قرآن مجید نے مختلف انسانی گروہوں کے مزاج اوران کی نفسیات پر روشنی ڈالی ہے او رہر ایک کے بارے میں دکھتی ہوئی نبض پر انگلی رکھ دی ہے، اس میں مشرکین کا ذکر بھی ہے، یہودیوں کا بھی، عیسائیوں کا بھی اور منافقین کا بھی، دعوت حق کے بارے میں کس کا کیا رویہ ہے؟ اور زندگی کے مسائل کے بارے میں کس کے سوچنے کا کیا انداز ہے؟ قرآن نے اس کو اس خوبی سے بیان کیا ہے کہ آج بھی اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، اعراب یعنی دیہاتیوں کا جو مزاج قرآن نے بتایا ہے، آج بھی شہری ثقافت سے محروم دیہات کے لوگوں میں پوری طرح وہ کیفیت محسوس کی جاسکتی ہے، یہودیوں میں زندگی کی بے پناہ چاہت اور موت سے بے حد خوف کی جو نفسیات بیان کی گئی ہے، اسرائیل اس کیجیتیجاگتی مثال ہے، ہر دور میں ایک ایسا گروہ موجود رہا ہے، جس کے ظاہر او رباطن میں ایسا فاصلہ ہوتا ہے، جیسے دریا کے دو کنارے اور جن کی زبان دل کی رفاقت سے محروم رہتی ہے اوراسی گروہ کو قرآن” منافق“ سے تعبیر کرتا ہے، قرآن کی مدنی سورتوں میں ان منافقین کی ریشہ دوانی اور بزدلی کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ اتنا مکمل اور بھرپور ہے کہ اس سے بہتر اس گروہ کی تصویر نہیں کھینچی جاسکتی۔
اسی طرح قرآن نے ایک ایسے گروہ کا بھی ذکر کیا ہے، جو دیدہٴ ودانستہ سچائی کی مخالفت پر پوری طاقت کے ساتھ کمر بستہ رہتا ہے، اس کی کیفیت ایسی ہے کہ گویا اس کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہو، جس کے کان مہر بند کر دیے گئے ہوں، جس کی آنکھوں پر جھوٹ کا اتنا وبیز پردہ چڑھا ہوا ہے کہ سچائی اسے بالکل نظر نہیں آتی:﴿خَتَمَ اللَّہُ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ وَعَلَیٰ سَمْعِہِمْ وَعَلَیٰ أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ ﴾ (البقرہ:7)
ایسا نہیں کہ ان کے سینے میں دھڑکنے والا گوشت کالو تھڑا ہی نہ ہو، ہے لیکن سمجھنے سے محروم، کان نام کا عضو، ان کے پا س بھی ہے، لیکن حقائق کو سننے سے قاصر، پتلیاں ان کے حلقہ چشم میں بھی موجود، لیکن سچائی کو دیکھنے سے قاصر:﴿لَہُمْ قُلُوبٌ لَّا یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لَّا یَسْمَعُونَ بِہَا﴾․ (سورة الاعراف:179)
قرآن کی ان تعبیرات کو اگر ایک فقرہ میں سمیٹا جائے، تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس گروہ کے پاس اعضائے جسم تو ہوتے ہیں، لیکن یہ ضمیر سے مرحوم ہوتا ہے، جیسے دل کے مرجانے کے بعد جسم ایک لاشہ اور زمین کے لیے ایک بوجھ بن جاتا ہے، اسی طرح ضمیر کی موت انسان کے اندر چھپی ہوئی جوہر انسانیت کو زندگی سے محروم کر دیتی ہے او راخلاق وتمدن کی دنیا کے لیے اس کا وجود ایک بارگراں بن جاتا ہے، جیسے مردار جسم انسان کے لیے زہر کی ٹوکری ہے، اسی طرح بے ضمیر اور مردہ ضمیر انسان آدمیت کے لیے زہر کا پیالہ ہے، وہ حس منھ سے لگے اسے بھی جوہر انسانی سے محروم کر دیتا ہے او رایک ایسے طبقہ کو وجود میں لاتا ہے جو انسانی شکل وصورت کا درندہ ہوتاہے، نہ کہ انسان، انسان خطاؤں کا مجموعہ ہے، انسانی ضمیر انسان کو اس کی خطاؤں اور غلطیوں پر متنبہ کرتا رہتا ہے، وہ ٹھوکریں کھاتا ہے، لیکن اس کی چوٹ بھی محسوس کرتا ہے، وہ گرتا ہے، لیکن گر کر اٹھتا ہے او راپنے گرد آلود جسم کو صاف ستھرا بھی کرتا ہے، اگر کوئی شخص غلطی پر غلطی کرتا جائے، لیکن اسے اپنی غلطی پرپشیمانی تک نہ ہو ، ٹھوکریں کھائے، لیکن اتنا بے حس ہو کہ پتھرکوپھول سمجھ لے، باربار گرے، لیکن اپنے گرد آلود دامن کو بے داغ وبے غبار تصور کرے، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے ضمیر میں کوئی رمق حیات باقی نہیں رہ گئی ہے، اس کے دل پر مہر لگ چکی ہے، وہ انسانیت کے لیے ایک بوجھ ہے، وہ ایک زندہ لاش ہے، جس کا تعفن صحت مند اور باضمیر انسانوں کے لیے سرا سر نقصان دہ اور مضر ہے۔
