حضرت جریر بن عبد اللہ بَجلی رضی اللہ عنہ

حضرت جریر بن عبد اللہ بَجلی رضی اللہ عنہ

مولانا معین الدین ندوی

نام ونسب

جریر نام، ابو عمر کنیت ، نسب نامہ یہ ہے: جریر بن عبد اللہ بن جابر بن مالک بن نضر بن ثعلبہ جشم بن عوف بن خزیمہ بن حرب بن علی بن مالک بن سعد بن نذیر بن قسر بن عبقر بن انمار بن اراش بن عمرو بن غوث بجلی۔ جریر یمن کے شاہی خاندان کے رکن اور قبیلہ بجیلہ کے سردار تھے۔

اسلام

بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جریر وفات نبوی کے کل چالیس روز پیشتر مشرف باسلام ہوئے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ بروایت صحیح وہ حجة الوداع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تھے۔ (مسند احمد، جلد 4، ص 358) اس لیے وفات سے کم از کم چار پانچ ماہ پیشتر ان کا اسلام ماننا پڑے گا۔ اور واقدی کے بیان کے مطابق رمضان 10ھء میں اسلام لائے۔ اس روایت کی رو سے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سات مہینہ پیشتر ان کا اسلام لانا ثابت ہوتا ہے۔ بہر حال اس قدر یقینی ہے کہ وہ وفات نبوی سے کئی مہینے پیشتر اسلام لا چکے تھے۔

جب یہ قبولِ اسلام کے لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیسے آنا ہوا؟ عرض کیا اسلام قبول کرنے کے لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر بچھا دی اور مسلمانوں سے فرمایا، جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز آدمی آئے تو اس کی عزت کیا کرو۔(اصابہ، جلد اول، ص242) اس کے بعد جریر نے اسلام کے لیے ہاتھ بڑھایا اور کہا میں اسلام پر بیعت کرتا ہوں۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا، ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنا، پھر فرمایا: جو شخص انسانوں پر رحم نہیں کرتا اس پر خدا رحم نہیں کرتا اور بلا شرکت غیرے خدائے واحد کی پرستش، فرض نمازوں کی پابندی، مفروضہ زکوة کی ادائیگی، مسلمانوں کی نصیحت اور خیر خواہی اور کافروں سے براء ت پر بیعت لی۔ (مسند احمد بن حنبل، جلد 4، ص 358)

حجة الوداع

قبولِ اسلام کے بعد سب سے اول آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجة الوداع میں شریک ہوئے، اس میں مجمع کو خاموش کرنے کی خدمت ان کے سپرد تھی۔

سریہ ذی الحلیفہ

فتح مکہ کے بعد قریب قریب عرب کے تمام قبیلے اسلام کے حلقہ اثر میں آگئے تھے، لیکن بعضوں میں صدیوں کے اعتقاد کی وجہ سے تو ہم پرستی باقی تھی اور صنم کدوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے تھے، اس وہم کو دور کرنے کے لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی صنم کدے گِروائے۔ یمن کے صنم کدہ ذی الحلیفہ کو، جو کعبہ یمان کے نام سے مشہور تھا، ڈھانے کی خدمت جریر رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جریر سے فرمایا کیا تم ذی الحلیفہ کو ڈھا کر مجھے مطمئن نہ کرو گے؟ عرض کیا بسر وچشم حاضر ہوں، لیکن گھوڑے کی پیٹھ پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا۔ یہ عذر سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ پر ہاتھ مارا اور دعادی کہ خدایا! ان کو (گھوڑے کی پیٹھ پر) جمادے اور ہادی و مہدی بنا۔ جریر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دعاؤں کو لے کر 150 سواروں کے دستہ کے ساتھ یمن پہنچے اور ذی الحلیفہ کے صنم کدہ کو جلا کر خاکستر کر دیا اور ابو ارطاة کو اطلاع کے لیے مدینہ بھیجا۔ انہوں نے آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مژدہ سنایا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے ذی الحلیفہ کو جلا کر خارشی اونٹ بنا دیا۔ یہ خبر سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سریہ کے سوار اور پیدل کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہٴ ذی الحلیفہ)

