حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ

مولانا معین الدین ندوی

نام نسب اور ابتدائی حالات

خالد نام، ابوایوب کنیت، قبیلہ خزرج کے خاندان نجار سے تھے۔ سلسلہ نسب یہ ہے: خالد بن زید بن کلیب بن ثعلبہ بن عوف خزرجی، خاندان نجار گو قبائل مدینہ میں خود بھی ممتاز تھا، تاہم اس شرف نے کہ حامل نبوت کی وہاں نانہالی قرابت تھی، اس کو مدینہ کے اور قبائل سے ممتاز کر دیا تھا، ابوایوب اس خاندان کے رئیس تھے۔

اسلام

حضرت ابو ایوب انصاری بھی ان منتخب بزرگانِ مدینہ میں ہیں، جنہوں نے عقبہ کی گھاٹی میں جا کر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام کی بیعت کی تھی۔ حضرت ابوایوب مکہ سے دولت ایمان لے کر پلٹے تو ان کی فیاض طبعی نے گوارا نہ کیا کہ اس نعمت کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھیں۔ چناں چہ اپنے اہل وعیال، اعزہ واقرباء اور دوست واحباب کو ایمان کی تلقین کی اور اپنی بیوی کو حلقہٴ توحید میں داخل کیا۔

حامل نبوت کی میزبانی

خدا نے اہل مدینہ کے قبول دعوت سے اسلام کو ایک مامن (ٹھکانہ) عطا کر دیا اور مسلمان مہاجرین مکہ اور اطراف سے آ آ کر مدینہ میں پناہ گزین ہوئے۔ لیکن جو وجود مقدس قریش کی ستم گاریوں کا حقیقی نشانہ تھا وہ اب تک ستم گاروں کے حلقہ میں تھا۔ آخر ماہ ربیع الاول میں نبوت کے تیرہویں سال وہ بھی عازم مدینہ ہوا، اہل مدینہ بڑی بے تابی سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد آمد کا انتظار کر رہے تھے، انصار کا ایک گروہ، جس میں حضرت ابو ایوب بھی تھے، روزانہ حرہ تک، جو مدینہ سے 3-4 میل ہے، صبح اُٹھ کر جاتا تھا اور دوپہر تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر کے نامراد واپس آتا تھا۔ اس طرح یہ لوگ ایک روز بے نیل ومرام واپس ہورہے تھے کہ ایک یہودی نے دُور سے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوقرینہ سے پہچان کر، انصار کو تشریف آوری کا مژدہ سنایا، انصار جن میں بنو نجار سب سے پیش پیش تھے ہتھیار سجا سجا کر خیر مقدم کے لیے آگے بڑھے۔

مدینہ سے متصل قباء نام کی ایک آبادی تھی۔ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کچھ دنوں قباء میں رونق افروز رہے، اس کے بعد مدینہ کا عزم فرمایا، اللہ اکبر! مدینہ کی تاریخ میں یہ عجیب مبارک دن تھا، بنو نجار اور تمام انصار ہتھیاروں سے آراستہ دو رویہ صف بستہ تھے۔ روساء اپنے اپنے محلوں میں قرینے سے ایستادہ تھے، پردہ نشین خواتین گھر سے باہر نکل آئی تھیں۔ مدینہ کے حبشی غلام جوش مسرت میں اپنے اپنے فوجی کرتب دکھا رہے تھے اور خاندان نجار کی لڑکیاں دف بجا بجا کر ”طلع البدر علینا“ کا ترانہ خیر مقدم گا رہی تھیں، غرض اس شان وشکوہ سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر میں داخلہ ہوا کہ و داع کی گھاٹیاں مسرت کے ترانوں سے گونج اُٹھیں اور مدینہ کے روزن ہائے دیوار نے اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھا جو اس نے کبھی نہ دیکھا تھا۔