گجرات کے بد نام زمانہ او ربقول وزیر اعلیٰ بنگال جناب بٹھا چاریہ: سب سے زیادہ بے شرم ” چیف منسٹر نریندر مودی“ نے انسانیت کے قتل او رغارت گری کا جو عریاں رقص سر زمین گجرات میں کیا ہے، اس پر انہیں اتنی مسرت اورعزت کا احساس ہے کہ اس کارنامہ پروہ گورویاتر (کاروانِ فخر) نکال رہے ہیں، گویا قتل انسانیت پر فخر کیاجارہا ہے، اس سے زیادہ باعث شرم کوئی اور امر ہو سکتا ہے؟ چور کو اپنی چوری پر، راہ زن کو اپنی راہ زنی پر اور قاتل کو اپنے جوروظلم پر بھی پچھتاوا ہوتا ہے، بہت سے مجرمین اپنے ضمیر کی ملامت کی وجہ سے نفسیاتی مریض ہوتے ہیں اور بہت سے شدت احساس کی وجہ سے خود کشی کر گزرتے ہیں یا ان کا دماغی توازن متاثر ہو جاتا ہے، لیکن یہ ایسا شخص ہے جس کے سینہ میں دل نہیں، شاید پتھر کی سل ہے، جو احساس سے خالی اور حیا سے عار ی ہے!
دوسروں کو حقیر سمجھتے ہوئے اپنی کسی بات پر خوش ہونا کبر ہے، جو سب سے بڑا اخلاقی مرض او رتمام روحانی بیماروں کی جڑ ہے، دوسروں کو حقیر سمجھے بغیر اپنے اوپر ہونے والی کسی نعمت کا اظہار فخر ہے، لیکن اکثر فخر کی سرحدیں کبر سے جاملتی ہیں، اسی لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب اپنی کسی منقبت کو بیان فرماتے ( اور رسول اپنے درجہ ومقام کو واضح کرنے پر الله کی طرف سے مامور ہوتا ہے) تو ساتھ ہی ساتھ فخر کی نفی بھی فرماتے، چناں چہ ارشاد فرمایا کہ میں اولادِ آدم کا سردار ہوں اور اس پر فخر نہیں”اَنا سید ولد آدم ولا فخر“ اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے آباء واجداد پر فخر کرنے کو ناپسند فرمایا ہے او رحج کے موقع سے جو لوگ اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے، اس کو منع کرکے، اس کی جگہ الله تعالیٰ کی حمد وثنا کا مزاج پیدا فرمایا، یہی اسلام کی تعلیم اور اس کا مزاج ہے، کوئی اچھی بات ہو تو اس کا سر خدا کے سامنے جھک جائے او رکوئی غلطی ہو تب بھی جبیں ندامت خدا کے سامنے سجدہ ریز ہو اور مخلوق کے سامنے زبان پر کلمہٴ اعتراف ہو، یہی ایک اچھے انسان کی پہچان ہے، پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم نے کیا خوب فرمایا کہ ہر انسان خطا کا مرتکب ہوتا ہے، لیکن بہترین خطا کار وہ ہے جس کو اپنی غلطی پر پشیمانی اور شرمندگی ہو” کل بنی آدم خطاء وخیر اؤخطائین التوابون“ یہ اعتراف ہی انسان اور شیطان کے درمیان اصل وجہ امتیاز ہے، سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے ذرا سی چوک ہوئی تو وہ ندامت سے پا نی پانی ہو گئے او راپنی لغزش سے کہیں بڑھ کر توبہ فرمائی او رجب شیطان نے الله تعالیٰ کی عدول حکمی کی تو بجائے نادم اور پشیماں ہونے کے اس نے تکبیر اور فخر کا راستہ اختیار کیا او راسی چیز نے اس کو ہمیشہ کے لیے خالق کائنات کی نظر میں محروم ومغرور بنا دیا، پس برائی اور کوتاہ کاری پر ندامت اور اعتراف کے بجائے فخر ”ابلیسی صفت“ ہے اور کسی شخص میں اس کیفیت کا پایا جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ روح آدمیت سے محروم او رمزاج شیطانی سے قریب ہوچکا ہے۔
مسلمانوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ انہوں نے آج فخر وتعلی کے جو بت تراش لیے ہیں، کیا یہ واقعی متاع فخر واعزاز ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ دولت وثروت آج ہمارے سماج میں وجہ افتخار بن چکا ہے، پرشکوہ عمارتوں پر فخر کیا جاتا ہے، ہماری خواتین کے لیے زیورات کی بھاری مقدار وجہ افتخار ہے، نکاح کی تقریبات میں جس قدر دولت کی نمائش مسلمانوں کے یہاں ہوتی ہے او رکھانے پینے کی دعوتوں میں ہمار ے یہاں جس تنوع ، اسراف اور فضول خرچی کا مظاہر ہ کیاجاتا ہے او رپھر اسے باعث فخر سمجھا جاتا ہے، یہ سب غلطی پر اعتراف کے بجائے غلطی پر افتخار کی مثالیں ہیں، رشوت اور کرپشن کس قدر لائق شرم فعل ہے، لیکن صورت ِ حال یہ ہے کہ بہت سے لوگ اس آمدنی کو بالائی آمدنی اور اوپر کی آمدنی کے لفظ سے ذکر کرتے ہیں، ماں باپ کو اپنے بال بچوں کی ایسی آمدنی پر شرمندگی اور خفت کے بجائے مسرت اورعجب کا احساس ہوتا ہے اور جو شخص حلال پر قناعت کی وجہ سے سادہ زندگی گزارتا ہو، اسے بے وقوف اور بے عقل باور کیا جاتا ہے۔
سودی اداروں کی ملازمت ناجائز ہے، فلمی ادا کاری ناجائز ہے، لیکن لوگ اپنا اور اپنے عزیزوں کا فخر یہ تذکرہ کرتے ہیں کہ یہ فلاں سودی ادارہ میں فلاں عہدہ پر ہیں، فلمی اداکاروں سے ملاقات کو اعزاز تصور کیا جاتا ہے، مسلمان تنظیمیں انہیں اپنے جلسوں میں عزت کے احساس کے ساتھ مدعو کرتی ہیں او ران کی شرکت کی تشہیر کرتی ہیں، ظاہر ہے کہ یہ سب گناہ اور گناہ گاروں پر فخرکرنے ہی کی صورتیں ہیں، مسلمانوں میں شاید ابھی یہ بلا نہیں آئی، لیکن دوسری قوموں میں مغرب کے زیراثر حسن کی نمائش کا جو ذوق چل پڑا ہے، اس نے سماج کو اتنا بے حیا کر دیا ہے کہ والدین اپنی لڑکیوں کے حسن کے عریاں ہونے پر خوشی میں ناچتے او ررقص کرتے ہیں ، ” حسنِ بے پردہ“ تو وجہ عارتھا، لیکن مردوں کی نگاہ ہوس نے عورتوں کا استحصال کرنے کے لیے اسے وجہ افتخار بنادیا۔
بعض لوگ بد زبان اور بد مزاج ہوتے ہیں، معمولی معمولی باتوں پر برہمی اوراپنے بزرگوں اور سماج کے باعزت لوگوں پر حرف گیری کا مزاج رکھتے ہیں، جس کو جو جی میں آیا کہہ دیا، بلکہ موقعہ ہوا تو دشنام طرازی سے بھی نہیں چوکے، پھر اسے فخر یہ بیان کرتے ہیں، اسے اپنا کمال سمجھتے ہیں یا اسے صاف گوئی کا عنوان دیتے ہیں، حالاں کہ صاف گوئی کے معنی دوسروں پر طنز وتعریض یا تنقیص نہیں او راپنی ان نازیباں باتوں پر فخر بھی کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں کو ایسی کھری کھری سنائی اور فلاں شخص کو بر سر عام ایسا ویسا کہا، حالاں کہ یہ سب قابل شرم باتیں ہیں، نہ کہ قابل فخر، ان پر انسان کو شرمانا چاہیے ،نہ کہ اترانا۔
غرض گناہ پرشرمانے، لجانے اور عفو خواہ ہونے کے بجائے فخر کرنے ، اترانے اور اپنی عزت محسوس کرنے کا ایک مزاج سا بن گیا ہے، یہ سماج کے بے ضمیر ہونے او راس کے جوہر انسایت کے مردہ ہو جانے کی ایک علامت ہے او رکیوں نہ ہو کہ حکم رانوں کا اثر رعایا پر پڑتا ہی ہے: ”الناس علی دین ملوکھم“ جس سماج میں گناہ پر فخر ہونے لگے او رغلطی وجہ ندامت ہونے کے بجائے وجہ افتخار قرار پائے، وہاں برائیاں پنپتی ہی رہیں گی او رجو روظلم میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا، کیوں کہ جب گناہ کو گناہ ہی نہ سمجھا جائے تو گناہ پر ٹوکنے والی زبانیں او رگناہ سے روکنے والے ہاتھ کہاں رہیں گے؟ جو لوگ خدا پر اور آخرت پر ایمان ہی نہ رکھتے ہوں ان سے گناہ پر فخر کرنے کی بابت کیا شکوہ کیا جائے، اصل شکوہ تو اپنے ان بھائیوں سے ہے جو دین حق کے حامل وترجمان ہونے کے باوجود، گناہ کے بارے میں اتنے جری ہیں کہ انہوں نے نیکی وبدی کی اصطلاحیں ہی بدل دی ہیں اوربرائیوں کو نیکی کا نام دے دیا ہے!