ابھی جریر رضی اللہ عنہ یمن ہی میں تھے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا، لیکن انہیں اس کی خبر نہ ہوئی، ایک دن یہ یمن کے دو آدمیوں ذو کلاع اور ذو عمر کو حدیث نبوی سنا رہے تھے کہ انہوں نے کہا تم اپنے جس ساتھی کا حال سنا رہے ہو وہ تین دن ہوئے ختم ہوگیا، یہ وحشت ناک خبر سن کر جریر روانہ ہو گئے، راستے میں مدینہ کے سوار ملے، ان سے معلوم ہوا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے۔(بخاری، کتاب المغازی، باب ذہاب جریر الی الیمن)

عہد فاروقی

عہد صدیقی میں غالباً انہوں نے خاموشی کی زندگی بسر کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں عراق کی فوج کشی میں شریک ہوئے، عراق پر عہد صدیقی ہی میں فوج کشی ہو چکی تھی، اس سلسلہ کی مشہور جنگ ”واقعہ جسر“ میں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہوئی مسلمانوں کو نہایت سخت شکست ہوئی اور بہت سے مسلمان شہید ہوئے، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عراقی افواج کی امداد کے لیے تمام قبائل عرب کو جمع کیا اور ہر قبیلہ کے سردار کو اس کے قبیلہ کا افسر بنا کر عراق روانہ کیا، جریر کو بجیلہ کی سرداری ملی، چناں چہ یہ اپنے قبیلہ کے ساتھ عراق پہنچے اور مقام ثعلبہ میں مثنی بن حارثہ سے، جو ایرانیوں کے مقابلہ میں تھے، ملے۔ مقام حیرہ میں مسلمانوں اور ایرانیوں کا مقابلہ ہوا، اس مقابلہ میں جریر رضی اللہ عنہ میمنہ کے افسر تھے، میمنہ، میسرہ اور قلب کو لے کر ایرانیوں پر حملہ کیا، ایرانیوں نے بھی برابر کا جواب دیا اور مسلمان پھٹ کر الگ ہو گئے، مثنی نے للکارا، ان کی للکار پر وہ پھر سنبھل کر حملہ آور ہوئے، اس حملہ میں عرب کے مشہور بہادر مسعود بن حارثہ مارے گئے، مثنی نے پھر جوش دلایا کہ شرفا یوں ہی جان دیتے ہیں، جریر نے بھی اپنے قبیلہ کو للکارا کہ برادران بجیلہ! تم کو دشمنوں پر سب سے پہلے حملہ آور ہونا چاہیے، اگر خدانے کام یاب کیا تو تم اس زمین کے سب سے زیادہ حق دار ہوگے، ان دونوں کی للکار پر مسلمانوں نے تیسرا حملہ کیا، اس حملہ میں ایرانی افسر مہران مارا گیا اور ایرانیوں نے میدان خالی کر دیا۔(الاخبار الطوال، ص 119، 120)