اب ہر شخص منتظر تھا کہ دیکھیے میزبان دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمانی کا شرف کس کو حاصل ہو، جدھر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ہوتا لوگ اھلا وسھلا مرحبا کہتے ہوئے آگے بڑھتے اور عرض کرتے کہ حضور! یہ گھر حاضر ہے، لیکن کارکنان قضا و قدر نے اس شرف کے لیے جس گھر کو منتخب کیا تھا وہ ابوایوب کا کا شانہ تھا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: ”خلوا سبیلہا فانھا مامورة“ یعنی اونٹنی کو آزاد چھوڑ دو، خدا کی جانب سے خود منزل تلاش کر لے گی۔ امام مالک کا قول ہے کہ اس وقت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی حالت طاری تھی اور آپ اپنی قیام گاہ کی تجویز میں حکم الہی کے منتظر تھے۔ آخر ندائے وحی نے تسکین کا سرمایہ بہم پہنچایا اور ناقہ قصوا نے خانہ ابو ایوب کے سامنے سفر کی منزل ختم کی۔ حضرت ابو ایوب سامنے آئے اور درخواست کی کہ میرا گھر قریب ہے، اجازت دیجیے اسباب اتار لوں۔ امید واروں کا ہجوم اب بھی باقی تھا اور لوگوں کا اصرار اجازت سے مانع تھا، آخر لوگوں نے قرعہ ڈالا۔ ابو ایوب کو اس فخر لا زوال کے حصول سے جو مسرت ہوئی ہوگی اس کا کون اندازہ کر سکتا ہے!!

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب کے گھر میں تقریباً 6 مہینے تک فروکش رہے، اس عرصہ میں حضرت ابو ایوب نے نہایت عقیدت مندانہ جوش کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میزبانی کی، ان کے مکان کے اوپر نیچے دو حصے تھے، انہوں نے اوپر کا حصہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص کیا، لیکن آپ نے اپنی اور زائرین کی آسانی کی خاطر نیچے کا حصہ پسند فرمایا، ایک دفعہ اتفاق سے کوٹھے پر پانی کا جو گھڑا تھا وہ ٹوٹ گیا، چھت معمولی تھی، ڈر تھا کہ پانی نیچے ٹپکے اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو، گھر میں میاں بیوی کے اوڑھنے کے لیے صرف ایک ہی لحاف تھا، دونوں نے لحاف پانی پر ڈال دیا کہ پانی جذب رہ جائے، بایں ہمہ تکلیف ان میزبانوں کے لیے کوئی بڑی زحمت نہ تھی کہ اسلام کی خاطر اس سے بڑی بڑی اور شدید تکلیفوں کے تحمل کا وہ عزم کر چکے تھے، تاہم یہ خیال کہ وہ اوپر اور خود حامل وحی نیچے ہے۔ ایسا سوہان روح تھا، جس نے حضرت ابو ایوب کو ایک دفعہ شب بھر بیدار رکھا اور دونوں میاں بیوی نے سوء ادب کے خوف سے چھت کے کونوں میں بیٹھ کر رات بسر کی، صبح حضرت ابو ایوب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رات کا واقعہ عرض کیا اور درخواست کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اوپر اقامت فرمائیں، جان نثار نیچے رہیں گے۔ چناں چہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درخواست منظور فرمالی اور بالاخانہ پر تشریف لے گئے۔

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب تک ان کے مکان میں تشریف فرما رہے، عموماً انصار یا خود حضرت ابو ایوب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روزانہ کھانا بھیجا کرتے تھے۔ کھانے سے جو کچھ بچ جاتا، آپ حضرت ابو ایوب کے پاس بھیج دیتے تھے، حضرت ابو ایوب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نشانات دیکھتے اور جس طرف سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمایا ہوتا، وہیں انگلی رکھتے اور کھاتے، ایک دفعہ کھانا واپس آیا تو معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول نہیں فرمایا، مضطربانہ خدمت اقدس میں پہنچے اور نہ کھانے کا سبب دریافت کیا، ارشاد ہوا کھانے میں لہسن تھا اور میں لہسن پسند نہیں کرتا۔ حضرت ابوایوب نے کہا انی اکرہ ما تکرہ جو آپ کو نا پسند ہو یا رسول اللہ ! میں بھی اس کو نا پسند کروں گا۔(صحیح مسلم ص197 ج 2)

مواخات

ہجرت کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار کو باہم بھائی بھائی بنادیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس کے مکان میں مہاجرین وانصار کو جمع کیا اور اتحاد مذاق، رتبہ اور درجہ کے لحاظ سے ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصار کا بھائی بنایا، اس موقع پر حضرت ابوایوب انصاری کو جس مہاجر کا بھائی قراردیا وہ یثرب کے اولین داعی اسلام حضرت مصعب بن عمیر قریشی تھے۔ حضرت مصعب بن عمیر وہ پر جوش صحابی ہیں، جنہوں نے اسلام کی خاطر بڑی بڑی سختیاں جھیلی تھیں اور ہجرت نبوی سے پہلے اسلام کے سب سے اول داعی بنا کر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مدینہ بھیجا تھا۔ حضرت ابوایوب کی ان سے مواخاة یہ معنی رکھتی ہے کہ یہ اپنے اندر اس قسم کا جوش اور ولولہ رکھتے ہیں اور آخر ان کی زندگی کے واقعات نے اس کو سچ کر دیا۔

