنعم الاب ونعم الابن“ کہ باپ بھی کتنا اچھا ہے اور بیٹا بھی۔ اس سے ان کی مراد یہ ہوتی تھی کہ اسلام لانے کی بدولت مجھے روحانی ترقی نصیب ہوئی ہے، اس لیے میں دراصل اسلام ہی کا بیٹا ہوں۔
دین ومذہب
آپ رضی اللہ عنہ پہلے مجوسی مذہب سے تعلق رکھتے تھے، اس کے بعد عیسائیت اختیار کی اور آخرکار تلاشِ حق میں دربدر کی خاک چھانتے ہوئے اسلام کے دامنِ عافیت میں آگئے۔ اس کا واقعہ بڑا ایمان افروز اور دلچسپ ہے، جس کی تفصیل انہوں نے خود سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کی۔ استاذ المحدثین حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی نے ”سیرة المصطفیٰ“ میں اس کو نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ملک فارس میں جئی کا رہنے والا تھا، میرا باپ اپنے شہر کا چوہدری تھا اور سب سے زیادہ مجھے محبوب رکھتا تھا۔ ہم مذہباً مجوسی تھے، میں اپنے والد کے حکم سے آتش کدے کی نگرانی کرتا تھا اور اس کی آگ بجھنے نہیں دیتا تھا۔
مجوسیت سے نصرانیت کی طرف
ایک مرتبہ میرے والد نے مجھے کسی کے کھیت کی نگرانی کے لیے بھیجا، میں کھیت کی طرف جا رہا تھا کہ راستے میں مجھے ایک گرجا نظر آیا، جس کے اندر کچھ آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ میں دیکھنے کے لیے اندر گیا تو دیکھا کہ نصاریٰ کی ایک جماعت عبادت میں مشغول ہے۔ مجھے ان کی عبادت بہت پسند آئی اور میرے دل نے فیصلہ کر لیا کہ یہ دین سب سے بہتر ہے۔ میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ اس دین کا اصل مرکز کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ملک شام میں ہے۔ ان سے گفتگو میں شام ہو گئی اور میں گھر دیر سے پہنچا۔ والد نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے ان کو سارا قصہ سنایا۔ والد نے کہا کہ اس دین (نصرانیت) میں کوئی خیر نہیں ہے، تیرے باپ دادا کا دین (مجوسیت) ہی بہتر ہے۔ میں نے اصرار کیا تو والد نے میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر مجھے گھر میں قید کر دیا۔ میں پوشیدہ طور پر نصاریٰ سے رابطے رہا اور موقع پاتے ہی تاجروں کے ایک قافلے کے ساتھ ملک شام روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے ایک بہت بڑے پادری کی شاگردی اختیار کی، اس سے انجیل کے احکام اور عبادت کا طریقہ سیکھا، وہ پادری ایک خود غرض اور بے عمل انسان تھا، جسے بعد میں ایک جرم میں سنگسار کر دیا گیا۔ اس کے بعد ایک عیسائی عالم کی خدمت میں پہنچا، جو بے حد متقی اور پرہیزگار انسان تھا، میں اس سے بے حد متاثر ہوا اور اس کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر دیے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق موصل شہر کے ایک عالم سے، پھر ان کی رحلت کے بعد ان کی وصیت کے مطابق نصیبین علاقے کے پادری سے اور آخر میں ان کے حکم کی تعمیل میں عموریہ نامی بستی کے ایک صاحب علم سے مذہب نصاریٰ کا علم سیکھا۔
نصرانیت سے اسلام کی طرف
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب شہر عموریہ کے اس عالم کی وفات ہونے لگی تو میں نے ان سے پوچھا کہ میں آپ کی وفات کے بعد کس کے پاس جاؤں؟ انہوں نے بتایا کہ میری نظر میں اس وقت کوئی ایسا عیسائی عالم نہیں جو صحیح معنوں میں دین پر قائم ہو، البتہ عنقریب ایک نبی کا عرب میں ظہور ہوگا، جو دین ابراہیمی پر ہوگا، ایک کھجوروں والے شہر کی طرف ہجرت کرے گا، اگر تجھ سے ہوسکے تو ان کی خدمت میں ضرور جانا۔ ان کی علامت یہ ہوگی کہ وہ صدقہ کا مال تو نہیں کھائیں گے، البتہ ہدیہ قبول کر لیں گے، ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے پاس کچھ بکریاں اور کچھ گائیں جمع ہو گئی تھیں، میں عرب کی طرف جانے والے ایک قافلے کے ساتھ مل گیا اور ساتھ لے جانے کے عوض اپنے سارے جانور ان کے حوالے کر دیے، انہوں نے میرے ساتھ دھوکہ کیا اور وادی قریٰ میں مجھے غلام بنا کر بیچ دیا۔ میرا آقا مجھے خرید کر ایک ایسے شہر لے آیا جس میں بہت سے کھجوروں کے درخت تھے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ وہی شہر ہے جہاں آخری نبی ہجرت کریں گے۔ اس کے بعد میں اپنے آقا کی خدمت میں مصروف ہو گیا، لیکن میرا دل و دماغ ہر وقت حضور e کی طرف لگا رہتا تھا اور میں اسی سوچ میں رہتا تھا کہ حضور e مدینہ میں جلوہ افروز ہوں گے۔
وہ آگئے جن کا انتظار تھا