جنگ یرموک

اس سلسلہ کی مشہور جنگ ”یرموک“ میں جریر رضی اللہ عنہ نے بڑے کارنامے دکھائے، اس جنگ کے آغاز ہی میں مسلمانوں کے دوافسر مارے گئے، یہ صورت دیکھ کر جریر نے اپنے قبیلہ بجیلہ کو لے کر حملہ کیا، ان کے ساتھ قبیلہ ازد نے بھی حملہ کر دیا، بڑی گھمسان کی لڑائی ہوئی، عجمی پیچھے ہٹتے ہٹتے رستم کے پاس پہنچ گئے، رستم سواری سے اتر پڑا اور پیدل بڑھ کر پر زور حملہ کیا، اس کے ساتھ اور افسران فوج بھی آگے بڑھے اور مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اس موقع پر مشہور بہادر ابو محجن ثقفی نے بڑی بہادری دکھائی، جریر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی پسپائی دیکھی تو دوسرے افسروں سے کہلا بھیجا کہ میمنہ کی جانب سے ایرانیوں کے قلب پر متفقہ حملہ کرنا چاہیے۔ ان کے مشورہ پر مسلمانوں نے ہر طرف سے سمٹ کر اس زور کا حملہ کیا کہ ایرانیوں کی صفیں درہم برہم ہوگئی اور وہ نہایت بے ترتیبی کے ساتھ پیچھے ہٹے۔ اس پسپائی میں رستم مارا گیا اور ایرانی دیر کعب تک پچھڑتے چلے گئے، اس درمیان میں ان کا امدادی دستہ پہنچ گیا اور وہ از سرے نو منظم ہو کر صف آرا ہو گئے۔ اور نخارستان مسلمانوں کے مقابلہ میں آیا۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کا کام تمام کر دیا دوسری طرف قیس بن ہبیرہ نے ایک دوسرے افسر کو مارا اور مسلمان ہر چہار جانب سے ایرانیوں پر ٹوٹ پڑے، ان کے افسر مارے جاچکے تھے، اس لیے وہ زیادہ دیر تک میدان میں نہ ٹھہر سکے اور پسپا ہو کر پیچھے ہٹنے لگے، جریر رضی اللہ عنہ تعاقب کرتے ہوئے بہت آگے نکل گئے۔ ایرانیوں نے تنہا پاکر گھوڑے سے نیچے گرا دیا اور اس درمیان میں ان کے ساتھی پہنچ گئے، اس لیے ایرانی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ (تاریخوں میں جنگِ یرموک کے واقعات نہایت مفصل ہیں، ہم نے الاخبار الطوال سے صرف اسی قدر نقل کیا ہے)

یرموک کے بعد کسریٰ کا پایہٴ تخت مدائن فتح ہوا۔ اس کے بعد عمرو بن مالک نے جلولا کی مہم سر کی اور جریر رضی اللہ عنہ کو چار ہزار مسلح فوج کے ساتھ جلولا کی حفاظت پر متعین کر کے اپنے مستقر پر چلے گئے۔

جلولا کے پاس ہی حلوان ایرانیوں کا ایک بڑا مرکز تھا، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جریر رضی اللہ عنہ کے پاس 3 ہزار فوج بھیجی کہ وہ حلوان پر حملہ کر کے اس خطرہ کو دور کریں۔ چناں چہ وہ 4 ہزار پہلی اور 3 ہزار، یہ جدید فوج لے کر حلوان پہنچے اور بلا کسی خون ریزی کے اس پر قبضہ کر لیا۔ (بلاذری ص 309)
اس کے بعد اہواز کی باری آئی، یہاں اسلامی فوجیں بہت پہلے سے پڑی ہوئی تھیں۔ یزدگرد نے ہرمزان کو ان کے مقابلہ کے لیے بھیجا، اس نے تستر میں قیام کیا۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے جو تستر میں تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع دی، آپ نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے پاس نعمان بن مقرن کو ابو موسیٰ کی مدد کے لیے بھیجنے کا حکم بھیجا۔ انہوں نے جریر رضی اللہ عنہ کو جو اس وقت جلولا میں مقیم تھے یہ مہم سپرد کی۔ جریر رضی اللہ عنہ جلولا میں عروہ بن قیس کو اپنا قائم مقام چھوڑ کر ابو موسیٰ کی مدد کے لیے پہنچے، دونوں نے مل کر ہرمزان کا مقابلہ کیا، ایرانی پسپا ہو کر تستر کے قلعہ میں قلعہ بند ہو گئے۔ مسلمانوں نے تستر کا محاصرہ کر لیا، مدتوں کے محاصرہ کے بعد ایک ایرانی کی امداد سے قبضہ ہوا۔(الاخبار الطوال، ص 136، 137)