غزوات اور عام حالات

حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں دیگر اکابر صحابہ کی طرح برابر شریک رہے اور اس التزام سے کہ ایک غزوہ کے شرف شرکت سے بھی محروم نہیں رہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور غزوات میں پہلا غزوہ بدر ہے، حضرت ابو ایوب اس میں بھی شریک تھے، بدر کے بعد وہ احد، خندق، بیعت الرضوان وغیرہ اور تمام غزوات میں بھی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے۔

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ان کی زندگی کا بیشتر حصہ جہاد میں صرف ہوا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جو لڑائیاں پیش آئیں، ان میں سے جنگ خوارج میں وہ شریک تھے اور جناب امیر کی معیت میں مدائن تشریف لے گئے۔ جناب امیر کو آپ کی ذات پر جو اعتماد اور آپ کی قابلیت و حسن تدبیر کا جس قدر اعتراف تھا وہ اس سے ظاہر ہوگا کہ جب انہوں نے کوفہ کو دارالخلافہ قرار دیا تو مدینہ میں حضرت ابوایوب کو اپنا جانشین چھوڑ گئے اور وہ اس عہد میں امیر مدینہ رہے۔

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کی سابقہ حسن خدمت کی بنا پر بارگاہ خلافت سے حسب ترتیب ماہانہ وظائف ملتے تھے، حضرت ابوایوب کا وظیفہ پہلے 4 ہزار درہم تھا، حضرت علی نے اپنے زمانہ خلافت میں بیس ہزار کر دیا، پہلے 8 غلام ان کی زمین کی کاشت کے لیے مقرر تھے۔ جناب امیر نے 40 غلام مرحمت فرمائے۔

آل اولاد

حضرت ابوایوب کی زوجہ کا نام حضرت ام حسن بنت زید انصاریہ ہے۔ وہ مشہور صحابیہ تھیں، ابن سعد کا بیان ہے کہ ان کے بطن سے صرف ایک لڑکا عبدالرحمن تھا۔ اس حسن خدمت اور محبت کی یادگار میں جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھی تمام اصحاب اور اہل بیت آپ سے محبت وعظمت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ حضرت ابن عباس، حضرت علی کی طرف سے بصرہ کے گورنر تھے۔ اسی زمانہ میں آپ حضرت ابن عباس کی ملاقات کو بصرہ تشریف لے گئے، ابن عباس نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ جس طرح آپ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقامت کے لیے اپنا گھر خالی کر دیا تھا، میں بھی آپ کے لیے اپنا گھر خالی کردوں اور تمام اہل و عیال کو دوسرے مکان میں منتقل کر دیا اور مکان مع اس تمام ساز وسامان کے جو گھر میں موجود تھا آپ کی نذر کر دیا۔

مصر کا سفر

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کا زمانہ آیا۔ عقبہ بن عامر جہنی ان کی طرف سے مصر کے گورنر تھے۔ حضرت عقبہ کے دور امارت میں حضرت ابو ایوب کو دو مرتبہ سفر مصر کا اتفاق ہوا۔ پہلا سفر طلب حدیث کے لیے تھا، انہیں معلوم ہوا تھا کہ حضرت عقبہ کسی خاص حدیث کی روایت کرتے ہیں، صرف ایک حدیث کے لیے حضرت ابو ایوب نے عالم پیری میں سفر مصر کی زحمت گوارا کی، مصر پہنچ کر پہلے مسلمہ بن مخلد کے مکان پر گئے۔ حضرت مسلمہ نے خبر پائی تو جلدی سے گھر سے باہر نکل آئے اور معانقہ کے بعد پوچھا کیسے تشریف لانا ہوا؟ حضرت ابو ایوب نے فرمایا کہ مجھ کو عقبہ کا مکان بتا دیجیے۔ حضرت مسلمہ سے رخصت ہو کر عقبہ کے مکان پر پہنچے ان سے ”ستر المسلم“ کی حدیث دریافت فرمائی اور کہا کہ اس وقت آپ کے سوا اس حدیث کا جاننے والا کوئی نہیں۔ حدیث سن کر اونٹ پر سوار ہوئے اور سیدھے مدینہ منورہ واپس چل گئے۔(مسند احمد ج 4 ص153)