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن مجھے پتا چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے ہیں اور قبا میں بنی عمرو بن عوف کے ہاں ٹھہرے ہوئے ہیں، میں اس وقت کھجور کے درخت پر چڑھ کر اس کی کانٹ چھانٹ میں مصروف تھا، میرے آقا کو یہ بات ایک یہودی نے بتائی، جو ان کا چچازاد بھائی لگتا تھا، اس نے کہا، اعوذ باللہ، خدا ان لوگوں کو ہلاک کرے کہ قبا میں ایک شخص کے گرد جمع ہیں، جو مکہ سے آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نبی ہوں۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ سنتے ہی میں درخت سے نیچے اترا اور اس یہودی سے پوچھا کہ تم کیا بات کر رہے ہو؟ میرے آقا نے میرے منھ پر تھپڑ مارا اور کہا کہ تم جا کر اپنا کام کرو، میں واپس چلا گیا اور شام کو کام سے فارغ ہو کر بارگاہ رسالت میں پہنچا، میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صدقہ پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کھایا، پھر ہدیہ پیش کیا تو اسے قبول فرما لیا۔ اس کے چار دن بعد بقیع میں ایک جنازے کے موقع پر میں نے سلام کیا اور آگے پیچھے کو اٹھنے بیٹھنے لگا، تاکہ مہر نبوت دیکھ سکوں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرا ارادہ سمجھ گئے اور اپنی پشت مبارک سے کپڑا ہٹا دیا، میں نے مہر نبوت کو بوسہ دیا اور اس تیسری نشانی کے پورا ہونے پر میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سامنے آؤ! میں سامنے آیا اور ابن عباس! جیسے آپ کے سامنے میں نے سارا واقعہ بیان کیا، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا اور آپ کے دست حق پرست پر بیعت اسلام کر کے مسلمان ہو گیا۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کا باغ اور دستِ نبوی کی برکت
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اپنے آقا سے بدل کتابت پر آزادی طلب کی، اس نے کہا، چالیس اوقیہ سونا دے دو اور تین سو کھجور کے درخت لگاؤ، جب وہ پھل دینا شروع کر دیں گے تو تم میری طرف سے آزاد ہو۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے بتایا تو ارشاد فرمایا کہ یہ شرط قبول کرلو، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ سلمان کی امداد کرو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حسب استطاعت پودے لاتے رہے اور تھوڑی ہی دیر میں تین سو پودے پورے ہو گئے، پھر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے تین سو گڑھے کھودے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان پودوں کو لگایا اور برکت کی دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے دست نبوی کی برکت سے ان پودوں کو محض ایک سال کے عرصے میں بار آور فرما دیا۔ چالیس اوقیہ سونے کی ادائیگی باقی تھی، اس کا بھی اللہ تعالیٰ نے خزانہ غیب سے یوں انتظام فرمایا کہ ایک انڈے کا سونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ مسکین مکاتب کدھر ہے؟ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تو ان کو فرمایا یہ اپنے آقا کو دے دو۔ عرض کیا: حضور! یہ تھوڑا ہے۔ ارشاد فرمایا: اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ چناں چہ جب اس کا وزن کروایا تو پورے چالیس اوقیہ نکلا۔ یوں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو آزادی کی زندگی ملی، جو انہوں نے اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں گزار دی۔
فضائل ومناقب
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منظور نظر تھے، ان کی رائے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ غزوہ احزاب کے موقع پر دشمن کے مقابلے میں دفاعی اقدام کے لیے انہی کے مشورے سے خندق کھودی گئی۔ طرزِ زندگی انتہائی سادہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مدائن کا گورنر مقرر کر رکھا تھا۔ اس خدمت کے عوض ملنے والی ساری تنخواہ غریبوں پر خرچ کر دیتے تھے۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت تین آدمیوں کی آمد کا شوق رکھتی ہے، وہ علی، عمار اور سلمان رضی اللہ عنہم ہیں۔
وفات حسرت آیات
آپ رضی اللہ عنہ کا انتقال پرملال سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں 35ھ میں ہوا۔ مدائن میں آپ رضی اللہ عنہ کو سپرد خاک کیا گیا۔ ترکہ میں ایک بڑا پیالہ، ایک پرانا کمبل، ایک لوٹا اور ایک تسلہ چھوڑا۔رضی اللّٰہ عنہ و ارضاہ