تستر کی شکست کے بعد یزدگرد شاہِ ایران نے اپنے ملک کے مشہور بہادر مردان شاہ کو ایک لشکر جرار کے ساتھہ مسلمانوں کے مقابلہ پر مامور کیا۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اہتمام کی اطلاع دی۔ پہلے آپ نے خود اس جنگ میں شرکت کا ارادہ کیا، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے سے رک گئے اور تمام فوجی چھاؤنیوں میں احکام بھیجے کہ ہر جگہ کی فوجیں میدان میں پہنچ جائیں اور نعمان بن مقرن کے علاوہ اور چار آدمیوں کو بھی سپہ سالاری کے لیے نام زد کر دیا تھا، ان میں ایک جریر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ مسلمانوں اور ایرانیوں کا یہ معرکہ تاریخی شمار کیا جاتا ہے، اس میں حضرت نعمان رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی، مگر کام یابی مسلمانوں کو ہوئی۔(فتوح البلدان بلاذری، ص 310، 311) ان لڑائیوں کے علاوہ جریر رضی اللہ عنہ اس سلسلہ کی اور لڑائیوں میں بھی شریک تھے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں ہمدان کے گورنر تھے۔ ان کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی اور اپنے رقبہ حکومت میں ان کی بیعت لے کر ان کے پاس کو فہ چلے آئے۔ جنگِ جمل کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنی بیعت کے لیے خط لکھا تو اس کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جریر رضی اللہ عنہ ہی لے کر گئے تھے۔ اس کو پیش کر کے زبانی اپنی طرف سے یہ کہا کہ حجاز،یمن، بحرین، عمان، مصر، فارس، خراسان اور علاقہ جبل وغیرہ سارے ملکوں نے امیر المومنین کو خلیفہ تسلیم کرلیا ہے، صرف شام باقی رہ گیا ہے۔ اس لیے اس کو بھی ان کے حلقہ اطاعت میں آجانا چاہے، ورنہ اگران ملکوں میں سے ایک ملک بھی شام پر بہادیا جائے گا تو اس کو غرق کرنے کے لیے کافی ہے۔(الاخبار الطوال، ص 166)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خط پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے مشیروں سے رائے لی، سب نے خلاف مشورہ دیا، اس لیے انہوں نے صاف جواب دے دیا کہ اہل شام بیعت نہیں کر سکتے۔ جریر رضی اللہ عنہ نے واپس جاکر یہ جواب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سنادیا اور امیر معاویہ کی قوت اور ان کے انتظامات سے بھی آگا ہ کر دیا۔ ان کی زبان سے یہ باتیں سن کر شیعیان علی رضی اللہ عنہ جریر رضی اللہ عنہ پر طرح طرح کی تہمتیں رکھنے لگے، اشتر بہت برہم ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا امیر المومنین! اگر جریر کے بجائے آپ مجھے بھیجتے تو معاویہ کے گلے کی گرفت نہ ڈھیلی ہونے دیتا اورکوئی راستہ ایسا باقی نہ چھوڑتاجسے کھول کر وہ کام یاب ہو سکیں اور قبل اس کے کہ وہ کوئی کاروائی کریں ان سے بیعت لے لیتے۔ یہ باتیں سن کر جریر رضی اللہ عنہ نے کہا اگر پہلے نہیں جا سکے تو اب جا کر کر لو۔ اشتر نے کہا اب جا کر میں کیا کر سکتا ہوں جب کہ تم نے معاملہ بگاڑ دیا؟ تم نے قطعا ان سے کوئی عہدہ پیمان لیا ہے، ورنہ ان کی کوششوں اور فوج کی کثرت سے ہم لوگوں کونہ ڈراتے، اگر مجھ کو امیر المومنین اجازت مرحمت فرمائیں تو تم کو اور تمہارے جیسے لوگوں کو معاملات کے فیصلہ تک قید کر دوں۔ جریر رضی اللہ عنہ کو یہ انداز گفتگو اور ناروا غصہ بہت نا گوار ہوا اور راتوں رات اپنے اہل وعیال کو لے کر کوفہ چلے گئے اور قرقیسیا میں اقامت اختیار کرلی۔(الاخبار الطوال ص 171) اور جنگ صفین میں کوئی حصہ نہ لیا۔(اصابہ، جلد اول، ص 242) اور بقیہ زندگی قرقیسیا کے گوشہٴ عافیت میں بسر کی۔

وفات

45ھ ئمیں قرقیسیا میں وفات پائی۔ (استیعاب، جلد اول، ص 91)

حلیہ

قد در از چھ فٹ تھا اور اس قدر حسین و جمیل تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کو امتِ اسلامیہ کا یوسف کہا کرتے تھے۔ ہاتھوں میں مہندی کا خضاب لگاتے تھے۔(استیعاب، جلد اول، ص 91)