غزوہٴ روم کی شرکت

دوسری بار غزوہٴ روم کی شرکت کے ارادے سے مصر تشریف لے گئے۔ فتح قسطنطنیہ کی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بشارت دے گئے تھے۔ امرائے اسلام منتظر تھے کہ دیکھیے یہ پیشن گوئی کس جانباز کے ہاتھوں پوری ہوتی ہے، شام کے دارالحکومت ہونے کے سبب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کا سب سے زیادہ موقع حاصل تھا۔ چناں چہ25ھ میں انہوں نے روم پر فوج کشی کی، یزید بن معاویہ اس لشکر کا سپہ سالار تھا۔ دیگر اصحاب کبار کی طرح حضرت ابو ایوب بھی اس پر جوش فوج کے سپاہی تھے۔ مصرو شام وغیرہ ممالک کے الگ الگ دستے تھے، مصری فوج کے سر عسکر گورنر مصر مشہور صحابی حضرت عقبہ بن عامر جہنی تھے، ایک دستہ فضالہ بن عبید کے ماتحت تھا۔ ایک جماعت عبد الرحمن بن خالد بن ولید کے زیر قیادت تھی، رومی بڑے سرو سامان سے لڑائی کے لیے تیار ہوئے اور ایک فوج گراں مسلمانوں کے مقابلے کے لیے بھیجی۔ مسلمانوں نے بھی مقابلہ کی تیاریاں کیں، ان کی تعداد بھی دشمنوں سے کم نہ تھی، جوش کا یہ عالم تھا کہ ایک مسلمان رومیوں کی پوری پوری صف سے معرکہ آرا تھا۔

ایک صاحب کے جوش کی یہ کیفیت تھی کہ رومیوں کی صفوں کو چیر کر تنہا اندر گھس گئے۔ اس تہور کو دیکھ کر عام مسلمانوں نے بیک آواز کہا کہ یہ صریح آیت قرآنی ﴿لا تلقوا بایدیکم الی التہلکة﴾ (اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو) کے خلاف ہے۔ حضرت ابوایوب انصاری آگے بڑھے اور فوج کو مخاطب کر کے فرمایا ”لوگو! تم نے اس آیت شریفہ کے یہ معنی سمجھے؟ حالاں کہ اس کا تعلق انصار کے ارادہ تجارت سے ہے، اسلام کے امن و فراخی کے بعد انصار نے یہ ارادہ کیا تھا کہ گذشتہ سالوں میں جہاد کی مشغولیت کی وجہ سے ان کو جو نقصان اٹھانے پڑے ہیں ان کی تلافی کی جائے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، پس ہلاکت جہاد میں نہیں، بلکہ ترک جہاد اور فراہمی مال میں ہے“۔

وفات

اسی سفر جہاد میں عام وبا پھیلی اور مجاہدین کی بڑی تعداد اس کی نذر ہوگئی۔ حضرت ابو ایوب بھی اس وبا میں بیمار ہوئے۔ یزید عیادت کے لیے گیا اور پوچھا کہ کوئی وصیت کرنی ہو تو فرمایئے، تعمیل کی جائے گی۔ آپ نے فرمایا تم دشمن کی سرزمین میں جہاں تک جا سکو، میرا جنازہ لے جا کر دفن کرنا، چناں چہ وفات کے بعد اس کی تعمیل کی گئی۔ تمام فوج نے ہتھیار سجا کر رات کو لاش قسطنطنیہ کی دیواروں کے نیچے دفن کی، نماز میں جس قدر مسلمان فوجی تھے شامل تھے۔ دفن کرنے کے بعد یزید نے مزار کے ساتھ کفار کی بے ادبی کے خوف سے اس کو زمین کے برابر کرا دیا۔ صبح کو رومیوں نے مسلمانوں سے پوچھا کہ رات آپ لوگ کچھ مصروف نظر آتے تھے، بات کیا تھی؟ مسلمانوں نے کہا کہ ہمارے پیغمبر کے ایک بڑے جلیل القدر دوست نے وفات پائی، ان کے دفن میں مشغول تھے۔ لیکن جہاں ہم نے دفن کیا ہے تمہیں معلوم ہے۔ اگر مزار اقدس کے ساتھ کوئی گستاخی تمہاری طرف سے روا رکھی گئی تو یاد رکھو اسلام کی وسیع الحدود حکومت میں کہیں ناقوس نہ بچ سکے گا۔ (ابن سعد – جلد 3، ق اول، ص 50 و اسدالغا بہ، تذکرة حضرت ابوایوب انصاری)
حضرت ابوایوب کا مزار دیوار قسطنطنیہ کے قریب ہے اور اب تک زیارت گاہ خلائق ہے۔ رومی قحط کے زمانہ میں مزار اقدس پر جمع ہوتے تھے۔ اس کے وسیلہ سے بارانِ رحمت مانگتے تھے اور خدا کے لطف وکرم کا تماشا دیکھتے تھے۔

فضل وکمال

حضرت ابوایوب کا فضل وکمال اس قدر مسلم تھا کہ خود صحابہ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس، ابن عمر، براء بن عازب، انس بن مالک، ابوامامہ، زید بن خالد جہنی، مقدام بن معدی کرب ، جابر بن سمرہ، عبداللہ بن یزیدخطمی رضی اللہ عنہم وغیرہ جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔ حضرت ابوایوب کے فیض سے بے نیاز نہیں تھے۔ تابعین میں سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، سالم بن عبداللہ، عطاء بن سیار، عطا بن یزیدلیثی، ابوسلمہ عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ رحمہم اللہ، بڑے پایہ کے لوگ ہیں، تاہم وہ حضرت ابو ایوب کے عام ارادت مندوں میں داخل تھے۔

حضرت ابوایوب کو فضل وکمال میں مرجعیت عامہ حاصل تھی۔ صحابہ کرام جب کسی مسئلہ میں اختلاف کرتے تو ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ابن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم میں اختلاف ہوا کہ محرم حالت جنابت میں غسل کرتے وقت سر ہاتھ سے مل سکتا ہے یا نہیں۔ ابن عباس کا خیال تھا کہ سر دھو سکتا ہے، مگر مسور کہتے تھے کہ سر دھونا جائز نہیں۔ دونوں بزرگوں نے عبداللہ بن حسین کو حضرت ابو ایوب کی خدمت میں بھیجا، حسن اتفاق سے وہ اس وقت غسل ہی کر رہے تھے۔ عبد اللہ نے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے اپنا سر باہر نکال کر ملنا شروع کیا اور فرمایا کہ دیکھو! آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح غسل کرتے تھے۔ (صحیح بخاری ص 248 ج1)

عاصم بن سفیان ثقفی غزوہٴ سلاسل میں شرکت کی غرض سے گھر سے نکلے تھے، ابھی منزل مقصود سے دور تھے کہ اختتام جنگ کی خبر آئی، انہیں نہایت افسوس ہوا اور وہ حضرت امیر معاویہ کے دربار میں گئے، اس وقت حضرت ابو ایوب اور عقبہ بن عامر بھی موجود تھے، ان کی موجودگی میں عاصم نے حضرت ابو ایوب سے مسئلہ دریافت کیا، ان دونوں بزرگوں سے نہیں پوچھا، حضرت ابوایوب کو یہ گوارا نہ ہوا، اس لیے انہوں نے مسئلہ کا جواب دے کر عقبہ سے تصدیق کرالی کہ ان کو کسی قسم کا خیال نہ پیدا ہو۔( مسند احمد، ص 423، ج5، ونسائی، باب فضل الوضو)۔

ابن اسحاق (مولی بنی ہاشم) اور بعض دوسرے بزرگوں میں یہ بحث تھی کہ نبیذ کس کس برتن میں بنا سکتے ہیں؟ اور قرع ما بہ النزاع تھا۔ حضرت ابوایوب انصاری کا ادھر سے گزر ہوا تو لوگوں نے ان کے پاس ایک آدمی کو تحقیق مسئلہ کے لیے روانہ کیا۔ حضرت ابوایوب نے فرمایا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزفت میں نبیذ بنانے کی ممانعت کی ہے۔ اس شخص نے قرع کا لفظ دہرایا، مگر حضرت ابو ایوب نے پھر یہی جواب دیا۔(مسند احمد ص 414 ج5)

حضرت ابو ایوب کے جب علم اور نشر معارف کی انتہا یہ ہے کہ بستر مرگ پر بھی ان کی زبان اشاعت حدیث کا مقدس فریضہ ادا کر رہی تھی۔ وفات سے قبل انہوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دو حدیثیں روایت کیں، پہلے کبھی انہوں نے بیان نہیں کی تھیں۔ ان کی رحلت کے بعد عام اعلان کے ذریعہ سے وہ لوگوں تک پہنچائی گئیں۔(مسند احمد ص 414 ج5)