اولاد

وفات کے بعد پانچ لڑکے عمر، منذر، عبید اللہ، ایوب اور ابراہیم یادگار چھوڑے۔ (تہذیب التہذیب جلد 2 ص 73)

فضل وکمال

گو جریر رضی اللہ عنہ آخری زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے اور فیضانِ نبوی سے استفادہ کا کم موقع ملا، تاہم جو لمحات بھی میسر آئے ان سے پورا فائدہ اٹھایا، اس لیے اس کمی صحبت کے باوجود ان سے سو حدیثیں مروی ہیں۔ ان میں سے آٹھ متفق علیہ ہیں اور ایک میں امام بخاری اور سات میں امام مسلم منفرد ہیں۔ (تہذیب الکمال، ص 61) ان سے روایت کرنے والوں کا دائرہ بھی خاصہ وسیع ہے۔ چناں چہ ان کے لڑکوں میں منذر، عبید اللہ، ایوب، ابراہیم اور لڑکوں کے علاوہ ابوزرعہ بن عمر، انس، ابو وائل، زید بن وہب، زیاد بن علاقہ شعبی، قیس بن ابی حازم، ھمام بن حارث اور ابوظبیان حصین بن جندب نے ان سے روایتیں کی ہیں۔ (تہذیب التہذیب، جلد 2، ص 73)

بارگاہ نبوی میں پذیرائی

بارگاہ نبوی میں جریر رضی اللہ عنہ کی بڑی پذیرائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بہت مانتے تھے اور بڑے احترام سے ان کے ساتھ پیش آتے تھے اور ان کے بیٹھنے کے لیے ردائے مبارک بچھا دیتے تھے۔(تہذیب الکمال، ص61) جب بھی درِ دولت پر حاضر ہوتے کبھی شرفِ باریابی سے محروم نہ رہتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھتے تھے تو مسکرا دیتے تھے۔ (مسلم، کتاب الفضائل، فضائل جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ) غائبانہ ان کا ذکرِ خیر فرماتے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ جب میں مدینہ پہنچا تو مدینہ کے باہر سوار بٹھا کر کپڑا رکھنے کا تھیلا کھولا اور حلہ پہن کر داخل ہوا، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔ میں نے سلام کیا، لوگوں نے آنکھوں سے میری طرف اشارہ کیا، میں نے اپنے پاس کے آدمی سے پوچھا، عبد اللہ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا تذکرہ فرماتے تھے؟ انہوں نے کہا ہاں، ابھی ابھی نہایت اچھے الفاظ میں تمہارا تذکرہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، دوران خطبہ فرمایا کہ اس دروازہ یا اس کھڑکی سے تمہارے پاس یمن کا ایک بہترین شخص داخل ہوگا۔ اس کے چہرہ پر بادشاہی کی علامت ہوگی۔ میں نے اس عزت افزائی پر خدا کا شکر ادا کیا۔ (مسند احمد بن حنبل، جلد 4، ص 359، 360)

حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی خوبیوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کی توقیر کرنے کی وجہ سے خلفاء بھی ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ چناں چہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ خدا تم پر رحمت نازل فرمائے، تم جاہلیت میں بھی اچھے سردار تھے اور اسلام میں بھی اچھے سردار ہو۔ (تہذیب التہذیب جلد 2، ص 3)

پاسِ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد ہمیشہ زندگی کا دستور العمل رہا، ایک مرتبہ چند اعراب نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ یا نبی اللہ! آپ کے بعض صدقہ وصول کرنے والے ہم پر ظلم کرتے ہیں۔ فرمایا، ان کو راضی رکھو۔ اعراب نے کہا اگر وہ ظلم کریں تب بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صدقہ وصول کرنے والوں کو راضی رکھو۔ اس ارشاد کے بعد سے کسی صدقہ وصول کرنے والے کو جریر رضی اللہ عنہ نے ناخوش نہیں کیا۔ (مسند احمد بن حنبل، جلد 4، ص 362)

بہشت کے باسی سے متعلق