اخلاق

حضرت ابوایوب کے مجموعہ اخلاق میں تین چیزیں سب سے زیادہ نمایاں تھیں۔ حب رسول، جوش ایمان اور حق گوئی، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوایوب کو جو محبت(مسند احمد ص414،423 ج5) تھی اور حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو آداب وہ ملحوظ رکھتے تھے، میزبانی کے ذکر میں وہ واقعات گزر چکے ہیں۔

وفات نبوی کے بعد جان شاروں کے لیے روضہٴ اقدس کے سوا اور کیا شے مایہ تسلی ہو سکتی تھی؟ ایک دفعہ حضرت ابوایوب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ اطہر کے پاس تشریف رکھتے تھے اور اپنا چہرہ ضریح اقدس سے مس کر رہے تھے، اس زمانہ میں مروان مدینہ کا گورنر تھا، وہ آگیا۔ اس کو بظاہر یہ فعل خلاف سنت نظر آیا، لیکن حضرت ابو ایوب سے زیادہ مروان واقف رموز نہ تھا۔ اصل اعتراض کو سمجھ کر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، اینٹ اور پتھر کے پاس نہیں آیا ہے۔ (مسند احمد ص 412 ج5)

غزوات نبوی میں سے کسی غزوہ کی شرکت سے وہ محروم نہ تھے۔ اسّی برس کی عمر میں بھی وہ مصر کی راہ سے بحر روم کو عبور کر کے قسطنطنیہ کی دیواروں کے نیچے اعلائے کلمة اللہ میں مصروف تھے۔
حق گوئی کا یہ عالم تھا کہ حکومت اور امارت کا دبدبہ وشان بھی اس سے باز نہیں رکھ سکتا تھا۔ ایک دفعہ مصر کے گورنر عقبہ بن عامر جہنی نے، جو خود صحابی تھے، کسی سبب سے مغرب کی نماز میں دیر کر دی۔ حضرت ابو ایوب نے اٹھ کر پوچھا ”ما ہذہ الصلوة یا عقبہ؟“ عقبہ یہ کیسی نماز ہے؟ حضرت عقبہ نے کہا، ایک کام کی وجہ سے دیر ہوگئی، آپ نے کہا تم صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو، تمہارے اس فعل سے لوگوں کو گمان ہوگا کہ شاید آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز پڑھتے تھے۔ حالاں کہ آں حضرت نے مغرب کے وقت تعجیل کی تاکید فرمائی ہے۔( مسند احمد ص 417 ج5)

حضرت خالد بن ولید کے صاحب زادے عبد الرحمن نے کسی جنگ میں چار قیدیوں کو ہاتھ پاؤں بندھوا کر قتل کرا دیا، حضرت ابوایوب انصاری کو خبر ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ اس قسم کے وحشیانہ قتل سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی ہے اور میں تو اس طرح مرغی کا مارنا بھی پسند نہیں کرتا۔( مسند احمد ص 422ج5)

غزوہٴ روم کے زمانہ میں بہت سے قیدی افسر تقسیمات کی نگرانی میں تھے۔ حضرت ابوایوب ادھر سے گذرے تو دیکھا قیدیوں میں ایک عورت بھی ہے، جو زارو زار رورہی ہے، حضرت ابوایوب  نے سبب پوچھا، لوگوں نے کہا کہ اس کا بچہ اس سے چھین کر الگ کر دیا گیا ہے، حضرت ابو ایوب نے لڑکے کا ہاتھ پکڑ کر عورت کے ہاتھ میں دے دیا، افسر نے امیر سے اس کی شکایت کی، امیر نے باز پرس کی تو بولے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ ستم کی ممانعت کی ہے اور بس۔( مسند احمد ص 413 ج5)

حضرت ابوایوب کی حریت ضمیر کا یہ فطری تقاضا تھا کہ جو بات اسلام کے خلاف دیکھیں اس پر لوگوں کو متنبہ کریں۔ چناں چہ جب وہ شام اور مصر تشریف لے گئے اور وہاں پاخانے قبلہ رخ بنے ہوئے دیکھے تو بار بار کہا، کیا کہوں؟ یہاں پاخانے قبلہ رخ بنے ہیں، حالاں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔ (مسند احمد ص 413 ج5)

حضرت ابو ایوب  کی حیا کا یہ حال تھا کہ کنوئیں پر نہاتے تھے تو چاروں طرف سے کپڑا تان لیتے تھے۔(صحیح بخاری ص 248 ج1)

بہشت کے باسی سے متعلق